تھکن

234

عظمیٰ ظفر

جھریوں زدہ کمزور سا اک ہاتھ
جب اْس نے رکھا شفقت کے لیے
سر جھٹک کر چل پڑا تنتناتا نکل پڑا
کرتی ہی کیا ہو میرے واسطے ؟
جو کرتی ہو فرض ہے تمھارا
٭
وہ یہ سب کہہ کر تیر چلاتا نکل پڑا
ہاتھ تھا وہ ماں کا، پیار تھا وہ ماں کا
اْس نے ہنس کر دی دعا
اور کھل گئی کھڑکی ماضی کی
جون جگر سے پال کر، قدم قدم سنبھال کر
آدھی نیند جاگ کر آدھی نیندیں کاٹ کر
گھی سے تر لقمے دیے خود روکھی سوکھی پھانک کر
لخت جگر کو رکھا چھاؤں میں
چکر ہی چکر رہا اپنے پاؤں میں
ایک ٹک بیٹھی نہیں، روئی نہیں ضبط کرتی رہی
بچے خوش رہیں صدا دن رات محنت کرتی رہی
بس یہی تو اْس ماں کی آرزوئیں تھی
ساری زندگی اسی میں کٹ گئی
پھر ایک وقت آیا ماں بچوں میں بٹ گئی
٭
میں نے دیکھا تھکن رسیدہ آنکھوں میں
موتی سے قطرے جھلملائے ہیں
میں تو بیٹی ہوں درد سمجھ گئی
جا کے سینے سے ماں کے لگ گئی
ماں تو ماں ہی ہے آخر دعا دیتی رہی
میری جھولی خزانوں سے بھرتی رہی

حصہ