برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

394

قسط نمبر 180
(آٹھواں حصہ)
مولانا مودودی نے ابتدائی دنوں میں ہی اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ معاشرے کی اصلاح اور دین کے غلبے کی جدوجہد انفرادی طور پر ہو ہی نہیں سکتی، اس بہت بڑے کام کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، آپ یہ بات اچھی جانتے تھے کہ تنہا ایک شخص اپنی قوت اور اپنے ذرائع کے بل بوتے پر کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ آپ نے با صلاحیت اور صالح افراد کی تلاش کا کام شروع کیا ۔ اس کام کے لئے آپ کے پاس تحریر کا ہتھیار اور رسالہ ترجمان القران موجود تھا، آپ نے اپنی تحریروں کی مدد سے قارئین کے ذہنوں میں اجتماعی جدوجہد کا شعور بیدار کیا ۔ اس حوالے سے آپ کی ایک تحریر میں کتنی درد مند ی جھلکتی ہے ملا حظہ فرمائیں….. ” ہمارے آقا و مولیٰ علیہ وآلہ والسلام نے بھی تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی امت سے مدد لی ہے ۔ پس کا ایک خادم اسی کام کے لئے قوم سے مدد مانگے تو یہ کوئی عیب نہیں ۔ لیکن جو چیز آج تک مجھ کو یہ طریقہ اختیار کرنے سے اور جس کی وجہ سے آج بھی میں اس میں کراہیت محسوس کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف قومی کارکنوں نے اپنی حرکات سے نہ صرف اپنا بلکہ قومی خدمت کا بھی اعتبار کھو دیا ہے اور دوسری طرف آج مسلمانوں کے حوصلے پست اور اخلاق ان سے بھی زیادہ پست ہو گئے ہیں ۔”
رسالے ترجمان القرآن کی بدولت ابتدائی ایام میں ہی مولانا مودودی نے اس عظیم مقصد کے لئے ساتھ چلنے پر آمادہ افراد کا ایک حلقہ بنالیا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں انگریز سے آزادی کا زور تھا اس وقت بھی آپ کی تحریروں میں سارا زور اس بات پر تھا کہ محض انگریز سے آزادی حاصل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ درحقیقت اس نظام سے آزادی حاصل کرنا ہے جو ہمیں اور ہمارے دین کو مغلوب دیکھنا چاہتا ہے ۔ آپ ترجمان القران کے ایک شمارے میں اپنے قارئین کو یہ پیغا م دیتے ہیں کہ ” اب اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور ہندوستان میں اسلا م کا وہ حشر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو اسپین اور سسلی میں ہوچکا ہے، تو ہمارے لئے صرف ایک ہی راستہ باقی ہے اور وہ ہے کہ ہم آزادی ہند کی تحریک کا رخ حکومت کفر کی طرف سے حکومت حق کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں اور اس غرض کے لئے ایک سرفروشانہ جنگ پر کمر بستہ ہو جائیں جس کا انجام یا کامیابی ہو یا موت! ”(ترجمان القران جلد10 صفحہ 13۔2)
اس مقصد کے لئے پنجاب میں موجود ضلع گورداس پور کے قصبے پٹھان کوٹ ساٹھ ستر ایکڑ کی زمین حاصل کی گئی جہاں ایک مسجد، ایک کتب خانہ کی عمارت ایک دارالاقامہ اور دو مکان تعمیر کے گئے اسے ” دارالسلام ” کا نام دیا گیا ۔ مولانا کے الفاظ میں دارالسلام ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس نظا م زندگی کو نافذ کرکے بتایا جائے جسے اسلام پیش کرنا چاہتا ہے اور ان اصولوں کو برت کر دکھایا جائے جن کی تعلیما ت اسلا م نے دی ہیں ۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ ” ہمارے پاس نہ تنخواہیں ہیں، نہ وظائف ہیں، نہ یہاں چندے کا کاروبار ہے اور نہ ہی جلوسوں اور نعروں کی بہار ۔ جن لوگوں کو روزگار کی تلاش ہو یا جنہیںشہرت یا ناموری مطلوب ہو ان کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ جو لوگ اپنی زندگی کا وہی مقصد رکھتے ہوں جو ہماری زندگی کا ہے اور وہی امتحان دینے کے لئے تیار ہوں جس کے لئے ہم تیار ہوئے ہیں تو ان کے لئے ” دارالسلام ” میں جگہ موجود ہے ۔ جس حد تک وہ اپنی روزی کا انتظام کرسکتے ہوں، وہ خود کریں اور جس حد تک ہم ان کی مدد کرسکیں گے کریں گے، اس میں دریغ نہ کریں گے۔ یہ تو مشترک مقصد کے لئے ایک مشترک جہاد ہے ۔اس میں خدمت کے معاوضے کا کو سوال ہی نہیں، یہاں نہ کوئی معاوضہ دینے والا ہے نہ لینے والا….. یہ ابتدا ہی سے ارادہ کرلیا گیا ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے گا ۔” (ترجمان القران ۔ جلد نمبر 11 صفحہ 44 تا ۔65)۔
اس تحریر کے شائع ہوتے ہی کثرت کے ساتھ خطوط آنے شروع ہوئے جس میں قارئین نے اپنی بے چینی اور جدوجہد میں شامل ہونے کا اظہار کیا
جس کے جواب میں مولانا نے تحریر کیاکہ ” میں اس کو نیک فعال سمجھتا ہوں ۔پیاس کا احساس ہی پانی کے فراہم ہونے کی تمہید ہے، لیکن میں اپنے بھایئوں سے کہوں گا کہ زیادہ بے صبری نہ کریں ۔شور و ہنگامے کے ساتھ قوم میں ایک وقتی ہیجان پیدا کردینے کا طریقہ بارہا آزمایا جاچکا ہے، اب ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح اسلامی اصولوں کے مطابق پر ایک تعمیری تحریک اٹھے اور وہ پھیلنے کی اتنی حریص نہ ہو جتنی استحکام کی حریص ہو ۔ ہم آگ ضرور لگانا چاہتے ہیں کہ بے حرارت کی زندگی نہیں مگر ہمیں وہ آگ درکار نہیں ہے جو گھر پھونکنے والی ہو بلکہ ہمیں وہ آگ درکار ہے جس کا ٹمریچر ضرورت کے مطابق گھٹایا یا بڑھایا جا سکے، یعنی ضابطے کے اندر رہنے والی آگ!”(ترجمان القران جلد 11)۔
اتنی واضح اور صف ستھری ہدایت و رہنمائی کے ساتھ مولا نا نے جماعت اسلامی کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا اور اسطرح وہ عظیم تحریک شروع ہوئی جس کا خواب آپ نے کچھ عرصہ پہلے دکھایا تھا۔
* تشکیل جماعت اسلامی مرحلہ وار آغاز
اگرچہ ترجمان القران میں کئی شماروں سے اس جماعت کے قیام کی ضرورت ظاہر کی جاتی رہی اورعام مسلما نوں کو اس کی دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریے کو قبول کرکے اس طرز پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں و ہ دفتر کو مطلع کریں، پرچہ چھپنے کے کچھ ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو جماعت اسلامی کی تشکیل اور قیام و بقا کے لئے جدوجہد پر آمادہ ہیں، چناچہ مشاورت کے بعد25 اگست 1941 اجتماع کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ۔ اس تاریخ کو صبح آٹھ بجے دفتر میں پہلا اجتماع ہوا ۔ جانثاروں کے اس قافلے میں 75 سرفروش شریک تھے ۔
اس اجتماع سے آپ نے خطاب فرمایا اور دستور جماعت اسلامی کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو فرمائی ۔ دستور کی ابتدائی شکل تو موجود ہی تھی، تا ہم اس کی ایک ایک شق پر بات ہوئی اور شام تک بحث و دلائل کے ساتھ ترمیم و اضافہ ہوا اور پورا دستور با اتفاق کلی منظور کرلیا گیا ۔ اس منظوری کے بعد سب سے پہلے مولانا مودودی اٹھے انہوں نے کلمہ شہادت کا اعادہ کیا اور سب سے مخاطب ہوکر کہا کہ ” لوگو گواہ رہنا کہ میں آج از سرنو ایمان لاتا ہوں اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں اس کے بعد یکے بعد دیگرے تمام افراد نے کلمہ پڑھا اور جماعت اسلامی میں شامل ہوئے ۔ اکثر افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے بلکہ بعض پر تو روتے روتے رقت طاری ہو گئی تھی ”
آنے والے وقت میں مولانا مودودی نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کیا کہ سیاسی جدوجہد میں جلد بازی، گھبراہٹ، بزدلی اور اشتعال انگیزی میںآ کر کوئی اقدام سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کی اس جدوجہد میں کئی نشیب و فراز آئے،
قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا رہا، صدر محمد ایوب خان نے مولانا مودوی کو گرفتار کرنے کے لیے رویت ہلال اور عید منانے نہ منانے کے مسئلے کو جواز بنا لیا۔ مولانا کا مشرقی پاکستان، لیبیا، سعودی عرب اور بعض دیگر مسلم ممالک کا دورہ طے تھاکہ 29 جنوری 1967 ئکو صبح سویرے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ الزام یہ تھاکہ انہوں نے حکومت کے اعلان کردہ فیصلے پر عید منانے سے انکار کیا ہے۔ مولانا کے علاوہ کئی اور علما بھی گرفتار ہوئے۔ صدر ایوب نے اس توہم پرستی کے تحت کہ جمعہ کے دن عید منائی جائے تو ایک دن میں دو خطبے (خطبہ جمعہ اور خطبہ عید) حکمرانوں کے زوال کا سبب بنتے ہیں، طلوع ہلال کے بغیر جمعرات کو عید الفطر منانے کا اعلان کر دیا۔علما نے یہ سرکاری اعلان مسترد کر دیا اور اسلامی اصول کے مطابق قرار دیا کہ چاند نظر آئے بنا29 روزوں کے بعد عید منانا جائز نہیں۔ یہ گرفتاری بھی دراصل سیاسی انتقام کے زمرے ہی میں آتی ہے۔ مولانا کو اس ناکردہ جرم کی پاداش میں بنوں کے ایک بنگلہ میں ڈھائی ماہ نظر بند رکھا گیا۔ حکومت کے اس شر میں سے یہ خیر برآمد ہوا کہ سید مودودی نے تفہیم القرآن جلد سوم پر نظر ثانی کا کام پورے اطمینان کے ساتھ اس عرصے میں مکمل کر لیا جو مسلسل مصروفیات اور دوروں کی وجہ سے کافی عرصے سے ملتوی ہوتا چلا آرہا تھا۔
علما کی گرفتاریوں کے خلاف عدالت میں رٹ چل رہی تھی کہ حکومت کو اپنے کمزور موقف کا احساس ہو گیا۔ حکومت کو یقین تھاکہ عدالت اس ظالمانہ نظر بندی کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دے گی۔ اچانک 15 مارچ 1967 ء کی دوپہر کو مولانا مودودی کو ایک پولیس گاڑی میں بٹھا کر بنوں سے روانہ کر دیا گیا۔ شدید بارش اور سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے یہ گاڑی 16 مارچ کو صبح آٹھ بجے لاہور پہنچی۔ رہائی کی یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر جگہ لوگوں نے حکومت کے خلاف نفرت اور مولانا مودودی کے ساتھ زندہ باد کے نعروں سے، محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔
(جاری ہے)

حصہ