اب تو مرد مارچ بھی ہوگا

770

سلمان علی
ہوشیار ہوجاؤ۔ سوشل میڈیا کی قوت سے نہ ٹکرانا۔کراچی کے ساحل سمندر پر پولیس اہلکاروں کی مبینہ جوڑے کے ساتھ بدسلوکی پر مبنی ایک منٹ کچھ سیکنڈ کی ہلتی جلتی ویڈیو کمال کرگئی۔ آئی جی صاحب نے ایکشن لیا، اور نہ صرف اہلکاروں کو گرفتار کیا بلکہ دو کو تو نوکری سے ہی فارغ کرڈالا۔ گوکہ یہ انتہائی زبردست ردعمل تھا جس نے لازمی طور پر دیگر پولیس والوں میں ’خوفِ خدا‘ نہ بھی سہی لیکن سماجی میڈیا کا ڈر تو لازمی بٹھا دیا ہوگا۔ اسی طرح اِس ہفتے تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی دعا بھٹو کا وائرل ’’نعرہ تکبر‘‘ بھی ’’عوامی داد‘‘ سمیٹتا رہا۔ بے چاری رکن اسمبلی کو ٹرین مارچ سے فراغت کے دو دن بعد سمجھ میں آیا تو اس نے ہمیشہ کی طرح اصل حقائق والی ویڈیو اپنی زبان کی پھسلن کی معذرت کے ساتھ شیئر کردی۔ مگر کیا کہیں کہ بہت دیر ہوچکی تھی، تیر کمان سے نکل کر وائرل ویڈیوز کی دنیا میں جا پہنچا، جہاں اپنی بات سنانے کے لیے مزید کئی گنا طاقت سے چلّانا ہوتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی لاہور کوٹ لکھپت جیل میں عیادت کی۔ بظاہر تو یہ عیادت تھی لیکن انتہائی سیاسی ماحول بنا اور گرما گرمی کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی سندھ کے اہم رہنما اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے گھر چھاپہ مارکر بھاری مالیت کی ملکی و غیر ملکی کرنسی پکڑ کر انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان کا جسمانی ریمانڈ جاری ہے، تاہم اس دوران ایان علی کیس بھی زندہ ہوگیا۔ جعلی بینک اکاؤنٹ کیس میں پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور کے ساتھ بلاول بھٹو کا نام بھی منظرعام پر آگیا۔ اس سے چند روز قبل بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں انگریزی میں تقریر کرکے وفاقی حکومت کے مؤقف اور اقدامات پر تنقید کی تھی، جس کا خوب طنزیہ جواب وزیراعظم عمران خان نے تھرپارکر جلسے میں دیا تھا۔ پے درپے واقعات نے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں بھی ارتعاش پیدا کیا اور دونوں جانب خوب گرماگرمی رہی۔ بلاول بھٹو میاں صاحب کی عیادت کے لیے گئے، پھر اگلے ہی دن اٹھارہویں ترمیم کے تناظر میں جیل بھرو تحریک کا بھی اعلان کیا، یہی نہیں بلکہ تین وفاقی وزراء کو انتہاپسند نظریات کا حامل قرار دیتے ہوئے فارغ کرنے کا مطالبہ بھی کردیا، ساتھ ہی پرویزمشرف اور شوکت عزیز کو بھی پکڑنے کا مطالبہ کیا۔ اس تناظر میں پی پی پی کی سماجی میڈیا ٹیم بھرپور متحرک نظر آئی اپنے لیڈر کے مؤقف کا دفاع کرنے میں۔ تحریک انصاف نے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بلاول بھٹو کے بیانیے کو بھارت نواز بیانیہ قرار دیا اور سندھ کی تباہ کن صورت حال اور تھر میں اموات کو موضوع بنایا۔
کراچی تو اس وقت PSLکے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ کراچی کی مشہور اور طویل ترین سڑک شارع فیصل پر میچ والے دنوں میں شام کو نکل جائیں تو ٹریفک کی ترتیب بہت کچھ بتادے گی۔ ٹیموں کی گزرگاہ پر مخصوص اوقات میں کیے جانے والے حفاظتی انتظامات دیکھ کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔ میچ کا ٹکٹ لینے والے حضرات بھی بہت پُرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ دھڑادھڑ سیلفیاں، بچوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر، اسٹیڈیم کے بوتھ سے مناظر کی بھرپور شیئرنگ نے سماجی میڈیا کو کرکٹ کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ بین الاقوامی کھلاڑیوں کی کراچی آمد، ثقافتی سرگرمیاں، شین واٹسن، ڈیرن سیمی کی مزار قائد پر حاضری سمیت کئی تصاویر وائرل ہوتی رہیں۔ میچ کے حوالے سے ٹویٹر پر روزانہ کم از کم تین سے چار ٹرینڈ تو لازمی رہے۔ کھلاڑیوں کی گزرگاہ، اسٹیڈیم کے راستے کے آس پاس چورنگیوں، سڑکوں کے اطراف گرین بیلٹ و دیگر اہم مقامات کی سجاوٹ انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ماڈلز کے ساتھ کی گئی ہے، جس پر سندھ حکومت اور مقامی حکومت نے عوام کی خوب داد سمیٹی۔ لوگ بہت خوش پائے گئے۔ کرکٹرز کے بنائے گئے خوبصورت ماڈلز کے ساتھ خوب انجوائے کیا۔ یوں کہیے کہ واقعی شام کو کراچی کا مخصوص حصہ ماضی والا کراچی لگنے لگتا۔ ایف ٹی سی کے سامنے عوام رات گئے میچ کے بعد اور میچ سے پہلے ہی آکر جمع ہوجاتے۔ سیلفیوں کا وہ دور چلتا کہ مت پوچھیں۔ کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ کی آمد کو بھرپور انجوائے کیا گیا۔ ہر میچ کے بارے میں تبصرے، کھلاڑیوں کے کھیل، ممکنہ نتائج… سب کچھ پاکستان بھر میں سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا۔
یہی نہیں اس ماحول میں ’وائنز‘ نے خوب اضافہ کیا۔ Vynes کی ایک تعریف تو چھ سیکنڈ والی ویڈیو کو لوپ کی شکل میں پیش کرنے والی ایپ کی بھی ہے، لیکن وہVines لکھی جاتی ہے۔ یہاں مراد طنز و مزاح پر مبنی مختصر دورانیہ کی اسکرپٹڈ ویڈیوز Vynez سے ہے جنہیں خاکہ یاskit بھی سمجھانے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ ویسے تو اس کی کئی اقسام ہیں جن کا آغاز یا بڑا کریڈٹ سماجی میڈیا کی دنیا میں برطانوی نژاد زید علی کو دیا جاتا ہے۔ زید علی نے بیک وقت کئی کردار نبھا کر ابتدا میں کئی سماجی رویوں کو طنز و مزاح کی صورت پیش کیا۔ اس کے بعد سلسلہ ہر جانب چل نکلا۔ دنیا بھر میں کئی باصلاحیت نوجوان اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر یہ کام بھرپور لگن اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے شوق میں آئیڈیا بھی خود سوچتے ہیں، اسکرپٹ بھی خود بناتے ہیں، شوٹ بھی خود کرتے ہیں اور پھر فائنل پروڈکٹ بھی خود تیار کرتے ہیں۔ چونکہ یو ٹیوب وغیرہ نے ناظرین کی تعداد کے حساب سے رقم دینا بھی شروع کردی ہے اس لیے اشتہارکاری کی مد میں بھی آمدن ہوجاتی ہے جو وہ اپنی ویڈیو میں کرتے ہیں، اور گوگل سے الگ آمدن مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں سماجی اصلاح کے کئی موضوعات بھی بہت خوبصورت اور تخلیقی انداز سے پیش کیے جاتے ہیں، جبکہ نوجوانوں کی ویورشپ کے لیے بازاری ( روزمرہ) زبان بھی استعمال کی جاتی ہے۔مجموعی طور پر the idiots، کراچی وائنز، بیکار وائنز، ملتان وائنز، ناشپاتی مشہور ہیں۔
بات ہورہی تھی پی ایس ایل کی، جس کی تشہیر اور ماحول بنانے میں حکومت نے جو کام کیے وہ اپنی جگہ، لیکن سماجی میڈیا پر خوب وائنز (شارٹ ویڈیوز) بھی بنائی گئیں جنہوں نے ناظرین کی خوب توجہ حاصل کی اور داد سمیٹی۔
عورت مارچ نے جس طرح گزشتہ سال اپنی جگہ بنائی تھی، امسال بھی مزید ننگے نعروں کے ساتھ سب کی توجہ لے اڑا۔ پچھلے ہفتے ہم نے تازہ تازہ واقعہ بیان کیا تھا۔ اِس ہفتے آفٹر شاکس آتے رہے۔ مردوں نے بھی دیکھا دیکھی ’مرد مارچ‘ اناؤنس کردیا۔ ہر طرف شور مچا۔ خواتین مارچ کے کرتا دھرتاؤں نے ڈھٹائی اور بھونڈے پن سے اپنے مؤقف کا دفاع قومی ٹی وی اسکرین پر کیا۔ اُس دفاع کی دھجیاں مارچ میں شریک ’انکل‘ کے نکاح کے تاثرات والی ویڈیو کے بیانیے نے اڑا دیں۔
ٹرین چل گئی، جہاز اڑ گئے لیکن منظرنامے پر پاک بھارت کشیدگی اپنی جگہ بدستور برقرار نظر آئی۔گزرتے وقت نے پلوامہ حملے کو ڈراما ثابت کیا اور اُسے الیکشن جیتنے کے لیے مودی حکومت کا ہتھکنڈہ ثابت کرنے میں کئی واقعات نے مدد کی۔ بھارت کے دوبڑے معروف (مسلمان) شعراء نے جن میں راحت اندوری کا نام سرفہرست ہے، الیکشن کے تناظر میں کئی ماہ قبل ہی اپنے کلام میں اشارے دیئے تھے جس پر لوگ ان سے سوال کرتے تھے۔ مطلع یوں تھا:

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتا تو کرو چُناؤ ہے کیا؟‘‘
سفر میں آخری پتھر کے بعد آئے گا
مزا تو یار دسمبر کے بعد آئے گا‘‘

اس کے علاوہ ایک اور بھارتی شاعر عمران پرتاپ گڑھی نے بھی اس حوالے سے مودی حکومت کے اقدامات اور پلوامہ کو الیکشن ڈراما ہی قرار دیا ہے:

تاجروں کی طرح مت حکومت کرو
اپنی کرسی سے یوں نہ محبت کرو
بخش دو فوجیوں کے تو پریوار کو
ان کی لاشوں پہ تو نہ سیاست کرو

حال یہ ہے کہ خالص بھارتی مسلمان شاعر کو اب بھی سوشل میڈیا پر یہی طعنے ملتے ہیں کہ ’’اچھا اب تو جانب کے آثار ہیں۔ تمہارا نام بھی تو عمران ہے۔ تم تو انہی کی طرف ہوگے‘‘۔ اس سے اندازہ کریں کہ یہ سیلیبریٹیز کا حال ہے جنہیں بھارت سے محبت کا یقین دلانے کے لیے کس حد تک جانا پڑ جاتا ہے۔
بارڈر پر آج بھی حالات نارمل نہیں۔ صرف بارڈر ہی نہیں بلکہ بھارت کے اندر بھی طوفان مچا ہوا ہے۔ بالاکوٹ حملے کی پسپائی کے بعد کوّا حملہ بھی بہت سخت سبکی کا باعث بنا ہوا تھا۔ تین چار کووںکی تصویر کی پوسٹ اس کیپشن کے ساتھ شیئر ہوئی ’’کوا کانفرنس جاری ہے۔ اگلا بھارتی طیارہ کون گرائے گا؟ کووں میں بحث زور پکڑ گئی‘‘۔ اسی طرح ایک اور کوا تصویر کے ساتھ یہ کیپشن بھی وائرل رہا ’’راجستھان میں بھارتی جنگی طیارہ پرندے سے ٹکرا کر تباہ، پائلٹ محفوظ رہا۔ اطلاعات کے مطابق یہ فدائی حملہ کوا بریگیڈ کی طرف سے کیا گیا۔ یہ کوے بالاکوٹ میں بھارتی فضائیہ کے حملے میں جاں بحق ہونے والے کوے کے رشتے دار ہیں۔ بھارتی میڈیا کی طرف سے ممکنہ خبر اور پلاننگ کی تصویر۔‘‘
مسلمانوں، خصوصاً کشمیری مسلمانوں پر غصہ اتارا جا رہا ہے۔ بھارت کی ہندو صحافی ساگریکا کو پلوامہ حملے کے بعد 18کشمیری نوجوانوں کو رہائش فراہم کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکیوں اور سخت بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس پربھارتی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خاتون برہمن کشمیری پنڈت خاندان سے ہیں۔ سماجی میڈیا پر خوب شور مچایا گیا، مگر ظالم ہندو انتہاپسند مسلم دشمنی میںکچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ ایسے منظر میں بھارتی حکومت کے اہم وزیر اننت کمار نے ایک سخت بیان داغ دیا، اس بیان کو بھی خاصی توجہ ملی۔ موصوف کہتے ہیں’’راہول گاندھی مسلمان کی اولاد ہیں، اگر وہ واقعی برہمن ہیں تو ڈی این اے سے ثبوت دیں، کیونکہ مسلم باپ اور عیسائی ماں سے پیدا ہونے والا بچہ گاندھی کیسے ہوسکتا ہے‘‘۔ یہ بیان بی جے پی کے وزیر نے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کی جانب سے بھارتی فضائیہ کی جانب سے بالاکوٹ حملے کا ثبوت مانگنے کے بیان کے جواب میں دیا۔ یہ دونوں باتیں اتنی معمولی نہیں۔ راہول گاندھی کی جانب سے بھارتی فضائی حملے کے دعوے کا ثبوت مانگنا گیا، جس کے جواب میں راہول گاندھی کو ناک آؤٹ کردینے والا خطرناک بیان سامنے آگیا اور نئی بحث چھڑ گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے معصوم مسلمانوںکو مستقل آگ و خون میںنہلایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی پر پابندی نے ماحول کو مزید گرمایا ہے۔ احتجاج رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستانی حکومت نے بھی اچانک (غلط ٹائم پر)کچھ سماجی و مذہبی تنظیموں پر پابندی لگا کر نامعلوم ایجنڈے کی تکمیل کی۔ بہرحال اس سب کے باوجود کشمیر بھی سماجی میڈیا پر بھرپور موضوع بنارہا۔ کشمیری خواتین کے ایک مارچ کی ویڈیو اس حوالے سے خاصی وائرل رہی۔

حصہ