فرات کے کتے

393

سیدہ عنبرین عالم
مٹھی سے کئی کلومیٹر دُور تھر کے ریگستان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی، رات کا وقت تھا، جنگلی جانوروں کی بھی آوازیں آرہی تھیں۔ اوشا نے گھاس کی ایک جھونپڑی میں اپنے پہلے بیٹے کو جنم دیا۔ زچگی کی تکلیف سے زیادہ بھوک ستائے دے رہی تھی۔ اوشا کی ساس بہت اچھی عورت تھی، سارا گھر بھوکا ہوتا تو بھی کہیں نہ کہیں سے اوشا کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کا انتظام ضرور کرتی، مگر دو دن سے ہزار کوشش کے باوجود کچھ کھانے کا انتظام نہ ہوسکا، پانی بھی سب کو صرف دو گلاس پورے دن میں ملتا، اوشا کی ساس نے بس اتنا کیا کہ اپنے حصے کا ایک گلاس پانی بھی اوشا کو دے دیا۔ اوشا کے شوہر جے رام نے بھی اپنے حصے کا ایک گلاس پانی اوشا کو دے دیا، پھر بھی پریشان تھا۔
’’اماں! بھلا پانی سے بھی بھوک مرتی ہے؟ اوشا تو ماں کے اونچے درجے پر فائز ہورہی ہے اور دو دن سے بھوکی ہے، کیا کروں؟‘‘ جے رام بولا۔
’’تُو ٹھیکیدار سے بات کیوں نہیں کرتا! منوں امدادی گندم گوداموں میں سڑ رہی ہے، کلو بھر ہی دے دے۔ کیڑوں کو کھلا دے گا، مرتے ہوئے انسانوں کو نہیں دے گا۔‘‘ اماں تڑپ کر بولی۔
’’نہیں دیتا اماں، وہ نہیں دیتا۔ یہ حکمران افغانستان کو ہزاروں ٹن گندم تحفتاً دے سکتے ہیں، مگر تھر میں مرتے ہوئے ہزاروں بچے انہیں نظر نہیں آتے۔ دو سال سے بارش بھی نہیں ہوئی، جو چھوٹا موٹا روزگار مل جاتا تھا اسے بھی قحط چاٹ گیا، اتنے پیسے نہیں کہ کسی دوسرے شہر کا سفر کروں۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں، بھوک سے چکر آرہے ہیں مجھے تو۔‘‘ جے رام افسردہ سا بولتا رہا۔
…٭…
اوشا کا متلی سے برا حال تھا، اس قدر گدلا پانی تھر میں دستیاب تھا کہ اسے پینا بھی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا، اوپر سے خالی پیٹ۔ یہ پانی آنتیں کاٹ ڈالتا تھا۔ وہ الٹیوں پر الٹیوں سے پریشان تھی، نومولود بچہ الگ رو رو کر ہلکان تھا، اس کا بھی بھوک سے برا حال تھا۔ جے رام بیوی اور بچے کا یہ حال دیکھ کر الگ تڑپ رہا تھا۔ آخرکار وہ اٹھ کر گھر سے باہر نکل گیا۔ پورے پاکستان میں اگر کسی کی نسل کی انتہائی خوش حالی سے آبیاری ہورہی تھی تو وہ آوارہ کتے تھے، جنہیں نہ جانے کہاں سے خوراک اور پانی دونوں وافر مقدار میں مل رہے تھے۔ رات کے سناٹے میں کتوں کے بھونکنے کی آواز انتہائی واضح تھی، جے رام کے ہاتھ میں چھری تھی۔
پلاسٹک کے دو شاپرز میں ڈھیر سارا گوشت لاکر جے رام نے ماں کے ہاتھ پر دھر دیا ’’اماں! جلدی پکا، ورنہ آج گھر میں کوئی نہ کوئی بھوک سے مر جائے گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’یہ گوشت کہاں سے آیا؟ گھر میں نہ تیل، نہ مرچ مسالہ، نہ آٹا، نہ چاول… کیسے پکائوں؟‘‘ اماں بولی۔
’’اماں پانی لے کر آتا ہوں کہیں سے۔ بس پانی میں ابال لے، سب کھا لیں گے۔‘‘ جے رام بولا، اور پھر پانی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ گائوں کے سائیں کے ڈیرے کے نزدیک پہنچا تو کئی گائیں نظر آئیں جن کے آگے پانی سے بھرے بڑے بڑے ٹب رکھے تھے، اس نے مٹکے میں پانی بھرا اور ڈیرے کے باہر کود گیا۔ ’’کاش کہیں سے نمک مل جاتا‘‘۔ اس کے ذہن میں خیال آیا۔ اس نے یہ ناممکن خیال ذہن سے نکال پھینکا اور گھر کی طرف بڑھ گیا۔
اماں نے گوشت ابال لیا۔ جنموں کی بھوک تھی، پیٹ بھر گئے نیت نہ بھرتی تھی۔ جب تک گوشت کا آخری ریشہ ختم نہیں ہوگیا وہ تینوں یہ بساندہ اور بے مزا گوشت کھاتے رہے۔ اس رات کئی دن بعد انہیں بہت اچھی نیند آئی۔ کتوں کے بھونکنے کی مسحور کن آواز جے رام کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ اپنی طرف سے اس نے روزگار حاصل کرلیا تھا۔
…٭…
اوشا کے بچے کی حالت نہایت خراب تھی، ڈھائی پائونڈ کا بچہ، ہوا بھی اُس کے اوپر سے گزر جاتی تو وہ بیمار پڑ جاتا۔ گھریلو ٹوٹکے جو کرسکتے تھے کرتے رہے، مگر بچے کی حالت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ جے رام کے ماموں نے مشورہ دیا کہ اسے مٹھی لے جائو، اگر کچھ فلاحی ادارے آتے ہیں تو وہ بھی صرف مٹھی تک ہی آتے ہیں، اور اگر صحت کی کچھ سہولیات ہیں تو وہ بھی صرف مٹھی تک ہی ہیں۔ لیکن اس جان کنی کے عالم میں مٹھی تک کا سفر؟ اور اس سفر کا خرچا؟
جے رام اور اس کا ماموں گائوں کے سائیں کے پاس پہنچے، اس نے سواری کا انتظام کرنے کے بجائے ٹھیکیدار سے کہہ کر دس کلو کیڑا لگی اور ریت سے بھری ہوئی گندم دلاکر احسان کردیا۔
’’جے رام، تیرے چہرے پر تو بڑی رونق آگئی ہے، لگ رہا ہے بڑی خوراکیں کھا رہا ہے آج کل، کیا راز ہے، ہمیں بھی تو بتا، ہم تو تین ٹائم کھانا کھا کر بھی کمزور ہیں۔‘‘ وہ طنزیہ انداز میں جے رام سے بولا۔
اب جے رام کیسے راز کہتا! ’’سائیں ہوسکے تو تھوڑا نمک دے دو۔‘‘ وہ بس یہی کہہ سکا۔
سائیں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے نمک کے دو پیکٹ اور دو سو روپے پکڑا دیے۔ ’’ووٹ زرداری اور بلاول کو ہی دینا، سب ان کا احسان ہے۔‘‘ سائیں نے ساتھ ہی جتا دیا۔
تھکے تھکے قدموں سے جب جے رام گھر پہنچا تو کہرام مچا ہوا تھا، اس کا لال دنیا سے جا چکا تھا۔ ’’میرے منے کی تو اخبار میں خبر بھی نہیں لگے گی، جو بچے مٹھی کے اسپتال میں مرتے ہیں صرف وہی گنتی میں آتے ہیں، تھر کے دور دراز گائوں تک تو کوئی پہنچ ہی نہیں پاتا، سب وزیر اور جج مٹھی سے ہی دیسی گھی کی کڑھائیاں اور بریانی کھا کر واپس ہوجاتے ہیں۔‘‘ جے رام سسکتا رہا۔
آج رات گوشت میں نمک بھی تھا، مگر نہ جانے کیوں جے رام اور اوشا کھا نہیں پا رہے تھے۔ اماں تو زمین سے اٹھ تک نہیں پا رہی تھی۔ ’’تُو یہ گوشت کہاں سے لاتا ہے؟‘‘ اماں نے آج پہلی بار پوچھا۔
’’کھا لے اماں، ورنہ تُو بھی مرجائے گی، آجا کھا لے۔‘‘ وہ صرف یہی جواب دے سکا۔
…٭…
صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی جے رام گھر کے باہر نکل پڑا۔ کل رات رونے دھونے میں اوشا کا کپڑوں کا آخری جوڑا بھی ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے سے کبھی جسم کا کوئی حصہ چھپاتی اور کبھی کوئی۔ جے رام چلتا گیا، نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ بس یہ معلوم تھا کہ خالی ہاتھ گھر نہیں لوٹنا ہے۔
شام ڈھل چکی تھی، ابھی تک کوئی کام نہیں ملا تھا۔ اس کے اپنے کپڑے بھی دھجیوں کی صورت اس کے جسم سے لٹک رہے تھے۔ مگر وہ مرد تھا، مرد تو فٹ پاتھ پر بھی بے لباس سوسکتا ہے۔ ’’کیوں ناں کراچی چلا جائوں۔‘‘ اسے خیال آیا ’’مگر کراچی کو کون پوچھتا ہے، سب کراچی کا خون ضرور پیتے ہیں مگر بھلائی کا ہر کام صرف پنجاب میں ہوتا ہے۔ اب بھلا پنجاب کیسے جائوں؟‘‘ اس نے سوچا۔ صحرا کی ٹھنڈک، 14 گھنٹے کی بھوک اور پیاس، ننگا بدن… جے رام سے اٹھا نہیں جارہا تھا… بہت چکر آرہے تھے۔ پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا… روتے روتے بے ہوش ہوگیا اور پھر اسی بے ہوشی میں ٹھٹھر کر ہر غم سے آزاد ہوگیا… کافر تھا مرگیا‘ کیا فرق پڑتا ہے!
…٭…
وزیراعلیٰ صاحب کیمروں کی چکاچوند اور درجنوں مصاحبوں کے جلو میں جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد پہنچے، ہاتھ ہلا ہلا کر نعروں کا جواب دیا اور اگلی صف میں جا بیٹھے اور خطبہ سننے لگے۔
’’میرے مومن بھائیو! میں یہاں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں غیر مسلموں کے حقوق کا… غیر مسلم جو مسلم ریاست میں رہتے ہیں انہیں ذمی کہا جاتا ہے، یعنی اُن کے تمام حقوق کا ذمہ مسلم حکومت پر ہے، اس کے بدلے اُن سے جزیہ لیا جاتا ہے جو زکوٰۃ کی جگہ ہوتا ہے، اور زکوٰۃ کی رقم سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ رقم ہم صرف اُس وقت لے سکتے ہیں جب مسلم حکومت روزگار، رہائش، صحت، تعلیم اور دیگر شہری حقوق غیر مسلموں کو فراہم کررہی ہو اور ان کی مکمل حفاظت بھی کی جائے۔ اللہ ان غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں بھی ہم سے ضرور سوال کرے گا‘‘۔ مولوی صاحب نے فرمایا۔
وزیراعلیٰ صاحب مسکرانے لگے ’’ہم سے بہتر کس کی حکومت ہوگی، ہم تو غیرمسلموں یعنی ہندوئوں کے مندر میں جاکر پوجا بھی کرتے ہیں اور ہولی، دیوالی بھی مناتے ہیں۔‘‘ انہوں نے سوچا۔
’’میرے مومن بھائیو!‘‘ خطبہ جاری تھا ’’غیر مسلم جو مسلم حکومت میں رہتے ہیں اُن کا سب سے بڑا حق ہم مسلمانوں پر یہ ہے کہ انہیں اللہ کا پیغام پہنچایا جائے، کوئی زبردستی ہرگز نہ ہو، وہ اپنی مرضی کے دین پر رہیں گے، لیکن انہیں اللہ کا کلام تو اُن کی زبان میں سنائو، شاید اُن کو بات سمجھ میں آجائے اور وہ ایمان لے آئیں۔ یہ انتظام حکومت کو کرنا چاہیے، اور اگر حکومت نااہل ہو تو عام مسلمانوں کو یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔ اللہ ہم سے پوچھے گا‘‘۔ مولوی صاحب نے فرمایا۔
’’ہم کوئی مولوی ہیں جو اسلام پھیلاتے پھریں! جمعہ تو پڑھ لیتے ہیں، کافی ہے‘‘۔ وزیراعلیٰ نے سوچا۔
’’میرے مومن بھائیو! ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا رویہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وہ تبلیغ کریں نہ کریں، ان کا اندازِ زندگی اور اخلاق اس قدر شاندار تھا کہ لوگ صرف ان کو دیکھ کر مسلمان ہوجاتے تھے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنی مسلم ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کے دکھ درد میں کام آنا چاہیے، اور حقارت و نفرت کے بجائے حُسنِِ سلوک سے کام لینا چاہیے، ہاں یہ خیال رکھیے کہ اُن کی عبادات و رسومات میں شریک نہ ہوں، کہیں ہم پر اُن کا اثر نہ ہوجائے، بلکہ انہیں دین ِ سلامتی کی طرف بلایئے، انہیں جہنم سے بچایئے‘‘۔ مولوی صاحب نے فرمایا۔
’’پاگل ہوگیا ہے بڈھا! اصل مزا تو غیر مسلموں کے تہواروں میں ہی آتا ہے۔ خوب ناچ گانا، بہترین مٹھائیاں، رنگ پھینکنا… ہم کیا اصل کام ہی چھوڑ دیں! تصویریں بھی اخبار میں لگ جاتی ہیں، خوب شہرت بھی ہوجاتی ہیں۔ حُسنِ سلوک کی خبر کب اخبار میں لگتی ہے!‘‘ وزیراعلیٰ نے سوچا۔
خطبہ ختم ہونے کے بعد کیمروں کے سامنے وزیراعلیٰ نے تھر کے لیے نئے منصوبوں کا اعلان کیا۔ فرمانے لگے ’’ہم کو تھر کے باسیوں کی مشکلات کا بالکل احساس ہے، اور ہم نے ایک ایسا منصوبہ تھر کے باسیوں کے لیے بنایا ہے کہ وہ خوش ہوجائیں گے، جلد ہی آگاہ کروں گا اس بارے میں۔‘‘
…٭…
وزیراعظم صاحب حسبِ معمول ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے: ’’آپ کو معلوم ہے انگلینڈ میں کیا ہوتا ہے؟ بے روزگاروں کو الائونس دیا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرلیتے ہیں اور محتاج نہیں رہتے۔ ہم بھی پاکستان میں ایسا ہی نظام لانا چاہتے ہیں، ہم شیلٹر ہومز بنا رہے ہیں، بے گھر افراد وہاں رہیں گے‘‘۔
’’لیکن…!‘‘ پروگرام کے میزبان نے سوال شروع کیا ’’اس منصوبے پر کروڑوں روپے ضائع کرنے سے اچھا نہیں ہے کہ آپ اسی رقم سے کوئی کاروبار یا مل، فیکٹری شروع کریں اور ان بے گھر افراد کو روزگار فراہم کریں۔ آپ نے بے روزگاروں کے لیے الائونس کا تو سوچا، مگر ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کے لیے کسی منصوبے کا آغاز کیا؟ سب سے زیادہ لوگ روزگار کے سلسلے میں کراچی آتے ہیں، وہاں تو آپ نے شیلٹر ہومز بنائے ہی نہیں؟‘‘ میزبان نے سوال کیا۔
’’جی، سندھ کی حکومت سب کھا جاتی ہے، اس لیے ہم اُن پر کسی منصوبے کے لیے رقم کی فراہمی کا بھروسہ کر ہی نہیں سکتے۔ ابھی ہمیں وقت ہی کتنا ہوا ہے! کریں گے روزگار کے لیے بھی کام۔ آپ کو معلوم ہے حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو مجھ سے سوال ہوگا، ہم اسی ویژن کو لے کر چل رہے ہیں، ہم پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنا دیں گے، یہاں سب کو حقوق حاصل ہوںگے اور اسلامی نظام قائم ہوگا۔‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا۔
’’اگر آپ مدینے کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو مدینے میں تو شراب حرام تھی، اور آپ کے زیرسایہ پاکستان میں ایک ہندو پارلیمنٹ میں چیختا رہا کہ شراب پر پابندی لگائو، مگر آپ لوگوں نے یہ قرارداد منظور نہیں کی، یہ کیسا ویژن ہے؟‘‘ میزبان نے سوال کیا۔
’’دیکھیے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، ہم کرپشن کے خلاف کام کررہے ہیں، یہ سب کے سب جیلوں میں جائیں گے، کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ وزیر اعظم نے جواب دیا۔
…٭…
وزیراعلیٰ کے لیے گھر میں تقریب کا انتظام کیا گیا۔ صحافیوں کا ہجوم تھا، سرکاری کارندے دوڑتے بھاگتے انتظامات میں مصروف تھے، وزیراعلیٰ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ ’’ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تھر کے لیے بہترین منصوبہ پیش کریں گے، اور آج ہم اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے آئے ہیں۔‘‘ ماحول تالیوں سے گونج اٹھا، سب کے سب ہمہ تن گوش تھے۔
’’بہت عرصے سے تھر کے بھائی اپنے بچوں کی اموات کو برداشت کررہے ہیں، اپنے بچے کی موت دل پر کیسا اثر ڈالتی ہے، ہم بالکل سمجھتے ہیں۔ ہم تھر کے بھائی بہنوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، اسی لیے ہم نے لاکھوں روپے کی لاگت سے آج یہ منصوبہ شروع کیا۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’سر! آپ نے آخر کیا منصوبہ شروع کیا ہے؟ تفصیلات تو بتائیں۔‘‘ صحافی نے سوال کیا۔
’’جی جناب!‘‘ وزیراعلیٰ فخر سے مسکرائے ’’ہم نے بچوں کا قبرستان بنانے کا سوچا ہے۔ جی ہاں، جہاں صرف تھر کے لوگوں کے بچے دفن کیے جائیں گے، ہم سرکاری گورکن بھی فراہم کریں گے، یہاں تدفین بلا معاوضہ ہوگی، اب تھر کے لوگوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے جتنے مرضی بچے مر جائیں، آرام سے دفناتے جائیے، بچے ختم ہوجائیں گے، قبر کے لیے جگہ ختم نہیں ہوگی، اتنا بڑا قبرستان بنا رہے ہیں۔ اب دیکھیے صحافی حضرات کہتے ہیں کہ حکومت کو تھر کی فکر نہیں ہے، ہمارا تو کام ہی عوام کی خدمت ہے۔‘‘ وزیراعلیٰ صاحب نے منصوبے کی تفصیلات بتائیں اور تالیوں کی گونج میں اسٹیج سے اتر گئے۔

حصہ