گلگت بلتستان: پریوں کا دیس

499

 شبیر ابن عادل
جب ہمارا طیارہ اسلام آباد کی حدود چھوڑ کر ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں داخل ہوا تو اعلان کیا گیا کہ آپ کے دائیں جانب کے ٹو اور راکاپوشی ہیں ۔ یہ سن کر سارے سیاح اپنی اپنی کھڑکیوں سے باہر کی جانب جھانکنے لگے۔ مجھ سمیت سب ہی اُن عظیم برفپوش پہاڑوں کی خوبصورتی اور بلندی دیکھ کر سحر انگیز اور مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ کیونکہ طیارہ اُن پہاڑوں کے درمیان ایسے اُڑ رہا تھا کہ جیسے بس جارہی ہو۔ ہمارا رخ گلگت بلتستان کے شہر اسکردو کی جانب تھا اور سیاحوں میں اکثریت غیرملکیوں کی تھی۔ کیونکہ گلگت بلتستان کی سیر کرنے زیادہ تر غیرملکی ہی آتے ہیں۔ پاکستانی سیاحوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔
یوں تو ہمارے ملک میں سیاحوں کی دلچسپی کے بہت سے پرکشش اور خوبصورت مقامات ہیں۔ لیکن جو بات گلگت بلتستان کے خوبصورت نظارروں، برفپوش چوٹیوں ، حسین وادیوں ، دریاؤں، ندیوں ، آبشاروں اور دلفریب مقامات کی ہے، اس کی مثال نہیں مل سکتی ۔
تاریخی طور پر یہ علاقہ تین ریاستوں یعنی ہنزہ، نگر گلگت اور بلتستان پر مشتمل تھا۔ لیکن 1848میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجہ نے ان ریاستوں پر دھوکہ سے قبضہ کرلیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948میں اس علاقے کے لوگوں نے اپنے زورِ بازو پر لڑکر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ چنانچہ انہیں شمالی علاقہ جات کہا جانے لگا۔ لیکن 2009میں حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیئے۔ لیکن مقامی لوگ مکمل صوبائی حیثیت چاہتے ہیں۔ یہ ملک کا واحد خطہ ہے، جس کی سرحدیں تین ملکوں سے ملتی ہیں۔ اسی علاقے سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ اسی علاقے کے سیاچین گلیشئیر پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور یہیں پر کارگل کی جنگ ہوئی تھی۔
گلگت بلتستان کی آبادی بیس لاکھ کے قریب ہے اور اس کا رقبہ 72ہزار 971مربع کلومیٹر ہے ۔ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند پچاس چوٹیاں ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گذار پہاڑی سلسلے قراقرم ، ہمالیہ اور ہندوکش یہیں ملتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوتی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جبکہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں ہیں۔
کے ٹو کی بلندی 28ہزار 251فٹ ہے۔ اسے پہلی بار 31؍جولائی 1954کو اٹلی کے دو کوہ پیماؤں لیساڈلی اور کمپانونی نے سرکیا۔ اگست 1977میں ایک جاپانی کوہ پیما اچیر ویو شیزاوا اُس پر چڑھنے میں کامیاب ہوا، اس کے ساتھ اشرف امان پہلا پاکستانی تھا، جس نے کے ٹو کو سرکیا۔ کے ٹو کو ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو پر صرف 246کوہ پیما چڑھ سکے جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ پر دو ہزار 238 افراد۔

اسکردو پہنچنے کے بعد ہم نے وہاں پی ٹی ڈی سی موٹیل میں قیام کیا ، اس کے جنرل منیجر راجہ ریاض تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں میری رپورٹنگ کی وجہ سے انہوںنے مجھے فوری پہچان لیااور مجھے وہاں مختلف لوگوں سے ملوایاخاص طور پر شاہین صاحب سے۔ جن کے ہاتھ کافی بڑے ، سخت اور کھردرے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ اس نے مسکرا کر کہا کہ میں پہاڑوں پر غیرملکی کوہ پیماؤں کے لئے رسی لٹکاتا ہوں۔ میں ان کا یہ جواب سن کر حیران تھا کہ وہ بولے کہ میں کوہ پیماؤں کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پہلے میں پہاڑپر چڑھ کر میخیں گاڑ کر ان پر رسی باندھتا ہوں ۔ پھر کوہ پیما ان رسیوںکی مدد سے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچتے ہیں یوں نام کوہ پیماؤں کا ہوتا ہے اور ہمارے گھر کا چولہا جلتاہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ میرے لئے اس کا پیشہ بڑا حیرت انگیز تھا اور بے حد خطرناک بھی ۔
اسکردوسلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہواخوبصور ت شہر ہے۔اسکردوکے باشندے ملنساراورخوش مزاج ہیںاور بلتی زبان بولتے ہیں، جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے۔ سترہ سال قبل اسکردو میں اپنے ایک ہفتے قیام کے دوران ہم نے کچوراجھیل ، اپر کچورا جھیل، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل دیکھی۔ اسکے علاوہ وادیٔ شگر اور دیوسائی بھی گئے، جو قدیم طرز کی جیپ پر طویل اور صبرآزما سفر تھا۔
کچورا جھیل آٹھ ہزار دوسو فٹ چوڑی ہے ۔ موسم گرما میں وہاں ملکی اور غیرملکی سیاح آتے ہیں، اس کے گرد کئی ہوٹل ہیں۔ مگر شنگریلا ریزورٹ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی شہرت جاپانی اسٹائل کے سرخ رنگ کے Hutsکی وجہ سے ہے جو حیرت انگیز طور پر گلگت بلتستان کی شناخت بن گئے ہیں۔
جبکہ اپر کچورا جھیل وہاں سے نصف گھنٹے اونچائی کی جانب سفر کرنے کے بعد آتی ہے۔ جہاں ایک چھوٹا سا ریستوران ہے اور وہاں سے دو ڈھائی سو فٹ نیچے اترنے کے بعد جھیل آتی ہے۔ اس کا پانی بے حد شفاف تھا، جیسے گلاس میں پینے کا پانی ہوتا ہے اور بے حد سرد بھی۔ وہاں کشتی کی سیر میں بے حد لطف آیا۔
سدپارہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر اسکردو سے کچھ فاصلے پر ہے ۔ یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دوتین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیاں شروع ہوتی ہیں تو یہ برف پگھلنے لگتی ہے تو نہ صرف وہ بلکہ دیوسائی نیشنل پارک سے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی اس میںشامل ہوجاتا ہے۔ چند سال قبل سدپارہ ڈیم کی تعمیر سے جہاں بہت سے فائدے ہوئے وہیں اس جھیل کے قدرتی حسن کوبھی نقصان پہنچا۔
سن2001میں ہم نے سدپارہ جھیل پر پی ٹی ڈی سی کے Hutsمیں ایک رات قیام کیا۔ رات کوقریبی ریستوران میں کھانا کھایا جو پرانی طرز کا تھا اور وہاں صرف میری فیملی کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر جب ہم باہرنکلے تو اتنی تاریکی تھی کہ ہم اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ پارہے تھے۔ یعنی وہی مثل ہوگئی کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ چنانچہ ریستوران میںدوبارہ جاکر اُن سے روشنی کی درخواست کی تو ان کا ایک لڑکا لالٹین لے کر ہمیں ہمارے کمرے تک چھوڑنے آیا۔ وہاں چوکیدار نے کمرے کے باہر ایک لالٹین لٹکا رکھی تھی۔ اس لے کر ہم اپنے کمرے میں چلے گئے، اگرچہ وہ جولائی کا مہینہ تھا۔ مگر وہ رات بہت سرد تھی اور ہمیشہ یاد رہے گی۔ (جاری ہے )

حصہ