سوشل میڈیا اور پلوامہ ڈرامہ

490

اس ہفتہ تو ’پلوامہ ڈرامہ ‘کے ہیش ٹیگ نے ہر طرف جنگ کا سما بنا کر رکھا۔ بھارت نے اپنے روایتی بھونڈے پن کا مظاہرہ جاری رکھا۔حقائق تو یہ ہیں کہ ستر سالوںسے گیارہ لاکھ افواج کے ساتھ کشمیر کی وادی پر قابض بھارت کسی طور پر کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو دبانے میں یکسرناکام ہے ۔ ان کے فوجیوں پر ہونے والا عرصہ بعد ایک چھوٹا سا حملہ تو صرف چالیس بھارتی فوجیوں کی جان لے سکا لیکن وادی میں اب تک لاکھوں نہتے، بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ یہ درندہ فوج کر رہی ہے اس پر کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔بے چارے نوجوت سنگھ سدھو نے کچھ بولنے کی کوشش ہی کی تھی کہ بس اس کا سماجی، معاشی، سیاسی ہر طرح کا بائیکاٹ کر دیا گیااور اس کے ٹی وی شو میں آنے پر پابندی لگ گئی۔دہشت گردی کا راگ الاپنے والا بھارت کشمیر میں اپنی درندگی کو عین انسانیت قرار دیتا ہے ۔آپ سوچیں کہ نوجوت سنگھ سدھو نے کیا الفاظ کہے جو قیامت بن کر پورے بھارت پر ٹوٹ پڑے ، ’’دہشت گرد ی کی کوئی ذات،مذہب نہیں ہوتی۔‘‘اتنی سی بات کرنے پراپنے ہی رکن اسمبلی ،کرکٹراور ٹی وی میزبان کو لپیٹ دیا گیا باوجود اس کے کہ اس نے حملے کی مذمت بھی کی تھی لیکن اسی کا تو نام ہے بھارتی انتہا پسندی کا جنون ۔اسی طرح ایک اور بھارتی صحافی برکھا دت نے سخت جملوں کے بجائے کچھ درمیان کی بات کرنے کی کوشش ہی کی تو اُس کے ساتھ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوا وہ ناقابل بیان ہے ۔اُس نے اپنی ٹوئیٹ میںخود لکھا ہے کہ :
“I had close to 1000 abusive messages and calls in a Cordinated and violent mob attack. These included a message to shoot me, a nude photo, many sexually abusive messages. I outed the men who did this. Twitter locked me till many of the details were taken down. I wrote this to them”.
اب اسے آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں بھارت میں مقیم مسلمانوںپرکیا بیت رہی ہوگی۔بھارتی جیل میں قید پاکستانی قیدی شاکر اللہ کی بہیمانہ شہادت خود ایک بڑی مثال ہے بھارتی انتہا پسندی اور پاکستان و اسلام دشمنی کی ۔
پلوامہ حملے کا بھارتی ڈرامہ بے نقاب کرنے کے حوالے سے بھی خوب شور مچایا گیا۔ ایک جانب بھارت کے انتہا پسند ،حکومتی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ دوسری جانب پاکستان کے سوشل میڈیا سپاہی۔مزے دار صورتحال جب ہوئی جب بھارتی میڈیا نے حملہ کے ماسٹر مائنڈ والی خبر پیش کیا۔کچھ ہی دیر میں اس کا بھانڈا پھوٹا اور’پلوامہ ڈرامہ‘ نے اپنی جگہ بنا لی۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھارت کی خوب درگت بنائی گئی ۔’’مقبوضہ کشمیر میں انکاؤنٹر کر کے پلوامہ اٹیک کے ماسٹر مائنڈ کو شہید کرنے کا بھارتی دعوی ٰجھوٹا نکلا۔ عبدالرشید غازی نام کے جس بندے کو بھارت پلوامہ اٹیک کا ماسٹر مائنڈ قرار دے رہا ہے وہ کہیں وجود ہی نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کی فوٹو ایڈٹ کر کے بنائی گئی اور پھر اسے بھارتی میڈیا پر چڑھا دیا گیا۔‘‘ اسی طرح ایک اور موقف بھی دہرایا گیا کہ’’ مودی سرکار نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح اینٹی پاکستان موقف کے ذریعہ اپنا ووٹ بنک بچانے کی کوشش کی ہے اور یہ سارا ڈرامہ الیکشن جیتنے کے لیے ہے ۔مودی نے اپنا پچھلا الیکشن مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے کر پاکستان دشمنی کے بل بوتے پر جیتا تھا۔ موجودہ الیکشن میں مودی پہلے ہی ریاستی انتخابات بری طرح ہار چکا ہے، اب جیتنے کیلیے پاکستان دشمنی کو بھارت میں پھر بڑھاوا دے رہا ہے۔ بھارت کے سیاست دان اپنے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہیں۔ اور اس ٹرک کی بتی کا نام ہے پاکستان دشمنی۔ اس مقصد کیلیے مقبوضہ کشمیر میں مودی جھوٹے حملے کروا کے بھارت میں اپنے ہی فوجیوں کو قتل کروا رہا ہے۔‘‘
اس ضمن میں اہم کامیابی پاکستان کو یوں ہوئی کہ سیکیورٹی کونسل میںبھارت کی لاکھ کوشش کے باوجود پلوامہ ڈرامہ میں پاکستان کے نام کو کسی طور شامل نہیں کیا گیا۔اسی طرح آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی بہترین ، متوازن موقف پیش کیا۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھی اس واقعہ پر قومی مفاد ،قوم امنگوں پر مشتمل ایک ٹھوس جواب دیا جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے پاک فوج کو ہر قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی اجازت خود اہل پاکستان کے دل جیت لینے کے مترادف قرار دی گئی۔
اس کے علاوہ انہی دنوں ایک اور معاملہ بھی ساتھ ساتھ چل رہاتھا جسے آپ اتفاق کہہ لیں یا بھارتی چال سمجھ لیں کہ پلوامہ ڈرامہ س وقت ریلیز ہواجب کلبھوشن کیس عالمی عدالت میں سنا جانے والا تھا بھارت کے کیا مقاصد تھے؟ کچھ تو ظاہر ہیں اور کچھ آنے والے وقت میں مزید ظاہر ہوجائیں گے۔وہاں بھی بھارتی موقف کو پسپائی ہوئی اور بھارت کی جانب سے ڈان اخبار کے رپورٹر سرل المیڈا کی خبر کو بھی عالمی عدالت میںپیش کیا گیا۔اس پر تحریک انصاف کے سپورٹرز نے میاں صاحب کے خلاف ہاتھ آیا موقع کسی طور جانے نہیں دیا۔گل بخاری نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ’’بطور ثبوت نہیں، بطور مثال۔ کہ ممبئی حملہ کا کیس 10 سال سے لٹکا ہوا ہے اور کلبھوشن کا 6 مہینے میں نمٹ گیا ایک non transparent عدالت میں – جہالت کوئی ان صاحب سے سیکھے۔‘‘اس حوالے سے دو دلائل ڈٹ کر دیئے جاتے رہے کہ نواز شریف بیان کو بنیاد بنا کر کلبھوشن کی رہائی کی ڈیل بن چکی ہے دوسری یہ کہ بھارت کو شکست ہوگی اور کلبھوشن پھانسی چڑھے گا۔ بھارتی ریاست جے پور کی جیل میں قید پاکستانی شاکر اللہ کی موت کے خلاف بھی یہی عوامی رد عمل تھا کہ اس جاسوس کو بھی پھانسی دی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی میڈیا پر کلبھوش کے دوران حراست اعتراف جرم کے ریکارڈڈ بیانات کی ویڈیوز بھی خوب وائرل ہو کر ذہن سازی کرتی رہیں۔کیس کے دوران ہونے والی پروسیڈنگ میں بھی خاصی دلچسپ صورتحال رہی ۔جویریہ صدیق لکھتی ہیںکہ ’’انڈیا نے آج تک کلبھوشن کی بھارتی شہریت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔وہ یہی ثابت نہیں کر سکا کہ گرفتار شخص کلبھوشن ہے یا حسین مبارک ؟تو پھر قونصلر تک رسائی کیوں مانگ رہا ہے جب وہ اس کی شہریت ہی ثابت نہیں کر پا رہا۔‘‘اسی طرح ایک اور اتفاقی واقعہ بھارت میں یہ ہوا کہ اُس کے دو جنگی طیارے دوران پریکٹس گر کر تباہ ہو گئے جس پر اہل پاکستان نے خوب آڑے ہاتھوں لیا،’’پاکستان سے جنگ نہ ہونے کی وجہ سے انڈین ائیر فورس کے دو طیاروں کی خودکشی۔‘‘ ایک اور پیج پر ویڈیو شیئر ہوئی کہ ’’بنگلور انڈیا میں بھارتی فضائیہ کے ایئر شو کی ریسل کے دوران آپس میں ٹکرا کر تباہ ہونے والے طیاروں کے زندہ بچ جانے والا پائیلٹ کی حالت دیکھیں ابھی انہوں نے پاکستان کے ساتھ جنگ بھی کرنی ہے۔‘‘ اس دوران #StopBlamingPakistan, #Hindutvapolicies کے نام سے ٹرینڈ ٹوئٹر پر چھائے رہے اور بھارتی جنگی جنون کو خوب لتاڑتے رہے۔ٹوئٹر پر جمعہ کو اسی تناظر میں ایک ٹرینڈ نمودار ہوا #DontMesswithPakistan جوکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے تناظر میںجاری ہوا۔ اس ٹرینڈ کے ساتھ ہی پاکستانی افواج کی خصوصیات پر مبنی خصوصی پوسٹوں اور ویڈیوز کا اجراء شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئیں۔پاکستانی قوم بھی PSLکے باوجود اس پورے ایشو سے قطع تعلق نہیں تھی بلکہ پوری طرح رد عمل دے رہے تھے ۔’’انڈیا والو جلدی جلدی جنگ کر لوکیونکہ مجھے اتوار کو بائیک دھونی ہوتی ہے۔‘‘
سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی پاکستان میں دو روزہ دورے پر سوشل میڈیا سمیت تمام میڈیا پر خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا، بھاری سرمایہ کاری کے بدلے خصوصی کوریج ، خیر سگالی کے جذبات ،ہوائی پروٹوکول کی ویڈیو بھی خوب وائرل رہی ۔وزیر اعظم پاکستان نے خود سعودی شہزادے کے لیے گاڑی ڈرائیو کی جس کی تصاویر و یڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل رہی ۔عمران خان کی جانب سے سادگی کے دعووں کے برعکس جب سعودی شہزادے کی آمد پر جو بڑی بڑی گاڑیوں کے پروٹوکول پھر مہمانوں کے لیے پرتعیش ڈنر کے مینیو کارڈ نے بھی سماجی میدیا پر خوب توجہ حاصل کی ۔عوام نے دل کھول کر کمنٹس دیئے ۔ سب سے زیادہ شرمندگی کا لمحہ وہ تھا جب مہمان کے لیے ظہرانے کی تقریب میں صدر پاکستان عار ف علوی نے بیٹھ کر تقریر کا آغاز کیا ،مگر وزیر اعظم کی ایک آواز پر انہوں نے سعادت مندی دکھاتے ہوئے کھڑے ہو کر تقریر مکمل کی۔اسی تقریر کے دوران وزیر اعظم عمران خان بے نیازی برتتے ہوئے اپنا کھانا کھانے میں مگن نظر آئے ۔یوں تو پاکستان میں سعودی شہزادے کی آمد پاکستان کے لیے معاشی ترقی کا پیغام لائی تھی ،مگر سعودی شہزادے کی جانب سے ویزا پالیسی میں نرمی ، پاکستانی قیدیوں کی رہائی جیسے اقدامات اور شہزادے کا یہ بیان کہ ’مجھے سعودیہ میں پاکستان کا سفیر سمجھیں‘نے پاکستانی حکمرانوں کو بھی خوب داد سمیٹنے کا اچھاموقع فراہم کیا۔سب نے کھل کر تعریف کی ۔سعودی شہزادے کو جاتے وقت جو سونے سے بنی گن تحفہ میں دی گئی اس کی تصویر بھی خوب شیئر ہوتی رہی ۔سعودی شہزادہ صاحب کو پاکستان سے سعودیہ واپس جا کر بھارت کے دورے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ یہ اس تناظر میں اہمیت کا حامل تھا کہ پاک بھارت سخت ٹینشن شروع ہو چکی تھی ۔ایسے میں سعودی شہزادے کا بھارت کا دورہ، وہاں کئے گئے سرمایہ کاری کے اعلانات ،جن میں مودی کو بڑا بھائی کہا گیا ۔ سادہ لوح پاکستانیوں پر بجلی بن کر گرا۔معروف صحافی طلعت حسین نے اس صورتحال پر یوں تبصرہ کیا کہ ’’اوہ! سعودی عرب میں ہمارا سفیر مودی کا چھوٹا بھائی نکلا۔‘‘

حصہ