سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم یا تفریق!۔

560

محمد انور
ملک بدل رہا ہے، حالات بدل رہے ہیں، ترجیحات بدل رہی ہیں مگر سندھ نہیں بدل رہا… اور نہ ہی سندھی لیڈر اس کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ شاید یہ چاہتے ہیں کہ سندھ دھرتی پر کوئی زندہ رہے یا نہ رہے مگر ’’ بھٹو‘‘ زندہ رہے… اور وہ ہر خوشی و غم میں یہی کہتے رہیں کہ ’’زندہ ہے… بھٹو زندہ ہے‘‘۔ بھٹو کی نسل تو اب باقی نہیں رہی مگر بھٹو زندہ ہے۔
سندھ کے صرف قوم پرست لیڈر ہی چاہتے ہیں کہ سب سندھی بن جائیں چاہے نئے سندھی ہی کیوں نہ کہلائیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سندھ تقسیم نہ ہو۔ مگر کیا کریں سندھ کو تو پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے ہی تقسیم کردیا تھا۔ دیہی سندھ اور شہری سندھ… یہ پورے سندھ کی تقسیم ہی تو تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں یہ تقسیم نہیں تھی، تو پھر کیا یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ’’تفریق‘‘ تھی شہری سندھیوں اور دیہی سندھیوں کے درمیان!
ذوالفقار علی بھٹو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے شہر لاڑکانہ ہی کیا، اپنے آبائی علاقے نوڈیرو تک کو ترقی نہ دے سکے اور اسے دیہی علاقہ قرار دے دیا اور مقابلہ پاکستان قائم کرکے کراچی کو آباد کرنے والوں سے کرنے لگے۔ مان لیا کہ اُس وقت کراچی ترقی کرچکا تھا۔ مگر یہ کون تسلیم کرے گا کہ کراچی کو انہوں نے نہ صرف آباد کیا تھا بلکہ کراچی کو کراچی بنایا تھا جو پاکستان بنانے کے بعد بھارت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آگئے تھے۔ مگر اب تک یہ کہا جاتا ہے کہ ’’مہاجر یہاں ننگے بھوکے آئے تھے‘‘۔
پاکستان بنانے والے اور ان کی اولادیں بڑے دل کی ہیں، یہ من گھڑت بات بھی وقتی طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر کیا سندھی بھائی یہ مان لیں گے کہ کراچی کو ان ہی مہاجروں نے ترقی دی، اور کیا اس بات کا اعتراف کرلیں گے کہ ہمیشہ حکومتوں میں رہنے کے باوجود سندھی رہنماؤں نے اپنے علاقوں کو ترقی نہیں دی، وہاں اسکول کالج تعمیر تو کردیے لیکن وہ تعلیمی ادارے نہیں بناسکے جہاں سے بچے پڑھ لکھ کر نکل سکیں اور دیگر سہولیات بھی اپنے بچوں کو فراہم نہیں۔ ہاں سندھی لیڈر نے شہری اور دیہی آبادیوں میں تقسیم پیدا کرنے کے لیے کوٹہ سسٹم ضرور رائج کردیا۔ یہ وہ نظام ہے جس کے تحت میرٹ کا قتل کیا گیا اور ایک سیٹ کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ کے ساتھ ایک معمولی ترقی پاس کو بٹھا دیا گیا۔
سندھیوں نے اپنی ثقافت سے زیادہ اگر کسی اور چیز کی حفاظت کی اور اسے فروغ دیا تو وہ یہی کوٹہ سسٹم ہے۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب کوٹہ سسٹم پر ہی عمل کرنا تھا تو پھر سندھ پبلک سروس کمیشن کی طرز کے ادارے کیوں قائم کیے گئے! پراونشل سروس کمیشن ہی نہیں بلکہ فیڈرل سروس کمیشن کے تحت ہونے والے سپیریئر سول سروس کے امتحانات میں بھی کوٹے نے جگہ بنالی۔
حال ہی میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والے کمبائنڈ کومپی ٹیٹو ایگزامنیشن کے نتائج کے بعد کمیشن نے جن 34 کامیاب امیدواروں کو گریڈ 17 کی اسسٹنٹ کمشنر کی اسامی کا اہل قرار دیا اُن میں حیرت انگیز طور پر کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اردو بولنے والا ہو۔ سب کے سب پکے سندھی ہیں جن کے پاس یقینا دیہی علاقوں کا ڈومیسائل ہوگا اور وہ صرف بی اے پاس ہوں گے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن ایک ایسا ادارہ ہے جس کے امور پر سپریم کورٹ بھی تحفظات کا اظہار کرچکی ہے، جبکہ نیب کی طرف سے بھی اس کے معاملات پر انکوائری ہوچکی ہے۔ اس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے لیے زبانی ٹیسٹ میں جس طرح کے سوالات کیے جاتے ہیں ان کے حوالے سے بہت سے لطائف گردش کرتے ہیں۔
’’جسارت‘‘ نے 34 اے سی کے حوالے سے 15 فروری کو خبر چھاپ کر اپنی ذمے داری پوری کردی تھی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ ’’سندھ پبلک سروس کمیشن کی سفارش اور وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے صوبائی حکومت کے محکمہ سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن نے 34 نئے اسسٹنٹ کمشنرز کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر بنائے جانے والے تمام افراد میں سے ایک کا بھی تعلق نہ سندھ کے شہری علاقوں سے ہے اور نہ ہی ان میں کوئی اردو بولنے والا ہے۔ تقرر کیے جانے والے تین افراد کا براہِ راست تعلق مبینہ طور پر سندھ پبلک سروس کمیشن کے رکن سائیں داد سولنگی سے ہے، جبکہ ان تین میں ایک سائیں داد سولنگی کے بیٹے غلام نبی ہیں جن کا خیرپور سے تعلق ہے۔ مذکورہ تین کے علاوہ اسسٹنٹ کمشنر بننے والوں میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے بھتیجے نثار علی شاہ ولد عبدالقادر شاہ سید بھی شامل ہیں، جبکہ دیگر خوش نصیب سندھی افراد میں عبدالحنان بھٹو، دادن خان لاشاری، شہزادہ عمر، بشارت حسین مہٹو، وجاہت میرانی، محمد حسین کھوسو، راحت نسیم شیخ، عدیل احمد سہو، عمران نذیر شیخ، ماجد علی مکو، غضنفر علی شاہ مدد، زوہیب ظہیر اوڈھو، عبدالوحید چنا، مونس احمد راہوجو، محمد فہد سہتو، راجیش کمار، محمد یونس رند، شاہد حسین سرکی، محمد عاصم عباسی اور دیگر شامل ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے 10 ارکان میں سے بھی صرف ایک رکن علیم جعفری کا تعلق سندھ کے شہری علاقے سے ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں سے پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شریک ہونے والے امیدواروں نے پبلک سروس کمیشن اور سندھ حکومت کے نوٹیفکیشن پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور عدالتِ عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ اس بارے میں نوٹس لے کر سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی جانچ کا حکم دیا جائے۔
اس خبر پر اراکینِ سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی، سید عبدالرشید، خواجہ اظہارالحسن اور خرم شیر زمان نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور یہ معاملہ سندھ اسمبلی میں اٹھانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
لیکن یہاں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کی 32 سالہ خاموشی کا ذکر نہ کیا گیا تو کالم کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ الطاف حسین نے اسی کوٹہ سسٹم کی زیادتیوں کے خاتمے کے حوالے سے ایم کیو ایم بنائی، اور جذباتی تقاریر کرکے اسے پروان چڑھایا تھا۔ مگر ایم کیو ایم نے 2013ء میں بھی اس نظام کو مزید 20 سال کے لیے توسیع دینے کے لیے حمایت کی۔ اس طرح یہ اب 2033ء تک چلتا رہے گا۔
بھٹو دور میں 1973ء کے آئین کے تحت کوٹہ سسٹم کو محض دس سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت قابلیت یا میرٹ کا قتل کرکے اس کا صرف دس فیصد حصہ رکھا گیا۔ جبکہ پنجاب بشمول اسلام آباد 50 فیصد، شہری سندھ 7.6 فیصد، دیہی سندھ 11.4 فیصد، خیبر پختون خواہ 11.4 فیصد، بلوچستان 3.5 فیصد، شمالی علاقہ جات 4 اور کشمیر کا 2 فیصد حصہ ہے۔

حصہ