تبدیلی امتحانات میں بھی

406

زاہد عباس
بچپن میں گلیوں میں کھیلا کرتے تو ابو کہتے جاؤ میدان میں جا کر کھیلو اور شادی بیاہ کی تقاریب بھی میدانوں میں ہوا کرتیں، نماز عید کے اجتماعات ہوں یاسیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے جانے والے پروگرامز مذہبی جماعتوں کے سالانہ اجتماعات ہوں یاپھر ہفتہ وار لگائے جانے والے سستے بازار سب کے لیے میدان ہی مختص ہوتے چائنا کٹنگ نے تو ان میدانوں کی قسمت ہی بدل ڈالی یعنی ان میدانوں کی وجہ سے ہی شہر بھر کے کنگلے کروڑوں پتی بن گئے
شاید میدانوں کی انہی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ کی جانب سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ رواں سال ہونے والے میٹرک امتحانات اسکولوں کے بجائے میدانوں میں لیے جائیں گے وزارت تعلیم سندھ نے یہ فیصلہ کر تو لیا لیکن اتنا بھی نہ سوچا کہ ان کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام نے صوبے کے لاکھوں بچوں کی جانوں کوخطرے میں ڈال دیا ہے واضح رہے کہ صوبے کے تمام تعلیمی بورڈزسے نویں ، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات میں تقریباً 15لاکھ سے زائد بچے شرکت کرتے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں طلبا وطالبات کو کھلے میدانوں میں اکٹھا کرنے سے مسائل جنم لے سکتے ہیں ظاہر ہے اس میں سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی محنت اور قربانیوں کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال تو خاصی بہتر ہوئی ہے لیکن اب بھی اتنی بہتر نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر لاکھوں بچوں کو کھلے میدانوں میں اور وہ بھی ایک ماہ تک روزانہ کی بنیاد پرجمع کرنے کاخطرہ مول لیا جاسکے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے نہ تو ضلعی انتظامیہ کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیا ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کلیئرنس لی ہے اورسب سے بڑھ کر والدین کو بھی اس سلسلے میں لاعلم رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ اتنی بڑی تعداد میں فرنیچر کی فراہمی،پنکھوں کا انتظام، پارکنگ اور والدین کے لیے انتظار گاہیں، عارضی واش رومز کا قیام، پینے کے پانی کا انتظام تقریباً ناممکن نظر آتا ہے ایک اندازے کے مطابق ان امتحانات کے نتیجے میں سرکاری خزانے پر تقریباً 80کروڑ روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑے گا دوسری طرف ایسے انتظامات کے لیے اچھا خاصا وقت بھی درکار ہوتا ہے۔اگر مان بھی لیا جائے کہ اتنی کم مدت میں حکومت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہوئے اپنے فیصلے پر عمل کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے تب بھی اس مختصر مدت میں فرنیچرزکی فراہمی اور دیگر انتظامات کا ٹینڈر جاری کرنا ہو گا جو ناممکن نہیں تو قانونی پیچیدگیوں کے باعث انتہائی مشکل ضرور ہے،اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سارے امتحانی کھیل کے پیچھے سوائے اپنے من پسند افراد کونوازنے کے کچھ نہیں اورخدشہ یہ بھی ہے کہ کہیں یہ طریقہ امتحانات کرپشن کا ایک نیا باب ثابت نہ ہو،اصل وجہ جو بھی ہو وزیر اعلیٰ سندھ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس اہم مسئلے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ لاکھوں بچوں کونہ صرف محفوظ اور پرسکون ماحول میں امتحانات دینے کے مواقع فراہم کیے جا سکیں بلکہ والدین کو بھی ذہنی اذیت سے نجات مل سکے،رواں برس شامیانوں کے سائے میں ہونے والے میڑک اور انٹر کے امتحانات پر ہم سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہ تھا اس سلسلے میں ہم نے جب ’’پیک‘‘ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے صدر سے بات کی تو انہوں نے ہمیں اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی اور سوالات کے جوابات دینے کی حامی بھر لی۔
جسارت: رواں برس ہونے والے میڑک اور انٹر کے امتحانات پر سندھ حکومت خصوصاً وزارت تعلیم نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اس کے بارے میں آپ کی رائے،
سید شہزاد اختر:میرے نزدیک یہ طریقہ کار یعنی صوبے میں بھر کے میدانوں میں ہونے والے امتحانات قابل مذمت ہیں دوسرا یہ کہ اس طرح ایک ہی صوبے میں دُہرا نظام امتحانات رائج کیا جارہا ہے جو نہ صرف طبقاتی تفریق کا باعث ہے بلکہ غیر اخلاقی عمل بھی ہے جہاں تک سندھ حکومت یا وزارت تعلیم کے بارے میں کیے جانے والے سوال کا تعلق ہے تو میں یہاں بتاتا چلوں کہ اقدام صرف اور صرف کراچی سمیت سندھ بھر کے تعلیمی بورڈ کی ذاتی رائے کے تحت اٹھایا جا رہا ہے بورڈ چیرمین شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں،
جسارت،حکومت تو کہتی ہے کہ میدانوں میں ٹینٹ لگا کر امتحانات لینے کا مقصد کاپی کلچرل خاتمہ یا نقل کی روک تھام کرنا ہے کیا آپ نقل مافیا کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات پر حکومت کے ساتھ نہیں؟
سید شہزاد اختر، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یہ اقدام بورڈ چیرمینز کاہے اس سے سندھ حکومت کا کوئی تعلق نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جب وزارت تعلیم کے تحت ہونے والے اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات طے ہو گئی تھی کہ پورے سندھ میں یکساں طریقہ امتحانات ہی رائج کیا جائے گا جس سے وزیر تعلیم نے نہ صرف اتفاق تھا بلکہ طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہی امتحانات کے انعقاد کا وعدہ بھی کیا تھا پھر اس میں تبدیلی کا کیا مقصد ہے اب کیوں بورڈ کے چیئرمینوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ بچوں کے امتحان شامیانے لگا کر اور کچھ کے پرانے طریقے سے ہی لیے جائیں گے یہ طبقاتی تفریق نہیں تو اور کیا ہے ہم اسی رویے کی تو مذمت کرتے ہیں اور بھر پور احتجاج بھی کرتے ہیں امتحان دینے والے بچوں کا الحاق کسی بھی بورڈ سے ہو وہ چاہے مضافاتی بستوں کے رہنے والے ہوں یا کسی بھی پوش علاقے کے رہائش پذیر جب سب کا فیس دینے کا عمل ایک جیسا ہی ہوتا ہے تو ان کا امتحان دینے کا عمل بھی ایک جیسا ہی ہونا چاہیے نہ کہ الگ الگ یہ نہیں ہوسکتا کہ امیر ٹھنڈے کمروں میں امتحانات دیں اور غریبوں کو لاوارثوں کی طرح گرد اڑاتے میدانوں کے حوالے کردیا جائے۔
جسارت، ہوسکتا ہے یہ طریقہ کار نقل کی روک تھام کے لیے کارآمد ثابت ہو؟
سید شہزاد اختر،ہم نے کب کہا کہ نقل کے خلاف کارروائی نہ ہو بالکل اس ناسور کے خلاف اقدامات کرنے پر ہم بورڈ کے ساتھ ہیں میں تو اس طریقہ کار کی مخالفت کر رہا ہوں کیوںکہ جب آپ کھلے میدانوں میں امتحان لیں گے تو اس سے انتہائی خرابیاں پیدا ہو نے کا خطرہ ہے یہ سلسلہ ایک دن پر محیط نہیں ہے صرف میڑک کے امتحانات ہی کم از کم 13 دن چلتے ہیں اتنے دن آپ کسی گراؤنڈ میں جا کر بیٹھیں گے وہاں نہ کسی ادارے کی جانب سیکوئی انتظام ہوگا اور نہ ہی کسی کے بیٹھنے کی سہولت واش رومزسے لے کر پینے کے پانی تک کی پریشانی ہوگی ایک جگہ دو سے تین ہزار بچوں کا اجتماع معمولی بات نہیں ٹرانسپورٹ کے مسائل اپنی جگہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کراچی بورڈ نہ جانے اپنے طور پر وہ اس طریقہ کار پر عمل درآمد کروانے میں کیوں لگا ہوا ہے جبکہ اندرون سندھ پرانے طریقے سے امتحان لیے جانے کے انتظامات کیے جارہے ہیں ہمیں سوچنا ہوگا کہ بچوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں ہم اپنے اساتذہ کی بات کرتے ہیں ہم بڑوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ہم اسکولوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ہم گورنمنٹ اور سندھ کے حقوق کی بات کرتے ہیں اسی طرح سے وہ تمام بچے جو پہلی مرتبہ امتحانات دیں گے ہمیں ان کی عزت نفس کا بھی خیال کرنا چاہیے کیا وجہ ہے کہ ہم نے کیوں ان کے حقوق پر بات نہیں کرتے اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ بورڈ کا یہ طریقہ کار آزمائشی طور پر ہے تب بھی اس طریقہ کار پر ہمارے تحفظات ہی رہیں گے۔
جسارت،آپ کی باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امتحانات کے رائج طریقہ کار کی تبدیلی کے پیچھے بورڈ انتظامیہ ہے اور حکومت سندھ کا اس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں یہ تو کیا یہ سندھ حکومت کی وکالت نہیں؟
سید شہزاد اختر،آپ کا سوال بہت اچھا ہے بات میدانوں میں شامیانے لگا کر امتحانات لینے کے طریقہ کار پر ہورہی ہے اسی لیے میں بھی میدان کی مثال دے کر سمجھاتا ہوں ہمارے ملک کی کرکٹ کی ذمہ داری پی سی بی پر ہے وکٹ کیسی تیار ہو گی میچز کہاں کھلائے جائیں گے اس کا فیصلہ پی سی بی کو ہی کرنا ہوتا ہے ان معاملات سے حکومت کوئی تعلق نہیں ہوتا اسی طرح امتحانات لینا بورڈ کی ذمہ داری ہے یہ کام تعلیمی بورڈ کو ہی کرنا ہوتا ہے اس میں کسی بھی حکومت کا رول نہیں ہوتا ہاں جہاں بورڈ کو حکومتی مدد کی ضرورت پڑے وہاں حکومت ضرور مدد فراہم کرتی ہے ہمارا موقف تو پہلے دن سے یہی ہے کہ پورے صوبۂ سندھ میں ایک نظام تعلیم رائج ہو اور اسی نظام کے تحت ہی امتحانات بھی ہوں یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک علاقے میں کوئی اور نظام ہو اور دوسرے میں کوئی اور اس سے پڑھنے والے بچوں کی صلاحیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اگر تمام طلبہ کو ایک سی سہولت میسر نہیں کی جاسکتی تو پرانے طریقہ کار کے تحت ہی امتحانات لیے جائیں تاکہ اس بڑھتی ہوئی بے چینی کو ختم کیا جا سکے پیک پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن سندھ ہمیشہ نقل کی حوصلہ شکنی کرتی رہے گی ہماری یہ ہی کوشش ہے کہ صاف شفاف امتحانات ہوں جس کے نتیجے میں بچوں کا ٹیلینٹ کھل کر سامنے آئے تب ہی پاکستان کو ایک پڑھا لکھا پاکستان بنایا جاسکتا ہے۔
جسارت،سندھ بھر میں ہزاروں اسکول اور کالج ہیں اسی لیے متعدد ایسوسی ایشنز بھی کام کر رہی ہیں اس مسئلے پر وہ بھی آپ کے ساتھ ہیں؟
سید شہزاد اختر،دیکھیے زاہد صاحب سندھ بھر میں جتنی بھی ایسوسی ایشنز اور ان کے نمائندے تعلیم کے لیے کام کر ہیں ان تمام کے بھی تحفظات ہیں شاید کسی وجہ سے وہ ابھی رد عمل نہیں دے رہے لیکن جتنے دوستوں سے ہماری بات ہوئی ہے ان سب کو بھی اس طریقہ کار پر شدید تحفظات ہیں۔
جسارت،اگر آپ کے مطالبات نہ مانے گیے تو کیا آپ کا لائحہ عمل کیاہوگا اس سلسلے میں پیک پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے تحت سڑکوں پر احتجاج کیا جاسکتا ہے؟
سید شہزاد، زاہد صاحب یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم سڑکوں پر نکل کر امتحانات کا بائیکاٹ یا احتجاج کریں گے بھائی ہم ایجوکیشن سے وابستہ لوگ ہیں ہم ایسا کوئی بھی عمل نہیں کرنا چاہتے جس سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو اور ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں ہم پر تو مستقبل کے معماروں کو سنوارنے کی بھاری زمہ داری ہے ہم ان کو نہ بگاڑ رہے ہیں اور نہ ہی کسی غلط راستے پر چلانے کا سوچ بھی سکتے ہیں ہم تو عوام ہیں اورحکومت سے اپیل کررہے ہیں کہ خدارا امتحانات شروع ہونے سے قبل ہی ہماری تجاویز پر کچھ نہ کچھ ضرورعملدر آمد کر لیا جائے ایسا نہ ہو کہ مختلف سیاسی جماعتیں ان بچوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی اپنی سیاست چمکانے لگیں یقینی طور پر یہ بچے ہمارے ملک کا روشن مستقبل ہیں ہمیں مل کر ان کے بارے میں سوچنا ہوگا،اور جہاں تک نقل روکنے کا تعلق ہے تو اس کا بہترین حل وہی ہے جو میں گزشتہ کئی برسوں سے اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں دیتا چلا آرہا ہوں یعنی ایک کلاس میں بیٹھنے والے بیس بچوں کو مختلف پیپرز دیے جائیں ظاہر جب بیس بچوں کومختلف سوالات دیے جائیں گے تو اس سے نہ صرف نقل سے خاصی حد تک چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ بچوں کی ذہنی سطح کو بلند بھی کیا جاسکتا ہے،،

حصہ