برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

387

قسط نمبر177
(پانچواں حصہ)
ایک بھرپور عوامی مہم اور پُرزور احتجاج کے بعد قومی اسمبلی کے 22 اراکین نے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دئیے جانے کے حوالے سے قرارداد پیش کی، اور علمائے کرام کی نمائندگی رکن پارلیمنٹ مولانا شاہ احمد نورانی (جمعیت العلمائے پاکستان) نے کی۔ مولانا مفتی محمود (جمعیت العلمائے اسلام مفتی محمود گروپ)، پروفیسر غفور احمد (جماعت اسلامی) سمیت مزید 15 اراکین قومی اسمبلی نے اس کی تائید کی۔
اس طرح مسلسل13 دنوں تک دونوں جانب کے (فریقین) یعنی مسلم اور قادیانی کے مؤقف کو نہایت تسلی کے ساتھ سنا گیا اور اس پر دلائل دئیے جاتے رہے۔ قومی اسمبلی کے اراکین نے اچھی طرح مطمئن ہونے کے بعد جو ترمیمی بل پیش کیا وہ اس طرح تھا:
’’ہرگاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازاں درج اغراض کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے۔
لہٰذا بذریعہ حسبِ ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے:
(1) (یہ ایکٹ آئین) ترمیم دوم ایکٹ 1974 ء کہلائے گا۔
(2) یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔
(3) آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم
آئین کی دفعہ 260 میں شق نمبر2 کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی، یعنی ’’شق نمبر 3: جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا، یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے۔‘‘
بیان اغراض و وجوہ
جیسا کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی میں طے پایا ہے، اس بل کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا، یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔
دستخط
عبدالحفیظ پیرزادہ
وزیر انچارج
اِس تاریخی قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری کے بعد وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوان میں اِس قرارداد کی منظوری کے حوالے سے تاریخی خطاب کیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کہاکہ’’یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران جب اپنی زندگی کے آخری ایامِ اسیری اڈیالہ جیل میں گزار رہے تھے تو انہوں نے ڈیوٹی آفیسر کرنل رفیع الدین سے کہا تھا کہ ’’رفیع! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ رتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکا میں حاصل ہے۔ یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔‘‘ ایک بار انہوں نے کہاکہ ’’قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے، اس میں میرا قصور ہے؟‘‘ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ ’’کرنل رفیع الدین! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھری میں پڑا ہوں؟‘‘ ایک مرتبہ کہنے لگے ’’اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ہی نہیں مانتے، اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔‘‘ پھر کہنے لگے ’’میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کرجائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔‘‘
کرنل رفیع کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا، لیکن اُس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
(حوالہ: ’’بھٹو کے آخری 323 دن‘‘از کرنل رفیع الدین)
بھٹو کا ایک اور کارنامہ اسلامی سربراہی کانفرنس بھی ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اسلامی سربراہی اجلاس بھٹو صاحب نے کروایا۔ میں یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس مراکش کے شاہ حسن نے رباط میں بلوائی تھی، اُس وقت پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خان نے اس میں شرکت کی۔ دورانِ اجلاس اُن کے مشاہدے میں آیا کہ ہندوستان کی جانب سے ایک سکھ بھی اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجلاس میں شریک ہے، جس پر انھوں نے اعتراض کیا۔ صدرِ پاکستان کو بتایا گیا کہ یہ سردار صاحب ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ صدرِ پاکستان نے پھر سوال اٹھایا کہ یہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس ہے، ہندوستان کا نمائندہ اس میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ملا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے حکومت نے اس سکھ نمائندے کو مبصر کی حیثیت سے بھیجا ہے۔ جنرل یحییٰ خان اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور کہا کہ اگر سب سربراہان اس جواب سے مطمئن ہیں تو میں شرکت سے معذرت کرتا ہوں۔ اس طرح عجیب صورت حال پیدا ہوگئی، اور بالآخر ہندوستان کے سکھ نمائندے سے معذرت کرکے اس کو کانفرنس ہال سے باہر بھیجا گیا، اور پھر باقاعدہ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا رباط میں افتتاح ہوا۔
البتہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس 1974ء میں پاکستان میں منعقد ہوئی۔ اس کے روحِ رواں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ 22 فروری بروز جمعۃ المبارک 1974ء بعد نماز جمعہ عالمگیر اہمیت کی اس تقریب کا افتتاح ہوا، جس میں پچاس کے لگ بھگ سربراہوں نے شرکت فرما کر تقریب کو رونق بخشی۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے لیے لاہور میں اسمبلی ہال چنا گیا۔ ضروری انتظامات کی ذمہ داری کمشنر لاہور جناب اسد علی شاہ کی تھی۔ کانفرنس کے لیے تو اسمبلی ہال طے ہوگیا۔ سربراہوں کی رہائش کے لیے خوبصورت بنگلوں کی تلاش شروع ہوئی۔ پہلے تقریباً ایک سو کوٹھیوں کی نشاندہی کی گئی۔ ہر کوٹھی کا مالک خوشی کے ساتھ کسی مسلمان سربراہ کے لیے اپنا گھر دینا پسند کررہا تھا۔ ان میں سے بھی تقریباً 50 بنگلوں کو فائنل کیا گیا۔ جس کا بنگلہ اس لسٹ میں آیا اُس نے بڑا فخر محسوس کیا کہ میرے گھر میں فلاں ملک کا سربراہ قیام پذیر ہوگا۔ فلمی اداکار محمد علی مرحوم کا بنگلہ بھی ان میں شامل تھا۔ ان بنگلوں کی تزئین و آرائش شروع ہوئی۔ گھر سے اسمبلی ہال تک کے راستے سجاوٹ سے آراستہ کیے گئے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کے لیے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس جائے قیام طے پایا۔
اس تقریب میں بانیِ جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ بھی مدعو تھے۔ میں یہاں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا مودودیؒ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے خاص اہتمام کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔ جب وہ کانفرنس کے لیے ہال میں داخل ہورہے تھے تب کسی باوثوق ذریعے سے آپ کو بتلایا گیا کہ’’آج کے ایجنڈے میں بطور خاص ’بنگلہ دیش‘ کو تسلیم کروایا جائے گا‘‘۔ جیسے ہی اس بات کا علم ہوا مولانا مودودیؒ نے اپنے بڑھتے ہوئے قدم روک لیے اور سیڑھیوں سے ہی واپس لوٹ گئے۔
اس سربراہی اجلاس میں بنگلہ دیش کو سرکاری طور پر تسلیم کروالیا گیا۔
(جاری ہے)

حصہ