کھانے پینے کے آداب

1723

افروز عنایت
ایک مرتبہ آپؐ صحابہ کرامؓ کو پانی پینے کے آداب بتا رہے تھے کہ پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں، تین سانس میں یا ٹھیر ٹھیر کر پئیں اور بیٹھ کر پئیں۔ وہاں سے ایک یہودی کا گزر ہوا، اُس نے بھی آپؐ کی تمام باتیں سنیں۔ اتفاقاً آدھی رات کو اس (یہودی) کی آنکھ کھلی۔ اس نے بیوی سے پانی مانگا۔ بیوی نے یہودی کو پانی کا پیالہ تھمایا تو اچانک اُسے آپؐ کی بات یاد آگئی۔ وہ بیٹھ گیا تاکہ بیٹھ کر ٹھیر ٹھیر کر پانی پیے تو اس کی نظر پیالے کے اندر پڑی، جہاں پانی کے اندر ایک زہریلا بچھو موجود تھا۔ اس نے فوراً وہ پیالہ دور پھینک دیا اور تمام ماجرا بیوی کو بتایا کہ اگر آج میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات پر عمل نہ کرتا تو جان سے جا چکا ہوتا۔ وہ اس بات سے اس قدر متاثر ہوا کہ اگلی صبح آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر حق کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا (سبحان اللہ)۔
آپؐ کی ہر سنت میں کوئی نہ کوئی مصلحت و خوبی پوشیدہ ہے۔ جس طرح آپؐ نے زندگی کے ہر معاملے میں اذنِ خدا ہدایات اور تعلیمات فرمائی ہیں، اسی طرح کھانے پینے کے آداب بھی واضح کیے ہیں۔ آج جدید دور میں ان آداب کو سن کر سائنس دان حیران ہیں کہ ان آداب کے پیچھے کتنی خوبیاں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں۔ دینِ اسلام نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو جو طریقہ اپنانے کا حکم دیا وہ تو صحت و تندرستی و جانی حفاظت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے ایک راز ہے۔ مثلاً بیٹھ کر ٹھیر ٹھیر کر، یا تین سانس میں پانی پینے سے نہ صرف بندہ سیراب ہوجاتا ہے، بلکہ پانی صحت بخشتا ہے۔ جبکہ ایک سانس میں کھڑے ہوکر جلدی جلدی پانی پینے سے طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے اور بعض اوقات اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ آپؐ نے اُمتِ مسلمہ کو کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ اور اختتام پر الحمدللہ پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ بسم اللہ سے شروع ہونے والے ہر کام میں رب العزت برکتیں ڈالتا ہے۔ الحمدللہ سے اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شکرانہ ادا ہوتا ہے۔ بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہہ، اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھا، اور اپنے آگے سے کھا۔‘‘
صحیح مسلم میں آپؐ نے فرمایا ہے: ’’جس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے (یعنی بسم اللہ کہہ کر شروع نہ کیا جائے) اس کھانے کو شیطان حلال جانتا ہے‘‘۔
آپؐ نے سادہ کھانے کو پسند فرمایا ہے۔ آج ہر دوسرا بندہ مختلف امراض میں مبتلا ہے، جس کی بڑی وجہ زیادہ خوراکی و الم غلم روغنی غذائیں ہیں جو معدے پر گرانی کا سبب بنتی ہیں اور طبیعت کو بوجھل کردیتی ہیں۔ اسی طرح مل جل کر ایک دستر خوان پر کھانا تناول کرنے سے آپس میں خوشگوار ماحول تشکیل پاتا ہے۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل جل کر ایک دسترخوان پر کھاتے تھے۔ اس طرح اللہ کھانے میں برکت دیتا ہے۔ دورانِ طعام کوشش کرنی چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے نوالے ہوں، چبا چبا کر کھائیں تاکہ کھانا اچھی طرح ہضم ہو۔ اتنا ہی کھانا پلیٹ میں نکالیں جتنی ضرورت ہے۔ ضرورت پڑنے پر مزید لے سکتے ہیں۔ لیکن حرص میں پلیٹیں بھرنے کے بعد اکثر کھانا بچ جاتا ہے جو ضائع ہوتا ہے۔ بچوں کو بھی یہی طریقہ شروع سے سکھائیں، کیونکہ یہی طریقہ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کا تھا۔
دورانِ طعام فضول یا زیادہ بولنا بھی مناسب نہیں، بلکہ اہلِ خاندان دستر خوان پر بیٹھ کر مفید و دینی گفتگو کریں جس سے اہلِ خانہ کی بھلائی ہو۔ میری نظر میں یہ ایسی مختصر گفتگو کے لیے بہترین موقع ہوتا ہے۔ میں نے یہ بات اپنے والدین سے سیکھی، آج میرا بھی یہی طریقہ ہے کہ اگر کوئی دینی اصول و مفید بات اپنے اہلِ خانہ سے شیئر کرنی ہوتی ہے تو دسترخوان پر ہوجاتی ہے۔ آپؐ نے کھانے میں جن چیزوں کو پسند فرمایا ان کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔ مثلاً آپؐ نے ’’سرکہ‘‘ کو عمدہ سالن کہا ہے، اسی طرح نمک کو سالنوں کا سردار فرمایا، کھجور، زیتون و کدو (سبزی) کو پسند فرمایا۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ’’زیتون کا تیل کھایا کرو اور لگایا بھی کرو، کیونکہ یہ نہایت مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ کدو پیٹ کے امراض کے لیے شفاء ہے۔‘‘
حدیث ہے کہ ’’اہلِ دنیا و اہلِ جنت دونوں کے کھانوں کا سردار گوشت ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
آپؐ نے کھانے کی جتنی چیزوں کو (کھانا) پسند فرمایا ہے آج دنیا ان تمام غذائوں کی افادیت کے گن گاتی نظر آتی ہے۔
آپؐ نے صفائی کو نصف ایمان کہا ہے۔ جس طرح ہر موقع پر صفائی ستھرائی کی تاکید فرمائی گئی ہے اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں بھی ہاتھ دھونے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح رزقِ حلال اور حلال شئے پر اسلام نے زور دیا ہے، جبکہ حرام اشیاء اور حرام کمائی کے رزق سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ حرام کھانے کو پیٹ میں ایندھن (آگ) بھرنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حلال اشیاء کھائے۔ اپنے گھر کے دستر خوان کو مہمانوں کے لیے بھی کھلا رکھنا چاہیے، اگر کھانے کے وقت کوئی مہمان آجائے تو جو کچھ گھر میں ہے اس کے سامنے پیش کریں، اسے بھی شامل کریں، وقتاً فوقتاً کھانے پر مہمانوں کو مدعو کرنا افضل خوبی ہے۔
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس گھر میں مہمان ہوتا ہے اس گھر میں خیر و برکت ایسی دوڑتی ہے جس طرح چھری اونٹ کے کوہان کی طرف دوڑتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ) سبحان اللہ
آپؐ اور صحابہ کرامؓ نہ صرف خوشدلی سے مہمانوں کے لیے میزبانی کے فرائض انجام دیتے، بلکہ خوشدلی سے کھانے کی دعوت بھی قبول فرماتے تھے، اور جہاں کھانا نوش فرماتے تو میزبان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھلانے والے کے لیے یہ دُعا فرمائی ’’اے اللہ کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا، اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا‘‘۔ (ابودائود)
کسی کے گھر کھانے یا کسی اور چیز میں نقص نکالنے کو آپؐ نے ناپسند فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپؐ نے کبھی کھانے میں عیب نہ نکالا، اگر اچھا ہوا تو کھالیا ورنہ چھوڑ دیا۔ (ابن ماجہ)
اگر آپؐ کسی کے یہاں کھانے پر مدعو ہوتے تو اپنے ساتھ سب کو شامل کرلیتے۔ بعض اوقات میزبان پریشان ہوجاتا کہ کہیں کھانا کم نہ پڑجائے، مگر سبحان اللہ، آپؐ بسم اللہ پڑھ کر سب کو شامل کرتے اور اللہ کھانے میں برکت فرماتا۔ حضرت وحشیؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ اللہ کے رسولؐ ہم لوگ کھاتے تو ہیں لیکن طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا ’’تم لوگ علیحدہ علیحدہ کھاتے ہو گے‘‘۔ انہوں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ’’پس تم لوگ مجتمع ہوکر بسم اللہ پڑھ کر کھایا کرو، کھانے میں برکت ہوگی۔‘‘ (ابن ماجہ)
بے شک سنتِ رسولؐ کے مطابق کھانے کے آداب پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف بندے کو جسمانی فوائد میسر ہوتے ہیں بلکہ روحانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اپنی اولاد کی تربیت میں ان آداب کو شامل کرنے سے انہیں نہ صرف دنیاوی فوائد بلکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہوں گے (ان شااللہ)۔ اس لیے اپنے بچوں سے اگر آپ کو پیار ہے تو انہیں سنتِ نبویؐ کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائیں

حصہ