نسبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم

1945

ڈاکٹر عبدالعزیز گدی پٹھان
-1 محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عَبدَ مَنَاف
-2 بِنْ قصّی بن کَلَاب بن مُرہّ بن کَعَب بن لوئی بن غالِب
-3 بن فَہر بن مالِک بن النضّر بن کِنانَہ بن خُزیمہ
-4 بن مُدرِکہ بن اِلیاس بن مُضّر بن نَزَار بن مَعْد بن عُدنَان
یہاں تک مصدقہ ہے یہ سلسلہ حضرت اسمٰعیل ؑ سے ملتا ہے۔
اولاد اسمٰعیل اور ان کی والدہ
بقول اِبن ہشام کے مطابق
حضرت اسمٰعیل بن ابراہیم کے بارہ بیٹے تھے۔
-1 ثَابَت سب سے بڑا تھا۔-2 قِیدَر-3 اَذیل -4 مَنشَاء-5 سَمخَ -6 ہاشِی-7 وَنا-8 اَذر-9 ظِیمَا-10 نَطُورا -11 نِیش-12 قِیذمَا
ان سب لڑکوں کی ماں مضاض بن عمرو کی بیٹی تھی۔
کہتے ہیں کہ مضاض اور جرہم دونوں قِحطان کے بیٹے تھے۔
قِحطان تمام یمن والوں کا جد اعلیٰ تھا۔ سب کا نسب اسی سے ملتا ہے۔
ابن اسحاق کہتا ہے کہ میں نے لوگوں سے کہتے سنا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے ۱۳۲ سال کی عمر پائی۔ اور جب انتقال ہوا تو آپ ؑ الحِجر میں اپنی والدہ حاجرہ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔
اصلی اور کُل عرب تمام کے تمام۔ اسمٰعیل ؑاور قِحطا ن ہی کی اولاد ہیں۔
حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں سے عدنان میں سے تمام قبیلے متفرق ہوئے۔
عدنان سے 2اشخاص پیدا ہوئے۔
معد بن عدنان اور دوسرا بیٹا عک بن عدنان پیدا ہوئے۔
٭ قبیلہ عکّ:
عک کو زیادہ اثر ورسوخ حاصل ہوگیا کیوں کہ عکّ بن عدنان نے یمن میں شادی کی اور یہیں رہنے لگا۔ اور یوں دونوں خاندان ایک ہوگئے۔
بنی عکّ بن عدنان ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے غسّان کا لقب اختیار کیا۔
حتیٰ کہ وہ چاروں طرف پھیل گئے۔
معد بن عدنان:ابن اسحاق کے مطابق معد بن عدنان کے چار بیٹے ہوئے۔ جن کے نام درج ذیل ہیں ۔
-1 نَزَار -2 قُضَاعہ-3 قُنَص-4 سَباَ ( جس کو عبد شمس بھی کہتے ہیں) وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے عربوں میں ابن یَعَرب بن یَشحب بن قحطان کو گرفتار کیا تھا۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نسب میں تحقیق بھی بہت ہوئی ہے اور سیرت نگاروں نے ہر ہر جگہ جا کر یا تحقیق کر کے نسب مبارک پر کلام کیا ہے۔
ہم نے مندرجہ بالا جو نسب پاک تحریر کیا ہے وہ سیرت کی ابتدائی تحقیقی کتابوں یعنی ابن اسحٰق اور ابن ہشام سے ماخوذ ہیں۔لیکن مولانا صفی الرحمن صاحب مدّظلہ علیہ نے اپنی رابطہ عالم اسلامی کی ایوارڈ یافتہ کتاب الرَحیق المختوم میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نسب میں اختلاف کو بھی ضبط تحریر کیا ہے۔ یعنی عدنان تک تو وہی نام آتے ہیں جو ابن ہشام نے تحریر کیے ہیں لیکن الرحیق ال مختوم کی تحقیق کے مطابق عدنان کے بعد عدنان اود بن ہمِیسع بن سَلَاحَان بن عَوصِ بن بَوز بن قَموالَ بن اُبٔی بن عَوامَ بن نَاشِد بن حزَاہ بن یَلدَاس بن یَد لَاف بن تَابُخ بن جاحَم۔
بن نَاحَش بن ماخو بن عِیضَ بن عَبقْر بن عُبِید بن اَلدّعا بن حَمدَان بن سُنبرِین یژربی بن یَحَزن بن مِلیحَن بن اَرعَون بن عِیضْ بن دِلشَان بن عِیصَر بن اَفنَاد بن ائِیہاَم بن مُقَصر بن نَاحثَ بن ذَاوَح بن سمی بن مزَی بن عَوزہ بن عَزام بن قِیدار بن اسمٰعیل بن ابراہیم۔
پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر حضرت آدم ؑ تک تیسرا باب باندھا ہے۔ اس تیسرے باب میں مولانا صفی الرحمن صاحب نے درج ذیل نام نسبِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں داخل کیے ہیں جو درج ذیل آتے ہیں۔
اِبراہیم بن تَارہ ( آزر) بن ناحُور بن سارُوغ بن راعُو بن فَالِخَ بن عِیَبر بن شَا لخَ بن اَرفَخَشَند بن سعَام بن نُوح بن لَا مَک بن متُوشَلخَ بن اخنوع ( ادریس ؑ) بن پردبن مہلیئل بن قینان بن آنوشہ بن آدم علیہ السلام۔
حوالہ: الرحیق المختوم و رحمت اللعالمین: صفحہ 75
حضرت عبداللطیف بن ربیہؓ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگ نبی اکرم ؐ کے پاس آئے اور کہا۔ اے رسول مہربان ہم آپؐ کی قوم سے عجیب قسم کی باتیں سنتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ آپ کی مثال کوڑی سے اگی ہوئی کھجور جیسی ہے حتیٰ کہ خاندان کا شمار قریش میں سے نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا جو اس سے پہلے کبھی اپنا حسب و نسب آپؐ نے بیان نہیں کیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا ! لوگو! میں کون ہوں ۔ لوگوں نے کہا آپ ؐ اللہ عزوجل کے رسول ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ سنو اللہ مالک الملک نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کے بہترین گروہ میں بنایا۔ پھر ان کے قبیلے بنائے تو مجھے ان کے بہترین قبیلے میں بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے ان سب سے بہترین ارفع و اعلیٰ گھرانے میں رکھا ۔ سو میں گھرانے کے حساب سے تم سب سے بہتر ہوں ۔(حوالہ: حیات طیبہ و مسند احمد : صفحہ 38)
اللہ عزوجل اپنے انبیاؑ کو معاشرے کے معزز ترین گھرانوں میں پیدا فرماتا ہے۔ یہ معزز گھرانے پھر انبیا ؑ کی بدولت عظیم ترین خاندان شمار ہوتے ہیں۔ جن کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد امجد حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں۔ آپ کے دادا جناب عبدالمطلب اہل قریش کے درمیان بہت معزز اور محترم شخصیت تھے۔ اللہ نے ان کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔
عبدالمطلب کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص رعب عطا فرمایا تھا کہ ان کی مجلس میں ان کی گفتگو کے دوران خاموشی چھا جاتی تھی۔ سقایہ اور رفادہ بنو ہاشم کے پاس تھا۔ کافی عرصہ قبل چاہ زم زم مرورِ ایام سے بند ہوگیا تھا۔ اس کا محل و قوع بھی صحیح طرح سے معلوم نہ ہو پا رہا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عبدالمطلب کے دل میں یہ بات ڈالی کہ چاہ زم زم کو دوبارہ کھودا جائے۔ کئی دن رات وہ سرگرداں رہے، آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ مقام دکھایا جہاں سے یہ چشمۂ صافی پھوٹتا ہے۔ یہ ان کا بڑا تاریخی کارنامہ ہے کہ انہوں نے چاہ زم زم دوبارہ کھودا اور وہ آج تک جاری و ساری ہے۔
چاہ زم زم کی کھدائی کے حوالے سے تمام سیرت نگاروں نے بہت دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں ۔ ایک واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ جب عبدالمطلب نے چاہ زم زم کی کھدائی کا کام شروع کیا تو قریش کے قبائل اس میں آڑے آگئے۔ اس پر انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا فرمائے اور وہ جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ اپنی قوت کے بل بُوتے پر چاہ زم زم کھودیں گے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے یہ منت مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے دس بیٹے عطا فرمائے تو وہ ایک بیٹے کو اللہ کے نام پر قربان کردیں گے۔ اللہ نے ان کی یہ آرزو پوری کی اور دس بیٹے عطا فرمائے ( دو بیٹے ان سے کئی سال بعد پیدا ہوئے۔ یوں کل بارہ تھے) ۔ حوالہ: حبیب کبریا: صفحہ 3)۔
ابو مطلب ان بیٹوں کو لے کر کعبہ کے اندر ہُبَل نامی بُت کے پاس آئے ہُبَل کے پاس سات تیر رکھے تھے جن میں ایک خون بہا کی نیت سے تھا کہ اس کو کون اپنے ذمے لیتا ہے۔ لہٰذا وہاں کے مجاور نے ایک تیر پر نَعَمْ لکھا جس کا مطلب ہے کہ یہ کام اچھا ہے کر گزرو اور ایک تیر پر لکھا ( لا) یعنی یہ کام نہ کرو اور جب کسی کام کو کرنے میں تردّد ہوتا تو پھر قرعہ ڈالا جاتا اگر نعم کا قرعہ نکلتا تو کام کر گزرتے اور اگر لا کا قرعہ نکلتا تو کام کو ایک سال کے لیے ٹال دیتے۔
قرعۂ فال عبداللہ کے نام نکلا۔ عبدالمطلب اپنے ہاتھ میں چھری لے کر عبداللہ کا ہاتھ پکڑا۔ ساف اور نائلہ دونوں بتوں کے پاس بیٹے کو ذبح کرنے کے واسطے لا رہے ہیں۔ قدرت خدا کی دیکھیے کہ قریش ہر طرف سے عبدالمطلب کے پاس جمع ہوگئے اور کہا! اے عبدالمطلب یہ تم کیا کررہے ہو۔ عبدالمطلب نے کہا میں اپنے اس بیٹے کو ذبح کرنا چاہتا ہوں۔ قریش چیخ پڑے کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو پھر اور لوگ بھی اپنے بیٹوں کو ذبح کیا کریں گے اور بنی نوع انسان کی بقا دشوار ہو جائے گی، اس کے علاوہ مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم جو عبداللہ کے ماموں تھے ۔ انہوں نے قسم کھا کر کہا اے عبدالمطلب تم ہرگز اس کو ذبح نہیں کرسکتے اگر بدلے میں فدیہ دینا چاہو تو ہمارے مال میں سے لے لو۔ لہٰذا اب یہ سارے لوگ مدینہ گئے جہاں ایک کاہنہ سے ملے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے پاس کوئی جن آتا ہے جس سے دریافت کر کے وہ مسئلے کا حل بتاتی تھی۔ لیکن وہ عورت تو خیبر میں رہتی تھی لہٰذا یہ خیبر پہنچ گئے اس عورت نے مسئلہ سن کر دوسرے دن آنے کو کہا پھر دوسرے دن اس عورت نے عبدالمطلب کو کہا کہ اس لڑکے اور دس اونٹوں کے دو الگ الگ تیر لکھو اور پھر تیر پر قرعہ نکالو اگر قرعہ عبداللہ پر نکلے تو دس اونٹ بڑھا دو اور پھر قرعہ نکالتے جائو ہر دفعہ اگر قرعہ عبداللہ کا ہی آئے تو ہر دفعہ دس دس اونٹ بڑھاتے جائو یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں پر نکل آئے لہٰذا ایسا ہی کیا۔ اور ایک سو اونٹوں پر جب پہنچے تو اونٹوں پر قرعہ نکل آیا۔ لہٰذا سب لوگ خوش ہوگئے لیکن عبدالمطلب کے کہنے پر تین مرتبہ اور نکالا گیا پھر ہر دفعہ قرعہ اونٹوں پر ہی نکلا لہٰذا عبداللہ کے عوض ایک سو اونٹ قربان کیے گئے ۔ (بحوالہ: صفحہ 104تا 105، جلد اول)
چنانچہ اس تجویز پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کو اسی طرح محفوظ رکھا جس طرح ان کے جد امجد حضرت اسمٰعیل بن ابراہیم علیہم السلام کو چھری سے بچا کر مینڈھا ذبح کرنے کا حکم دیا۔ وہ مینڈھا جنت سے آیا تھا اور حضرت جبرائیل ؑ لے کر آئے تھے۔ عبداللہ کے بدلے میں اسی زمین پر چلنے پھرنے والے جانوروں یعنی اونٹوں کی قربانی کا فیصلہ ہوا۔ یوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ذبیح ابن ذبیح ہیں۔
جناب عبدالمطلب کے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام درج ذیل ہیں:
-1 حارث بن عبدالمطلب:
انہی کے نام سے عبدالمطلب ابو الحارث کی کنیت سے معروف تھے۔ یہ اپنے والد کی زندگی میں انتقال کر گئے تھے۔ مشہور صحابی سفیان بن حارث انہی کے بیٹے تھے۔
-2 زبیر بن عبدامطلب:
زبیر کو عبدالمطلب نے اپنا جانشین بنایا۔
-3 ابو طالب بن عبدالمطلب:
ان کا نام بن عبدالکعبہ اور عبد مناف بھی بیان ہوا ہے۔ اپنے بیٹے طالب کی نسبت سے ابو طالب کہلائے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد عبداللہ اور ابو طالب ایک والدہ سے تھے۔
-4 عبداللہ بن عبدالمطلب:
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد گرامی قدر۔ یہ بھی اپنے والد کی زندگی ہی میں عفوان شباب میں شادی کے بعد انتقال کرگئے تھے۔
-5 ابو لہب بن عبدالمطلب:
اس کا نام عبدالعُزیٰ تھا اور رکنیت ابو عتبہ تھی۔ سرخ اور سفید چہرے کی وجہ سے والد نے اس کو ابو لہب کہا اور یہی نام مشہور ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بدترین دشمن تھا۔ قرآن پاک میں سورہ لہب میں اس کا نام لے کر اللہ نے اس پر لعنت بھیجی ہے۔ دیگر دشمنان اسلام کی بھی مذمت کی گئی ہے، مگرنام نہیں لیا گیا۔
-6 قثم بن عبدالمطلب:
ابن سعد کے مطابق یہ لاولد فوت ہوگئے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے اپنے بیٹے حضرت قثم کا نام اپنے اسی بھائی کے نام پر رکھا تھا۔
-7 ضرار بن عبدالمطلب:
یہ اپنی خوبصورتی اور حسن و جمال کے ساتھ سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے بھی تمام قریش میں ممتاز اور معروف تھے۔
-8 حضرت حمز ہ بن عبدالمطلب:
اسد اللہ و اسد رسول صلی علیہ اللہ والہ وسلم ۔ بدر کے کے معرکے میں بہترین کارنامے سر انجام دیے اور احد کے میدان میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ شہادت کے بعد کفار نے ان کے جسد اطہر کا مثلہ کیا، جس سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم انتہائی رنجیدہ ہوئے اور آپ ؐ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے مجھے ان کفار پر فتح عطا فرمائی تو میں ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی : ترجمہ: اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو اسی قدر لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔ (سورۃ النحل: 126)اس کے بعد آپؐ نے اپنے ارادے سے رجوع فرمایا اور زندگی بھر کبھی کسی کا مثلہ نہیں کیا بلکہ سخت الفاظ میں منع فرمایا۔(حوالہ: تفسیر ابن کثیر ،ج 4، صفحہ : 236-237)
-09 المقّوم بن عبدالمطلب:
-10 حضرت عباس بن عبدالمطلب:
صحابی رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے باپ کے برابر قرار دیا۔
-11 حجل بن عبدالمطلب:
ان کا مغیرہ بھی مورخین نے بیان کیا ہے۔
-12 الغیداق بن عبدالمطلب:
ان کا نام مصعب بھی بیان ہوا ہے۔ ان کی ماں کا نام ممنعّہ بنت عمرو تھا۔ ان کے ماں جائے بھائی عوف بن عبدعوف تھے۔ جو مشہور صحابی (یکے از عشرہ مبشرہ) حضرت عبدالرحمن بن عوف کے والد تھے۔
جناب عبدالمطلب کے بارہ بیٹوں کے علاوہ اللہ نے انہیں چھ بیٹیاں بھی عطا فرمائیں۔ ان کی بیٹیوں کے نام تاریخ اور سیرت ؐ کی کتابوں میں مذکورہیں۔ اس ریکارڈ کے مطابق چھ بیٹیوں کے نام ذیل میں دیے جارہے ہیں۔
-1 البیضاء (ام حکیم بنت عبدالمطلب۔
-2 عاتکہ بن عبدالمطلب
-3 برّہ بنت عبدالمطلب
-4 امیمہ بنت عبدالمطلب
-5 ارویٰ بنت عبدالمطلب
-6 حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضوان اللہ علیہم اجمعین
حضرت صفیہؓ مشہور صحابیہ اور حواری رسول حضرت زبیر بن العوامؓ ( یکے از عشرہ مبشرہ ) کی والدہ محترمہ تھیں۔ یہ حضرت خدیجہ ؓ کی بھابھی بھی لگتی تھیں۔ عوام بن خویلد حضرت خدیجہؓ کے سگے بھائی تھے۔
رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ ہیں ۔ ان کی والدہ یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نانی کا نام برّہ بنت عبدالعُزیٰ بن عثمان بن عبدالدارقصی بن کلاب ہے۔ نانی محترمہ کی والدہ ام حبیب بنت اسد بن عبدالُعزٰی بن قصی بن کلاب ہیں۔ ان کی والدہ کا نام بھی ان کی نانی اماں کی برّہ ہے۔ بّرہ بنت عوف بن عویج بن عدی بن کعب بن لوی۔ ان کی والدہ کا نام قلابہ بنت الحارث بن مالک بن حباشہ بن غنم، بن لحیان بن عادیہ بن صعصع بن کعب بن ہند بن طابخہ بن لحیان بن ہذیل بن مدرکہ ابن الیاس بن مضر ہے۔ ابن سعد نے اس سلسلے کو کئی پشتوں تک لکھا ہے۔
(ماخوذ: از حبیبِ کبریا، مولفہ حافظ محمد ادریس)

حصہ