برطانوی ایجنڈا

530

ابنِ عباس
’’اس حکومت نے تو جینا حرام کردیا ہے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے ہم تو روٹیوں سے بھی محتاج ہوتے جا رہے ہیں۔ بجائے روزگار دینے کے، یہ لوگ تو غریبوں کے منہ سے نوالہ تک چھین رہے ہیں۔ کہاں جائیں اور کسے اپنی فریاد سنائیں! ہم تو کہیں کے نہیں رہے۔ اللہ ان حکمرانوں کو نیک ہدایت دے، یہ تو ہمارے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’کیا ہوا قریشی! کون مر گیا ہے، کس کو بیٹھا رو رہا ہے؟‘‘
’’اپنے آپ کو ہی برا بھلا کہہ رہا ہوں اور کس کو کہوں! تجھے شرم آنی چاہیے، کسی کا روزگار ختم ہوگیا ہے اور تجھے تفریح لینے کی پڑی ہے۔ بدبخت! خدا سے پناہ مانگ اور دعا کر کہ ایسا وقت کسی پر نہ آئے جو ان حکمرانوں کی وجہ سے مجھ پر آیا ہے۔‘‘
’’ارے تبھی تو پوچھ رہا ہوں، تُو تو برا مان گیا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کس کو کوس رہا ہے؟ یہاں تو تیرے سوا کوئی اور ہے بھی نہیں۔ بتا تو یہ ہائے ہائے کیوں لگا رکھی ہے؟‘‘
’’تیرا باپ مرگیا ہے، اسی کی میت پر بین کررہا ہوں۔ نمک حرام جا یہاں سے، کہیں اور جاکر غرق ہو۔ اپنے باپ سے بھی ایسے ہی منہ زوری کرتا ہوگا، بے شرم بے حیا کہیں کا۔‘‘
’’یار قریشی معاف کردے، میں تو یہ سب تیرا دھیان بٹانے کے لیے ہی کررہا تھا، ورنہ تجھے تکلیف پہنچانے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔‘‘
’’دیکھ قمرو! پہلے کی بات اور تھی، تُو دن بھر مذاق کیا کرتا تھا، میں نے تیری بات کا کبھی برا نہیں مانا۔ جب گھر میں بچوں کے لیے روٹی کا بندوبست ہو تو کڑوی سے کڑوی بات برداشت ہوجاتی ہے۔ لیکن خالی پیٹ اپنا آپ بھی برا لگنے لگتا ہے۔‘‘
’’تُو ٹھیک کہہ رہا ہے قریشی! تیری ساری باتیں سو فیصد درست ہوں گی، لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب یوں دل برداشتہ ہونے سے تجھے تیری ٹوٹی ہوئی دکان تو واپس نہیں مل سکتی ، تُو اگر اسی طرح سے نڈھال رہا تو بیمار پڑجائے گا، اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تیرے گھر والوں کا کیا ہوگا؟ حوصلہ کر، یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے۔ ہمت کر اور کسی دوسری جگہ کوئی نیا کام شروع کر۔ اللہ تعالیٰ برکت دے گا۔‘‘
’’قمرو دکھ تو اس بات کا ہے کہ میرا برسوں کا کاروبار منٹوں میں ختم کردیا گیا۔ میں 1969ء سے یہاں بیٹھا تھا۔ 50 برس میں تیسری نسل آجاتی ہے۔ میری تین نسلوں پر شب خون مارا گیا ہے، اور تُو کہتا ہے کہ صبر کروں! یار یہی ایک دکان تھی جس کے بل پر گھر چلتا تھا۔‘‘
’’قریشی تُو نے یہاں ایک عرصہ کاروبار کرلیا، کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اب ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی شروع ہوئی ہے تو تیری دکان بھی گرا دی گئی ہے، اور پھر متاثرین میں تُو اکیلا تو نہیں ہے، تقریباً 1200 دکانیں گرائی گئی ہیں، تُو خود ٹھنڈے دماغ سے سوچ، یہ کراچی کا مرکزی علاقہ ہے، آبادی بڑھنے کی وجہ سے اس پورے علاقے خصوصاً ایمپریس مارکیٹ کے اطراف ٹریفک جام رہتا تھا، حکومت نے اگر ناجائز طور پر بنائی جانے والی دکانوں کو گرا کر سڑکیں کشادہ کردی ہیں تو یہ ایک تعمیری کام ہے۔ قومیں ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے قربانیاں دیا کرتی ہیں، یہ سمجھ کہ تُو نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔‘‘
’’واہ قمرو واہ، بہت خوب، اب قربانیاں ایسے لی جائیں گی اور ساری ترقی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں ہوگی! تجھے کچھ نہیں پتا، یہ معاملہ دوسرا ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور برطانوی ایجنڈے کے مطابق کام کیا جارہا ہے۔ تُو چل میرے ساتھ اور شہر کا سروے کرکے دیکھ لے، صرف انہی عمارتوں کے اطراف سے ناجائز تجاوزات ہٹائی گئی ہیں جو برطانوی دورِ حکومت کے دوران بنائی گئی تھیں۔ چل میرے ساتھ اور صدر کے سارے ہی بازاروں کا سروے کرلے، دکانوں پر لگے سائن بورڈ تک ہٹوائے جا رہے ہیں، چھجے تک کاٹے جارہے ہیں۔ بھائی، چھجے کاٹنے کا کیا مطلب؟ کیا اب ٹریفک سڑک پر نہیں بلکہ پہلی منزل کی اونچائی سے اڑا کرے گی؟ بات سیدھی سی ہے، اس سارے آپریشن کا مطلب عوام کو سہولت دینا نہیں بلکہ برطانوی دور میں بنائی گئی عمارتوں کو نمایاں کرکے گوروں کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔ ہم نے بظاہر برطانیہ سے آزادی تو حاصل کرلی لیکن گورے کے تسلط سے آج تک آزاد نہ ہوسکے۔ ملک میں رائج قوانین ہوں یا عدالتی نظام، بیوروکریسی ہو یا پارلیمانی نظامِ جمہوریت… ہر جگہ وہی برٹش لا اور وہی 1800عیسوی کے بنائے قوانین کے مطابق کی جانے والی حکمرانی نظر آئے گی۔ انگریز تو چلا گیا لیکن قانون کی شکل میں اپنی باقیات چھوڑ گیا۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم نہ صرف اُس کے بنائے ہوئے قوانین سے رتی برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتے بلکہ ہم ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ چونکہ یہ قوانین ایک ایسے ملک کی باقیات ہیں جس نے ہم پرسو سال حکومت کی، لہٰذا جب تک ہمارے ملک میں ان قوانین کا نفاذ رہے گا تب تک ہمارے یہاں برطانوی راج بھی زندہ رہے گا۔
کراچی میں برطانوی دور میں بنائی جانے والی عمارتوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے جو گوروں کو دل سے عزیز ہیں، وہ ان عمارتوں کی رپیئرنگ کے لیے ہر سال باقاعدہ فنڈ دیا کرتے ہیں، سالانہ بنیادوں پر ایک خطیر رقم دینے کے پیچھے وہی برطانوی باقیات کی حفاظت اور ان کی نمود و نمائش ہے۔ تم نے نہیں دیکھا جس دن ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے دکانیں گرائی گئیں اُسی دن باقاعدہ اس مارکیٹ کی دھلائی کی گئی تاکہ ثبوت کے طور پر ویڈیو بناکر اور تصویریں کھینچ کر اپنے آقاؤں کے سامنے پیش کی جاسکیں۔ ایمپریس مارکیٹ کی بات تو چھوڑیں، ٹاور کے قریب کھڑے مینار کو گرانے کی کوشش کرکے دیکھ لیں، وہ بھی انگریز دور کی یاد ہے… ’’تاریخی یاد‘‘۔ اس کو گرانے کا مطلب برطانیہ کو للکارنا ہوگا، لہٰذا ہمارے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، ہمیں اللہ دوسرا روزگار دے دے گا، لیکن اس ساری صورت حال میں ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں یہ حکومت برطانیہ کی کچھ زیادہ ہی وفادار ہے۔‘‘
’’قریشی، تیری دکان ٹوٹی ہے اس لیے تُو پریشان ہے۔ میں جانتا ہوں جس کا روزگار ختم ہوجائے اُس پر کیا گزرتی ہے۔ غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہونے والی کارروائی سے متعلق جو کچھ بھی تُو کہہ رہا ہے ایسا نہیں ہے۔ دیکھ، سارے شہر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف باقاعدہ مہم جاری ہے، جس کا نمبر آتا جارہا ہے اُس کو مسمار کیا جارہا ہے۔ حکومتی اقدامات کو اپنے ذہن کے مطابق معنیٰ پہنانا اچھی بات نہیں۔‘‘
’’غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن… بہت اچھا نام دیا گیا ہے۔ ارے آپریشن کرنا ہے تو چلو میرے ساتھ۔ لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، ناظم آباد، شیرشاہ، اورنگی ٹائون، کیماڑی سمیت کراچی کی ہر گلی اور ہر میدان میں غیر قانونی تعمیرات قائم ہیں، کس طرح پارکوں پر قبضے کیے گئے ہیں، فلاحی پلاٹوں پر مکانات تعمیر ہیں، چائنا کٹنگ کے نام پر کی جانے والی تعمیرات سے شہر کا کوئی سروس روڈ محفوظ نہیں، ساحلِ سمندر تک بیچ دیا گیا ہے۔ غیر قانونی تجاوزات کو گرانا ہے تو وہاں جاکر گراؤ۔ یہاں چند ایکڑ زمین کے ٹکڑے پر قائم غریبوں کی دکانوں کو توڑ کر کیا حاصل! لیکن ایسا نہیں ہوگا، تُو یقین مان لے یہ حکومت برطانیہ کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ کراچی میں چائنا کٹنگ کروانے والے کس کے مہمان ہیں۔ انہیں تو فقط وہاں وہاں کارروائی کرنی ہے جہاں جہاں برطانیہ اور اُس کے ہمنواؤں کی دلچسپی ہو۔ کیا تُو پاکستان کوارٹرز کے خلاف ہونے والی کارروائی بھول گیا! تجھے پتا نہیں کہ جہاں حکومت کے ساتھ انیل مسرت جیسے برطانوی بزنس ٹائیکون ہوں وہاں غریبوں کی بستیوں کو ہٹانے کا مقصد بین الاقوامی معیار کے پلازہ بنانا اور انہیں مہنگے داموں فروخت کرکے اربوں روپے کمانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے! بھائی تُو میری باتوں کو جوڑتا رہ، آج نہیں تو کل تُو بھی یہی کہے گا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ یہ حکومت برطانیہ نے مسلط کروائی ہے جو ایک ایجنڈے کے تحت آئی ہے۔ وہ تمام کام جو اس ایجنڈے میں شامل ہیں اسی حکومت سے کروائے جائیں گے۔ ہماری موجودہ حکومت کی کابینہ کو دیکھ، ہر دوسرا آدمی برطانوی شہری نظر آئے گا، خود ہمارے وزیراعظم کا جھکاؤ کس کی طرف ہے؟ اور گولڈ اسمتھ کو کون نہیں جانتا؟ چودھری سرور سے کون واقف نہیں؟ زلفی بخاری کون ہے؟ یہ تو وہ نمایاں ہستیاں ہیں جن کی شہریت سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ نہ معلوم کتنے ایسے لوگ پردے کے پیچھے رہ کر برطانوی سامراج کی غلامی کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘
قریشی کی باتوں میں سچائی ہو یا نہ ہو، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو غیر متنازع بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پورے ہی شہر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے، تاکہ کراچی کو ماضی کا خوبصورت اور پُررونق شہر بنایا جاسکے۔

حصہ