’’اطاعت شرطِ اوّل ہے!‘‘

526

افشاں نوید
لفظوں سے اتنی شناسائی ہے انہیں کہ جب چاہیں نثر کی شکل میں ڈھال لیں اور جب چاہیں شاعری کی صورت میں! عید میلادالنبیؐ کے موقع پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جو نذرانۂ عقیدت ٹی وی کے ایک پروگرام میں انہوں نے پیش کیا اُس پر دل نے واقعی عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حلاوت کو محسوس کیا۔ اشعار تو یاد نہ رہ سکے، لیکن مفہوم کچھ یوں تھا کہ ’’کتنا اچھا ہوتا کہ میں خاموش چشموں کا پانی ہوتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کو چھوکر گزرتا، اور ابر کا وہ ٹکڑا ہوتا جس نے آپؐ پر سایہ کیا ہوتا، اور کھجور کا درخت ہوتا جس کا پھل آپؐ نے کھا لیا ہوتا، اور وہ مجاہد ہوتا جو کاری ضربوں کو اپنے سینے پر روک لیتا‘‘۔ ایک طویل اور خوبصورت نظم تھی… سچے جذبوں کی عکاس… یقیناً ہر مسلمان عاشقِِ رسولؐ کے دل کی آواز و امید۔ یعنی اصطلاح میں ہم جسے بے عمل مسلمان کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور عشق کے جذبوں میں وہ بھی اسی طرح ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ اہلِ مغرب اس حقیقت کو خوب سمجھ گئے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی مسلمانوں کے لیے مقناطیس کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی لیے وہ اس مرکزِ محبت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے ہماری خودداری کا امتحان لیتے رہتے ہیں، اور یہ ناپاک سازشیں ہمیں پھر متحد کردیتی ہیں، کہ وہی اک ہستی ہے جو ہماری یگانگت کا سبب ہے۔
لیکن معاملہ جو توجہ طلب ہے وہ عشقِ رسولؐ کے شعور اور تقاضوں کا ہے۔ عام خواندہ اور نیم خواندہ مسلمانوں کی اس وقت بات نہیں، وہ دانشور اور اہلِ قلم جن کی شاعری اور نعت گوئی کی میں نے ابھی بات کی، اس سے قبل اسی روز اس ٹی وی چینل پر ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’ہر چیز کو اسلامی، غیر اسلامی کے حاشیوں میں تقسیم نہ کریں۔ معاشرہ غم زدہ ہے، خوف زدہ ہے، اسے خوشیاں منانے دیں، اگر بسنت اور ویلنٹائن ڈے وہ مناتے ہیں تو ان کی خوشیوں کی قدر کریں۔ اس حبس زدہ معاشرے میں ہمیں خوشیوں کو تلاش کرنا ہے وہ جس صورت میں بھی ہوں۔ خوشی پر ہر اک کا حق ہے جس طرح چاہیں خوشیاں بانٹیں، معاشرے کو مسکراہٹیں دیں… اس لیے کہ معاشرہ آہوں، سسکیوں میں ڈوب چکا ہے‘‘۔
معاشرے کے بڑے بڑے اہلِ علم و دانش (جن کے پیچھے عوام کے انبوہ چلتے ہیں) جب اس طرح واضح تضادات کا شکار ہوں، ان کے فکر و فہم کے ’’پَر‘‘ اس مقام پر جلنے لگتے ہوں کہ وہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قربان ہونے کی ہم آرزو رکھتے ہیں، وہ اک پورا نظامِ حیات ساتھ لائے ہیں، اور وہ صرف حکایات کی صورت میں موجود نہیں، احکام و فرامین کی شکل میں موجود ہیں اور کسی خیالی دنیا کی باتیں نہیں، آپؐ نے پورے کا پورا پریکٹیکل 23 برس کے ہر ہر لمحے میں امت کے سامنے رکھا۔ یقیناً متوازن زندگی کے لیے تفریحات لازمی جز کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اگر اس نظامِ حیات سے اس جز کو نکال دیں تو زندگی ایک بوجھ بن کر رہ جائے گی۔ وہ بوجھ جو نہ فرد برداشت کرسکتا ہے، نہ معاشرہ۔ آپؐ نے تفریحات سے منع نہیں فرمایا، لیکن ان کی حدود متعین کردیں۔
ایک عام آدمی جو پاکستان سے کچھ بھی تعلق رکھتا ہے، یہ سوچ سکتا ہے کہ اس وقت خطرات کے جو بادل ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں، اندرونی و بیرونی خطرات و سازشیں جس طرح اژدھے کی مانند منہ کھولے ہماری سمت بڑھ رہے ہیں، ایسے میں وقت اپنے دفاع اور تحفظ کا ہے یا تفریحات کا؟ اور تفریحات بھی وہ جو نہ ہمارے دین سے کوئی مطابقت رکھتی ہیں، نہ سماجی رویوں سے۔ یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ صاحبان عقل و دانش ان تقریبات و تفریحات کو اس ذوق و شوق سے منانے پر کیوں مُصر ہیں جن کے لیے اُن کے پاس کوئی علمی و عقلی دلیل بھی نہیں ماسوائے ایک جذباتی اپیل کے، کہ خوف و غم سے نکلنے کے لیے ان سب لہو و لعب کے ذریعے آسودگی حاصل کی جائے!!
محض تفریح کے لیے تو اور بھی کوئی سبب ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اگر تفریح کے نام پر غیروں کی نقالی، اپنا سافٹ امیج دنیا کے سامنے پیش کرنا، طائوس و رباب کے طوفان میں قوم کو بہا لے جانا اور دوسری قوموں کے کلچر اور ثقافت کا فروغ ہے تو یہ الگ بات ہے۔ یہ الگ ایجنڈے اور سازشیں ہیں جن کو اگر اجتماعی خودکشی کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح اور جس نازک وقت میں اِس سال ویلنٹائن ڈے منایا گیا، پورے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے اس کی تشہیر کی وہ بہت سے خدشات کو ہوا دینے کا سبب بنا ہے۔ کچھ برس قبل یہ بات بالخصوص شدت سے محسوس کی گئی کہ 12ربیع الاوّل کے مبارک دن سے محض دو روز قبل سرکاری سرپرستی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں (بالخصوص موبائل کمپنیوں) نے، اور ان کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے کاروباری اداروں نے بھی جس طرح اپنے وسائل کو نذرِ جہنم کیا، وہ بحیثیت قوم ہماری اخلاقی پستی کا غماز اور قہرِ خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کاروباری ادارے اپنے مذموم مقاصد اور اغیار کے ایجنڈوں کے لیے جس طرح اپنا کثیر سرمایہ خرچ کرتے ہیں اس کے بہت دُوررس منفی اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کے رویوں کو غلط رُخ پر ڈال دینا، پورے معاشرے کے مجموعی کلچر کو بدلنے کی مذموم کوششیں ہیں کہ معاشرے کو بالغ اور دُوراندیش قیادت ہی میسر نہ ہوسکے۔
ہم وہ لوگ نہیں ہیں جن کی اپنی کوئی اقدار اور روایات نہ ہوں اور ہم محض تفریح کی تلاش میں ان تفریحات اور اقدار و روایات کو گلے لگالیں جنہوں نے اپنے بانیوں کی بھی اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور اس جہنم میں انہیں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ وہ نہیں پاتے۔ ہم نے اللہ سے یہ ملک کچھ خاص مقاصد کے لیے مانگا تھا۔ شب قدر میں اپنے رب کے عطا کردہ اس تحفے کے ساتھ ایک عہد وابستہ تھا۔
چند سال قبل جب مملکتِ خداداد کا سارا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا (بالخصوص انگریزی اخبارات و جرائد) ویلنٹائن ڈے کی سرگرمیوں کی تشہیر میں مصروف تھے، نوجوانوں کو راغب کیا جارہا تھا بے حیائی کی طرف، اُس سے ایک دن بعد وہی میڈیا باوضو ہوکر محفلِ نعت و میلاد پیش کرنے لگا۔ سیرت کے موضوع پر مباحثے و لیکچر نشر ہونے لگے۔ ہمارے ان اجتماعی رویوں کے تضاد نے خود ہماری اور اغیار کی نظروں میں بھی ہماری کیا وقعت رہنے دی ہے؟ قوموں کی برادری میں اپنے متضاد رویوں کے باعث اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں؟ حکم تو ہے کہ مسلمان جسدِ واحد ہیں۔ اس وقت ساری دنیا کے مسلمان ہر حوالے سے عتاب کا شکار ہیں۔ عالم اسلام کے کتنے حکمران ہیں جو ان مظالم سے باخبر ہیں جو کشمیر و فلسطین میں پچھلے70برس سے ہورہے ہیں اور ان کے لیے کچھ کرنے پر تیار ہوں؟ یہ نام نہاد حکمران تو خود زلزلوں کی زَد میں ہیں۔ کل مسلم دنیا کے مظلوم عوام منہ اُٹھائے آسمان کی سمت دیکھ رہے تھے کہ اے اللہ ہمارے مددگار بھیج، آج اس سے زیادہ بے بسی کے عالم میں یہ حکمران آسمان کی طرف منہ اُٹھائے ہوئے مدد کے متلاشی ہیں (جو ان شاء اللہ ان کا مقدر نہیں)۔
اس وقت مغرب کی سیاسی و معاشی برتری کے علاوہ ان کی تلوار اور قلم دونوں جس طرح بیک وقت ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں اس نے مغرب کے تہذیبی اثرات سے محفوظ رہنا کسی درجہ ناممکن بنادیا ہے۔ ان کے اس تہذیبی تسلط نے اس علم و دانش کی نگاہوں کے زاویے بھی اس طرح بدل دیے ہیں کہ مسلمانوں کی نظر سے دیکھنا اور سوچنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہنمائی اس وقت ہمارے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہے کہ ’’اگر ہم دوبارہ دنیا کے راہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے… ملحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں تاکہ اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو…!!

حصہ