برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

602

قسط نمبر162
(بیسواں حصہ)
ڈھاکا شہر کے اندر جو قتل و غارت گری تھی اسے کنٹرول کرنے میں ایک دو دن لگے۔ پاک فوج نے چھاؤنی سے نکل کر ڈھاکا ائیرپورٹ کا کنٹرول سنبھالا اور ایک دستہ فوری طور پر گورنمنٹ ہاؤس اور ٹی وی اسٹیشن کی جانب روانہ ہوا۔ اس ٹی وی اسٹیشن پر موجود عملہ تقریباً یرغمال تھا۔ اسٹیشن منیجر، ٹیکنیکل اسٹاف اور کیمرہ مین جو مقامی بنگالی تھے، منصوبے کے مطابق غیر حاضر تھے۔ بہاری اور غیر بنگالی ملازمین کو بھی دو تین راتوں سے اپنے گھر جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اُس وقت پی ٹی وی ڈھاکا کے ایک بہاری ملازم کیمرہ مین اکبر حسین سے میری ملاقات ہوئی (اکبر حسین اب کراچی میں مقیم ہیں) تو انہوں نے بتایا کہ غیر بنگالی ملازمین کی جانوں کو شدید خطرہ تھا، اسٹیشن منیجر نے ان سے کہا تھا کہ اگر حالات خراب ہوں تو اسٹیشن آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ محمد پور اور ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل کے اردگرد کا تمام علاقہ انتہائی خطرناک ہوتا جارہا تھا۔ پاک فوج نے سب سے پہلے ان علاقوں کو کلیئر کروایا۔ ٹیلی فون ایکس چینج پر باغیوں کا قبضہ ہوچکا تھا، 26 بلوچ رجمنٹ کی ذمے داری تھی کہ وہ ایکس چینج سے باغیوں کو باہر نکالے اور علاقہ کلیئر کروائے، جبکہ فیلڈ رجمنٹ نے محمدپور اور صنعتی علاقے سے بغاوت کو ختم کرکے غیر بنگالی آبادی کو محفوظ بنانے کا کام سنبھالا۔
ایس ایس جی گروپ (اسپیشل کمانڈوز) کو شیخ مجیب الرحمان کو اُس کے بنگلے (دھان منڈی) سے گرفتار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان گرفتار ہوچکا تھا۔ اسے پہلی رات آدم جی اسکول میں رکھا گیا اور پھر کسی اور نامعلوم مقام پرمنتقل کرکے چار دن بعد کراچی بھیج دیا گیا۔ اندازہ یہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کو گرفتاری کے وقت ہی ہلاک کردیا جائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا اور اسے زندہ ہی گرفتار کیا گیا۔ میجر بلال کے مطابق جو اس کارروائی میں شریک تھے، ’’ہمارا ارادہ تو اسی گرما گرمی میں مجیب کو ہلاک کرنے کا تھا، مگر کارروائی سے کچھ دیر قبل جنرل مٹھا نے مجھے ذاتی طور پر بلاکر حکم دیا کہ شیخ مجیب کو زندہ ہی پکڑ کر لانا ہے۔‘‘
ڈھاکا کنٹرول میں آچکا تھا، لیکن سب سے خطرناک محاذ چٹاگانگ تھا، جہاں ایسٹ بنگال رجمنٹ کے تقریباً تین ہزار مسلح بنگالی فوجی اور دو ہزار اضافی فوج ان کے ساتھ تھی۔ چٹاگانگ میں ایک اور بنگالی پلٹن 8 ایسٹ بنگال کے نام سے تیار کی گئی تھی، میجر جنرل ضیا الرحمان اس کی قیادت کررہے تھے (یہ وہی میجر تھے جنہوں نے سب سے پہلے چٹاگانگ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بغاوت اور بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ ان پانچ ہزار مسلح باغی فوجیوں کی مدد کے لیے بنگالی پولیس، سابق فوجی اہلکار اور عوامی لیگ کے تربیت یافتہ مکتی باہنی ہمہ وقت موجود تھے۔
پاک فوج کے لیے چٹاگانگ کا راستہ انتہائی دشوار گزار محاذ تھا۔ اگرچہ زمینی راستے کی مسافت سات آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ تھی، مگر ڈھاکا شہر سے چٹاگانگ کے راستے میں سفر کے لیے صرف مرکزی سڑک تھی، جو جگہ جگہ سے غیر محفوظ تھی۔ اس راستے میں سب سے پہلے کومیلا آتا تھا، اس کے بعد فینی کا علاقہ، اور پھر چار گھنٹوں کے بعد الٹے ہاتھ پر رانگا ماٹی کا پہاڑی سلسلہ… اس کے بعد کہیں جاکر چٹاگانگ کی حدود شروع ہوتی تھیں۔ رانگا ماٹی کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ بل کھاتی پہاڑیوں کے درمیان ہندوستان کا بارڈر کئی مقامات پر انتہائی حد تک نزدیک تھا، اور پہاڑی سلسلے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان اپنے ایجنٹ اور مسلح کمانڈوز علاقے میں بآسانی بھیج رہا تھا۔
اس پورے راستے میں دائیں بائیں ایسا علاقہ تھا جہاں سال کے سات مہینے برسات ہوتی تھی جس کی وجہ سے سڑک کے دونوں جانب پانی کے بڑے بڑے تالاب تھے جن میں کشتیاں چلا کرتیں۔ المختصر، پاکستانی فوج کے لیے چٹاگانگ پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
ہمارے فوجی ٹروپس جو چٹاگانگ کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں کومیلا پہنچنے کے بعد آگے بڑھے ہی تھے کہ ایک پل کے تباہ ہوجانے کی وجہ سے فینی کے علاقے میں پھنس کر رہ گئے۔ اندھادھند فائرنگ میں پاکستانی فوج پھنس چکی تھی، پل کے دائیں بائیں باغی افواج نے گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ آگے بڑھنا مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ ہمارے فوجی دستے کے گیارہ جوان اُن کے گھیراؤ میں آکر شہید ہوچکے تھے۔ چٹاگانگ کی صورت حال بہت خراب تھی، چند سو پاکستانی سپاہیوں کے ساتھ چٹاگانگ کا بچاؤ ناممکن تھا۔ لہٰذا فوجی کمک کا فوری وہاں پہنچنا بہت ضروری تھا۔ مگر راستے کی دشواریاں تھیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
بریگیڈئیر اقبال شفیع ایک دستے کو لے کر آگے بڑھے، ان کے ساتھ ایک دستہ جب شہر سے بیس میل دور رہ گیا تو باغیوں کے گھیرے میںآگیا۔ اطلاع یہ تھی کہ اس فوجی دستے کے تمام سپاہی باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہیں۔
میجر جنرل خادم حسن راجا ایک ہیلی کاپٹر لے کر گمشدہ فوجیوں کی تلاش میں خود نکلے۔ جب ان کا ہیلی کاپٹر 20 بلوچ کے کیمپ پر اترنے لگا تو رانگا ماٹی پہاڑوں سے اس پر شدید فائرنگ ہوئی۔ میجر جنرل خادم حسین بمشکل اس حملے سے محفوظ رہ سکے۔ ہیلی کاپٹر کو نقصان پہنچا۔ 20 بلوچ کے جانبازوں نے کمالِ ہمت کے ساتھ باغیوں کا مقابلہ کیا اور پچاس باغیوں کو ہلاک کیا، جبکہ پانچ سو کو اسلحہ سمیت گرفتار بھی کیا۔ اس طرح علاقہ محفوظ رہ سکا، البتہ باقی شہر باغی فوج اور مکتی باہنی کے قبضے میں تھا۔
ان حالات میں البدر کا قیام ایک نعمت سے کم نہ تھا۔ البدر کے جوانوں پر پاکستانی فوج آنکھیں بند کرکے بھروسا کرسکتی تھی۔
البدر نے اپنے اہداف مقرر کرتے ہوئے پانچ نکاتی پروگرام ترتیب دیا جس میں پاکستان کے بحال رکھنے کے لیے عوامی لیگیوں کے ظلم کے شکار عوام سے وسیع تر رابطہ رکھنا، دشمن کے پروپیگنڈے کو زائل کرنا، بنگالیوں کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنا، مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اسلامی اخوت و محبت کے جذبات کو پروان چڑھانے کے لیے عملی و فکری اقدامات کرنا شامل تھا۔
مزید یہ کہ مداخلت کاروں، ہندوستانی ایجنٹوں اور پاکستان دشمن عناصر (مکتی باہنی) پر نگاہ رکھنا اور اطلاعات کا مربوط نظام قائم کرنا، پاکستان بچانے کے لیے پاک فوج جو نقل و حرکت کررہی تھی، اس میں معاونت کرنا، نظم و نسق کی بحالی، قومی تنصیبات کا تحفظ اور محب وطن طلبہ کو منظم کرکے ان کو عسکری تربیت دلوانا۔ وغیرہ وغیرہ
اس پروگرام کے تحت ستمبر کے آخر تک ’’البدر‘‘ کو پورے مشرقی پاکستان میں منظم کردیا گیا۔
ان کی عسکری تربیت کے لیے فوج نے مختلف علاقوں میں تربیتی مراکز قائم کیے، جہاں البدر کے نوجوانوں کو خودکار اسلحہ چلانے، بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے اور وائرلیس پیغام سمجھنے کی تربیت دی جاتی۔ ان ٹریننگ سینٹرز میں مختلف ہتھیار چلانا مجاہدوں کو سکھائے جاتے، جن میں بارہ بور کی گن، تھری ناٹ تھری، لائٹ مارٹر گن، طیارہ شکن توپ، اسٹین گن، دستی بم، بارودی سرنگیں، جنگی کشتیاں، ریوالور اور مکتی باہنی سے چھینا گیا روسی و ہندوستانی ساخت کا اسلحہ چلانا اور دستی بموں اور مائنز کو فوری ناکارہ بنانا شامل تھا۔
تربیت کی حد تک تو سب ٹھیک تھا، مگر عملی میدان میں ’’البدر‘‘ کو جدید اسلحہ فراہم نہ کیا جا سکا، جس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ پاک فوج کے جوانوں کے پاس اسلحہ کی شدید قلت تھی اور ہماری آرمڈ فورسز جو محاذِ جنگ پر تھیں، ان کو بھی اسلحہ کی سپلائی ناممکن ہوتی جارہی تھی۔ البدر رضاکاروں کو محض بارہ بور کی گن دی گئی، وہ بھی مطلوبہ تعداد میں نہ تھیں، یا پھر فرسودہ ہوچکی تھیں۔
رضاکاروں نے اپنے اوپر فکری تربیت کا نظام لازمی کیا ہوا تھا، درسِ قرآن و حدیث روزانہ کی بنیاد پر ہوتے تھے، جبکہ شب بیداری اور مجلسِ ذکر اور ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا بھی اہتمام باقاعدگی کے ساتھ میدانِ عمل میں بھی جاری رہا۔
البدر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
1- یونٹ، جو 313 کیڈٹس پر مشتمل تھا
2- کمپنی۔ تین پلاٹونز پر مشتمل تھی۔ ہر کمپنی میں 104 مجاہد تھے
3- پلاٹون۔ ہر پلاٹون 33 غازیوں پر مشتمل تھی اور پلاٹون میں تین سیکشن ٹروپس ہوتے، اور ہر ٹروپ میں 11 البدر مجاہد تھے۔
اس تقسیمِ کار میں ایک یونٹ کا ایک کمانڈراور دو سیکنڈ کمانڈر تھے۔ ان سب کی نگرانی صوبائی مجلسِ شوریٰ کی تھی جو ان تمام امور پر نظر رکھتی تھی۔
پاک فوج کی جانب سے ان کا ماہانہ مشاہرہ ( الاؤنس ) رکھا گیا، جو90 روپے تھا مگر جمعیت کی مجلس شوریٰ نے الاؤنس کی اس تجویز کو مسترد کردیا اوررضاکارانہ خدمات کو ترجیح دیتے ہوئے یہ رقم ’’دفاعی فنڈ ‘‘میں جمع کرنے کی سفارش کی تھی۔
البدر نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا:
شعبہ امور رابطہ عوام: اس کی ذمے داری مشرقی پاکستان کی رائے عامہ کو متحدہ پاکستان کے لیے ہموار کرنا اور افواہوں کے جواب میں حقیقی مؤقف کا پھیلانا تھا۔ کیونکہ ریڈیو ماسکو، بی بی سی اور آل انڈیا سروس مسلسل بد دلی پھیلا رہے تھے۔
شعبہ امور ِدفاع: اس شعبے کی ذمے داری تھی کہ وہ قومی املاک کی حفاظت کرے اور دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے پاک فوج کے لیے راستہ ہموار کرے، تاہم البدر کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے پہلے پاک فوج سے ضلعی سطح پر اجازت حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا۔
شعبہ امورِاطلا عات : اندرون مشرقی پاکستان اور سرحدوں سے دشمن کی کارروائیوں اور ممکنہ حملوں کی پیشگی خبر اور اطلا ع بروقت فراہم کرنا امور اطلاعات کی ذمے داری تھی۔ علاوہ ازیں البدر کی ایک الگ میڈیکل ٹیم بھی تھی جس میں میڈیکل کالج کے طلبہ اور سابقین جمعیت کے ڈاکٹرز شامل تھے۔
حوالہ جات : Witness to surrender ۔ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک شہید
البدر: پروفیسر سلیم منصور خالد
(جاری ہے)

حصہ