برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

593

قسط نمبر169
(اٹھارہواں حصہ)
پاربتی پور اور سانتاہار کے علاقوں میں قتل عام کی سینکڑوں کہانیاں ہیں، ان میں سے ایک 30 سالہ نفیسہ خاتون کی بھی ہے۔ نفیسہ خاتون کے شوہر ظہیرالدین کی سانتاہار میں کپڑے کی دکان تھی۔ انہیں باغیوں نے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ نفیسہ خاتون نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سنائی:
’’جو کچھ پورے مشرقی پاکستان میں ہورہا تھا، وہی کچھ سانتاہار میں بھی ہوا۔ پورے شہر میں شدید کشیدگی تھی۔ 25 مارچ 1971ء کو شہر کی حالت غیرمعمولی طور پر کشیدہ تھی، اِس لیے میرے شوہر اُس دن دکان نہیں گئے۔ پہلے یہ اطلاع آئی کہ چند شرپسندوں نے ہماری دکان لُوٹ لی ہے۔ پھر کچھ ہی دیر میں ایک درجن سے زائد مسلح باغی ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ میرے شوہر اُن کے سامنے گڑگڑائے اور گھر میں موجود نقدی اور زیورات وغیرہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ میں نے بھی اُن درندوں کے پیروں میں گر کر رحم کی بھیک مانگی، مگر اُنہیں ہم پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ میرے دونوں چھوٹے بچے ایک میز کے نیچے چھپ گئے۔ باغیوں نے میرے شوہر کو پکڑ کر آنگن میں کھڑا کیا اور اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ ان کے سر اور سینے سے خون کا فوّارہ اُبل پڑا۔ میں یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے دونوں بچے اپنے باپ کی لاش پر رو رہے ہیں‘‘۔
نفیسہ خاتون کہتی ہیں کہ ’’باغیوں نے ہمارے گھر سے ہر قیمتی چیز لُوٹ لی۔ میں نے اپنے شوہر کی لاش کو بستر کی چادروں میں لپیٹا۔ ہمارا ایک پڑوسی میت کو قبرستان لے گیا۔ اگلی صبح میں نے بنگالی عورتوں کی طرح ساڑھی باندھی اور بچوں کو لے کر پاربتی پور روانہ ہوگئی۔ وہاں میرے کچھ عزیز رہتے تھے۔ راستہ بہت دشوار تھا، جگہ جگہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ سڑک کے کنارے ہی نہیں بلکہ ندی نالوں میں بھی ہم نے لاشیں دیکھیں۔ عوامی لیگ کے غنڈوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اُنہیں قتل و غارت کی کھلی چُھوٹ دے دی گئی تھی۔ جب ہم پاربتی پور پہنچے تو بھوک اور پیاس کے مارے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارا دم نکل جائے گا۔ میں نے وہاں رشتہ داروں کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملے۔ باغیوں نے پاربتی پور میں بھی غیر معمولی قتلِ عام کیا تھا۔ ہماری خوش بختی یہ تھی کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ وہاں پہنچ گیا تھا۔ فوجیوں کو دیکھتے ہی باغی بھاگ کھڑے ہوئے۔ فوجیوں نے دو دن تک ہمارا خیال رکھا اور ہمیں ڈھاکا منتقل کیا، جہاں ہم محمد پور میں واقع پناہ گزین کیمپ میں رہے‘‘۔
محمد شکور کی عمر پندرہ سال تھی، اس کے والد محمد شفیق کو باغیوں نے شہید کردیا تھا۔ محمد شکور نے اپنی داستان الم بہتے ہوئے اشکوں اور رندھی ہوئی آواز میں اس طرح بیان کی کہ سننے والے ہر فرد کی آنکھ میں آنسو تھے۔ محمد شکور بتا رہا تھا کہ ’’میرے والد سانتاہار میں ٹرک ڈرائیور تھے۔ وہ بنگالی بہت روانی سے بولتے تھے اور اُنہوں نے مجھے بنگالی میڈیم اسکول میں داخلہ دلایا تھا۔ علاقے کے تمام بنگالیوں سے ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہم شہر کے مضافات میں رہتے تھے۔ قبرستان ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں 25 مارچ1971ء کو اسکول گیا۔ اسکول میں میرے ہم جماعت مجھے بہاری کہتے تھے گو کہ میں بنگالی روانی سے بولتا تھا۔ دن کے دو بجے میں اسکول سے گھر کی طرف چلا۔ میں نے دیکھا کہ چند شرپسند ہمارے جھونپڑا نما مکان پر حملہ کررہے ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر ڈر گیا اور ایک قبر کے پیچھے چھپ گیا۔ اِتنے میں مجھے اپنے والد کی آواز سنائی دی۔ میں نے ایک دیوار کے سوراخ سے دیکھا کہ شرپسندوں نے میرے والد کو گھسیٹ کر گھر سے نکالا۔ اُن کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ اُن درندوں نے میرے والد کو ایک درخت سے باندھا اور پھر اُن کے سَر اور پیٹ میں چھریوں کے وار کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے دم توڑ دیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے گھر کا سامان لُوٹ لیا۔ پھر اُنہوں نے میری والدہ اور بہن کو گن پوائنٹ پر لیا اور قریبی گائوں کی طرف چلے گئے۔ اِس کے بعد میں نے اپنی والدہ اور بہن کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ میں ایک ماہ تک قبرستان میں چُھپا رہا۔ جب پاکستانی فوج کا دستہ سانتاہار پہنچا تو اُس نے میرے والد کے بچے کھچے جسم اور ان کی باقیات کو سمیٹ کر دفن کیا۔ فوجیوں نے میری والدہ اور بہن کو تلاش کرنے میں میری مدد کی، مگر مجھے اب تک نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ اُن دونوں کا کہیں پتا نہ چلا۔ فوجیوں نے مجھے ڈھاکا پہنچایا۔‘‘
مکتی باہنی کی جانب سے پُرتشدد کارروائیوں کے جواب میں اور مشرقی پاکستان میں محب وطن پاکستانیوں اور غیر بنگالی مسلمانوں کے خلاف عوامی لیگی حملوں اور قتل عام کے خلاف حالات کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ۔ مشرقی پاکستان) کا ڈھاکا میں صوبائی اجلاس طلب کیا گیا، جس میں ملک کی ابتر اور خراب ہوتی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
عمومی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد تین ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر غور ہوا، ان کے سامنے اس وقت صرف یہ تین ہی راستے تھے:
1۔ حالات کے رخ پر بہتے ہوئے کھل کر علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے۔
2۔ حالات کو اپنے رخ پر بہنے دیا جائے اور غیر جانب دار رہا جائے۔
3۔ حالات کا رخ موڑنے، پاکستان کی سالمیت اور مظلوم عوام کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں اُتر کر اپنی ذمے داری کو ادا کیا جائے۔
مندرجہ بالا تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد صوبائی مجلس شوریٰ کے رکن مصطفی شوکت عمران (شہید) نے اپنے دلائل کے ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تقاریر کے حوالے دئیے اور خاص طور پر 1965ء کی جنگ کے موقع پر کی جانے والی مولانا کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں مولانا نے فرمایا تھا کہ ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین ہمارا نہیں اسلام کا گھر ہے۔ ہمیں صدیوں بعد پھر موقع ملا ہے کہ خدا کے دین کو اس کی اصلی صورت میں قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی صداقت کی عملی شہادت پیش کریں۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے اور ہم ہر قیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں… یاد رکھیے خدا اور اس کے دین کی خاطر جان دینے کا مرتبہ اپنے گھر بار، اپنے مال اور دولت کی خاطر جان دینے سے بدرجہا زیادہ بلند ہے۔ اور اس جذبے کے ساتھ جو شہادت میسر ہو وہ بہت اونچے درجے کی شہادت ہے‘‘۔ رکن مصطفی شوکت عمران (شہید) نے مزید بتایا کہ جب ستمبر 1965ء میں ہندوستان نے کھلی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا، اُس وقت مولانا مودودی نے فرمایا تھاکہ’’پاکستان کا ہر مسلمان اس ملک کو… جو اس برعظیم میں اسلام کا قلعہ ہے اور اس کی پوری زمین ہمارے لیے ایک مسجد کا حکم رکھتی ہے… بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہوجائے۔‘‘
جبکہ ایک دوسرے رکن مجلسِ شوریٰ نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے دلیل دی کہ پاکستان کے برسر اقتدار طبقے نے اپنے طور پر مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس لیے ملک کو بچانے کی آخری ذمے داری بھی مملکت اور سیاسی، انتظامی اور فوجی مشنری پر آتی ہے، ہمیں اس معاملے میں غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ یکسوئی کا عالم یہ تھا کہ اس اجلاس میں ہنگامہ خیز دلائل میں کسی بھی رکن کی جانب سے علیحدگی پسند تحریک کی حمایت میں ایک بھی تجویز نہیں آئی۔ یہ بحث اور اراکینِ شوریٰ کے دلائل چار روز جاری رہے اور بالآخر اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کی قیادت نے اہم فیصلہ کیا جو اس طرح تھا:
’’اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان، سالمیتِ پاکستان اور شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے آگے بڑھے گی۔ مشرقی پاکستان کے شہری دو طاقتوں کے درمیان پس رہے ہیں، جن میں ایک جانب دشمن گماشتے، انتہا پسند ہندو ایجنٹ اور خونیں انقلاب کے علَم بردار کمیونسٹ ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کی سول اور فوجی انتظامیہ میں شامل کئی قسم کے غلط عناصر بھی ہیں۔ ان دونوں طبقوں کے خلاف بیک وقت سرگرم عمل ہونے کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ ہم ایک جانب اسلامی جذبے کے ساتھ دشمن کی طاقت سے میدانِ عمل میں ٹکر لیں اور دوسری جانب طاقت کے قریب پہنچ کر اس کی اصلاح کرنے کی اپنی سی کوشش کریں۔ ہمارا یہ فیصلہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کی جان و آبرو بچانے کا فیصلہ ہے۔‘‘
اس اہم ترین فیصلے کے اعلان کے لیے 14 مارچ کو جامع مسجد ڈھاکا میں اجتماعِ کارکنان طلب کیا گیا۔ اس وقت ڈھاکا کے ناظم سید شاہ جمال (شہید) نے کارکنان سے خطاب کیا اور نہایت دردمندی کے ساتھ تمام دلائل اور بحث کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے آئندہ کی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی تمام کارکنان یکسو ہوگئے کہ ان سب نے اپنے وطن کے لیے ایک عظیم راستے کا انتخاب کیا ہے۔
حوالہ جات:”Blood and Tears”… قطب الدین عزیز
البدر۔ سلیم منصور خالد
(جاری ہے)

حصہ