پاکستانی بیانیہ، ہمارے لیے بہت ضروری ہے ، پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی

329

ڈاکٹر نثار احمد نثار
پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی ، کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے نگران اعلیٰ تھے جو کہ حال ہی میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے سبب ریٹائرڈ ہوئے ہیں تاہم وہ ابھی تک یونیورسٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ایک ماہر تعلیم ہیں اور تشنگانِ علم و فن کو آپ کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر شاداب احسانی ، شعر و ادب کے حوالے سے بھی معتبر مقام و مرتبے کے حامل ہیں ۔ گزشتہ بدھ 10 اکتوبر 2018ء کو 4بجے شام ادارۂ پاکستانی بیانیہ اور پریس کلب کراچی کے اشتراک سے انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی جس کا موضوع تھا’’قومی تشخص اور ترقی کے لیے پاکستانی بیانیے کی اہمیت‘‘۔ پریس کانفرنس کی نظامت زیڈ ۔ ایچ خان زادہ نے کی جب کہ اسٹیج پر شاداب احسانی کے ساتھ احمد خان ملک ( صدر کراچی پریس کلب ) مقصود احمد یوسفی ( سیکرٹری کراچی پریس کلب ) اور رضوان صدیقی رونق افروز تھے ۔رضوان صدیقی نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 5 ماہ سے 20 نشستوں میں ہم نے آج کی پریس کانفرنس کے موضوع پر بہت غور کیا اور یہ طے پایا کہ پاکستانی بیانیہ پر کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی جائے اس سلسلے میں اس ادارے نے ہمارے ساتھ تعاون کیا جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آج سے 71 برس پہلے 20لاکھ افراد کی قربانیوں کے بعد ہمیں پاکستان ملا تھا جس میں ہم آزادی سے اسلامی اور معاشرتی اقدار کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ ملک اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے ۔ یہاں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف قبائل اور قومیں آباد ہیں لیکن اردو ہماری قومی زبان ہے بد قسمتی سے ہم اردو سے دور ہوتے جار ہے ہیں یعنی ہم پاکستانی بیانیے سے رو گردانی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہم مختلف طبقات ب میں بٹ گئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ایک پلیٹ فارم میں جمع ہوں اور پاکستانی بیانیے کو فروغ دیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ پاکستان کے اجتماعی شعور کے حوالے سے بیانیے کی بات کرنا مقصود ہے بیانیہ جسے انگریزی میں Narrative کہتے ہیں اس کا آغاز کہانی کار سے ہوا ۔ کہانی کار کا کہانی میں مؤقف بیانیہ یا Narrative قرار پایا ۔ سماجی اور تاریخی مطالعوں کے غور فکر کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ قوم تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہوجاتی ہے ۔ اسی کو اس قوم کے تاریک عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس بات کا تعلق قومی اور وطنی تشخص سے عبارت ہے ۔ پاکستان بھی تاریک عہد سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان کا قیام ملی تصور پر ہوا جبکہ وطنی تصور کو بیانیے میںا س طرح جگہ نہیں دی گئی جس طرح کہ اس کا حق تھا ۔ دنیا کے تمام ممالک قومی اور وطنی تشخص سے جڑ کر مثالی ترقی کے حامل ہو چلے ہیں اس کی سب سے اعلیٰ مثال امریکا کی آزادی ہے کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اقتدار حاصل کرنے کے لیے انگریزی بیانیے کے زیر اثر پورے ہندوستان کو قابوکرتی جار ہی تھی ۔ امریکا کی نو آبادیات آزادی کی جدو جہد میں برطانوی بیانیے کو یکسر نظر انداز کرنے کے عمل سے دور چار تھی ۔ 1770ء اور 1772ء میں جان ٹرم بل اور فلپ فرینیو کی نظمیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی بھی ملک کی آزادی میں دانشوروں کا کیا کردار ہوتا ہے ۔ مذکورہ دونوں شعراء نے برطانوی بیانیے کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکا میں ہی ملٹن اورشیکسپیئر پیدار ہوں گے ۔ دونوں ممالک کی زبان انگریزی ہے ۔ لیکن بیانیے کے فرق نے امریکن انگریزی کی نا صر ف طرح ڈالی بلکہ امریکا کو سپر پاور بنا دیا ۔ ہمیں اگر پیروی ہی کرنی ہے تو 1776ء والے امریکا کی پیروی کریں ۔ جارج واشنگٹن سے لے کر ابراہم لنکن تک امریکن بیانیہ مستحکم ہو گیا ۔ ابراہم لنکن کے قتل کے بعد بھی امریکن بیانیے کو کوئی زک نہ پہنچی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نیو یارک سے الاسکا کی ساڑھے 14گھنٹے کی فلائٹ ہے اور تب بھی امریکا ایک اکائی کی مانند اپنے بیانیے کے ساتھ سپر پاور کی حیثیت سے موجود ہے ۔
معاملہ جب بیانیہ کا ہو تو زبان ایک ہونے کے باوجود بیانیے میں اختلاف ہو سکتا ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل 1911ء کی مردم شماری پر نظر ڈالیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 29 کروڑ کو 74 ہزار انگریز کس طرح زیر نگیں رکھ سکتے ہیں؟ بیانیے کا معاملہ سمجھ لیا جائے تو با آسانی اندازہ ہو سکتا ہے کہ 29 کروڑ میں دس کروڑ انگریزی بیانیے کیزیر اثر لوگ موجود تھے ۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مائو سے پہلے چین میں چینی زبان تھی لیکن چینی بیانیہ موجود نہیں تھا ۔ یہی مثال انقلاب فرانس اور 1917ء کے روسی انقلا سے بھی دی جا سکتی ہے ۔ یورپ کے Dark Ages سے نکلنے کا قصہ بھی بیانیے سے منسلک ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لاطینی کے زیر اثربیانیے نے یورپ کو جہل اور بد امنی کی آماجگاہ بنایا ہوا تھا ۔ جوں جوں یورپی ممالک اپنے اپنے قومی بیانیے سے منسلک ہوتے گئے اور ان کی زبانیں بھی اس سے جڑتی گئیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ثمرات ان تک پہنچتے گئے ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ سوشل سائنسز کے استحکام کے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ بہر حال آج کی دنیا میں قومی بیانیے کی حامل زبانیں اپنے اپنے خطوں میںترقی کی ضمانت بنی ہوئی ہے ۔
’’ادارہ پاکستانی بیانیہ ، پاکستان‘‘ کی نوعیت ایک ایسے تھنک ٹینک کی ہے جو تمام پاکستانیوں کو اور بالخصوص ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہے کہ پاکستانی جملہ زبانیں پاکستانی بیانیے کی حامل ہو جائیں نیز پاکستان میں سہ لسانی فارمولے کو تعلیم کے لیے رہنما بنا لیا جائے ۔انگریزی کا احوال بھی پاکستانی بیانیے کے زیر اثر آ جائے جس طرح دیگر ممالک انگریزی میں بھی اپنے بیانیے کا خیال رکھتے ہیں اور اگر پاکستانی قوم اور تمام صوبے کسی ایک زبان پر اتفاق کر کے اکائی کی طرح شاہراہِ پاکستان پر چل پڑیں تو یہ مثالی صورت ہو گی ۔
کراچی پریس کلب کے صدر، احمد خاں ملک نے کہا کہ آج قومی Issue پر جو بات کی گئی ہے یہ ہمارے لیے زندگی و موت کا معاملہ ہے ۔ درد دل رکھنے والے اس مسئلے کو آگے بڑھائیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے دست و بازو بنیں ، ہمارا یہ پیغام قومی سطح پر لے جائیں ۔کراچی پریس کلب ادارۂ پاکستانی بیانیہ کے ساتھ ہر ممکن امداد کرے گا ۔

مظہر ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کا سمندری مشاعرہ

سمندری مشاعرہ ایک نئی روایت ہے جس کے تحت مظہر ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن تواتر کے ساتھ کسی ایک معتبر قلم کار کے ساتھ سمندری مشاعرے کا اہتمام کررہی ہے پندرہ شعراء پر مشتمل یہ مشاعرہ پورٹ قاسم کراچی کے سمندر میں ایک کشتی پر ہوتا ہے مشاعرے سے پہلے دو گھنٹے تک تمام شعراء کو سمندر کی سیر کرائی جاتی ہے پھر کشتی لنگر انداز کرکے مشاعرہ شروع ہوتا ہے گزشتہ اتوار مظہر ہانی نے معروف شاعر و نقاد سلمان صدیقی کے اعزاز میں ظہور الاسلام جاوید کی صدارت میں سمندری مشاعرہ منعقد کیا، ممتاز صنعتکار فرحان الرحمان مہمان خصوصی تھے رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس مشاعرے میں صاحب امور، مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، سید فیاض علی فیاض، اختر سعیدی، حجاب عباسی، محمد علی گوہر، راقم الحروف ، احمد سعید خاں، مظہر ہانی، خالد رانا قیصر، افروز رضوی اور اسحاق خاں اسحاق نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ اس موقع پر صاحب صدر نے کہا کہ مظہر ہانی دکھی انسانیت کی خدمت کے علاوہ اردو ادب کے فروغ میں بھی مصروف عمل ہیں۔ ان کے تعلیمی ادارے میں ریڑھی میاںگوٹھ کے لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں جن سے برائے نام فیس لی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ چیری ٹیبل ہسپتال بھی چلارہے ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت سے نوازے انہوں نے مزید کہا کہ سمندری معاشرہ بہت پر لطف تجربہ ہے اور آج بہت اچھا کلام سننے کو ملا۔ آج کے صاحب اعزاز سلمان صدیقی، ہمہ جہت شخصیت ہیں اور ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ مظہر ہانی نے انتہائی محنت و جانفشانی سے اپنے اداروں کو ترقی دی ہے ان کی خدمات سنہرے حرف سے لکھی جارہی ہیں۔ یہ علم و ادب کی خدمت بھی کررہے ہیں اور مخلوق خدا کے کام بھی آرہے ہیں۔ صاحب اعزاز نے کہا ہے کہ وہ مظہر ہانی آرگنائزیشن کے ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے میرے اعزاز ایک شاندار سمندری مشاعرہ منعقد کیا۔ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے کہا کہ سلمان صدیقی اردو ادب کے اہم قلم کاروں میں شامل ہیں۔ ان کی غزلوں میں زندگی رواں دواں ہے یہ معاشرتی حقائق بیان کرتے ہیں۔ انکے کئی اشعار زبان زد عام ہیں۔ یہ جدید لفظیات و خوصورت استعاروں سے اپنی شاعری کو آگے بڑھارہے راقم الحروف ے کہا کہ سلمان صدیقی ایک بہترین نظامت کار، کھرے اور سچے نقاد ہیں۔ انہوں نے میٹرو ون ٹی وی پر بحیثیت ٹی وی اینکر گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے انترویوز عنقریب کتابی شکل میں شائع ہونے والے ہیں ان کے افسانے زیر طبع ہیں اس کے علاوہ یہ متعدد ادبی انجمنوں کے عہدیداران میں شامل ہ یں ان کی اپنی ادبی تنظیم دراک بھی کافی فعال ہے نقادان علم و فن ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ مظہر ہانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی آرگنائزیشن کے تحت اندرون سندھ بھی عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ ان کا ادارہ کسی بھی شاعرہ کی بیٹی کے لیے پچاس ہزار سو روپے کا جہیز دینے کا اعلان کرتا ہے اس کے علاوہ بھی ہم ہر ممکن امداد کے لیے تیار ہین۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک شاعر ہیں مشاعرہ کرانا ان کا شوق ہے ہم محفل مشاعرہ میں آکر سکون محسوس کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ذخیرہ الفاظ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مشاعرے ہماری تہذیبی اقدار کا حصہ ہیں اور ہر زمانے میں یہ ادارہ کسی نہ کسی انداز میں زندہ رہتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم قلم کاروں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دیں۔

ادارۂ فکر کے زیر اہتمام محفل مسالحہ

کراچی کی ادبی تنظیموں میں ادارۂ فکر نو کراچی کے کریڈٹ پر شان دار تقریبات ہیں یہ ادارہ علمی و ادبی پروگرام آرگنائز کرتا رہتا ہے اس ادارے کے تحت گزشتہ اتوار، فیضان رحیم کی رہائش گاہ پر محفل مسالمہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت آصف رضا رضوی نے کی، سید خالد حسن رضوی، مہمان خصوصی، فیاض علی فیاض، مہمان اعزازی تھے جب کہ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحب خانہ فیضان رحیم نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں ادارۂ فکر نو کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہوں کیونکہ میں علم و ادب کے فروغ میں دلچسپی رکھتا ہوں ان شاء اللہ میرے غریب خانے پر، ادبی محفلیں ہوتی رہیں گی، میری کوشش ہوگی کہ ہر پروگرام میں شعر و ادب کی معتبر شخصیات ہمارے درمیان رونق افروز ہوں۔ انور انصاری نے کلمات تشکر ادا کیے اس موقع پر انہوں نے ادارۂ فکر نو کے اغراض و مقاصد پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ادارۂ فکر نو کے روح رواں اختر سعیدی نے کہا کہ بھائی نور احمد میرٹھی، میرے اساتذہ میں شامل تھے کہ میں نے ان سے نثر لکھنی سیکھی ہے وہ ایک عظیم محقق و نقاد ہونے کے علاوہ ایک بہترین انسان تھے ہم ان کی روشن ہوئی شمع ادارۂ فکر نو کے تحت، جہالت کی تاریکیوں میں علم و عمل کی روشنی پھیلا رہے ہیں ہمارے ارادے نیک ہیں اور ہم اپنی مدد آپ کے اصول پر کاربند ہیں ہماری ترقی کا سفر جاری ہے، علم دوست شخصیات کی سرپرستی میں شعر و ادب کی آبیاری ہو رہی ہے۔ صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کا اہم جز ہے۔ امام حسین نے غاصب و ظالم حکمران کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے اپنی اور اپنے رفقاء کار کی شہادتیں پیش کین جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم باطل کے آگے نہ جھکیں اور حق و صداقت کے لیے اپنی جان و مال بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کریں کہ یہ عین اسلام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رثائی ادب میں واقعات کربلا کی تمام تفصیلات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ذکر حسین جاری ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ جو لوگ ذکر حسین کی محفلیں منعقد کرتے ہیں وہ قابل ستائش ہیں ادارۂ فکر نو کی محفل مسالمہ بیت کامیاب ہے اور سامعین کی کثیر تعداد کی موجودگی اس بات کی گواہی ہے کہ لانڈھی کورنگی میں اہل ذوق موجود ہیں۔ اس محفل مسالمہ میں صاحب صدر، مہمان خصوسی، مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ پروفیسر اوسط جعفری، اختر سعیدی، سلیم فوز، انور انصاری، محمد علی گوہر، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، احمد خیال، مقبول زیدی، یوسف چشتی، گل انور، عزیز الدین خاکی، اطہر چشتی، محسن سلیم، عاشق شوکی، عارف شیخ عارف، زبیر صدیقی اور فخر رضا فخر نے شہداء کربلا کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔

حصہ