میرا نام مریم ہے

281

فارحہ شبنم (کینیڈا )
(دوسری قسط)
واپسی پر ہم باہر نکلنے لگے تو دروازے سے نکلتے ہی سورج کی نرم اور گرم روشنی نے استقبال کیا۔ میں آخری مرتبہ عمارت کو دوبارہ دیکھنے کے لیے پلٹی۔ اسی وقت میری نگاہ دروازے کے اوپر کندہ تحریر پر پڑی جو جانے کیسے داخل ہوتے ہوئے دیکھنے سے رہ گئی تھی۔ خوبصورت طرز میں لکڑی کے تختے کے اوپر سنہری دھات سے یہ الفاظ درج تھے :
’’اگر تمھاری زندگی مشقت اور تکالیف کے بوجھ سے دُہری ہورہی ہے تو میرے پاس آئو ۔ میں تمہیں آرام دوں گا۔ تمھاری بے چین بلکتی روح کو امن اور سکون عطا کروں گا۔‘‘ (میتھیو، چیپٹر 11 نمبر28)
میں تحریر پر نظریں جمائے اردگرد کی رونق سے بے پروا اس کے الفاظ کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کررہی تھی جب مجھے دور سے پیٹرک کی آواز آئی ’’میری این، آ بھی جاؤ‘‘۔ میں چونک کر پلٹی اورہجوم کے درمیان جگہ بناتے تیز تیز قدموں سے پیٹر تک پہنچنے کے لیے آگے بڑھ گئی۔ باہر مارکیٹ میں لگے اسٹال پر دوسری چیزوں کے ساتھ بائبل بھی رکھی تھی۔ مجھے دروازے کے اوپر کندہ تحریر یاد آئی اور میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کو اٹھالیا، مگر پیٹرک نے کہا کہ بابا کی لائبریری میں مجھے بائبل ضرور مل جائے گی اس لیے خریدنے کی ضرورت نہیں۔ بابا کو واقعی میں نے ہر صبح بائبل پڑھتے دیکھا تھا مگر میں نے خود پہلے کبھی اس کو پڑھنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ آج نہ جانے کیتھڈرل کے ماحول کا اثر تھا یا اس سال کے کورس میں کرسچینٹی اور اس کی تعلیمات پر مشتمل چیپٹر کی تیاری کی وجہ سے دلچسپی محسوس ہورہی تھی۔ اگلے چند دن ایسے ہی سیر وتفریح میں گزر گئے اور پیٹرک کی واپسی کا دن آگیا۔
’’واہ بھئی۔ آج تو ٹیبل پر بڑی رونق ہے۔ ماما، لگتا ہے آپ نے کوئی میڈ رکھ لی ہے۔ لیکن میڈ کو میری پسندیدہ ڈش بیف گلاش کے بارے میں کیسے پتا چل گیا!‘‘ پیٹرک نے جان بوجھ کر مجھے تنگ کرنے کے لیے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے ماما سے کہا۔
لیکن میں اب اس کی شرارتوں کو سمجھ چکی تھی، لہٰذا ماما سے پہلے ہی بول اٹھی ’’صرف بیف گلاش نہیں، میڈ نے فرائیڈ چیز بھی خاص تمھارے لیے بنائی ہے۔ لیکن پیٹرک! تم کچھ دن اور نہیں رک سکتے؟ کتنا مزہ آیا تمھاری ان چھٹیوں میں‘‘۔ میں نے بالآخر اس کی واپسی پر دل میں موجود افسردگی کو زبان پر لاتے ہوئے کہا۔ میری اتری شکل دیکھ کر اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ جلد ہی دوبارہ چکر لگائے گا۔
پیٹرک کے جانے کے بعد کچھ دن تو گھر سمیٹنے میں ہی لگ گئے۔ اس کے بعد میں نے لائبریری سے سب سے پہلے بائبل نکال کر پڑھنا شروع کی۔ پہلی دفعہ پڑھی تو بڑی fascinating لگی، اور میں نے دو تین دن میں پوری ختم کرڈالی۔ بابا بھی دیکھ کر خوش تھے کہ میں بائبل پڑھ رہی ہوں۔ مگر کچھ وقفے کے بعد دوبارہ پڑھنی شروع کی تو میرا دل مطمئن ہونے کے بجائے بے چینی محسوس کرنے لگا۔ لگتا تھا کہ کچھ ہے جو صحیح نہیں ہے۔ کہیں تو اس کے اندر بیان کردہ باتوں میں تضادات تھے اور کہیں اس کی تعلیمات اور ہمارے عمل میں۔ میں نے اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے ویب سرچ شروع کی۔ معلومات کا ایک انبار تھا جس کو میں جتنا زیادہ تفصیل سے دیکھتی اتنا ہی میری بے چینی میں اضافہ ہوتا جاتا، اورساتھ ہی سچ جاننے کی جستجو بڑھتی جاتی۔ بائبل کے مواد میں پائے جانے والے تضادات، تاریخی لحاظ سے بائبل کی حفاظت پر شکوک و شبہات، یسوع مسیح کے بارے میں دی گئی معلومات اور ان کے اقوال… ان سب حوالوں سے میں نے خاصا مطالعہ کیا۔ ان ہی موضوعات پر ڈھونڈتے اور پڑھتے میں نے آہستہ آہستہ عیسائیت کے علاوہ دیگر مذاہب بشمول یہودیت، اسلام اور بدھ ازم کے بارے میں بھی پڑھنا شروع کردیا۔ انٹرنیٹ پر اتنی معلومات تھیں کہ میں بابا کی لائبریری کو بھول ہی گئی۔ اسی دوران ایک دن میں نے فیس بُک پر بہت عرصے بعد دوبارہ log in کیا اور مختلف گروپس کی فیڈ دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ اچانک مجھے میوزک گروپ کے کومنٹس میں ایک مسلم یا شاید عربی نام کا بندہ نظر آیا۔ میں ویسے بہت کم گو اور ان سوشل تھی، مگر اس روز میرے دل میں جانے کیا آیا کہ میں نے اس بندے کو پرائیویٹ میسج کیا:
’’کیا تم مسلم ہو؟‘‘ میسج بھیجنے کے بعد میرا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ مجھے اپنے کانوں میں اس کے دھڑکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لگتا تھا کہ گویا جواب لکھنے کے بجائے وہ بندہ خود اسکرین سے نکل کر باہر آجائے گا۔ کئی لمحے تک انتظار کرنے کے باوجود کوئی جواب نہ آیا۔ جب دل کی دھڑکن قابو میں آئی تو میں نے سوچا کہ آخر یہ میں کیا کررہی ہوں؟ میں اسلام میں کیوں دلچسپی لے رہی ہوں؟ کیا میں عیسائیت کو چھوڑنے کا فیصلہ کرسکتی ہوں؟ میرے ذہن میں فی الحال ان سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔ تاہم ایک بات میں خوب اچھی طرح جانتی تھی، اور وہ یہ کہ میں ایک مضبوط قوتِ ارادی کی مالک ہوں اور وہی قبول کروں گی جسے میرا ذہن اور دل مانے گا۔ اندھی پیروی اور منافقت میرے بس سے باہر تھی۔ میں گزشتہ کچھ عرصے سے اسی کشمکش کا شکار تھی اور میرا ذہن بہت منتشر تھا۔ میں مطالعے اور غور و فکر کے ساتھ ساتھ مسلسل آسمانی باپ سے بھی دعا کررہی تھی کہ وہ حق کو میرے سامنے واضح کردے اور صحیح راستے کی طرف میری رہنمائی کرے۔ میں انھی سوچوں میں گم تھی کہ اسکرین پر حرکت محسوس ہوئی۔ دیکھا تو لکھا تھا:
’’ہاں‘‘۔
جواب مختصر مگر ظاہر ہے مکمل تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ شاید وہ پوچھے گا کہ میں کیوں جاننا چاہتی ہوں؟ مگر اس کی طرف سے خاموشی تھی لہٰذا مجبور ہوکر میں نے لکھا:
’’کیا تم مجھ کو اسلام کے بارے میں کچھ معلومات دے سکتے ہو؟‘‘ اس دفعہ پھر جواب کے لیے انتظار کرنا پڑا۔ بالآخر یہ الفاظ اسکرین پر نظر آئے:
’’میں تم سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا۔ میں کوئی باعمل مسلم نہیں ہوں، اس لیے بہتر ہے کہ اس لنک پہ جاکر خود قرآن پڑھ لو‘‘۔ ساتھ ہی اس نے لنک دے کر گویا مجھ سے جان چھڑائی۔ میں نے اسی وقت کاپی کرکے دوسری ونڈو کھولی اور لنک پیسٹ کردیا۔ اتفاق سے میں نے اب تک اسلام کے بارے میں کچھ معلومات تو نیٹ سے حاصل کرلی تھیں لیکن قرآن پڑھنے کا مجھے خیال نہیں آیا تھا۔ یہ مجھے بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ معلومات بھی بہت حد تک غلط بیانی پر مشتمل تھیں۔ جلد ہی میرے سامنے عربی میں قرآن اور اس کا انگریزی ترجمہ کھل گیا۔ اگلے کئی دن میں نے اس کے مطالعے میں لگا دیے۔ جیسے جیسے میں قرآن پڑھتی جاتی، مجھے ایسا محسوس ہوتا گویا میرے دل و دماغ پر چھائی دھند دور ہورہی ہے۔ مجھے یہ پہچاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ یہی وہ حق ہے جس کی تلاش میں میرا دل بے چین تھا۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے مزید معلومات کی ضرورت محسوس ہوئی اور میں نے آن لائن جاکر مختلف سوالات کے جوابات تلاش کرنے شروع کردیے:
مسلم نماز کیسے پڑھتے ہیں؟ روزہ کیسے رکھتے ہیں؟ مسلم کھانا کیا کھاتے ہیں؟ لباس کیسا پہنتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں نہیں جانتی کہ میں اس وقت مسلم تھی یا نہیں، مگر جیسے جیسے مجھے معلومات ملتی جاتیں، میں اس پر اپنے تئیں عمل کرنے کی کوشش کرتی۔ جب میں نے کھانے پینے میں احتیاط شروع کی تو ماما ٹھٹھک گئیں، مگر میں نے کہہ دیا کہ میں آج کل vegan dietپر ہوں۔ تاہم میز پر رکھی شراب اور ناپاک گوشت دیکھ کر اندر تک میرے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ اسلام میں خواتین بال چھپانے کے لیے اسکارف پہنتی ہیں تو میں نے اپنی الماری سے ایک پرانا اسکارف نکال کر پہننا شروع کردیا۔ ماما نے اس دفعہ کوئی خاص اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ میرا وقتی شوق ہے اور کچھ دن گزرنے پر میں بور ہوکر یہ سب چھوڑ دوں گی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اسلام قبول کرسکتی ہوں۔ دراصل ہمارے ملک میں مسلمان نہ صرف تعداد میں انتہائی کم تھے بلکہ انتہائی درجے کی منافرت کا شکار تھے۔ اگر کوئی اتفاق سے چلتا پھرتا نظر بھی آجاتا تو لوگوں کی نظروں اور انداز سے گھبرا کر جلد ہی غائب ہوجاتا۔ اور کبھی نوبت چھوٹے موٹے جھگڑے تک پہنچ جاتی تو اخبارات اور ٹی وی پر بھی اسلام کے خلاف بڑھ چڑھ کر پروپیگنڈا کیا جاتا۔ تاہم آج نہیں تو کل مجھے اپنے گھر والوں کو بتانا ہی تھا… اور صحیح وقت کے انتظار تک خاموشی بہتر تھی۔
زیادہ مسئلہ اُس دن کھڑا ہوا جب گریڈ نائن کا آغاز ہوا اور میں اسکارف پہن کر اسکول گئی۔ پہلے پہل تو سب نے اس کو میرا شوق سمجھ کر نظرانداز کردیا ۔ لیکن جب میں مستقل مزاجی سے پہنتی رہی تو بالآخر میری ٹیچر نے بلا کر مجھے اسکارف پہننے سے سختی سے منع کیا۔ میں نے اس کو سیریس نہ لیا تو انہوں نے میرے گھر نوٹس بھیج دیا کہ اگر میں نے اسکارف لینا نہ چھوڑا تو وہ مجھے اسکول سے نکال دیں گے۔ یہ خبر بابا تک بھی پہنچی۔ انہوں نے ماما سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکول سے دوبارہ شکایت نہ آئے۔ میں ابھی تک اسلام کا نام لیے بغیر صرف اپنی پسند کو بنیاد بناکر یہ سب defend کررہی تھی۔ ماما کی نگرانی سے بچنے کے لیے میں نے ہوڈی سے سر ڈھانپ کر اسکول جانا شروع کردیا۔ اور چند دن کے بعد جب سب عادی ہوگئے تو آہستہ آہستہ ہوڈی کے اندر اسکارف پہننا شروع کیا۔ تھوڑے دن مزید گزرے تو ٹیچر کی توجہ دوسری چیزوں کی طرف ہوگئی یا شاید انہوں نے میری دعاؤں کے طفیل مجھ سے الجھنے کے بجائے نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ اسکول میں میری کوئی زیادہ دوستیں نہ تھیں۔ ویسے بھی میں مزاجاً تھوڑا لیے دیے رہنے والی لڑکی تھی جو خود میں ہی مگن رہتی تھی۔ مجھے آگے بڑھ کر دوسروں سے باتیں کرنے، یا دوسروں کی توجہ کا مرکز بننے سے گھبراہٹ ہوتی تھی۔ لہٰذا مجھے ٹیچرز اور پرانی دوستوں کی طرف سے اجنبیت اور دوری کی ایک نئی اور غیر مرئی دیوار کے سوا اور کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوئی۔ البتہ اسکول سے باہر دو تین مرتبہ راہ چلتے لوگوں نے مجھے برا بھلا کہتے ہوئے میرا اسکارف کھینچنے کی کوشش کی، جس سے گھبرا کر میں دوبارہ ہوڈی کے ذریعے سر ڈھانکنے لگی۔
دن ایسے ہی گزر رہے تھے اور مجھے اندازہ نہ تھا کہ میں کب تک یہ سب چھپا سکوں گی اور کیسے اسلام پر زیادہ صحیح اور مؤثر انداز میں عمل کرسکوں گی۔ اسی فکر میں انٹرنیٹ پر ہی تلاش کے ذریعے مجھے ایک ایسا آن لائن گروپ مل گیا جہاں کچھ لوگ قرآن سکھا رہے تھے۔ میں نے وہ گروپ جوائن کرلیا۔ یہاں مجھے باقاعدہ کلمہ شہادت پڑھایا گیا اور میں نے اپنے لیے مریم نام پسند کیا۔ اسی گروپ میں میں نے سورہ الفاتحہ پڑھنا سیکھنی شروع کی- یہ میرے لیے خاصا مشکل مرحلہ تھا۔ ایک نیا رسم الخط اور نئے حروفِ تہجی زبان پر چڑھنے میں بڑی دقت درپیش رہی۔ بہت مشقت اور محنت کے باوجود کوئی قابلِ ذکر کامیابی نظر نہیں آرہی تھی۔ جو کچھ بھی سیکھتی اگلے دن ایسا لگتا کہ جیسے دوبارہ زیرو سے اسٹارٹ کررہی ہوں۔ میں دل میں آنے والی مایوسی کا مقابلہ کرتے ہوئے بڑی مشکل سے اس گروپ کے ساتھ لگی رہی۔ تاہم یہاں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں میرے سوالات کے جو جوابات ملے ان سے میرا ذہن مزید کھلا اور دل کے اطمینان میں بھی اضافہ ہوا۔ اپنے استاد کے بہت ہمت دلانے پر بالآخر ایک دن میں نے حوصلہ کرکے اپنے والدین کو قبولِ اسلام کی خبر دے ہی دی۔ آج بھی کبھی وہ وقت یاد آتا ہے تو میرا دل بھر آتا ہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ یہ آنسو بیک وقت اسلام جیسی عظیم نعمت کو پانے کی خوشی کے بھی ہوتے ہیں اور اپنے عزیز از جان ماں باپ کی اس رحمت سے دوری بلکہ اس کے لیے نفرت کے جذبات پر رنجیدگی کے بھی ہوتے ہیں۔
جب میں نے اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں اپنے والدین کوبتایا تو پہلے پہل تو ان کو یقین ہی نہیں آیا اور وہ اسے میرا مذاق سمجھ کر نظرانداز کرتے رہے۔ پھرجب میں نے وقتاً فوقتاً ان کو اسلام کی سچائی کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تو وہ اسے میری بے وقوفی سمجھ کر الٹا مجھے سمجھانے کی کوشش میں لگے رہے اور عیسائیت کی حقانیت پر مجھے سبق دینا شروع ہوگئے۔ لیکن جب ان کو میرے مدلل جوابات سے اندازہ ہوا کہ میں واقعی سنجیدہ ہوں اور سوچ سمجھ کر بول رہی ہوں تو وہ نتیجتاً انتہائی غصے، صدمے اور غم کا شکار ہوکر مجھ سے سخت ناراض ہوگئے اور بات چیت تک بند کردی۔ میرے پیارے بابا جن کی صبح مجھے دیکھے بغیرنہ ہوتی تھی، اب مجھ سے بات کرنا تو دور کی بات میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ میں بہانے بہانے سے اُن کے آگے پیچھے پھرتی۔ اُن کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی، مگر وہ میری طرف نظر تک نہ اٹھاتے۔ میرا دل اُن کے اس رویّے سے کٹ کر رہ جاتا۔
اس دن بھی میں اسکول جانے سے پہلے صبح صبح اُن کی پسندیدہ کافی بناکر لائبریری میں لے کر گئی۔ وہ حسبِ عادت کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔
’’بابا! کافی‘‘۔ میں نے ہمت پکڑتے ہوئے کہا۔ ان کی نظریں بدستور اپنی کتاب پر تھیں۔ وہ جان بوجھ کر مجھے نظرانداز کررہے تھے۔ میں نے آنکھوں میں آنے والی گیلے پن اور گلے میں پھنسنے والے گولے کو نگلتے ہوئے بدقت تمام دوبارہ نسبتاً بلند آواز میں انہیں پکارا:
’’بابا !… بابا! آپ کے لیے کافی لائی ہوں۔‘‘
’’مجھے کافی کی طلب نہیں‘‘۔ وہ میری طرف دیکھے بنا بولے۔ میرے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ وہ تو میرے ہاتھ کی کافی فرمائش کر کرکے پیتے تھے۔ ان کے بدلے ہوئے رویّے پر تلخی محسوس کرتے ہوئے میرے قدم لائبریری سے بھاگنے کے لیے تیار تھے، مگر میرا بے تاب دل بابا کی اس بے رخی کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ میں نے بمشکل گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا ’’بابا! آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘ (جاری ہے)

اعتزار

پچھلے ہفتے حریم ادب کی روداد پر لکھنے والے کا نام لکھا نہیں گیا تھا۔ جس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ حریم ادب کی روداد محترمہ فرحی نعیم صاحبہ نے تحریر کی تھی۔

حصہ