قرب

361

سیدہ عنبرین عالم
’’(مومنو) جب تک تم ان چیزوں کو جو تمہیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہیں کرو گے، کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ آل عمران، آیت 92)
سرجن حبیب سجاد ملک کے مایہ ناز ہارٹ سرجن تھے اور ماہانہ کروڑوں کی آمدنی تھی، اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنی دولت میں اضافے کے لیے جستجو کرتے رہتے تھے۔ ان کے صرف دو بچے تھے، بیٹا اطہر اور بیٹی ثنا۔ اطہر 18 سال کا تھا۔ گوری رنگت، لمبا چوڑا، بھوری آنکھیں… بالکل شہزادہ لگتا تھا۔ وہ اپنی دنیا میں مگن تھا اور آرمی میں جانا چاہتا تھا، اس لیے اپنی صحت اور جسم کی مضبوطی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ 14 سالہ ثنا کا رنگ دبتا ہوا، انتہائی دبلی اور صحت بھی خراب ہی رہتی تھی مگر فیشن کا بھرپور خیال رکھتی تھی۔ سجاد صاحب کی بیگم شمع ناز بھی پیشے کے اعتبار ڈاکٹر تھیں مگر ڈاکٹر حبیب کے پائے کی نہیں، بس چھوٹا موٹا کلینک تھا، 300روپے فیس لیتیں، پھر بھی دن بھر میں 7 سے 8 ہزار کما لیتیں۔ اس کے علاوہ گھر میں حبیب صاحب کی والدہ رہتی تھیں۔ حبیب صاحب کی والدہ نے ہی انہیں آگے تعلیم دلائی، ان کے بچے سنبھالے اور کھانا پکانے سے لے کر ہر کام کی تربیت شمع بیگم کو دی، اور شمع بیگم نے بھی ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، اور ان کی ہر بات کو اہمیت دی۔
آج کل گھر میں ایک تنازعے نے جڑ پکڑی ہوئی تھی۔ اطہر انٹر میں پاس ہوچکا تھا اور پاک آرمی میں اپلائی کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بچپن سے ہی اس خواہش کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا۔ بھارت، افغانستان، ایران وغیرہ کی خارجہ پالیسی پر اس کی غیر معمولی نظر تھی۔ امریکا، انگلینڈ، ناٹو وغیرہ کی افواج اور ہتھیاروں کی تفصیلات اسے ازبر تھیں، حتیٰ کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کے نقشے تک اس نے جمع کررکھے تھے۔ روز جمنازیم جانا، پانچوں وقت کی نماز پڑھنا، مختلف اخبارات کا مطالعہ، قرآن کی باترجمہ تلاوت اس کا معمول تھا۔ یعنی زندگی بھر اس نے صرف پاک آرمی میں جانے کی تیاری کی تھی، اب جب یہ وقت سر پر آن پہنچا تو شمع بیگم کا کلیجہ منہ کو آتا تھا، کیسے اکلوتے بیٹے کو ایسی فوج میں بھیج دیتیں جس میں روز دو چار لوگ شہید ہوجاتے ہیں۔ حبیب صاحب کا دل بھی دھک سے رہ گیا جب اطہر نے ایپلی کیشن بھیجنے کا اعلان کیا۔ بس ایک دادی اطہر کے حق میں تھیں اور اس کا ساتھ دے رہی تھیں، اور پہلی بار ساس بہو کے تعلقات اس مسئلے کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے۔
بیگم شمع: آپ کا بیٹا تو آپ کی نظروں کے سامنے ہے، کروڑوں کما رہا ہے، آپ کو کیا پروا؟ میرے بیٹے کو آپ قربانی کا بکرا بنانا چاہ رہی ہیں، میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔
دادی: بیٹا! اللہ سے ڈرو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، ہر ایک نے جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لیا۔ یہ تو خوش قسمتی ہے، جنت میں جانے کا شارٹ کٹ ہے۔
بیگم شمع: تو آپ نے اپنے بیٹے کو نیکی کمانے آرمی میں کیوں نہیں بھیجا؟ انہیں تو امریکا بھیج دیا تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور زیادہ سے زیادہ کمائیں۔
دادی: وہ بچپن سے ڈاکٹر ہی بننا چاہتا تھا، میں اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتی تھی، اور ہفتے میں 4 بائی پاس آپریشن وہ مفت کرتا ہے غریب مریضوں کے، یہ بھی نیکی ہے۔
بیگم شمع: اماں! مجھے اپنے بیٹے کی خوشیاں بہت عزیز ہیں، میں اسے آرمی میں نہیں بھیجوں گی۔
جہاں بیگم شمع کی اپنی ساس سے روز کی جھڑپیں جاری تھیں وہیں اطہر سے بھی روز تلخ جملوں کا تبالہ ہوتا۔ وہ کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کی ورزشیں اور مطالعہ مزید بڑھ گیا تھا، کھانے پینے کا بھی خاص خیال رکھنے لگا تھا۔ حبیب صاحب خاموش تھے، بیٹے کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شمع بیگم ہی مسئلے کو حل کرلیں تو اچھا ہے۔ مگر جب ایک روز اطہر سامان باندھنے لگا اور بتایا کہ اسے آرمی میں بلایا ہے تو حبیب صاحب کی جان ہی نکل گئی اور بیگم شمع تو رونے بیٹھ گئیں۔ اس قدر ہنگامہ ہوا کہ دادی نے اطہر کو روک لیا ’’بیٹا اگر چار پانچ دن کا ٹائم ہے تو رک جائو، آخری دن چلے جانا۔‘‘
’’دادی! آٹھ دن کا ٹائم ہے، مگر یہ لوگ مجھے جانے نہیں دے رہے، پہلا موقع ہی دیکھ کر چلا جائوں تو بہتر ہے ورنہ نہیں جاسکوں گا۔ شہادت میری منتظر ہے، دادی مجھے جانے دو۔‘‘ اطہر نے نم آنکھوں سے التجا کی، وہ جلدازجلد جانے کے لیے بے تاب تھا۔
’’بیٹا تین دن رک جائو، اللہ بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت نکالے گا۔‘‘ دادی نے درخواست کی۔
اطہر اپنا سارا سامان لے کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔
ثنا اپنی کسی دوست کی سالگرہ میں جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ ٹخنوں سے اوپر تنگ پاجامہ، گھیردار فراک، دوپٹہ کی ضرورت محسوس نہیں کی، بال اتنے اسٹائلش کٹوائے تھے کہ ثنا کا سوکھا منہ بھرا بھرا لگنے لگا اور منوں میک اَپ تھوپنے کے بعد وہ اچھی خاصی گوری اور حسین لگنے لگی تھی۔
’’بیٹا دوپٹہ تو اوڑھ لو، تمہارے فراک کا گلا بہت بڑا ہے۔‘‘ دادی نے ٹوکا۔
’’دادی! آپ کا دور چلا گیا، اب یہی فیشن ہے۔‘‘ ثنا نے اترا کر کہا اور بال درست کرنے لگی۔
’’بیٹا! تمہارا دور ہو یا ہمارا دور ہو، مرنا ہمیں بھی ہے، مرنا تمہیں بھی ہے۔ اللہ کے احکام جو میرے لیے ہیں وہ تمہارے لیے بھی ہیں۔ اللہ کو جواب میں بھی دوں گی، تم بھی دو گی۔ فرق تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلمان تم بھی ہو، میں بھی ہوں۔‘‘ دادی نے جواب دیا۔
ثنا کچھ پشیمان سی نظر آئی ’’مگر دادی! مجھے ایسے تیار ہونا اچھا لگتا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگی۔
’’اچھا بیٹا! یہ بتائو قربانی کا لفظ کہاں سے آیا؟‘‘ دادی نے ثنا سے پوچھا۔
’’پتا نہیں دادی! بقرعید پر بکرے کاٹنے کو قربانی کہتے ہیں شاید۔‘‘ ثنا نے جواب دیا۔
دادی ہنس پڑیں ’’نہیں بیٹا! قربانی کا لفظ قرب سے نکلا ہے۔ آپ کو جس کی بھی قربت حاصل کرنی ہو اس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ ماں بچے کے لیے اپنی نیند خراب کرتی ہے، محنت کرتی ہے، گندگی صاف کرتی ہے، تو اس قربانی کے بدلے بچہ اپنی ماں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح جب تک ہم اللہ کی راہ میں قربانی نہیں دیں گے ہمیں اللہ کا قرب حاصل نہیں ہوگا۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے سمجھایا۔
’’ہاں جیسے نماز کے لیے ٹھنڈ میں وضو کرنا، روزے میں بھوکے پیاسے رہنا، قربانی اور زکوٰۃ میں پیسے خرچ کرنا… یہ سب قربانیاں دو تو اللہ راضی ہوتا ہے۔‘‘ ثنا نے کہا۔
دادی مسکرائیں ’’یہ تو میری بیٹی نے بالکل ٹھیک کہا، لیکن اور بھی قربانیاں ہیں جیسے میری ثنا اتنی خوب صورت ہے، اس کا دل چاہتا ہے کہ لوگ اس کی خوب صورتی کو دیکھیں اور سراہیں، مگر آڑے آجاتا ہے اللہ کا حکم۔ اللہ نے حکم دیا ہے پردے کا اور سادگی کا، تو جب میری ثنا اللہ کا حکم مان کر اپنی خواہش کی قربانی دیتی ہے تو بھی اللہ بہت خوش ہوتا ہے اور ثنا کا دل اللہ سے قریب ہوجاتا ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا۔
ثنا پریشان سی ہوگئی ’’دادی آپ کو پتا ہے کہ میں خوب صورت نہیں ہوں، بغیر میک اَپ کے تو بالکل ماسی لگتی ہوں، کوئی میرا دوست نہیں بنے گا۔‘‘ اس نے اصل بات بتائی۔
’’بیٹا جو اللہ کے قریب ہوتا ہے وہ بہت بڑے مقام پا جاتا ہے۔ بس اللہ کو راضی رکھو، انسانوں کو تم کبھی راضی نہیں رکھ سکتیں۔ حضرت بلالؓ خوب صورت نہیں تھے مگر اللہ نے ان کو ایسا مقام دیا جو حسین سے حسین شخص کی قسمت میں نہیں‘‘۔ دادی نے کہا۔
’’یعنی اللہ کو راضی رکھنے کے لیے قربانی دینا ضروری ہے۔‘‘ ثنا نے کہا۔
’’ہاں بیٹا، لا الٰہ الااللہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اللہ سے زیادہ نہ کسی سے محبت کرتے ہیں نہ اللہ کے سوا کسی کی اطاعت کرتے ہیں، اور جو کچھ ہمارے پاس ہے اس میں سے کچھ بھی ہمیں اللہ سے زیادہ عزیز نہیں، اس لیے ہم اللہ کی راہ میں ہر قربانی دے سکتے ہیں۔ بس اللہ، اور کچھ نہیں…کچھ نہیں بس اللہ۔ یہ ہے اصل اسلام‘‘۔ دادی نے سمجھایا۔
بیگم شمع دروازے کے پیچھے کھڑی دادی پوتی کی ساری گفتگو سن رہی تھیں۔ ان کی ساس نے ہمیشہ کی طرح آج بھی انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دی تھی۔ وہ اب فیصلہ کرچکی تھیں ’’ہاں میں بھی قرب حاصل کروںگی، میں بھی قربانی دوں گی۔ کچھ نہیں، بس اللہ، کچھ نہیں بس اللہ، لا الٰہ الااللہ‘ لا الٰہ الا اللہ۔ اطہر ضرور آرمی میں جائے گا، میرا بیٹا حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ کے ساتھ قیامت کے روز کھڑا ہوگا اور اس روز میرا سر فخر سے بلند ہوجائے گا۔‘‘ انہوں نے سوچا۔
چند ہی دنوں میں اطہر آرمی کے وسیع میدانوں میں پریڈ اور نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا۔ تھوڑا کمزور ہوگیا تھا اور رنگ بھی دھیما پڑ گیا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، امید تھی اور خوشی تھی… خدا کو پالینے کی خوشی۔ وہ کامیاب ہوگیا تھا۔
’’نیک عمل کرنے والوں کا خوب بدلا ہے، جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں۔ اور بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق اٹھائے ہوئے نہیں پھرتے، اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی۔ وہ سب سنتا ہے اور سب علم رکھتا ہے۔‘‘ (سورۃ العنکبوت۔ 58تا60)
قارئین! ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ اللہ کا قرب حاصل کرے، برگزیدہ بندہ بن جائے، جنت کی سلطنت اس کی ہو۔ مگر ہم اللہ سے پیار کرنے کو تیار نہیں ہیں، ایسا پیار کہ ہر محبت اس کے آگے ہیچ ہو۔ یہ ہے لا الٰہ الا اللہ۔ آپ کی زندگی میں اللہ کے سوا کسی کی اہمیت نہ ہو، آپ حقوق بھی ادا کریں تو اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے۔ آپ اللہ کی مخلوق سے بھی محبت کریں تو اس لیے کہ اللہ راضی ہوجائے۔
اللہ کو منانا بہت ضروری ہے، ورنہ ہم ہار جائیں گے اس جنگ میں جو ہمارے اور ابلیس کے درمیان روزِ اوّل سے جاری ہے۔ اللہ کا نائب ہار گیا تو سوچیں اللہ پر کیا گزرے گی۔ وہ ہر طرح ہماری فتح چاہتا ہے، طرح طرح سے ہم تک ہدایت پہنچاتا ہے، ہمارے لیے راستے پیدا کرتا ہے، مگر ہم ہیں کہ اللہ کے سوا ہر چیز کی چاہت ہمارے دل میں موجزن ہیں۔ بنگلہ بھی چاہیے، گاڑی بھی چاہیے، بیٹی کی شادی بھی شاندار کرنی ہے۔ نتیجتاً ہماری دنیاوی زندگی صرف پیسے کے پیچھے بھاگنے میں ختم ہوجاتی ہے۔ جب کہ میرے رب نے ہم سے رزق کا وعدہ کیا ہے۔ وہ تو اُن پرندوں کو بھی رزق دے دیتا ہے جو خالی پیٹ، خالی ہاتھ صبح اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور واپسی پر ان کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے، نہ ان کا بینک اکائونٹ ہے، نہ تنخواہ کا آسرا، نہ وراثت میں کچھ ملتا ہے، بس اللہ کے بھروسے وہ ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔
قارئین! محبت ایسے نہیں ہوتی کہ میں کہوں اللہ سے محبت کرو اور آپ اللہ کی محبت میں غرق ہوگئے۔ محبت ایک قرینہ ہے جو شکر گزاری کی کیفیت کا لازمی نتیجہ ہے، اسی لیے اللہ قرآن میں ناشکروں کو عذاب کی وعید دیتا ہے۔ جس دل میں ناشکری ہوگی وہاں محبت تو ہو نہیں سکتی، اور جہاں محبت نہ ہو وہ دل میرا رب کیسے قبول کرے گا! وہ تو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
جس دن آپ اللہ کی رضا میں راضی ہوگئے تو خودبخود شکر گزاری کی کیفیت پیدا ہوگی۔ نہ زیادہ کی ہوس ہوگی، نہ کم پر حسرت و ناشکری ہوگی۔ یہاں سے محبت کا سفر شروع ہوتا ہے جس کی منزل اللہ کی راہ میں قربانی ہے۔ جتنی آپ قربانی دیں گے اتنا قرب حاصل کریں گے۔ آپ کے اکائونٹ میں نیکیاں بڑھتی جائیں گی، برائیاں کم ہوتی جائیں گی، اور جب آپ قیامت کے روز اللہ کے حضور حاضر ہوں گے تو فخر سے کہہ سکیں گے ’’اے رب! میں ہوں آپ کا نائب، میرے لائق کوئی حکم۔‘‘
جب آپ اللہ کے نائب بن جاتے ہیں تو آپ کے اندر اپنے آپ رحمت کی صفت پیدا ہوجاتی ہے جس کے اعلیٰ ترین درجے میں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین بن گئے تھے۔ اب آپ کو اللہ کا کام کرنا ہے، اس کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانا ہے۔ اللہ سے آپ کے روابط ہوں گے اور آپ باقاعدہ اپنے رب کے غلام بن جائیں گے جو اپنے رب کے حکم میں سب کچھ کرسکتا ہے، ہر چیز قربان کرسکتا ہے، جس کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘۔ یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعے آپ اللہ کو پا سکتے ہیں۔ اللہ سب کا ہے، پیار کا جواب پیار سے دیتا ہے، اور جو خود کو لائق ثابت کرے اسے اپنا قرب بھی عطا کرتا ہے۔ وہ تو بانہیں پھیلائے کھڑا ہے، بس ہم نوٹ گننے میں مصروف ہیں۔

حصہ