عقلمند کون

2034

مدیحہ کوثر
دنیا پر اگر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو ہر فرد اپنے آپ کو عقل مند کہتا نظر آئے گا۔ چھوٹے سے بچے سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک ہر کوئی اپنے آپ کو دنیا کا سب سے عقل مند انسان سمجھتا ہے۔ آج آپ کسی کو کوئی بات سمجھانا چاہیں تو ناکامی ہی آپ کے حصے میں آئے گی۔ اور آپ خود بھی اپنے آپ کو دنیا کا سب سے عقل مند انسان سمجھتے ہوئے دوسرے کی ہر بات کو بے وقوفی قرار دے رہے ہوتے ہیں، جب کہ دنیا کا سب سے بے وقوف انسان وہی ہے خود کو سب سے عقل مند سمجھے۔ کیوں کہ عقل مندی یہ نہیں کہ آپ اپنی ہر بات کو درست اور ہر فیصلے کو عقل مندی پر مبنی فیصلہ سمجھیں، بلکہ عقل مندی تو یہ ہے کہ ہر غلط بات کو غلط مانا جائے، ہر غلط فیصلے کو ناسمجھی کا فیصلہ قرار دیا جائے اور دوسروں کی اچھی بات کو درست مانتے ہوئے اپنایا جائے۔ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
عقل مند بننے کے لیے اپنے اندر شعور بیدار کرنا چاہیے ، اس کے لیے بہترین چیز کتاب ہے۔ ہم گریجویشن، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرلیتے ہیں لیکن اکثر جاہل اور کم عقل رہ جاتے ہیں، کیوں کہ علم حاصل نہیں کرتے بلکہ ڈگری حاصل کرنے کے لیے مخصوص کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔ جب کہ علم و شعور اچھی تربیت اور سوچنے سمجھنے سے حاصل ہوتا ہے۔
جہالت کے بڑھنے کی وجہ یہی ہے۔ اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ آپ کو لڑتے جھگڑتے، قانون توڑتے، کچرا جگہ جگہ پھینکتے، گالیاں دیتے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں لگے نظر آتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے جاہل اپنے آپ کو اتنا عقل مند سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی بات سمجھانے کی غلطی اگر آپ کر بیٹھیں تو بے حد پچھتاوا آپ کے حصے میں آتا ہے۔
اکثر ایسے لوگ بھی آپ کو مل جاتے ہیں جن کے پاس بظاہر کوئی خاص ڈگری نہیں ہوتی لیکن تمیز، تہذیب اور اخلاق ان کا دیکھنے والا ہوتا ہے۔ ان کے بات کرنے کے انداز میں شائستگی ہوتی ہے اور وہ آپ کی بات بھی بہ خوبی سنتے ہیں اور اچھی بات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دراصل عقل مند ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ لوگ آپ کو بہت کامیاب اور خوش حال نظر آئیں کیونکہ ہمارا کامیابی اور خوش حالی کو جانچنے کا پیمانہ بھی یہ ہے کہ جس کے پاس بڑا گھر، جدیدگاڑی، نوکر چاکر اور انواع واقسام کے کھانے ہوں، وہ ’’خوش حال‘‘ ہے۔ جبکہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، اور دنیا کا مال و اسباب اللہ کافروں کو بھی عطا کردیتا ہے۔ بلکہ میرے خیال میں زیادہ ہی دے دیتا ہے۔
آپ پہلے گزرے ہوئے کافر بادشاہوں کا جاہ وجلال دیکھ لیں، یا موجودہ یورپی ممالک کو۔ جبکہ اب زیادہ تر مسلمان آپ کو پستے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ وہ دین اور ایمان میں ہم سے کہیں زیادہ آگے ہوں گے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دیکھ لیں، جو مشکلات آپؐ نے اٹھائیں ہم ان میں سے چند بھی نہیں برداشت کرسکتے، جبکہ اللہ نے آپؐ کو دونوں جہانوں کا بادشاہ بناکر بھیجا۔ مسئلہ ہماری سوچ کا ہے۔ سوچنا، سمجھنا اور غوروفکر کو اپنی زندگی سے نکال دینا ہی ہماری سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا اور ہم کسی اور کے اشاروں پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں، اور یہ کام میڈیا ہمارے ساتھ بڑی آسانی سے کرتا ہے۔ بس ہم ہجوم میں بنا سوچے سمجھے نامعلوم راستے پر دوڑے چلے جارہے ہیں اور یہ ہجوم ہمیں صرف اور صرف تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتا ہے لیکن ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، کیونکہ ہم کو اس کے لیے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، اس لیے عمل کا احساس نہیں ہوتا۔ بس ذہن میں ایک بات موجود ہے کہ میں صحیح ہوں اور عقل مند ہوں۔ جبکہ کمال تو یہ ہے کہ اس بھیڑ کے مخالف سمت اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے صحیح راستے کا انتخاب کیا جائے، یہی اصل عقل مندی ہے، اور ایسا کرتے وقت پوری بھیڑ آپ کو بے وقوف قرار دے گی، آپ کا سامنا انتہائی مشکل حالات سے ہوگا، لیکن اپنی عقل کے استعمال سے ان تمام مشکلات سے بآسانی نکلا جاسکتا ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے۔

حصہ