بنی گالہ اور کراچی کے سرکاری کوارٹرز

634

نون۔ الف
واہ واہ کیا فیصلے ہیں؟ کیسی بندر بانٹ ہے؟ چیف جسٹس صاحب آپ جنگل کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ انڈہ دیں یا بچہ… آپ کو بھلا کون روکنے ٹوکنے والا ہے؟ ایک ہی قسم کا جرم… مگر اس کی سزا جدا جدا!
قانون ایک۔ جرم ایک۔ مگر ضابطے اور سزائیں مختلف کیوں؟
ایک طرف بنی گالہ کی قیمتی زمین پر وزیراعظم کا محل… دوسری جانب غریب مزدور محنت کشوں کے جھونپڑے۔ دونوں پر الزام یہ کہ زمین ریگولرائز نہیں، اس لیے مسمار کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔ اس حکم کا اطلاق غریب پر تو راتوں رات کیا گیا… مگر نئے پاکستان کے بانی جناب عمران خان صاحب اس حکم سے مستثنیٰ، آخر ایسا کیوں؟
عدالت کا انصاف اور آپ کی انصافی حکومت غریب کے سر سے چھت اور پیروں سے پچیس پچاس گز کی زمین کھینچ کر اسے زندہ درگور کردے، مگر نئے پاکستان کے بانی کے محل کو ریگولرائز کرنے کا حکم…! عدالت کا حکم ہے کہ ریگولرائز کرنے کے لیے سب سے پہلے عمران خان کو فیس ادا کرنا ہوگی۔ عمران خان کو پراپرٹی ریگولرائز کرانا پڑے گی۔
اگر فیس لے کر وزیراعظم کو زمین کا قانونی کور مل سکتا ہے تو ایسا غریبوں کے معاملے میں کیوں نہیں؟
غریب کے سروں سے چھت چھن جائے، عدالت کا دل نہیں پسیجتا… وزیراعظم کا محل سلامت رہے۔
کراچی میں بانیِ پاکستان کی اولادیں دیواروں سے سر ٹکراتی رہیں… عدالت اپنے فضول ججمنٹ پر ’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘ کی مانند اَڑ ی رہے۔
لینڈ مافیا کی آشیرواد سے لینڈ ڈپارٹمنٹ کی مٹھی گرم کرنے کے بعد کراچی کے سرکاری کوارٹرز جن میں پاکستان کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز، جہانگیر کوارٹرز شامل ہیں، ان کے خلاف صرف ایک این جی او کی درخواست پر یک طرفہ فیصلہ سناکر آپ نے عدلیہ کا ہمیشہ کی طرح وقار ہی بلند کیا ہے۔
اصل حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری کوارٹرز کے مکینوں اور سینکڑوں متاثرین کے اس مسئلے کو عدالت کے سامنے غلط طریقے سے پیش کیا گیا، اور اس کے بہت سے اہم پہلو عدالت سے چھپائے گئے، جس کے نتیجے میں عدالتوں سے ’’اپنی مرضی کے‘‘ یک طرفہ فیصلے حاصل کیے گئے۔
ان سرکاری کوارٹرز کے رہنے اور بسنے والے نہ تو قابضین کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی ان کی حیثیت کرایہ دار کی ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی حیثیت مالک مکان کی ہے۔ کتنا بڑا ستم ہے کہ ہجرت کرکے پاکستان آنے والے سرکاری ملازمین نے ایک ایسے وقت میں جب کہ امورِ سلطنت چلانے کے لیے محکموں میں خدمات انجام دینے والے افراد کا کال تھا، اپنی خدمات پیش کیں… اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے ان سرکاری ملازمین کو اس جگہ آباد کیا، اور اب ان کی اولادیں یہاں آباد ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ سرکاری کوارٹرز کی یہ زمین کسی ادارے یا وفاقی حکومت کی ملکیت نہیں۔ سرکاری کوارٹرز کے رہنے والے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اس کا کرایہ بھی ادا کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ کرایہ ادا کرنے کے باوجود مینٹی نینس کی مد میں تمام اخراجات بھی مکین ہی برداشت کررہے ہیں۔ سابقہ حکومتی ادوار میں کوارٹرز کے حوالے سے جو اسکیمیں متعارف کرائی گئی تھیں ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے کے بجائے ان کی آبادکاری کا سوچا جائے۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی یقین دہانی کروائی تھی کہ یہ جگہ آپ کی ملکیت ہے، جلد ریگولرائز کردی جائے گی۔ 2007ء میں ایم کیو ایم کی حکومت میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے گئے، جس کے بعد مکینوں نے اپنا کُل سرمایہ خستہ حال مکانوں کی تعمیر و مرمت پر خرچ کردیا۔ ان کوارٹرز میں رہنے والوں کے پاس اسٹیٹ آفس سے ملنے والے ملکیتی سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات بھی موجود ہیں۔
قائدِاعظم محمد علی جناح کے احکامات کے پیشِ نظر متروکہ املاک (وقف) پر کوارٹرز ہندوستان سے آنے والے سرکاری ملازمین کی آبادکاری کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔
’نیا پاکستان‘ کی نئی حکومت کچھ کرے یا نہ کرے، اتنا تو کرہی سکتی ہے کہ 1972ء کے صدارتی حکم اور اس کی تشریح میں 1984ء کے سپریم کورٹ کے آرڈر کی روشنی میں ریٹائرڈ ملازمین، بیواؤں اور ان کے بچوں کی ’ری ہیبلی ٹیشن‘ کے لیے ان مکانات کی لیز دے کر ان کو مالکانہ حقوق دے۔
نئے پاکستان کے معماروں سے گزارش ہے کہ پرانے پاکستان کے مکینوں پر رحم کریں۔ اربوں روپے کی اس جگہ پر کاروباری اداروں اور بااثر شخصیات کی نظریں ہیں، سرکاری کوارٹرز کے مکینوں کے مسئلے کو خالصتاً انسانی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس معاملے پر غور کریں۔
اب تو عدلیہ بھی کہہ رہی ہے کہ نئی حکومت آگئی ہے، زمینوں کے معاملات کو حل کریں۔ جنہوں نے غیر قانونی تعمیرات کیں اُن سے جرمانے لیے جائیں، حکومت اپنے جرمانے بھی ادا کرے اور دوسرے لوگوں سے بھی لے۔
پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ اگر ہے تو سب سے پہلے اس منصوبے میں کراچی کے سرکاری کوارٹرز کے مکینوں کو لیز دے کر افتتاح کیا جائے، تاکہ ’’انٹرنیشنل ٹھیکیدار‘‘ انیل مسرت کے حوالے سے زبان زد عام افواہوں کو روکا جاسکے۔
تحریک انصاف کی حکومت جن وعدوں اور نعروں کی بنیاد پر برسر اقتدار آئی ہے پچاس دنوں میں ہی نشہ ہرن ہونے لگا ہے۔
انصاف کے لفظ کو بے توقیر کرنے میں جہاں سستے بازاری ڈائیلاگ مار حکومتی عہدیداروں کا ہاتھ ہے، وہیں عدلیہ کے یک طرفہ احکامات کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔
’اسٹیٹس کو‘ کو توڑنے کا نعرہ لگانے والے زمین پر فرعون بن کر گھوم رہے ہیں۔ پروٹوکول میں ماضی کے حکمرانوں کے’’فٹ اسٹیپ‘‘ پر چلتے ہوئے ان سے دو ہاتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔
اب کون کون سے وعدے اور دعوے یاد دلائے جائیں جو انتخابات کے وقت اور دھرنوں کے دوران کیے گئے تھے؟
اگر بات کریں پیٹرول اور گیس سستی کرنے، مہنگائی کو ختم کرنے کی… تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ کنٹینر کی چھت پر کھڑے ہوکر گرج دار آواز میں کہا گیا تھا کہ ’’پیٹرول کی اصل قیمت 46 روپے ہے، باقی جو قیمت ہے وہ سب شریف برادران کے خزانے میں جاتی ہے‘‘۔
چلیے مان لیا کہ پیٹرول کی اصل قیمت مارکیٹ میں 46 روپے ہے، اب بتائیں کہ پیٹرول کی قیمت کتنی کم کی گئی؟
سی این جی کی قیمت 81 روپے سے بڑھا کر 104 روپے کردی گئی… یہ کس کے خزانے میں جا رہی ہے؟
روپے کی قدر میں جس تیزی کے ساتھ کمی ہوئی اس نے آپ کی لکھی پڑھی جدید تعلیم یافتہ اور وژنری ٹیم کی قلعی کھول دی ہے۔
نئے پاکستان کے بانی نے کہا تھا کہ ’’قرضے کے لیے آئی ایم ایف جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گا‘‘۔
’’میری کابینہ میں بیس سے زیادہ وزیر نہیں ہوں گے‘‘۔ ایک کم چالیس وزراء اور مشیروں کی فہرست تو آفیشلی آچکی ہے، مشیروں کے عہدے اور مراعات میں یکسانیت کا خاص اہتمام رکھا گیا ہے۔
غریب اور قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک میں وزراء کے دفاتر کی تزئین و آرائش و زیبائش کے لیے کروڑوں روپے فراہم کردیے گئے ہیں۔
اخلاقیات اور مدینے کی ریاست کے نام پر وجود میں آنے والی سرکار کے اہم ذمے دار کے نوجوان برخوردار نے بھرے بازار میں جس طرح ایک لڑکی کے ساتھ اپنی کار میں سلوک روا رکھا، یہ بھی عجیب سی بات ہے۔
کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر ہر چیز نہ لکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی بیان کی جاسکتی ہے۔ لہذا دبے لفظوں، اشاروں، کنایوں میں اپنی گزارشات پیش کرنے کی جسارت کی ہے، اس امید کے ساتھ کہ کراچی کے سرکاری مکانات کے مکینوں پر رحم کیا جائے گا کہ جن کی ہر رات جاگ کر اور ہر دن راستوں پر پہرہ دینے میں گزر رہا ہے۔
وزیراعظم کراچی کا… صدر کراچی کا… گورنر کراچی کا… اور بے گھر ہونے والا بھی کراچی کا!!!!

حصہ