برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

492

قسط نمبر159
سترہواں حصہ
۔23 مارچ1971ء متحدہ پاکستان کا آخری یوم پاکستان تھا جو اس طرح منایا گیا کہ جس محب وطن پاکستانی نے اپنے گھر، اسکول یا دفتر میں پاکستان کا قومی پرچم لہرایا وہ نشانِ عبرت بنادیا گیا… چاہے وہ بنگالی ہو یا غیر بنگالی، بلا تخصیص سب کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شیخ مجیب الرحمن قید سے رہا ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے ’’بابائے قوم‘‘ بن چکے تھے۔ ان کے ایما پر ’’بنگلہ دیش سینٹرل چھاترو سنگرام پرشد‘‘ نے 23 مارچ 1971ء کو ’’یوم پاکستان‘‘ کے دن کو بطور ’’یوم مزاحمت‘‘ منانے کا اعلان کردیا، اور اپیل کی کہ ’’عوام اپنے گھروں، دفاتر، کارخانوں، اسکولوں و کالجوں… ہر جگہ بنگلہ دیشی، اور سیاہ پرچم آویزاں کریں‘‘۔ دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کے گھر بھی بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا گیا۔ ہندوستان نے مارچ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے مغربی بنگال میں ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کو اِس ریاست میں انتخابات کے دوران سیکورٹی برقرار رکھنے کے نام پر جمع کیا ہوا تھا۔ یہ فوجی جنگی حالت کے لئے ریڈ الرٹ تھے۔
مارچ کے وسط تک ہندوستان نے مغربی بنگال کی مشرقی پاکستان سے ملنے والی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو بھی تعینات کردیا تاکہ عوامی لیگ کے علیحدگی پسندوں کو سرحد پار ہر ممکن سپورٹ فراہم کی جاسکے۔ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ مارچ کے آخر تک ہندوستان کی بارڈر سیکورٹی فورس کی آٹھ بٹالینز نے سرحدی علاقوں میں عوامی لیگ کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ، اورچھاپہ مار کارروائیوں کے لیے بھرپور مدد فراہم کی۔
ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق ’’اس موقع پر پاکستان کا پرچم صرف گنے چنے علاقوں میں آویزاں کیا گیا جن میں محبِ وطن غیر بنگالی آبادیاں، گورنر ہائوس، چھاؤنی، کنٹونمنٹ اور ایئرپورٹ شامل تھے۔ یوم مزاحمت کے اعلان پر ڈھاکا شہر میں سول نافرمانی، دفاتر کا بائیکاٹ، اسکولوں و کالجوں میں ہڑتال رہی۔ پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں اور بہاریوں کی نسل کُشی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ حد تو یہ کہ متحدہ پاکستان کے حامی بنگالی بھی متعصب عوامی لیگی علیحدگی پسندوں کے ظلم و تشدد سے محفوظ نہیں رہ سکے۔
سنتاہار، پاکسی، راجباڑی، پارتی پور، سلہٹ وغیرہ وہ علاقے تھے جن کی بابت ہمیں ڈھاکا میں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔
22 مارچ کی رات تک ہمارے جوگی نگر کے گھر پر ڈھاکا کے بیشتر مکانوں اور عمارتوں کی طرح کالا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ایسا کرنا ہم لوگوں کی جان کی سلامتی کے لیے ضروری تھا۔ پاس پڑوس کے ہندو، مسلم، بنگالیوں اور بہاریوں نے مل جل کر طے کیا تھا کہ ہر گھر پر کالا جھنڈا لہرایا جائے گا اور مشتعل ہجوم کو باہر نواب پور روڈ پر ہی روکے رکھا جائے گا۔ کالے جھنڈے لہرانے کا مطلب گویا غیر سرکاری طور پر بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کا اعلان تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کے اس حکم کی تعمیل کرنے کے بعد کسی بلوائی کے لیے دھاوا بولنے اور لوگوں کے گھروں میں گھسنے کا اصولی جواز باقی نہیں رہتا تھا۔ 23 مارچ کی صبح فوج نے چھاؤنی سے نکل کر شہر اور گلیوں کو صاف کرنا شروع کردیا۔ ڈھاکا تو جلد ہی آزاد ہوگیا، مگر باقی ماندہ مشرقی پاکستان جو پہلے ہی مکتی باہنی کے ہتھے چڑھا ہوا تھا، عتاب زدہ قرار پایا۔ ای پی آر کے اسلحہ ڈپو پہلے ہی لٹ چکے تھے۔ جب مطلع صاف ہوا تو سب سے پہلے ’سنتاہار‘ سے یہ اندوہناک خبر ہمیں ڈھاکا میں ملی کہ امی کے بڑے ماموں کا پورے کا پورا خاندان شہید کردیا گیا ہے۔ بچے، عورتیں سب کے سب۔ امی کے دوماموں زاد بھائی جو گھر پر حملے کے وقت موجود نہ تھے، زندہ بچ کر ڈھاکا پہنچے تو ان کے ساتھ یہ روح فرسا خبر بھی آئی۔ رفتہ رفتہ بچ جانے والے لوگ چھپتے چھپاتے کسی نہ کسی طرح ڈھاکا پہنچتے رہے اور قتل وغارت گری کی خبریں آتی رہیں۔
’پاکسی‘ کے علاقے میں ہمارے جاننے والے خاندانوں کے تمام مرد قتل کیے جا چکے تھے۔ عورتوں اور بچیوں کو مسلم ہائی اسکول پاکسی میں بند کرکے رکھا گیا تھا کہ ان کی بے حرمتی کے بعد انہیں قتل کیا جائے گا یا فروخت کردیا جائے گا۔ ’پاربتی پور‘ میں ایسے ہی ایک اسکول سے لاشیں نکال کر صفائی کرنے میں فوج نے لوگوں کی مدد کی۔ پاکسی میں بروقت ان عورتوں اور بچیوں کو بچا لیا گیا۔ ’راجباڑی‘ میں بھی یہی کچھ ہوا۔
50 سال کی ادھیڑ عمر قمر النساء کے شوہر محمد قاسم اور بڑے بیٹے کو علیحدگی پسند باغیوں نے مارچ میں مکمل بغاوت کے دوران قتل کردیا تھا۔’میمن سنگھ‘ کے علاقے شنکی پاڑہ کی قمرالنساء کی کہانی بھی دوسروں سے مختلف نہیں، وہ اپنی بپتا سناتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ قمرالنساء خاتون نے بتایا: ’’مارچ 1971ء کے آخری ہفتے کے دوران اِس افواہ کو سُن کر ہمارے دل لرز جاتے تھے اور ایک سرد لہر ہماری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ جایا کرتی تھی کہ باغیوں نے میمن سنگھ میں آباد تمام غیربنگالیوں اور بالخصوص اردو بولنے والوں کو قتل کرنے کی ٹھان لی ہے اور باقاعدہ حملوں کے منصوبے تیار ہورہے ہیں۔ چند علاقوں میں غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع بھی کیا جاچکا تھا۔ روزانہ سینکڑوں باغی اسلحہ سے لیس ہوکر غیر بنگالیوں کے علاقوں میں فوجیوں کی طرح پریڈ کرتے ہوئے گزرتے۔ وہ یک آواز ’’جے بنگلا‘‘ کا نعرہ لگاتے اور اس کا جواب بھی جے بنگلا کہہ کر دیتے۔ وہ ہتھیار لہراتے ہوئے اپنے عزائم کا بھرپور اظہار کرتے۔ ایک دن شام کو چند بنگالی لڑکوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرے شوہر نے جیسے ہی دروازہ کھولا، لڑکوں کے اردگرد کھڑے ہوئے مسلح باغی ہمارے گھر میں گھس گئے اور انہوں نے میرے شوہر اور بڑے بیٹے کو گن پوائنٹ پر ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ میں اُن مسلح باغیوں کے آگے گڑگڑائی اور اپنے پیاروں کی جاں بخشی کی التجا کی، مگر اُن کے دل پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اُس دن کے بعد میں نے اپنے شوہر اور بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔ باغی مجھے بھی گن پوائنٹ پر ایک قریبی اسکول کی عمارت میں لے گئے، جہاں سینکڑوں غیر بنگالی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ بے یار و مددگار پڑی تھیں۔ راستے میں ہم نے بہت سے غیربنگالیوں کی خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں دیکھیں۔ میں نے ایک باغی کو جلتی سگریٹ ایک مُردے کے بازو سے لگاتے دیکھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کہیں اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی تو نہیں۔ اسکول میں موجود تمام عورتوں اور بچوں کو رات کے وقت ایک بڑی مسجد میں لے جایا گیا جہاں پہلے ہی سینکڑوں عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ مسجد کے پیش امام بہت خدا ترس انسان تھے۔ انہوں نے ہماری بھرپور مدد کی اور ڈھارس بندھائی۔ اُنہوں نے مسلح باغیوں کو ہمارے قتل سے بھی باز رکھا۔ 21 اپریل (1971) کو جب پاکستانی فوج نے ’میمن سنگھ‘ کے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کیا، تب ہماری مشکلات کا دور کسی حد تک کم ہوا۔ فوج نے ہمیں ڈھاکا میں ایک ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔ وہاں ہم نے کسی نہ کسی طرح مصیبت کے دن گزارے۔ 16دسمبر 1971ء کو جب ہندوستانی فوج اور مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا، تب ہماری مشکلات کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جنوری 1974ء میں مجھے ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا۔‘‘
میمن سنگھ کے نواح میں رہنے والی 60 سالہ خاتون غفورالنساء نے بتایا: ’’مارچ کے دوسرے ہفتے میں’میمن سنگھ‘ کے بیشتر علاقوں میں مکتی باہنی کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف بنگالی سپاہیوں نے دہشت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمارے علاقے میں آباد 70 پنجابی گھرانوں کے تمام مردوں کو الگ کیا اور اُنہیں ایک قریبی اسکول لے گئے جہاں ان کے ٹارچر سیل موجود تھے۔ وہاں تمام مرد قتل کردئیے گئے۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں علیحدگی پسند باغیوں نے ہمارے علاقے کے تمام غیر بنگالی مردوں اور نوجوانوں کو گن پوائنٹ پر اغوا کیا، انہوں نے میرے گھر پر بھی دھاوا بولا اور میرے شوہر اور میرے شادی شدہ بیٹے کو قریبی میدان میں لے گئے۔ جن غیر بنگالی مردوں کو لے جایا جارہا تھا، اُن میں مجھے اپنا بھائی اور بھانجا بھی دکھائی دیئے۔ باغیوں نے
اُن سب سے کہا کہ وہ بنگلادیش کے پرچم کو سلام کریں۔ چند افراد نے پرچم کو سلام کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اُن تمام افراد کو اُسی وقت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے ایک ایک کرکے تمام افراد کو شہید کرڈالا۔ سب کو ختم کرنے کے بعد وہ لوگ دوبارہ غیربنگالیوں کی بستیوں کی طرف پہنچے، جہاں بہت سی عورتیں اپنے پیاروں کو یاد کرکے دل دہلا دینے والا بَین کررہی تھیں۔ میں نے بنگالی باغیوں کے ایک گروپ لیڈر کو کہتے سُنا کہ غیربنگالی عورتوں کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ انہیں ہمارے گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ میرے ساتھ میری بیوہ بہو اور میرا ایک سالہ پوتا بھی تھا۔ باغیوں نے ہمیں گن پوائنٹ پر ایک اسکول کی عمارت میں منتقل کیا۔‘‘
زیب النساء کی عمر اس وقت 30 سال تھی، شوہر محمد ابراہیم میمن سنگھ میں ریلوے کے ملازم تھے، زیب النساء نے اپنی دکھ بھری کہانی ان الفاظ میں سنائی: ’’ہم اپنے بنگالی پڑوسیوں کے ساتھ برسوں سے بہت اچھی طرح رہتے آئے تھے۔ کہیں کوئی الجھن نہ تھی۔ کسی سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی تھی۔ میرے شوہر بہت محنتی اور ایمان دار تھے۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مارچ 1971ء کے آخری ہفتے میں چند باغی، جنہیں میں نے اپنے علاقے میں کبھی نہیں دیکھا تھا، ہمارے علاقے میں داخل ہوئے اور ہمارے گھر میں گھس آئے اور میرے شوہر کو پکڑ لیا۔ میں نے ان کے پیروں میں گر کر اپنے شوہر اور بچوں کی جاں بخشی کی التجا کی، مگر ان ظالموں نے مجھے اور میرے تین چھوٹے بچوں کو لاتیں مارکر ایک طرف دھکیلا اور میرے شوہر کو گن پوائنٹ پر چلنے کے لیے کہا۔ وہ میرے شوہر کو لے کر چلے گئے، ان میں سے کچھ باغیوں نے مجھے اور میرے بچوں کو ایک پرانی عمارت میں پہنچایا، جو کبھی جیل ہوا کرتی تھی۔ اُس جہنم میں جینا ہمارے لیے مرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ ہم نے وہاں تین ہفتے گزارے اور اس دوران میں نے کئی بار مرنے کی دعا مانگی۔12 اپریل کو پاکستانی فوج نے ’میمن سنگھ‘ کا کنٹرول سنبھالا تو ہمیں اِس جہنم سے نجات ملی۔ میں بچوں کو ساتھ لے کر تین دن تک میمن سنگھ کے چپے چپے کی خاک چھانتی رہی کہ کہیں تو اپنے شوہر کا نشان پائوں، مگر کچھ پتا نہ چلا۔ فوجیوں نے میری ڈھارس بندھائی اور مجھے تینوں بچوں سمیت ڈھاکا کے ریلیف کیمپ منتقل کیا۔ ہمارے دکھوں کا خاتمہ فروری 1974ء میں ہوا، جب اقوامِ متحدہ کی وساطت سے ہمیں کراچی منتقل کیا گیا۔‘‘
حوالہ جات:”Blood and Tears” قطب الدین عزیز
البدر۔ سلیم منصور خالد
(جاری ہے)

حصہ