بابا غلام بخش

386

زاہد عباس
’’بابا غلام بخش کیا حال ہیں، کہاں ہو، نظر نہیں آتے… اور سنائو کیا ہورہا ہے آج کل۔ یار کبھی مل لیا کرو، دوستوں سے ملنا جلنا اچھی بات ہوتی ہے، اور ویسے بھی صوبہ سندھ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی تو یہ روایت رہی ہے ، یہاں کے لوگ بڑے ہی مہمان نواز ہوا کرتے ہیں، اور پھر تمہاری مہمان نوازی کو بھلا ہم کیسے بھول سکتے ہیں! مجھے اب تک یاد ہے، ایک مرتبہ شکارپور گئے تھے، تب تمہارے گوٹھ میں مچھلی کھائی تھی۔ اس کے بعد نہ تم نے دعوت دی اور نہ ہی ہمارا جانا ہوا۔ بابا یہ بات تو اچھی نہیں ہے… دیکھو یہ سندھ کی دھرتی صوفیوں کی دھرتی، محبتوں کی دھرتی، اور پیار بانٹنے والوں کی دھرتی ہے، یہاں ایسا نہیں چلے گا… سائیں کوئی غلطی ولطی ہوگئی ہے تو معاف کردو اور آئندہ جب کبھی بھی شہر آؤ تو مل لیا کرو۔ مانا کہ تم زمیندار ہو، بڑے کاروباری ہو، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ انسان ایک دوسرے سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دے۔ اتنی بے رخی اچھی نہیں ہوتی۔ یہ تو آج اتفاق سے ملاقات ہوگئی، ورنہ تم تو بغیر ملے ہی واپس چلے جاتے۔ اس بدلے ہوئے رویّے کا کیا مقصد ہے!‘‘
’’فرید بھائی، شکر ہے ٹھیک ہوں۔ اور ایسی کوئی بات نہیں ہے جس پر تم اتنے گلے شکوے کررہے ہو۔ بھائی میں جبسے تم لوگوں سے مل کر گیا ہوں اُس کے بعد سے میرا شہر آنا ہی اب ہوا ہے۔ کام سے فارغ ہوکر آپ لوگوں کی طرف ہی جانا تھا۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں شہر آؤں اور اپنے دوستوں سے ملے بغیر ہی چلا جاؤں! سائیں دوست کہا ہے، دوست مانتا ہوں، اور ساری زندگی اس پر عمل کرتا رہوں گا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اِس مرتبہ میں بہت دن بعد شہر آیا ہوں، بس تھوڑا سا کام ہے، ختم ہوجائے تو پھر ساتھ ہی چلتے ہیں، نذیر اور شکور سے بھی ملنا ہے۔ آج میرا شہر میں ہی رکنے کا پروگرام ہے، ساری رات بیٹھ کر کچہری کریں گے… اور تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں تم سے ملے بغیر ہی گاؤں چلا جاتا! آج تو سوچ لیا ہے، آئندہ کبھی ایسی بات کی تو دیکھنا…!‘‘
’’غلام بخش، تم سے محبت ہے اسی لیے جو دل میں تھا کہہ دیا، اور گلہ بھی تو اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے۔ تم برا نہ مانو، چلو جلدی سے کام نمٹا لو، پھر پہلے کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں، اس کے بعد گھر چلیں گے۔ نذیراور شکور بھی تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘
یوں بازار سے خریداری مکمل ہوتے ہی فرید اور غلام بخش قریبی ہوٹل میں جا بیٹھے اورکھانے سے فارغ ہوکر ناظم آباد کی طرف چل دئیے۔ گھر پہنچ کر فرید نے اپنے دونوں دوستوں نذیر اور شکور کو بھی بلا لیا۔ پھر کیا تھا، چاروں کے مل بیٹھتے ہی باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کوئی سیاست پر بات کرتا، تو کوئی ملکی حالات کا تجزیہ کرتا… کسی کے نزدیک بچوں کی تعلیم و تربیت اہم تھی، تو کسی کو معاشی بے چینی کی فکر لاحق تھی… کسی کا موضوع پاکستانی میڈیا پر نشر ہونے والے ڈرامے تھے، اور کوئی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں پر تنقید کرتا… جس کے جو جی میں آتا، وہ کہتا رہا۔ دورانِ گفتگو بار بار چائے کا دور چلتا رہا اور چاروں دوست بڑی محبت سے ایک دوسرے کی باتیں سنتے رہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جہاں چار لوگ بیٹھے ہوں وہاں حکومت کی کارکردگی پر بات نہ ہو! دورانِ گفتگو نذیر بھائی نے حکومت کی جانب سے لیے جانے والے یوٹرن کا ذکر کر ڈالا، پھر کیا تھا، فرید بھائی کو تو جیسے زبان لگ گئی ہو… حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے بولے ’’ابھی نئی نئی حکومت بنی ہے، اتنی جلدی تنقید کرنا اچھی بات نہیں۔ انہیں کام کرنے کا پورا وقت ملنا چاہیے۔ اور جہاں تک یوٹرن کا تعلق ہے تو دیکھیے جناب، جب کوئی شخص پہلی مرتبہ گاڑی چلاتا ہے تو ایکسیڈنٹ بھی ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے وہ بہترین ڈرائیور بن جاتا ہے۔ خان صاحب کو پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ پریشان نہ ہوں، یہ حکومت ملک کو صحیح سمت میں لے کر جائے گی۔ دوسروں کی خرابیوں کو ٹھیک کرنا آسان نہیں، ماضی کے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے ہماری آنے والی نسلوں تک کو مقروض بنادیا۔ جن لوگوں نے ملک کا یہ حشر کیا ہے اُن سے سارا حساب لیا جائے گا۔ تھوڑا سا صبر کریں، یقینا اس حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
محفل گرم ہوتی جا رہی تھی۔ فرید بھائی کی مخالفت کرنے کے لیے غلام بخش نے عمران خان کی جانب سے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے اعلان پر تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ’’بھائی ہمیں حکومت سے کیا لینا دینا! محنت کرتے ہیں تو دو وقت کی روٹی ملتی ہے، اور اسی طرح کام کریں گے تو ہی گھر میں چولہا جلے گا۔ کوئی کسی کے گھر میں راشن نہیں ڈلواتا۔ حکومت کی کیا پالیسیاں ہیں، ہمیں اس سے کیا! مجھے تو خان صاحب سے غیر ملکیوں کو شہریت دینے پر اختلاف ہے۔ بابا، یہ کون ہوتے ہیں کسی کو پاکستانی بنانے والے! جو پاکستانی ہے سر آنکھوں پر۔ پاکستان بین الاقوامی یتیم خانہ نہیں کہ جس کا جی چاہے وہ یہاں آکر بس جائے اور پھر ہم ہی کو آنکھیں بھی دکھائے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پرویزمشرف کے دور تک یہی کچھ ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ اب نہیں ہوگا… بہت ہوگیا، اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ بابا، ساری دنیا پڑی ہے، جس کو جہاں رہنا ہے، رہے… ہماری جان کو کیوں عذاب میں ڈالتے ہو! اور پھر کیا ساری دنیا کے لوگوں کا ہم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے! کسی اور ملک جاکر دکھاؤ، پتا چل جائے گا۔ سرحد عبور کرتے ہوئے گولیاں مارتے ہیں، غیر قانونی تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے کشتیاں تک ڈبو دیتے ہیں۔ کئی پاکستانی خاندان ایسے ہیں جن کے نوجوان اسی مشق کے دوران قتل کردیئے گئے۔ وہ بھی تو انسان تھے، وہ بھی تو کسی کی اولاد تھی، تو پھر انسانیت سے محبت کا یہ جذبہ ہم ہی میں کیوں؟سارے پاکستان کو چھوڑئیے، صرف سندھ کی مثال لے لیجیے… جگہ جگہ غیر ملکی تارکین وطن کی بستیاں آباد ہیں۔ آپ کسی کو واپس بھیج کر دیکھیں، کوئی جانے کو تیار نہیں۔ مجھے یاد ہے بنگلہ دیشی حکومت نے تو پاکستان میں مقیم بنگالیوں کو اپنا شہری ماننے سے انکار کردیا تھا۔ بھارت سے آئے غیر قانونی لوگ واپس نہیں جا سکتے، ان کی حکومت نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہوا ہے۔ یہی صورتِ حال افغان بستیوں کی ہے۔ افغانستان ان لوگوں کو واپس لینا تو درکنار، انہیں افعانی ماننے کو تیار نہیں۔ خان صاحب ہر بات میں یورپ کی خوب مثال دیتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا اعلان کرتے وقت وہ کیوں بھول گئے کہ اگر یورپ میں رہنے والوں کا ویزہ ختم ہوجائے تو ایسے لوگوں کا شمار وہاں غیر قانونی تارکینِ وطن میں کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہاں چھپ کر رہنا پڑتا ہے، کوئی مراعات نہیں ملتیں، کسی غیر قانونی کے لیے کوئی نوکری نہیں، پکڑے جاؤ تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا ہے۔ تعلیمی ویزے پر کاروبار اور وزٹ ویزے پر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اور تو اور، غیر قانونی طور پر مقیم افراد سے کوئی شادی تک نہیں کرتا، اگر کر بھی لے تو نکاح رجسٹر نہیں ہوتا۔ ایسے میں بچوں سمیت سارا خاندان ہی غیر قانونی تارکینِ وطن کہلاتا ہے۔ ان کے نزدیک بڑھتی آبادی معاشی صورتِ حال کی خرابی کا باعث ہے۔ آپ اپنے گھر کی مثال لے لیجیے، اگر آپ کے گھر میں پانچ افراد ہیں تو آپ بنائے گئے بجٹ کے مطابق اچھی زندگی گزاریں گے، اگر وہ دس ہوجائیں تو سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا… راشن، بجلی، گیس اور رہائش سمیت تمام اشیائے ضروریہ پر ہونے والے اخراجات بڑھ جائیں گے، یوں گھر کا بجٹ آؤٹ ہوتے ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خان صاحب کو غیر قانونی تارکینِ وطن سے اگر اتنی ہی محبت ہے تو وہ انہیں کسی اور صوبے میں لے جاکر آباد کریں۔ خدارا سندھ کی جان چھوڑ دیں۔ آخرکب تک سندھ کی دھرتی ایسے غیر قانونی خاندانوں کا بوجھ اٹھاتی رہے گی! مانا کہ یہ شاہ لطیف کی دھرتی ہے، صوفیوں کی دھرتی ہے، محبت کرنے والوں کی دھرتی ہے… دوسری طرف سندھ کی تہذیب ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ سندھی قوم پر غیر ملکیوں کی اجارہ داری قائم کردی جائے۔ سندھ سندھیوں کا ہے، سندھ میں رہنے والا ہر شخص سندھی ہے۔ نئے سندھی اور پرانے سندھیوں میں کوئی فرق نہیں… ہم سب کو مل کر سندھ دھرتی کی حفاظت کرنی ہے۔ سندھ کی تہذیب کو زندہ رکھنا ہے۔ غیر قانونی طور پر آنے والوں کو نہ روکا گیا تو سندھی اقلیت میں ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہاں پیدا ہونے والی قوم ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ پاکستان بننے سے قبل سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے صوبہ بنانے کی جدوجہد کا آغاز سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کو بچانے کے لیے کیا گیا۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور ایسا کوئی اقدام نہ کرے جس سے سندھ دھرتی اور اس کی تہذیب کو نقصان پہنچے۔‘‘
پاکستان میں آباد غیر قانونی تارکینِ وطن کے بارے میں فیصلہ کرنا یا پالیسی مرتب کرنا حکمرانوں کا کام ہے، لہٰذا اس پر بحث کرنا میرا موضوع نہیں۔ میرا ذہن تو سائیں غلام بخش کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ یہ سندھ کی تہذیب بھی خوب ہے! ٹوٹی سڑکیں، خشک ہوتے دریا، تعلیم، صحت اور دوسری بنیادی سہولیات کا فقدان… کچھ ملے نہ ملے، پیروں میں چپل ہو یا نہ ہو، خالی پیٹ سر پر ٹوپی، گلے میں اجرک ڈال کر سندھ تہذیب کو زندہ رکھنا ہی وہ کمال ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ بے شک دنیا بھر میں بسنے والی ہر قوم کی کوئی نہ کوئی تہذیب ہوا کرتی ہے، لیکن کسی بھی ملک یا قوم کی تہذیب ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ یہ ہمارے ملک خصوصاً صوبہ سندھ میں بسنے والوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ ملک کی ترقی کے بڑے منصوبوں کو سندھ کی تہذیب کی بقاء کے نام پر بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
کالاباغ ڈیم ہو، یا شہری علاقوں کے لیے اختیارات کی بات… پانی کی تقسیم کا معاملہ ہو، یا زیر زمین معدنی وسائل… سب ہی پر سندھ تہذیب کی چھاپ لگاکر عوام کے لیے نایاب بنادیا گیا۔
تہذیب کے نام پر تھر میں مرتے موروں کو بچانے کے لیے تو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے گئے، لیکن پانی اور خوراک کی کمی سے مرتے بچوں پر دھیان نہ دیا گیا۔ ظاہر ہے یہ سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کا مسئلہ ہے۔ شہروں میں کچرا، گلیوں میں اڑتی ریت، تباہ حال اسکول، گندگی سے اٹے اسپتال، ٹرانسپورٹ نایاب، نلکوں میں آتا گندا پانی، مہنگائی، بے روزگاری سب منظور… لیکن سندھ کی تہذیب پر کوئی حرف آئے وہ نامنظور۔ واہ میرے حکمرانو! ہم مان گئے کہ تم ساری قوم کو تہذیب کے نام پر ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگانے کا فن خوب جانتے ہو۔

حصہ