استاد اور ہتھکڑی، کہاں ہے ہمارا تہذیبی وجود؟؟۔

581

افشاں نوید
ہفتہ رواں میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں پولیس اہلکار 6 افراد کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر نیب کی عدالت میں پیشی کے لیے لے جارہا ہے۔ یہ ہتھکڑی لگے افراد پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں کے بزرگ اساتذہ تھے۔
سوشل میڈیا پر جب لوگوں نے اساتذہ کی تذلیل پر غم و غصے کا اظہار کیا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے واقعہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب لاہور کو عدالت میں طلب کرکے واقعہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور باز پرس کی کہ اساتذہ کو کس قانون کے تحت ہتھکڑیاں لگائی گئیں؟ جس پر ڈی جی نیب نے یہ کمزور دلیل پیش کی کہ اساتذہ کو ہتھکڑیاں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر لگائی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ ان اساتذہ پر کرپشن اور من پسند افراد کی بھرتیوں کے الزامات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جس ملک میں جج، جرنیل اور سیاستدان قانون سے بالاتر ہوں اور استاد کی تحقیر اس انداز سے کی جائے کہ ان کو ہتھکڑیاں لگا کر کیمروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس ملک کی کیا اخلاقی ساکھ اس گلوبل ولیج میں رہ گئی اور کس منہ سے حکمران اس ریاست کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کی بات کرتے ہیں؟ اللہ کے عذاب کو ہم خود دعوت دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ، لال مسجد کے مجرم تو دبئی کے ہوٹلوں میں رقص کرتے پھر رہے ہیں، سیکڑوں انسانوں کا قاتل رائو انوار کو تو ہتھکڑی نہ لگ سکی، اربوں، کھربوں کے کرپشن کرنے والے نیب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہوجاتے ہیں اور اساتذہ کو سرعام ہتھکڑیاں لگا کر نئی نسل کے ذہنوں سے اساتذہ کے اکرام کو خاک میں ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جرم کوئی بھی فرد کرسکتا ہے لیکن جرم ثابت ہونے سے قبل اس کی عزت کو عادی مجرموں کی طرح اچھالنے کی اجازت شریعت ہرگز نہیں دیتی۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ ہم نے استاد کو معاشرے میں مقام دیا ہی کیا تھا؟ ہم تو خود اس تعلیمی قفس کے قیدی ہیں جس کی شان مولانا مودودیؒ نے یہ بیان کی ہے کہ ’’وہ نہ بال و پر اگنے دیتا ہے اور نہ ذوق پرواز ہی سے اپنے پروردگان کو بہرہ مند ہونے دیتا ہے‘‘۔
اسلامی تہذیب میں تو استاد، شاگرد کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے بلکہ امام غزالیؒ تو اساتذہ کے حق کو والدین کے حق پر فوقیت دیتے ہیں، کیونکہ باپ انسان کے ظاہری وجود کا باعث ہوتا ہے جبکہ استاد اس کی کردار سازی کرکے اس کو فرش سے عرش تک لے جانے کا سبب بنتا ہے۔
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر اساتذہ نہ ہوتے تو انسان جانوروں کی طرح ہوتے‘‘ یعنی انسانیت کی رفعت استاد کے ہاتھوں نصیب ہوتی ہے۔
آپؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ ’’وہ شخص میری اُمت سے نہیں جو ہمارے بزرگوں کا احترام اور ہمارے بچوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے عالم کو عزت نہ دے‘‘۔
عربی ضرب المثل ہے ۔
جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہو گیا۔
حقیقت یہی ہے کہ جو عقل و شعور اور جسم و روح کی تعمیر اور تشکیل کرتا ہے اس ہستی سے بڑھ کر کوئی جلیل القدر کیسے ہوسکتا ہے۔
یہاں ایک ذہن یہ سوچ سکتا ہے کہ ہمارے دین میں ضرور استاد کا مقام ہے لیکن جو استاد کرپشن کرے، من پسند بھرتیاں کرے اس کو کیوں نہ مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگائی جائیں؟۔
اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پھر بات استاد کے ذاتی کردار تک محدود نہیں رہے گی، پھر بات اس نظام تعلیم کی ہوگی جس سے سوائے ذاتی مفاد اور دَھن دولت کمانے کے کوئی مشن یا مقصد ہاتھ نہیں آتا۔ سوچئے! ہمارے تعلیمی ادارے جہاں بچے سولہ سال اور کہیں بیس سال گزارتے ہیں وہ نئی نسل کو یہ شعور نہیں دیتیں کہ ان کا اصل سرمایہ تہذیب و ثقافت کیا ہے؟ نہ ان کے عقائد و نظریات کی درستگی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ وہ اقدار، وہ شعائر اور وہ اطوار ان کو سکھائے جاتے ہیں جن سے ان کا ملّی وجود بنتا ہے۔
یہ اساتذہ خود اسی نظام تعلیم کے پروردہ ہیں جو خود شناسی کا جوہر پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ لمبی لمبی عبارتیں رٹ لینا، کتابوں کے گٹھر لاد لینا، اور ڈگریوں کے حصول کو مقصد زندگی قرار دینا، اصل تعلیم نہیں ہے۔ موجودہ نظام تعلیم کے غیر صحت مند اور ناسازگار ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ اس نظام تعلیم سے فارغ ہو کر کوئی صحافت کے میدان میں جائے، سیاست کے میدان میں اترے، طب کو اپنا پیشہ بنائے یا تعلیم کو پیشہ کے طور پر اپنائے کہ اس کی خواہشات ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتی ہیں اور جہاں خواہشات نفس ہی مقصد زندگی ہوں وہاں رشوت، خیانت اور بددیانتی نہ ہو تو حیرت کی بات ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے استاد رول ماڈل ہوں، ہمارے سیاستدان، ادیب اور ماہر فنون معاشرے کی قد آور شخصیات ہوں تو ہمیں نظام تعلیم کو بدلنا ہوگا۔ ایک نئے پاکستان کی تعمیر سی پیک کے منصوبوِں، میٹرو بس اور گرین یا اورنج ٹرینوں کے چلانے سے نہیں ہوسکتی۔ نظام تعلیم کی تبدیلی کے بغیر ہر تبدیلی سطحی ہوگی۔ آناً فاناً کچھ بھی نہیں بدلا جاسکتا لیکن تعلیمی انقلاب کے بغیر کوئی انقلاب نہیں آسکتا۔ وہ معاشرے بانجھ ہوتے ہیں جو استاد کے احترام سے محروم ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اس طرح پاکستان کے مستقبل کو خدانخواستہ ہتھکڑی نہ لگ جائے۔ ضرورت ہے نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کی اور اس کے لیے مشینوں کو درآمد کرنے کی نہیں مشنری جذبے کی ضرورت ہے۔
ہر چند کہ مسئلہ تعلیم پر اقبال کے نظریات اور اصول بہت بڑے وسیع پیمانے پر اس کی نثری اور منظوم تحریروں میں پھیلے ہوئے ہیں، اور اصل کام یہ ہے کہ ان چیزوں کو یک جا کر کے نہایت خوبصورتی سے واضح کیا جائے کہ اقبال نظام تعلیم کے لیے کیا نظریات دیتے ہیں، وہ کیسا نظریہ حیات کائنات اور کیسا تصور انسان ہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک غایت تعلیم کیاہے۔ وہ اسلامی تصور تعلیم اور جدید مادہ پرستانہ تصور تعلیم کے تضاد کو کس طرح نمایاں کرتے ہیںآپ کے سامنے بعض متفرق اشعار آگئے۔

تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
……
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر!
……
علم میں عزت بھی ہے‘ دولت بھی ہے‘ لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

حصہ