رانی کی کہانی

673

زاہد عباس
’’رانی اتنی گرمی میں ہانپتی کانپتی کہاں سے آرہی ہے؟گھر چکر لگانے گئی تھی، اب نذیر صاحب کے گھر جارہی ہے۔ پاگل، اتنی شدید دھوپ میں تھوڑا آرام کرلیتی، لو لگ گئی تو بیمار پڑجائے گی۔‘‘
’’آرام کیا کرنا، ہماری زندگی میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، بس سارا دن یونہی بھاگ بھاگ کر گزر جاتا ہے، اگر آرام کرنے کے لیے بیٹھ جائیں تو دو وقت کی روٹی سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔‘‘
’’رانی تُو تو اکبر صاحب کے گھر کام کرتی تھی ناں، کیا ہوا، اب وہاں نہیں جاتی؟‘‘
’’وہاں بھی جاتی ہوں، ایک گھر کا کام ختم کرنے کے بعد دوسرے گھر جانا پڑتا ہے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے، پر صحت اچھی رہے گی تبھی تو کام کرسکے گی، اتنی گرمی میں گلیوں کے چکر لگانے کی کیا پڑی ہے!‘‘
’’صاحب یہ تو روز کا معمول ہے، بچہ چھوٹا ہے اس لیے دیکھنے جانا پڑتا ہے۔ یہ شبو بڑی لاپروا ہے، باہر کھیلنے نکل جاتی ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں! اور یہ شبو بیچ میں کہاں سے آگئی! بھئی چار سے پانچ سال کی بچی کھیلے گی نہیں تو اور کیا کرے گی! اور پھر وہ تو خود ابھی چھوٹی ہے، اتنی سی عمر میں بچے کیسے سنبھال سکتی ہے، اس کی عمر تو اسکول جانے کی ہے، کہیں داخلہ وغیرہ کروایا کہ نہیں؟‘‘
’’کہہ تو رہی ہوں کہ میرا بچہ ابھی چار ماہ کا ہے، صبح کام کرنے جاتی ہوں تو اسے شبوکے حوالے کرکے جاتی ہوں، اسی لیے درمیان میں گھر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اور جہاں تک پڑھائی کروانے کا تعلق ہے، تو جس کے خاندان کے کسی فرد نے کبھی اسکول کا دروازہ تک نہ دیکھا ہو اُس کا پڑھنے سے کیا واسطہ! آخر کو ہماری طرح لوگوں کے گھروں میں کام ہی کرنا ہے، اب جھاڑو پوچا کرنے کے لیے بھلا کون سی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے! اور پھر جس کے گھر روٹیوں کے لالے پڑے ہوں اُس کا کتابوں سے کیا تعلق! اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ کاغذ کی کتابیں پیٹ کی آگ نہیں بجھاتیں، اس کے لیے دو وقت گندم کی روٹی چاہیے ہوتی ہے۔ پڑھنا پڑھانا ہمارے نصیب میں کہاں… یہ پیٹ بھرے لوگوں کا ہی کام ہے، جو خاندانی افسر ہے اس کی نسل میں ہی افسر پیدا ہوتے ہیں۔ ہم کمیوں کا کام تو ان خاندانوں کی خدمت کرنا اور ان کے سامنے سر جھکاکر زندگی گزارنا ہے۔‘‘
’’رانی ایسی باتیں نہیں کرتے، تعلیم حاصل کرنا تو ہر کسی پر فرض ہے۔ اور جہاں تک رہی نصیب کی بات، تو اپنے نصیب کو برا بھلا کہنے سے رب ناراض ہوتا ہے۔ اچھے برے حالات تو انسانی زندگی میں امتحان کا درجہ رکھتے ہیں۔ جو ان حالات میں صبر اور شکر کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، کامیابی بھی انہی کو ملا کرتی ہے۔ تُو دل چھوٹا نہ کر، سب اچھا ہوجائے گا۔‘‘
’’صاحب! حالات کے ساتھ تو لڑتے آرہے ہیں، جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ ہم صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں، پر معاشرہ بڑا خراب ہے، لوگوں کی نگاہوں میں ہماری کوئی عزت نہیں۔ عورت ذات ہونا بھی جرم ہے۔ کسی کے گھر کام کرنے جائو تو ہر دوسرا شخص ہمارے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتا ہے۔ آپ خود سوچیے، اگر ہمارے کردار میں کوئی کھوٹ ہوتی تو یوں در در جاکر غلامی کرتے؟ لوگوں کے گھروں میں جاکر اس طرح محنت کرتے؟ خیر، زمانے کی ازل سے یہی ریت رہی ہے۔ لوگوں کی عقلوں پر پردے پڑجائیں تو کوئی کیا کرسکتا ہے! یقین مانیے دنیا بڑی ظالم ہے، خاص طور پر غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کی تو زندگی حرام ہے۔ محلے کے چار گھروں میں جاکر کام کرتی ہوں، سارا مہینہ کولہو کے بیل کی طرح مشقت کرنے کے بعد 48 سوروپے ملتے ہیں۔ میرا شوہر ایک تھلے پر مزدوری کرتا ہے، کبھی کام ہوتا ہے تو کبھی سارا دن بیٹھ کر آجاتا ہے۔ اگر پورا مہینہ کام چلے تو 12000روپے ملتے ہیں۔ تین خاندانوں نے مل کر 15000 روپے ماہوار کرائے پر مکان لے رکھا ہے۔ ہمارے حصے میں 5000 روپے آتے ہیں۔ ایک ہزار بجلی، جبکہ پانچ سو روپے گیس کے بلوں کی مد میں چلے جاتے ہیں۔ اب بچی ہوئی رقم میں گھر کیسے چلائیں؟ کیا کھائیں؟ دوائی دارو کہاں سے کریں؟ اس کے علاوہ سو ضروریاتِ زندگی کیسے پوری کریں، یہ ہم جانتے ہیں۔ بس پیٹ بھرنے کی خاطر جینے کے نام پر اپنی ہڈیوں کا عرق نکال رہے ہیں، اور اس پر معاشرے کی جانب سے اٹھتی انگلیاں! جائیں تو کہاں جائیں۔ میں مانتی ہوں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، ہم میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے غلط راستہ اختیار کرتے ہوئے گھروں میں وارداتیں کروائیں، ایسی خواتین کے بارے میں بھی خبریں منظرعام پر آئیں جو پیسے کے لالچ میں اپنی عزت و غیرت کی پروا کیے بغیر غیر اخلاقی کاروبار سے منسلک ہوگئیں۔ دیکھیے پانچویں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، جو بو گے وہی کاٹو گے۔ پچھلے دنوں میری بچی بیمار پڑگئی تھی اور گھر میں زہر کھانے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ اس کے علاج کے لیے پیسوں کی سخت ضرورت تھی اس پریشانی میں کبھی اِس در تو کبھی اُس در ہاتھ پھیلانا پڑا۔ خدا بھلا کرے آپا کلثوم کا، جنہوں نے میری مدد کی، بچی کا علاج کروایا۔ یہ ایک دن کا مسئلہ نہیں، ایسی کئی پریشانیوں سے روز لڑنا پڑتا ہے۔ آپا کلثوم اکثر مالی مدد کرتی رہتی ہیں، خدا ان کو اجر دے۔ اور یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ کسی کے دینے سے کبھی پورا نہیں پڑتا، حالات کی چکی تلے غریب ہرروز پستا ہے۔ آپ سے پرانی واسطے داری ہے، اس لیے دل کا ابال نکال رہی ہوں، ورنہ کون کسی کی سنتا ہے! کوئی خوشی سے اپنا گھر نہیں چھوڑتا، ہم جن علاقوں سے آئے ہیں وہاں بنیادی سہولت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ راجن پور، ڈیرہ غازی خان،کوٹ ادو اور مظفرگڑھ جیسے علاقوں کی پسماندگی دور کرنے اور ہمارے آبائی علاقوں میں روزگار کی سہولیات دینے سے ہماری پریشانیوں کا خاصی حد تک سدباب کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے جب لوگوں کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں باعزت روزگار میسر ہوگا تو ان کے لیے اپنے ہی گاؤں میں رہ کر زندگی کی گاڑی کو چلانا آسان ہوگا۔ ہم تو حکمرانوں سے یہی التجا کرتے ہیں کہ وہ ان علاقوں کا ضرور دورہ کریں جہاں پیدا ہونے والی نسل بااثر وڈیروں، چودھریوں اور جاگیرداروں کے ظلم کی وجہ سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جہاں تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات غریبوں کے لیے خواب بنادی گئیں، جہاں انسانوں اور جانوروں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ وزیراعظم صاحب! ریاست مدینہ کا جو خواب آپ نے قوم کو دکھلایا ہے خدارا اسے سچ کر دکھائیں تاکہ ایک غریب بھی سر اٹھا کر باعزت زندگی گزار سکے۔‘‘
رانی کی ان باتوں سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے شہروں سے آنے والی خواتین بہت باہمت اور جفاکش ہوتی ہیں، اس لیے وہ محنت مزدوری کی خاطر سخت جان کام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ بہت سے گھرانوں کے مرد بھی اپنی عورتوں کے ساتھ بڑے شہروں میں کام کی غرض سے عارضی رہائش اختیار کرتے ہیں، مگر زیادہ تر خاندانوں کے مرد گائوں ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ خواتین بڑے شہروں میں اپنے بچوں کے ساتھ عارضی ٹھکانوں میں سکونت اختیار کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ عورتوں کا اکیلے رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اس لیے خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر کی کچی آبادیوں میں یہ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ گروہ اور جتھوں کی صورت یا ایک مکان میں کئی خاندانوں کے ساتھ مل کر رہتی ہیں اوراپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی گاڑی کھینچنے میں جت جاتی ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے، جو انتہائی ناقص ذرائع آمدورفت کے مصائب اٹھاکر بڑے شہروں کا رخ کرتی ہیں۔ یہ خواتین اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے جس حد تک اورجہاں تک ممکن ہو، زندگی کی جنگ لڑتی رہتی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ عورتیں دن بھر گھروں کا کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اپنے بچوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتیں، جس کا عکس ہمیں رانی کی باتوں میں بھی نظر آتا ہے، یعنی ان کے گھر کا بڑا بچہ، چاہے وہ پانچ چھے سال ہی کا کیوں نہ ہو، تین ماہ کے بچے کو سنبھال رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال ان ناتواں معصوم ہاتھوں سے کیوں کر ممکن ہے! جس کی وجہ سے ان کے بچے شدید بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ توجہ کی کمی اور صحت کی ناقص سہولیات کی بنا پر ان بچوں کی شرح اموات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ قصبات اور دیہات سے آنے والی خواتین کی طرح بڑے شہروں کی غریب بستیوں میں آباد خواتین بھی بطور گھریلو ملازمہ کام کرتی ہیں، جو روزانہ شہر کی افلاس زدہ بستیوں سے سفر کرکے متمول اور متوسط طبقے کی آبادیوں میں کام کرنے جاتی ہیں۔ ظاہر ہے ملک میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی نے جہاں ہمارے ملک کے 90 فی صد عوام کی کمر توڑ دی ہے، وہاں یہ طبقہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے! ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتے معاشی بحران کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافے کے باعث دہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے پیسہ کمانا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں وہ خواتین بھی جنھوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا ہو، باہر نکل کر ’’ماسی‘‘ بننے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ شوہروں کی بے روزگاری یا کام نہ کرنے کی عادت اور بچوں کی کثرت ان عورتوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ خوراک کی کمی اور ہمت سے زیادہ کام سائنسی اعتبار سے خواتین کے ناتواں جسم کو کمزور کرتا رہتا ہے۔
مردوں کو عورتوں کا حاکم بنایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت ہمت اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد سے کم ہوتی ہے، بلکہ ہمارے دین نے عورت کی مخصوص جسمانی ساخت اور ماں بننے کے عظیم رتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے عورتوں کا خاص خیال رکھنے، انہیں عزت دینے اور چار دیواری کا سکون مہیا کرنے کی وجہ سے مردوں پر دہری ذمے داری ڈالی ہے، اور مردوں کو عورتوں کا خیال رکھتے ہوئے انھیں حاکم بنایا ہے۔ لیکن حوا کی بیٹی آج سڑکوں پر بجھا چہرہ لیے اور بوجھل پیروں کو گھسیٹتے ہوئے یوں نظر آتی ہے کہ گویا زندگی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی ہے۔ یہی کچھ ہمیں رانی کی جانب سے سنائی جانے والی کہانی میں بھی دکھائی دیتا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ ہمارے حکمران کب تک اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے عوام کو مسائل سے نجات دلا کر عملی طور پر نیا پاکستان بناتے ہیں۔

حصہ