برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

800

قسط نمبر158
(سولہواں حصہ)
مکتی باہنی کی مدد کے لیے دو ونگ اور بھی تھے، جو’’آہ باہنی‘‘ اور ’’وشانتی باہنی‘‘ کہلاتے تھے۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ان تینوں فورسز کو بنگلہ دیشی فوج کے ساتھ بطور ریزرو فورس شامل کرلیا گیا۔ ان کو وہی مراعات ملتی تھیں جو ریگولر افواج کو ملتی ہیں۔
مارچ 1971ء کے پہلے ہفتے میں ہی تحریک عدم تعاون کے نام پر ایک طرح سے خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی جس کے ذریعے شیخ مجیب صدر یحییٰ خان پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہ رہا تھا۔
مارچ میں ہی ڈھاکا کرکٹ اسٹیڈیم میں جو بیت المکرم مسجد کے عقب میں واقع ہے، غالباً انگلینڈ یا نیوزی لینڈ مابین پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے درمیان میچ کھیلا جارہا تھا۔ ایک عینی شاہد غلام مجتبیٰ صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ اور ان کے بڑے بھائی میچ دیکھنے اسٹیڈیم میں گئے ہوئے تھے (غلام مجتبیٰ اور ان کے اہلِ خانہ بمشکل تمام کسی نہ کسی طرح نیپال کے راستے مغربی پاکستان پہنچے)، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ انتخاب عالم ایک چھکا مار چکے تھے، دوسرا مارنے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھے، اچانک اسٹیڈیم میں جے بنگلہ جے بنگلہ کے نعرے لگنے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شامیانے جلائے جانے لگے۔ کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اچانک کیا ہوگیا ہے۔ نعرے لگاتے ہوئے مشتعل بنگالی میدان میں جانا چاہتے تھے۔ بہت مشکل سے کھلاڑیوں کو بحفاظت نکال کر ان کے ہوٹل لے جایا گیا۔ اس طرح میچ منسوخ کرنا پڑا۔ انٹرنیشنل میڈیا نے فوری طور پر اس اہم خبر کو نشر کیا۔
چٹاگانگ چھائونی میں بغاوت اور پاکستان آرمی کے کرنل جنجوعہ کے قتل کے بعد خانہ جنگی کا سماں تھا، مشتعل باغی فوجی چھاؤنی کے رہائشی علاقے میں پھیل چکے تھے۔ کچھ دیر میں ہی ان مسلح بنگالی فوجیوں نے غیر بنگالی فوجیوں کی خواتین کو ایک جگہ جمع کیا اور ان خواتین کی بے حرمتی کی انتہا کرتے ہوئے انہیں برہنہ حالت میں چھاؤنی میں گھمایا۔
قطب الدین عزیز لکھتے ہیں کہ’’4 مارچ سے 10 مارچ تک ہنگاموں کی صورتِ حال یہ تھی کہ مشتعل ہجوم نے جس کی قیادت عوامی لیگی جنگجوؤں ’’مکتی باہنی‘‘ کے ہاتھوں میں تھی، بے شمار غیر بنگالی تاجروں کی دکانوں کو آگ لگا دی تھی اور انہیں اغوا کرلیا تھا، جنہیں بھاری بھتہ لے کر چھوڑا گیا۔ ڈھاکا کی مرکزی جیل ٹوٹ چکی تھی۔ 341 انتہائی خطرناک قیدی جیل سے فرار ہوچکے تھے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا، اور یہ مشتعل طلبہ سلیم اللہ مسلم ہال میں برٹش کونسل آفس کو جلانے کی کوشش کررہے تھے۔ بروقت پاک فوج کی کارروائی سے مسلح نوجوان بھاگ کھڑے ہوئے مگر جاتے جاتے انہوں نے گن پوائنٹ پر متعدد جیپیں، گاڑیاں اور مائیکرو ویگنز اپنے قبضے میں لے لیں جو غیر بنگالیوں کی تھیں۔ غیر بنگالیوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے ڈھاکا ریلوے اسٹیشن میں پناہ لی‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’مارچ کے وسط میں جب جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب کے مابین مذاکرات کا ’’ڈنگ ڈونگ‘‘ جاری تھا اُس وقت عوامی لیگ متوازی انتظامیہ بناکر اپنے لوگوں کو تربیت دلوا رہی تھی۔ متعدد تربیتی کیمپ ڈھاکا میں کھولے جاچکے تھے۔ عوامی لیگی غنڈوں نے ڈھاکا چھاؤنی تک غذائی ترسیل بند کردی تھی اور شیخ مجیب نے 23 مارچ کو پاکستان کے قومی دن کے بجائے یوم مزاحمت کا اعلان کیا۔ بزور طاقت و غنڈہ گردی پاکستان کا قومی پرچم ہر جگہ سے اتارا جانے لگا اور اس کی جگہ بنگلہ دیش کے پرچم کو آویزاں کیا جاتا رہا، جس محبِ وطن نے ایسا کرنے سے انکار کیا اُس کو جان سے مار دیا گیا۔‘‘
’’2 مارچ کو سینٹرل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی دعوت پر شیخ مجیب نے ایک احتجاجی جلسے میں شرکت کی اور پہلی مرتبہ سرزمینِ پاکستان میں بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا گیا، پاکستان کے قومی پرچم کو نذرِ آتش کیا گیا، اور رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم کو بطور قومی ترانہ پڑھا گیا۔‘‘ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک شہید)
5 مارچ کو ایک اعلیٰ فوجی افسر اسلام آباد پہنچے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب میں ایوانِ صدر میں داخل ہوا تو برآمدے میں صدر یحییٰ خان، جنرل حمید خان اور مسٹر بھٹو شراب پی رہے تھے۔ میں نے آتے ہی مشرقی پاکستان کی پریشان کن صورت حال کے بارے میں کچھ کہنا شروع کیا تو مسٹر بھٹو شراب کا جام اٹھائے ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ میں شکستہ روح اور گرفتہ دل کے ساتھ وہاں سے اٹھا۔ ڈھاکا میں خون بہہ رہا تھا اور بھٹو، حمید، یحییٰ رنگ رلیوں میں غرقاب تھے۔‘‘
(جنرل فرمان علی۔ یادداشتیں، اردو ڈائجسٹ مئی 1978ء)
عملاً بغاوت کا آغاز ہوچکا تھا اور سرکاری ملازمین نے دفاتر جانا بند کردیا تھا۔ کارخانے، ملیں، بینک، ریل گاڑیاں اور اسٹیمروں تک کا نظام متاثر تھا۔ عوامی لیگی غنڈے دندناتے پھر رہے تھے۔ جو اُن سے تعاون نہ کرتا اسے ٹھکانے لگادیتے۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے صوبے کے بنگالی چیف سیکریٹری نے 3 مارچ کو سول امور کے انچارج جنرل راؤ فرمان علی خان کو کہا کہ ’’فوج کو شہر میں طلب کرلیں‘‘۔ راؤ فرمان نے جواب میں کہا کہ ’’اس سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ آپ قانون نافذ کرنے کے لیے سول اداروں کا تعاون مانگ لیں‘‘۔ لیکن چیف سیکریٹری نے جو عوامی لیگ کے حامی کی حیثیت سے مشہور تھا، اصرار کیا کہ فوج کے بغیر حالات کنٹرول نہیں ہوسکتے۔ اس پر راؤ فرمان علی خان نے کہا کہ ’’مجیب سے پوچھو‘‘۔ جواب میں سیکریٹری نے کہا ’’میں ان کی منظوری سے یہ بات کررہا ہوں۔‘‘
اس طرح شہر میں فوج طلب کرلی گئی، اور یوں عوامی لیگ کو ’’گرم احتجاج‘‘ کی اشتراکی تکنیک بروئے کار لانے کا موقع فراہم ہوگیا۔
ان حالات میں جزوی ایکشن لینا پڑا۔ ڈھاکا، سلہٹ، رنگ پور اور کھلنا میں پاک فوج نے کرفیو لگاکر حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی، مگر شدت پسندوں کو جب اور جہاں موقع ملتا وہ اپنی کارروائی ڈال دیتے تھے۔
آرمی ایکشن کی ابتدا شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری سے ہوئی، جبکہ دوسرے عوامی لیگی رہنما ہندوستان فرار ہوچکے تھے۔ بھٹو نے وقت کی نزاکت کو بھانپتے اور میدان خالی دیکھ کر بیان دیا کہ ’’پاکستان کے بحران کو منتخب نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں‘‘، اور پھر اس نے جنرل یحییٰ سے چھے گھنٹے طویل ملاقات کی، اور اس ملاقات میں پیپلز پارٹی کو اقتدار حوالے کرنے کا مطالبہ دہرایا۔
6 مارچ کو جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو بلانے کا اعلان کیا۔ اگلے دن 7 مارچ کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ریس گراؤنڈ میں چار مطالبات پیش کیے اور فوری طور پر مارشل لا اٹھانے اور فوج کے بیرکوں میں واپس جانے کا مطالبہ پیش کیا۔ اس جلسے کی کارروائی ڈھاکا ریڈیو اسٹیشن سے براہِ راست نشر ہوتی رہی۔
14 مارچ کو بھٹو نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کسی آئینی مفاہمت سے قبل اقتدار منتقل کرنا ہے تو پھر مشرقی پاکستان میں اقتدار عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو سونپ دیا جائے۔‘‘
15 مارچ کو جنرل یحییٰ سخت ترین حفاظتی انتظامات میں ڈھاکا پہنچا تاکہ اس آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے جو اس نے خود بھڑکائی تھی۔ یحییٰ خان اور مجیب کے درمیان مذاکرات جاری تھے، اس دوران یحییٰ خان بھٹو سے بھی مسلسل رابطے میں رہا۔ جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور قتل و غارت گری برابر جاری رہی، یہاں تک کہ 21 مارچ آگئی، آج کے دن یحییٰ کے طلب کرنے پر بھٹو اپنے رفقا کے ساتھ ڈھاکا پہنچے، جہاں جنرل جہاں زیب ارباب نے ان کا استقبال کیا اور اپنی حفاظت میں قیام گاہ تک پہنچایا۔ شام کو دو گھنٹے تک یحییٰ اور بھٹو میں تنہائی میں ملاقات ہوتی رہی۔
کہنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈھاکا میں مذاکرات کے دوران ہی یحییٰ خان اور بھٹو کے درمیان ’’آرمی ایکشن‘‘ پر اتفاقِ رائے ہوگیا تھا۔ اس طرح جنرل ٹکا خان کو اس خوں ریز اندھے آرمی ایکشن کی کمان سونپی گئی۔ یحییٰ خان طیارے میں سوار ہوئے اور مغربی پاکستان چلے گئے۔ اس پراسرار روانگی کے فوری بعد مسٹر بھٹو نے تجاہلِ عارفانہ سے کا م لیتے ہوئے شیخ مجیب کو فون کیا اور کہا کہ ’’میں مذاکرات کے لیے تمہارے گھر آرہا ہوں‘‘۔ جواب میں شیخ مجیب نے کہا کہ ’’مذاکرات کس سے ہوں گے؟ تمہارا باپ (یحییٰ خان) تو یہاں سے جاچکا ہے!‘‘
(جنرل ٹکا خان۔ انٹرویو جنگ لاہور۔ 22 جولائی 1983ء)
26 مارچ کو مسٹر بھٹو نے شیخ مجیب کو غدار اور عوامی لیگ کو خلافِ قانون قرار دیئے جانے اور مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’خدا کا شکر ہے کہ… پاکستان بچ گیا‘‘۔
(روزنامہ مساوات اور روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ 27 مارچ 1971ء)
اُدھر مشرقی پاکستان میں اسٹیشنوں، قصبوں، شہروں، شاہراہوں پر قاتلوں اور غنڈوں کا راج تھا۔ غیر بنگالی مسلمانوں کا لہو دریاؤں کا پانی سرخ کررہا تھا۔ مقتل سجے ہوئے تھے اور انسانوں کو محاورتاً نہیں، فی الحقیقت سڑکوں پر لٹا لٹا کر ذبح کیا جارہا تھا۔ لندن کے اخبار سنڈے ٹائمز کے رپورٹر نے 2 مئی 1971ء کو لکھا کہ ’’مکتی باہنی کے غنڈوں نے چٹاگانگ میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک افسر کی ادھیڑ عمر ماں کو قتل کردیا، پھر اس کے دو معصوم بچوں کے سر کاٹ ڈالے، ان دونوں معصوموں کے کٹے ہوئے سروں کو مقتولہ ماں کی برہنہ لاش پر ڈال دیا۔ بہت سی غیر بنگالی مقتولہ کنواری لڑکیوں کے جسموں میں سے بنگلہ دیش کے پرچم نکالے گئے جنہیں مکتی باہنی کے وحشیوں نے ان کے جسموں میں ٹھونس کر قتل کردیا تھا۔‘‘
اس قتل عام میں مظلوم بہاری ماؤں کو اپنے بچوں کا لہو پلایا گیا۔ قتل سے پہلے افراد کے ہاتھوں قبریں کھدوائی گئیں۔ سراج گنج شہر میں چار سو خواتین اور بچوں کو ایک بڑے ہال میں پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔
حوالہ جات: (Blood and Tears قطب الدین عزیز)
(’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘۔صدیق سالک شہید)
(البدر۔ مصنف پروفیسر سلیم منصور خالد)
(جنرل فرمان علی۔ یادداشتیں، اردو ڈائجسٹ، مئی 1978ء)
(جنرل ٹکا خان۔ انٹرویو جنگ لاہور۔ 22 جولائی 1983ء)
(روزنامہ مساوات اور روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ 27 مارچ 1971ء)
(جاری ہے)

حصہ