اولاد کے حقوق

836

سیدہ عنبرین عالم
عمارہ جب تین سال کی ہوئی تو اپنی ماں کی پہلی بات جو اس کی سمجھ میںآئی وہ یہ تھی ’’برے باپ کی بری اولاد‘‘۔ اسے یہ بات سمجھ میں نہ آئی، اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ باپ کیا ہوتا ہے۔ اس نے کبھی باپ کو دیکھا جو نہیں تھا۔ پھر اکثر گھر کے کئی لوگ اس قسم کے جملے بولنے لگے ’’جیسا باپ ویسی اولاد، باپ کی شکل لے کر پیدا ہوئی ہے تو حرکتیں بھی ویسی ہوں گی۔ جا اپنے باپ کے پاس، اگر بات نہیں مانی تو باپ کے پاس چھوڑ آئوں گی۔‘‘
یہ جملے دوسرے لوگ تو بولتے ہی تھے مگر زیادہ تر یہ جملے اس کی ماں کی زبان سے ادا ہوتے تھے۔ یہ جملے اتنے تکلیف دہ نہیں تھے جتنی وہ نفرت جو عمارہ کی امی کو عمارہ سے تھی۔ وہ اسے اپنی اولاد نہیں سمجھتی تھیں بلکہ عمارہ کو اس کے باپ کی اولاد سمجھتی تھیں جو زبردستی ان کے گلے پڑ گئی۔ وہ خود ہی کم نہیں تھیں، اوپر سے اس کی نانی بھی عمارہ کی امی کو عمارہ کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھیں تاکہ وہ عمارہ کو اس کے باپ کے ہاں بھیج دیں یا کسی یتیم خانے میں ڈال دیں۔ عمارہ کو یہ تو نہیں معلوم تھا کہ باپ کیا ہوتا ہے، بس اسے پتا تھا کہ باپ بہت بری چیز ہے اور اس کے باپ نے جو کچھ بھی برا کیا ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہے۔
عمارہ اور اس کی امی، اس کے ماموں کی فیملی اور نانی کے ساتھ رہتی تھیں۔ ماموں بڑے نیک مگر ممانی ناراض ہی رہتی تھیں، اور عمارہ کی امی سے ان کی جھڑپیں معمول کی بات تھی۔ یہ الگ مسئلہ تھا کہ ہر معاملے میں یہ جملہ بولا جائے کہ ’’ہمارا گھر ہے‘‘، یا ’’نکلو ہمارے گھر سے‘‘۔ جھگڑے کی اصل وجہ تو دھری کی دھری رہ جاتی اور عمارہ کی امی کو، جو قیامِ پاکستان سے اسی گھر میں رہ رہی تھیں اور صرف چند سال شوہر کے گھر گئی تھیں، اس گھر میں رہنے کی وجوہات بیان کرنی پڑجاتیں، اور ظاہر ہے یہ سارا غصہ بھی عمارہ پر اترتا۔ بات بے بات عمارہ کو دھنک کر رکھ دینا امی کی عادت بن چکی تھی۔ وہ اپنے شوہر کا سارا انتقام اس کی اولاد سے لینا چاہتی تھیں۔
لڑائی جھگڑوں سے نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ عمارہ کے ماموں نے چھت پر ایک کمرہ بناکر عمارہ اور اس کی امی کو وہاں منتقل کردیا۔ کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ دو لوگ بھی وہاں نہیں رہ سکتے تھے، مگر عمارہ کی امی نے روز روز کی چخ چخ سے نجات کی خاطر ماموں کا یہ فیصلہ قبول کرلیا۔ پہلے تو باورچی خانے میں بھی مخصوص وقت تک رہنے کی اجازت تھی، اب اپنا باورچی خانہ ہو گیا، بھلے سیڑھیوں پر چھوٹا سا سلیب بناکر چولہا لگا دیا تھا مگر اپنا تھا۔ ماحول بدلا تو عمارہ کی امی کے رویّے میں بھی فرق آیا۔ وہ معمولی ٹیچر تھیں، چھوٹی سی تنخواہ تھی، مگر ہر پھل لاکر عمارہ کو دیتیں، روز دودھ دیتیں، کبھی اس کی پسند کے شامی کباب بنا دیے تو کبھی کوئی میٹھا بنادیا۔ اچھے سے اچھے اسکول میں پڑھایا اور خود بھی روز پڑھانے بیٹھتیں اور اس پر مکمل توجہ دیتیں۔
مگر باپ اور دادی کے طعنے اب بھی مستقل دیے جاتے، بلکہ اب عمارہ کی امی دن رات بتاتیں کہ مجھ پر سسرال میں کیا کیا مظالم ہوئے، تیرے باپ نے مجھے اتنی بری طرح مارا کہ میری آنکھ پھٹ گئی، تیرے باپ نے مجھ سے میری تنخواہ ہمیشہ چھینی، تیری دادی نے تیرے باپ سے شکایت کرکے مجھے پٹوایا، تیرے باپ نے میرا سارا جہیز رکھ لیا اور مجھے طلاق دے کر نکال دیا…
صبح سے شام تک وہ یہ قصے سنتی۔ تمام قصے اسے ازبر ہوچکے تھے، مگر کئی الفاظ کا مطلب اس سات سال کی بچی کو نہیں معلوم تھا، جیسے ’’طلاق‘‘… جب ایک بچہ اس حد تک اکیلا ہو تو سبھی کو ہمت آجاتی ہے، اس لیے باپ اور دادی کے طعنے کے علاوہ اسے کم صورتی اور کالے رنگ کے طعنے بھی خاندان میں ہر طرف سے ملنے لگے، حتیٰ کہ اسے خالہ کی بیٹیوں کی طرف سے ’’کالا گلاب‘‘ کا خطاب دے دیا گیا۔ نفسیاتی مسائل کی وجہ سے عمارہ اسکول میں بھی کسی سے دوستی نہیں کرپاتی، وہ خود کو مجرم سمجھتی تھی کیونکہ وہ ایک بہت برے باپ کی بیٹی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ میں کیسے اپنی امی کی بیٹی بنوں۔ مگر اس کی امی نے اسے ہمیشہ اس کے باپ سے منسوب کیا، اس لیے وہ چاہ کر بھی ماں کے لیے انسیت پیدا نہ کرسکی۔
عمارہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی، یہ سب اس کی امی کی توجہ اور محنت کا نتیجہ تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ بیٹی کو کسی اچھے مقام پر پہنچا دیں۔ ان کی ہر دعا میں یہ دعا شامل ہوتی کہ ’’یااللہ مجھے اور میری بچی کو کبھی کسی کا محتاج نہ کرنا۔‘‘
وہ عمارہ سے محبت کرتی تھیں، مگر جو حادثہ ان کی زندگی میں ہوا اس نے انہیں چڑچڑا بنادیا، اور وہ اس حادثے کا انتقام کسی سے لینا چاہتی تھیں، مگر یہ انتقام انہوں نے اپنی والدہ سے نہیں لیا جنہوں نے ان کی شادی خبیث انسان سے کرائی، وہ انتقام اپنی بیٹی سے لے رہی تھیں جو نہ اس شادی میں شریک تھی، نہ اس سے اس کی رائے پوچھی گئی، نہ اس کا کوئی قصور تھا۔
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ عمارہ کی نانی بہت بری طرح بیمار ہوگئیں، وہ ایک مہینہ اسپتال میں داخل رہیں اور امی انہی کے ساتھ رہتیں۔ عمارہ کی خالہ کی بیٹیاں حالانکہ شادی شدہ تھیں، پھر بھی خالہ اتنی دیر اسپتال میں نانی کے ساتھ رہتیں جب تک عمارہ کی امی اپنی نوکری پر سے نہ آجاتیں، باقی سارا وقت عمارہ کی امی ہی نانی کے ساتھ رہتیں۔ انہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ میری بیٹی نے کیا کھایا ہوگا، وہ پڑھائی کررہی ہوگی یا نہیں، اتنی بڑی اندھیری چھت کے سامنے وہ اکیلے کیسے سوتی ہوگی۔ انہیں صرف نانی کی فکر تھی اور انہی سے محبت تھی۔ عمارہ مزید اکیلی ہوگئی۔ کبھی روٹی بناکر کھجور سے کھا لیتی، کبھی اچار سے۔ میلے یونیفارم میں اسکول جاتی اور رات میں ڈر کے مارے جاگتی رہتی۔
جب نانی گھر میں آگئیں تو عمارہ کی امی بس نوکری پر جاتیں اور دن رات نانی کی خدمت میں لگی رہتیں، انہی کے ساتھ نیچے سوتیں اور اوپر عمارہ ویسے ہی تنہا کی تنہا۔ اوپر کبھی کبھار آتیں بھی تو صرف نانی کے متعلق بات کرتیں۔ کبھی اگر عمارہ نے شکوہ بھی کردیا تو ، اپنی ماں کی خدمت کرکے مجھے جنت ملے گی، تمہارا خیال رکھ کر مجھے کیا ملے گا؟ عمارہ چپ ہوکر اپنے آنسو پی جاتی اور شکوہ بھری نگاہوں سے آسمان کو تکنے لگتی۔ اُس آسمان والے کو، جس نے بچوں کے حقوق کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ ماں باپ دونوں، اولاد کو پیدا کرکے اپنے اپنے ماں باپ کی خدمت میں لگ جائیں اور اولاد کو لاوارث چھوڑ دیں… عمارہ کے ساتھ یہی ہورہا تھا۔
عمارہ 22 سال کی ہوچکی تھی، ہر کلاس میں بہترین گریڈ لینے کے بعد بی ایس سی فرسٹ ڈویژن میں کرچکی تھی۔ ایک دن اس نے پالک کی سبزی بنائی۔ وہ سبزیوں کو بھوننے سے اجتناب کرتی تھی تاکہ تیل میں جل کر وٹامن نہ مر جائیں، اور تھوڑا سا پانی چھوڑ دیتی تھی۔ اس نے یہ کھانا پکاکر جب اپنی امی کو پیش کیا تو وہ انتہائی رکھائی سے بولیں ’’یہ کیا پانی والی پالک پکائی ہے، بالکل اپنی دادی کی طرح۔‘‘
عمارہ تڑپ کر رو دی۔ پیدا ہونے سے لے کر 22 سال ہوگئے تھے، باپ اور دادی کے قصے اور طعنے سن کر۔ وہ بولی ’’امی کیا میں نے اپنی دادی کو کبھی دیکھا ہے؟‘‘
وہ بولیں ’’نہیں، لیکن رو رو کر ڈرامے کرنے کا فائدہ نہیں‘ تمہاری دادی پھوہڑ تھیں تو تمہیں سن کر برا کیوں لگ رہا ہے؟ مانو اس بات کو۔‘‘
’’امی کیا میں نے اُن سے پالک پکانا سیکھا ہے، یا کبھی ان کو پکاتے ہوئے دیکھا ہے؟ امی! کیا آپ کی شادی میں نے کرائی تھی یا میں شامل تھی شادی کے فیصلے میں؟ امی! جو شادی آپ نے اپنی مرضی سے، اپنی پسند کے بندے سے کی اس میں میرا کیا قصور؟ امی آپ صرف یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ تیل میں بھون کر سبزی بنایا کرو، دادی کا طعنہ دینا کیوں ضروری تھا؟ میں ان کی نہیں ہوں، میں آپ کی ہوں۔‘‘
عمارہ کی امی خاموش ہوگئیں اور اس کی باتوں پر غور کرنے لگیں، ’’تم صحیح کہہ رہی ہو، مگر میرے دل میں غصہ بھرا ہوا ہے اور وہ میں ساری زندگی تم پر اتارتی رہی۔‘‘
اس واقعے کے بعد عمارہ کی امی نے کبھی اسے اس کے باپ، دادی یا کم صورتی کا طعنہ نہیں دیا۔ اللہ کا کرنا کہ 13 سال بستر پر گزارنے کے بعد نانی کا بھی انتقال ہوگیا اور عمارہ کی امی کو عمارہ کے خلاف کرنے والا کوئی نہ رہا۔ اب ماں بیٹی بہت محبت سے رہتی ہیں اور ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتی ہیں۔
ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچے ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک گھر کے ٹوٹنے کے بعد ماں بھی دوسری شادی کر لیتی ہے،باپ بھی دوسری شادی کر لیتا ہے اور اس ٹوٹے ہوئے گھر کے بچے ماں اور باپ دونوں کی نئی زندگی میں ایک ناخوشگوار بوجھ ہوتے ہیں، دونوں گھروں میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہوتی اور خود کو ناپسندیدہ عنصر سمجھتے سمجھتے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ کئی کیسز میں ماں طلاق کے بعد بچے کو میکے ساتھ لے آتی ہے اور میکے والے بچے کو رکھ کر ماں کی کسی دوسری جگہ شادی کردیتے ہیں۔ یوں بچہ ماں اور باپ دونوں سے محروم ہوکر محض ممانیوں کے لیے ایک مفت کا نوکر بن جاتا ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ بچے جن کے ماں یا باپ طلاق کے بعد بھی دوسری شادی کا نہیں سوچتے اور بچوں کو مکمل پیار اور توجہ دیتے ہیں۔ یہاں بیان کیے گئے قصے میں ایک ایسی بچی کا ذکر ہے جس کی ماں معاشی تگ و دو بھی کررہی ہے، میکے والوں کی غیریت اور ناپسندیدگی بھی جھیل رہی ہے، بچی کی ذمے داریاں بھی پوری کررہی ہے اور اسے اپنی زندگی برباد ہونے کا بھی غم ہے۔ یہ تمام تیر جو اس کا سینہ چھلنی کرتے ہیں، وہ ان کا غصہ اپنی بچی پر اتار کر اپنی دانست میں اپنی تمام محرومیوں کا ازالہ کرلیتی ہے، وہ یہ نہیں سوچتی کہ ایک یہی بچی تو اس کی اپنی ہے، یہی تو وہ واحد انسان ہے جسے اپنی ماں سے سچی محبت ہے، دنیا میں کسی کو فرق پڑے نہ پڑے اسے اپنی ماں کے ہونے نہ ہونے سے فرق پڑتا ہے، مگر اس ماں نے صرف اس وجہ سے اپنے ہی خون سے نفرت کی کہ اس کی شکل اُس شخص سے ملتی تھی جس نے اس کی زندگی برباد کی۔ یہ ماں اپنی ماں سے عشق کرتی رہی، ساری زندگی اپنی ماں کی خدمت کرتی رہی حالانکہ حقیقت یہی تھی کہ اس کی شادی اور بربادی اس کی ماں نے کرائی، اور وہ بیٹی سے انتقام لیتی رہی۔ ظاہر ہے اس کی ماں نے بھی جان بوجھ کر غلط جگہ بیٹی کی شادی نہیں کرائی، مگر عمارہ کا کیا قصور؟
ایک اور ملتا جلتا مسئلہ ہے، وہ بھی بچوں کو نظرانداز کرنے کے متعلق ہے۔ ہوسکتا ہے کئی لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارے یہاں سب ڈرامے، فلمیں اور دیگر گفتگو صرف ماں، باپ کے حقوق کے متعلق ہوتی ہے، بچے بے چارے تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو سمجھ تک نہیں پاتے، آواز کیا اٹھائیں گے! بزرگ تو جگہ جگہ اپنے بچوں کی شکایت بھی کرلیتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارا خیال نہیں رکھتے، بچوں کو تو اتنی سمجھ بھی نہیں ہوتی کہ ماں باپ کی شکایت کریں۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو۔ ماں باپ کو ان کے حقوق دینے چاہئیں اور اولاد بھی آپ کی ذمے داری ہے، توازن قائم کیجیے، نہ بچوں پر اتنے نثار ہوجائیں کہ بوڑھے ماں باپ پریشان ہوجائیں، نہ ماں باپ کی اس قدر خدمت کریں کہ بیوی بچوں کو ہی لاوارث چھوڑ دیں۔ اور اگر آپ مکمل طور پر ماں باپ کی ہی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو خدارا شادی مت کریں، کئی ننھی جانوں کو دنیا میں لاکر ان کی ذمے داریوں سے منہ موڑ لینے سے بہتر ہے شادی نہ کریں۔ ایک چھ یا سات سال کے بچے کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر آپ اپنے ماں باپ کے ساتھ اسپتال میں کئی کئی دن قیام یہ کہہ کر کریں کہ ’’تم اب بڑے ہوگئے ہو‘‘، کیا یہ زیادتی نہیں ہے؟
مجھے نہیں معلوم کہ ان سب باتوں کا حل کیا ہے؟ ہاں مجھے یہ معلوم ہے کہ بزرگوں کے حقوق کی بات ہر کوئی کرتا ہے مگر بچوں کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ بزرگوں کو اولڈ ہومز میں ڈالنا بڑا معاشرتی جرم سمجھا جاتا ہے، مگر بچوں کو دن دن بھر جاہل ماسیوں کے سپرد کردینا یا ڈے کیئر سینٹرز میں ڈال دینا ماڈرن لائف اسٹائل ہے۔ اگر واقعی تبدیلی آگئی ہے تو پھر بچوں کے حقوق پر بھی بات ہونی چاہیے۔

حصہ