جذباتی غارت گر

361

تنویر اللہ خان

وہ بھی کتنی آسانی کا وقت تھاجب دُنیا کچھ جسمانی بیماریوں اور کچھ ذہنی ونفسیاتی عارضوں سے واقف تھی، جو بیماری یا ذہنی مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا تھا اُسے کسی نامعلوم آسیب، اثر، سائے، بھوت پریت کے سر ڈال کر کام ختم ہوجاتا تھا، اب طرح طرح کی تحقیقات نے طرح طرح کے ڈاکٹر،علاج، ریڈیالوجی، پیتھالوجی ٹیسٹ، معائنوں اوردوائوں کے چکر نے ہمیں الجھا کررکھ دیا ہے۔
جذباتی غارت گر بھی کچھ اسی طرح کی تحقیق ہے، اب ان جذباتی غارت گروں سے بھی اپنے آپ اور اپنے بچوں کو بچانا ضروری ہوگیا ہے۔
یہ غارت گر کیا کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں اور ان کی وارداتوں کا کیا اثر ہوتا ہے ! یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ لوگ عزم کو زمین پر لٹا دیتے ہیں، ہمت کا ناس مار دیتے ہیں، امید کو غارت کردیتے ہیں، منفی جذبات کو ابھارتے ہیں، مایوسی پیدا کرتے ہیں، خوف میں مبتلا کردیتے ہیں، ہر بات کا تاریک ترین پہلو زور سے بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں، بے یقینی میں ڈال دیتے ہیں، قوت عمل کو ختم کردیتے ہیں، امنگ کی مت مار دیتے ہیں، تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں، ہر ایک کو دشمن ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے آپ کے علاوہ سب کو مفاد پرست بتاتے ہیں، سب کو چور اور بددیانت سمجھتے ہیں، کسی پر بھروسہ نہ کرنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں، سوتے میں بھی جاگتے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں’’ سب ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘ کا سبق یاد کراتے رہتے ہیں، دوسرے کی کامیابی سے جلتے ہیں دوسرے الفاظ میں یہ حاسد ہوتے ہیں، یہ اپنی تعریف کے حریص ہوتے ہیں، بے لوث تعلق نہیں رکھتے، غیر معمولی اچھا سلوک نہ کرنے پر ناراض ہوتے ہیں۔
ایسے معاشرے میں جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کو لازمی سمجھا جاتا ہو،چھوٹے گھر جہاں جگہ کی تنگی کی وجہ سے سب ایک دوسرے کے سر پر سوار رہتے ہوں، جہاں دوسرں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کو سماجی حق سمجھا جاتا ہو، سب کے معمولات و حالات سب پر کُھلے ہوں ایسا ماحول ان ’’جذباتی غارت گروں‘‘ کے لیے بہت سازگار ہوتا ہے یہاں اِنھیں اپنا کھیل کھیلنے کے بھرپور مواقع میسر ہوتے ہیں۔
ان جذباتی غارت گروں کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان سے مل کر دنیا میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آنے لگتا ہے، سب غلط نظر آنے لگتے ہیں، کچھ بھی کرنے میںکسی فائدے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، دل تیز دھڑکتا ہے، گھبراہت طاری ہوجاتی ہیں، نا امیدی بڑھ جاتی ہے۔
میرا دوست ہے جوعمر میں مجھ سے کم لیکن باتوں میں بہت بڑا ہے سلام دعا کے بعد وہ اپنی گفتگو کا آغاز ہمیشہ کچھ اس طرح کرتا ہے’’ ارے آپ کو معلوم ہی نہیں ہے، پھر تو آپ کو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا، آپ کو پتا ہی نہیں ہے اس وقت کیا گیم چل رہا ہے ‘‘ اس کے بعد وہ اپنی کامیابیاں گنوانے لگتا ہے، وہ بتاتا ہے کہ دُنیا کے کئی ممالک میں اس کا کاروبار چل رہا ہے ، کئی ممالک میں اس نے اپنے ٹریڈ آفس بنائے ہوئے ہیں، اس کے مال کا ایک جہاز پانی میں ہوتا ہے ایک بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتا ہے،کسی ملک میں شپمینٹ تیار کی جارہی ہوتی ہے، اس سے جب ملاقات ختم ہوتی ہے تو مجھے اپنی زندگی رائیگاں دکھائی دیتی ہے اور وہ کامیاب ترین معلوم ہوتا ہے، یہ ہے جذباتی غارت گر، ایسے لوگوں سے میل جول ضرور رکھیں ان کی فتوحات کی کہانیاں بھی سُنیں لیکن دیگر علامات سے ان کے بیان کو کراس چیک ضرور کریں تاکہ گپ اور سچ کو علیحدہ کیا جاسکے اس کے بعد جو سچ ہو اس سے سیکھیں اور جو گپ ہو اُسے مزاحیہ پروگرام کا ایک خاکہ سمجھ کر بھول جائیں۔
میری ایک خالہ زاد ہے ویسے تو اس کے اپنے ظاہر میں کئی ایسی چیزیں ہیں جن کا استہزاء کیا جاسکتا ہے، لیکن وہ جب بھی ملتی ہے ایک اچھے حملہ آور کی طرح میرے اندر کوئی نہ کوئی نقص تلاش کرلیتی ہے، ایک میت کے موقع پر اُس نے مجھے دیکھ کر کہا ’’ تمہارا وزن بہت کم ہوگیا ہے، کیا کوئی بیماری لگ گئی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں وزن خود کم کیا ہے جب اُس نے اپنا وار خالی جاتا دیکھا تو سنبھل کر دوسرا حملہ کیا ’’ تمہارا رنگ کالا ہوگیا ہے جواباً میں یہ نہ کہہ سکا کہ میں نے خود کالا کیا ہے، اس بہن سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے میں خود اپنے آپ کو کمزور، لاغر، کالاکلوٹا نظر آنے لگتا ہوں، یہ محترمہ بھی ایک طرح کی جذباتی غارت گر ہیں۔
ایک کردار اور ملاحظہ فرمائیے، ارے آپ کویاد ہے یہ جو آج ہرطرف موٹیویشنل اسپیکر تقریریں کرتے نظر آرہے ہیں یہ کام میں نے شروع کیا تھا، آپ بہت یاد کرکے انھیں کوئی ایسا کام بتائیں جس کا آغاز کرنے والے کا آپ کو خوب اچھی طرح معلوم ہو یہ اُس کام کا موجد بھی اپنے آپ کو ہی قرار دیں گے، یعنی دُنیا کا ہر اچھا کام اُن سے شروع ہوتا ہے اور اُن پر ہی ختم ہوجاتا ہے لہٰذا جب تک دُنیا قائم ہے اُن کے اچھے کاموں سے فیض یاب ہوتی رہے گی، اب کسی مزید اچھے کام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی جذباتی ٖغارت گری کی ایک قسم ہے۔
کسی طالب علم کا انجینئرنگ میں داخلہ ہوگیا اور اُس کا واسطہ کسی غارت گر سے ہوگیا تو وہ کہے گا اب تو سب کے ہی اچھے نمبر آجاتے ہیں، اچھا کون سے شعبے میں ایڈمیشن ملا ہے؟ سول میں اوہ! اس کی تو اب کوئی ڈیمانڈ ہی نہیں ہے میرے کئی دوست سول انجینئر ہیں بے چارے مارے مارے پھر رہے ہیں، آپ جواب دیں کہ میرا بیرون ملک جانے کا ارادہ ہے تو وہ بتائیں گے کہ ترقی یافتہ دُنیا تعمیرات کے حوالے سے سچوریشن پوائنٹ پر کھڑی ہے لہٰذا وہاں بھی تمہاری کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ باتیں سُن کر آپ پر یاسیت طاری ہوتی نظر آئے تو یہ آپ کودلاسہ دینے کے لیے راستہ نکالتے ہوئے بتائیں گے کہ جدید دُنیا میں بھی قدرتی آفات آتی رہتی ہیں لہٰذا مایوس نہ ہو تمہارا کسی سونامی، زلزلے، سیلاب کے بعد کوئی نہ کوئی کام نکل ہی آئے گا۔
اچھا! تمہارا سی اے کرنے کا ارادہ ہے، وہ بتائیں گے یہ تو بہت مشکل ہے، بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں پرکامیاب نہیں ہوتے میرے ایک دوست ہیں ان کا تمام تعلیمی کیرئیرآوٹ اسٹیڈنگ ہے لیکن پچھلے دس سال سے ان کا ایک پیپر اٹکا ہوا ہے نکل کر نہیں دے رہا ہے، یہ بھی ایک غارت گر ہیں۔
جذباتی اور حساس لوگ ان کا خاص نشانہ ہوتے ہیں لہٰذا والدین اور قریبی لوگوں کو زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی غارت گر ہمددری کے غلاف میں درد نہ دے رہا ہو۔
یہ غارت گر آپ کے دماغ پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں، آپ کو کیا پہننا چاہیے، کیا کھانا چاہیے، کیا پڑھنا چاہیے، کس سے دوستی کرنا چاہیے، کس طرح سوچنا چاہیے، کس طرح رہنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ، حالانکہ یہ سب معاملات انتہائی ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن یہ غارت گر کسی ذاتی، نجی حد کا پاس نہیں کرتے، یہ ہر معاملے پر اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
ان غارت گروں کا ایک طریقہ واردات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی محفل میں جاری موضوع کو قطع کرکے اپنی بات شروع کردیتے ہیں محفل کا موضوع گفتگو ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں،یہ اپنے آپ کو ضروری اور سامنے والے کو غیر ضروری ثابت کرتے ہیں تاکہ سارا فوکس ان کی طرف ہوجائے اور یہ اپنی من مانی کرسکیں۔
ان سے کیسے بچا جائے؟
اللہ پر مضبوط ایمان ہر مشکل کو جھیلنے کی قوت پیدا کرتا ہے جسے اس کا یقین ہو کہ جو کچھ ہے اللہ کی طرف سے ہے وہ کسی کے ڈراوے میں نہیں آتا، اللہ پر مستحکم ایمان رکھنے والامستقبل کے خدشات میں مبتلا نہیں ہوتا، اس کے فیصلوں میں استقامت اور مضبوطی ہوتی ہے، وہ کامیابی کی امید اللہ سے لگاتا ہے، لہٰذا ایمان ان جذباتی غارت گروں کے لیے بالکل ایسا ہے جیسے شیطان کے لیے ’’لاحول ولا وقوۃ‘‘۔
اللہ کے بعد اپنے آپ پر یقین رکھیں، انسان میںصالحیت کے تین ذرائع ہیں ایک عطائی دوسرا کسبی تیسرا نسبی، تیسرے ذریعے پر انسان کا اختیار نہیں جب کسب کا موقع ہر ایک کو دستیاب ہے جو چاہے جتنی محنت کرے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرے جب کہ اللہ زندہ وجاوید ہے وہ جب چاہے جسے چاہے نواز دے لہٰذا اپنے بارے میں اللہ پر بھروسہ کریں، کسی کو اپنے معاملات میں بے جا مداخلت کی اجازت نہ دیں، اپنے طرز عمل سے اُنھیں بتادیں کہ اُن کے تبصروں کو سنجیدہ نہیں لیتے، ممکن ہوتو ان سے رابطہ ختم کردیں یا تعلق میں حد رکھیں، جس محفل میں آپ اپنے آپ کو غیر متعلق سمجھیں اُس محفل کو چھوڑ دیں اسی طرح جو محفل آپ کو بوجھل کردے وہاں سے بھی اپنی جان چھڑالیں،اپنے مشغلوں کاانتخاب خود کریں، اپنی توقعات کو حقیقی بنائیں، کسی پر انحصار نہ کریں،ان غارت گروں سے صرف ضروری بات کریں، ان کے آنے پر اپنے آپ کو مصروف ظاہر کریں، ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کریں، ان پر اپنے ارادے ظاہر نہ کریں، ان کی بات میں مداخلت کریں، ان کے سامنے اپنے آپ کو پرسکون رکھیں۔
قرآن میں اللہ نے بار بار اہل ایمان کو ہدایت کی ہے کہ خیر کے معاملے میں تمہیں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کسی ملامت کی پرواہ نہ کرنا بھی ان غارت گروںکا بہترین علاج ہے۔
آخرت پر ایمان بھی مومن کے اندر بڑے سے بڑے نقصان کو انگیز کرنے کی قوت پیدا کرتا ہے لہٰذا ایسے شخص کو ناکامی سے ڈرا کر اقدام سے روکا نہیں جاسکتا آخرت پر یقین رکھنے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ یہاں کی ناکامی یا کامیابی دائمی نہیں بلکہ وقتی ہے۔
اپنے اندر کامیابی کا یقین پیدا کیجیے کسی بھی کام آغاز نیم دلی سے اور ناکام ہونے کے خوف کے ساتھ نہ کریں، ایک ہی کام مختلف لوگوں کو مختلف نتائج دیتا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ اگر کوئی ناکام ہوا ہے تو آپ بھی ناکام ہوں اللہ نے ہر ایک کو مختلف قسمت اور مختلف صلاحیتیں دیں ہیں لہٰذا کسی کا ناکام تجربہ آپ کے لیے بینچ مارک نہیں ہوسکتا۔ آخری اور سب سے اہم بات کوشش کے بعد اللہ سے اس میں برکت اور کامیابی کی دعا کرتے رہیں۔

حصہ