آلودگی، بچوں میں دمے کا بڑا سبب ہے، ڈاکٹر قرۃ العین شیخ

519

انٹرویو قاضی عمران احمد
سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال نارتھ ناظم آباد میں پونے 2 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے توسیعی بلاک کے بعد علاقے کے مریض بچوں کو ان کے گھروں کے قریب بہتر طبی سہولتیں میسر آئی ہیں۔ سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال نارتھ ناظم آباد‘ جو 2003ء میں قائم ہوا تھا‘ پہلے 50 بستروں پر مشتمل تھا جہاں پر جاپانی این جی او ’’جائیکا‘‘ (جاپان انٹرنیشنل کو آپریشن ایجنسی) کے تعاون سے تقریباً پونے دو ارب روپے کی لاگت سے مزید 150 بستروں کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد بستروں کی مجموعی تعداد 200 ہوگئی ہے۔ اس جدید اور خوب صورت عمارت کی تعمیر کا کام صرف8 ماہ میں مکمل ہوا ہے جسے تعمیر کے ’’پاورٹی ایری ڈیکیشن انیشیٹو‘‘ نامی این جی او کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
این جی او کے جنرل منیجر گوہر علی شاہ کے مطابق پی ای آئی ملک بھر میں طبی سہولتیں فراہم کرنے میں بھرپورکردار ادا کررہی ہے اور چلڈرن اسپتال نارتھ ناظم آباد میں بھی بہترین سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ پی ای آئی کے ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر امام یار بیگ کے مطابق ان کا پہلا مقصد اسپتال انتظامیہ کے ساتھ مل کر مریض بچوں کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنا اور ان کی جان بچانا ہے۔ اسپتال میں ہر طرح کی جدید سہولتیں موجود ہیں جس میں دو آپریشن تھیٹر، بچوں کی نرسری، بلڈ بینک، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، جدید سی سی ٹی وی کیمرے، پرائیویٹ سیکورٹی سمیت دیگر سہولتیں بھی موجود ہیں۔
چلڈرن اسپتال کا قیام 2003ء میں عمل میں آیا جس کا افتتاح اس وقت کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کیا تھا۔ چند برس قبل اسپتال کی مختلف اوپی ڈی میں صرف 600 مریض رپورٹ ہوتے تھے اب یہ تعداد2 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ حکومت پاکستان نے ’’جائیکا‘‘ سے 2011ء میں درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے مدد کرے۔ جس کے بعد جاپان کی ایک سروے ٹیم نے 2011ء میں چلڈرن اسپتال کے متعدد سروے کیے اور مکمل اطمینان ہونے کے بعد اسپتال میں ترقیاتی کام شروع کیا۔
’’جسارت میگزین‘‘ نے بچوں میں دمے کی بیماری میں اضافے کے حوالے سے سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کی معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر قرۃ العین شیخ سے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
جسارت میگزین: سب سے پہلے اپنے بارے میں بتائیں۔
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: میں سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کی سینئر وومن آفیسر ہوں۔ مجھے اس اسپتال میں خدمات انجام دیتے ہوئے ڈیڑھ سال ہو چکا ہے، اس سے قبل میں شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں تھی جہاں سات سال تک خدمات انجام دیتی رہی‘ پھر میرا ’’ویڈ لاک‘‘ پالیسی پر کراچی میں تبادلہ ہوا اور میںاس وقت سے چائلڈ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے یہاں موجود ہوں۔
جسارت جسارت میگزین: دمہ اصل میں ہے کیا؟ اس کے بارے میں تفصیل سے بتائیں؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: دمہ جسے استہما بھی کہتے ہیں دراصل یہ ایک ایسا پیچیدہ مرض ہے جو سانس کی نالیوں میں سوجن پیدا کرتا ہے۔ دمے کا مریض الرجیز سے بہت ہی حساس ہوتا ہے۔ وہ الرجن ہوا کے ذریعے اندر سانس میں داخل ہوتے ہیں تو سانس کی نالیوں میں سوجن پیدا کر دیتے ہیں اور وہاں پر موجود مسلز کو سکیڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نالیاں بند ہو جاتی ہیں، بائیو میٹر کم ہو جاتا ہے اور سانس لینے میں بہت زیادہ دشواری ہوتی ہے۔ اس کے چار علامات ہوتے ہیں اگر بچے کو کھانسی ہے لیکن اسے بخار نہیں ہے اور وہ کھانسی خشک ہے، بلغمی کھانسی نہیں ہے ساتھ میں اسے سانس میں دشواری ہو رہی ہے اور اس میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آ رہی ہے اور چھاتی میں درد یا گھٹن سی ہو رہی ہے تو ہم تشخیص کرتے ہیں کہ یہ بچہ استھما (دمے) کا مریض ہے۔
جسارت میگزین: آج کل یہاں بچوں میں دمے کی جو بیماری ہے وہ کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: اگر ہم وجوہ کی طرف جائیں تو پہلی وجہ موروثی ہے یعنی یہ بیماری ورثے میں ملی ہے جب کہ کچھ ہمارے ماحولیات کی وجہ سے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں جب ملتی ہیں تب جا کر دمہ ہوتا ہے۔ چوں کہ پاکستان میں آلودگی بہت زیادہ ہے اور موروثی مسائل بھی ہیں اس وجہ سے ہمارے یہاں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے پاس آنے والے کیسز زیادہ موروثی ہوتے ہیں یا ماحولیاتی؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: ہمارے پاس آنے والے کیسز کی زیادہ تر ماحولیاتی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو ماحولیاتی الرجی ہوتی ہے جو بہت عام ہے۔
جسارت میگزین: ہمارے ماحول میں ایسی کون کون سی چیزیں ہیں جو ایک نارمل انسان کو بھی دمے کا مریض بنا سکتی ہیں؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: ہمارے ماحول کو آلودہ کرنے کا بڑا سبب دھواں (اسموگ) چاہے وہ گاڑیوں کا ہو یا سگریٹ کا۔ چوں کہ پاکستان میں سگریٹ نوشی بہت ہی عام ہے بچے یقیناً سگریٹ نوشی نہیں کرتے لیکن ان کے آس پاس جو لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اس کا دھواں صرف سگریٹ پینے والے کو ہی نہیں بلکہ اطراف میں موجود دیگر لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور بچے چونکہ حساس ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔وہ کہیں سے گزرتے بھی ہیں تو اتنے ہائپر سینسٹیوو ہو جاتے ہیں کہ کھڑے کھڑے بھی ان کو ایک دم سے سانس کا اٹیک ہو سکتا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ہمارے پاس یہ جو بازار لگے ہوئے ہیں ان میں جو پولنز ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی بہت زیادہ مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ ماحولیاتی الرجی بہت زیادہ عام ہے۔ اس کے علاوہ گرد و غبار اور مٹی بھی اس کی بڑی وجہ ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تر مریض سرجانی ٹائون سے آتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں ارد گرد بہت ساری فیکٹریاں ہیں اور فیکٹریوں سے اٹھنے والے دھوئیں سے گھروں میں بھی موجود بچے متاثر ہوتے ہیں کیوں کہ دھواں بہت دور تک جاتا ہے اس لیے ان بچوں میں یہ مسائل زیادہ آتے ہیں۔ اس لیے رہائشی علاقوں میں یہ فیکٹریاں نہیں ہونی چاہئیں۔
جسارت میگزین: جگہ جگہ جلایا جانے والا کچرا کتنا نقصان دہ ہے؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔ کچرا اٹھانے والوں سے ہمارا یہی کہنا ہے کہ کچرا ایسی جگہوں پر جلایا جائے جہاں انسانی آبادی نہ ہوں لیکن چوں کہ یہاں پر احتیاط نہیں کی جا رہی، کچرا بیچ روڈ یا گلی میں جل رہا ہوتا ہے جس کے باعث وہاں کے رہائشیوں خاص کر بچوں کو اٹیک ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مائیں کہ جو لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتی ہیں‘ اُن کے بچے بھی اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
جسارت میگزین: مختلف طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جلائے جانے والے کچرے کا دھواں سانس کی نالی کے کینسر کا سبب بھی بنتا ہے‘کیا یہ درست ہے؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: بالکل ہو سکتا ہے، لیکن یہ حتمی نہیں ہے، ایسے کیسز آئے ہیں لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا ہے۔ تاہم بچے کی حالت کو خراب کر سکتا ہے۔
جسارت میگزین: یومیہ کتنے بچے دمے کا شکار ہو رہے ہیں؟
ڈاکٹر قرۃ العین شیخ: روزانہ آنے والے کُل مریض بچوں میں سے 25 سے 30 بچے اس طرح کے آتے ہیں۔ پہلے تو میں یہ بات کلیئر کرنا چاہوں گی کہ ان بچوں کو جب اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے تو ہم ان کی ہسٹری دیکھتے ہیں، خاص طور پر سندھ گورنمنٹ اسپتال میں یہ سارا کچھ ہو رہا ہے اور میں بہت شکر گزار ہوں کہ پی ای آئی کی طرف سے کہ انہوں نے ہمیں بہت اچھی ادویات فراہم کی ہیں اور ہمیں کچھ آلات بھی فراہم کیے ہیں جن سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ بچے کس کنڈیشن میں ہے۔ جب ہم ان سے پوچھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچہ الرجی کا شکار ہے۔ بچوں کی اکثریت تشویش ناک حالت میں نہیں ہوتی لیکن چوں کہ ان کی علامات قابو میں نہیں ہوتیں اس لیے وہ بچے سات آٹھ دفعہ اسپتال میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ جب وہ یہاں آتے ہیں تو اُن سے پوچھتے ہیں کہ گھر میں الرجی پیدا کرنے والی چیزیں تو نہیں ہیں، گھر میں کارپٹ تو نہیں ہے؟ گھر کا کوئی کوئی سگریٹ نوشی تو نہیں کرتا؟ کوئی پرفیوم یا ٹالکم پاؤڈر تو استعمال نہیں ہوتا؟ گھر میں درخت وغیرہ تو نہیں؟ بچہ کہیں روئی والے کھلونے تو استعمال نہیں کرتا؟ گھر میں موسکیٹو کوائل یا گلوب تو نہیں جلایا جاتا؟ کون سا چولہا استعمال کرتے ہیں؟ اکثر مائوں کو ان باتوں کا علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہمارے گھر میں کارپٹ ہے‘ گلوب اور کوائل بھی ہم لوگ جلاتے ہیں‘ اس کے علاوہ گھر میں کوئی نہ کوئی فرد سگریٹ نوشی بھی کرتا ہے۔ اس وجہ سے یہ علامات ان میں پائے جاتے ہیں اوربچہ ہمارے پاس ان علامات کے ساتھ آتا ہے۔ بعض اسپتالوں میں دیکھا گیا ہے کہ جب ایسے مرض میں مبتلا بچہ گیا تو اس بچے کو انجکشن لگا دیا جاتا ہے اور نیبولائز کر کے کہتے ہیں کہ بچہ صحیح ہو گیا۔ یہ تشخیص نہیں ہوتی ہے۔

حصہ