خاندان کی منصوبہ بندی

1362

تنویر اللہ خان
انسان اور خاندان دونوں ایک ہی ساتھ وجود میں آئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر محبت کا ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اکیلا نہیں رہ سکتا ’’ ہم نے تمہارے اندر محبت و الفت کو پیدا کر دیا ہے‘‘ (القران) ۔.
ایک ساتھ رہنے والوں کی باہمی محبت ہی خاندان کی اصل بنیاد اور محبت ہی اس عمارت کا اصل جوڑ ہے بلاشبہ خاندان کو ضروریات بھی جوڑے رکھتیں ہیں لیکن پھر بھی خاندان کا اصل جوہر باہمی محبت اور الفت ہی ہے۔
بسا اوقات خاندان کی یہ محبت دیگر تمام تعلقات پر غالب نظر آتی ہے، شعب ابی طالب اس کی ایک مثال ہے، اس واقعے میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر ہوں سمٹ کر ایک گھاٹی میں جمع ہوگئے تھے، حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہؓ کا بھتیجا تھا وہ گاہے بہ گاہے اپنی پھوپھی کو غلہ بھجواتا تھا، اسی طرح ابوطالب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے رات سوتے وقت محمدؐ کو کہتے کہ جاؤ اپنے بستر پر سوجاؤ اور جب تمام لوگ سو جاتے تو بھتجےؐ کی حفاظت کی غرض سے خود یا اپنے کسی قریبی رشتہ دار سے آپؐ کا بستر تبدیل کردیتے تھے، مکّہ میں بارہا آپؐ کے خاندان نے ساتھ دیا۔
اسلام میں خاندان کا دائرہ زیادہ وسیع ہے عام تعریف کے مطابق شوہر، بیوی اور اُن کے بچوں کو خاندان سمجھا جاتا ہے جب کہ ہمارے معاشرے اور مذہب میں خاندان کے دائرے کو دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کو خاندان سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی معاشرت کی بنیادی اکائی خاندان ہے مسلمانوں کا معاشرہ خاندان کا عکاس ہوتا ہے لہٰذا اسلام نے خاندان کی مضبوطی پر خوب توجہ دی ہے یہی خاندان بڑے ہوکر برادری، قبیلہ، قوم اور امت بنتی ہے۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں ’’ نوع انسانی کی بقاء اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ ہر عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم اور معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو، اس کے بغیر نسل انسانی ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی ایک انسان کا بچہ اپنی زندگی اور نشونما کے لیے کئی برس کے دردمند نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بار کو اُٹھانے کے لیے کافی نہیں ہے، جب تک مرد اس کا ساتھ نہ دے، اس طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا کیوں کہ تمدن کی تو پیدائش یہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے ایک گھر اور خاندان وجود میں لانے اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کرکے محض لطف اور لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں گے، اجتماعی زندگی کی جڑ ہی کٹ جائے گی اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے گی جس پر تہذیب اور تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے‘‘۔
بلاشبہ ہمارا خاندنی نظام زوال پذیر ہے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے خاندان میں رجحانات کی تبدیلیاں اتنی آہستہ اور غیر محسوس انداز میں ہوتی ہیں کہ ساتھ رہنے والے اس کا ادارک نہیں کرپاتے اسی لیے آپ نے یہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ بیرون ملک سے ہمارا کوئی عزیز رشتہ دار طویل عرصے بعد جب اپنے خاندان میں آتا ہے تو بدل جانے والی بہت سی روایات، عادات کی نشاندہی کرتا ہے۔
لہٰذا ہمیں ہر دم خاندان کے میں ہونے والی تبدیلوں پر نظر رکھنی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں عام طور پر خاندان کی ابتدا میں ہی خرابی کا سامان کردیا جاتا ہے مثلاً ہم اپنے بچوں کے لیے مال، جہیز، بڑے عہدے کو ترجیع دیتے ہیں بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے لہٰذا ایسے رشتوں کے متلاشیوں کو مطلوبہ رشتہ تو مل جاتا ہے لیکن بعد میں یہی لوگ اخلاق، ایثار، محبت کا تقاضا کرتے ہیں جوکہ پہلے ان کی ترجیع نہیں ہوتی، لہٰذا رشتوں کو تلاش کرتے ہوئے آپ اُن ہی اوصاف کو مقدم رکھیں جن کا مطالبہ بعد میں کیا جانا ہے اکثر اوقات لڑکے کی ماں بہنیں اپنے بیٹے بھائی کے لیے چاند سا چہرہ تلاش کرتی ہیں حالانکہ چاند سے چہرے کا اگر کوئی فائدہ ہے تو محض لڑکے کو ہے بقیہ سارا خاندان کا سابقہ تو لڑکی کے اخلاق، زبان، اطوار سے پڑتا ہے۔
ہمارے خاندانوں میں جو بات، عمل یا رویہ ہمارے اپنے لیے بہت اہم ہوتا ان کا ہم دوسرے کے معاملے میں خیال نہیں کرتے عموماً ساس بہو سے تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ اُسے تمام خاندان کا خیال رکھنا چاہیے اور یہی معاملہ جب اپنی بیٹی کے ساتھ درپیش ہوتا ہے تو اس کا خیال یکسر مختلف ہوجاتا ہے ہم داماد سے جو مطالبہ کرتے ہیں اُس کا حق بیٹے کو نہیں دیتے جو اوصاف ہم اپنی بہو میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ اوصاف ہم اپنی بیٹی میں نہیں پیدا کرتے ہیں اور نہ سسرال میں بیٹی کو ان اوصاف پر عمل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔
شوہر بیوی کی باہمی ناچاقی بھی خاندان پر بُرا اثر ڈالتی ہے جو شوہر اپنی بیوی کی عزت نہیں کرتا اُس کی اولادیں بھی اپنی ماں کو عزت نہیں دیتیں لہٰذا بیوی اور شوہر کا تعلق باہمی محبت سے ایک قدم آگے باہمی عزت کا ہونا چاہیے۔
بسا اوقات مالی تنگی بھی خاندانوں کو کمزور کرتی ہے ہر عورت فاطمہؓ نہیں ہوتی لہٰذا کوشش کریں کہ اتنی کشادگی ضرور ہو کہ سب کی کم از کم ضرویات پوری ہوجائیں اور اگر کوئی کمی ہو تو اہل خانہ میں باہمی ایثار کو بڑھانے کی کوشش کریں۔
اللہ کے مقرر کیے حلال حرام کے علاوہ اپنے بچوں سے طاقت، حکم کے بجائے دلیل اور محبت کا تعلق بنائیں کیوں کہ طاقت کا پلڑا وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے لیکن محبت میں وقت کے ساتھ اضافہ ممکن ہے۔ اپنے ماں باپ کو عزت دے کر ہی آپ اپنے بچوں سے عزت لے سکتے ہیں، لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد آپ سے جُڑ کر رہے اور آپ کی عزت کرے تو لازمی ہے کہ آپ بھی اپنے والدین سے جُڑ کر رہیں اور ان کی عزت کریں۔
ہمارا ملک پر آج بھی انگریز کا قانون نافذ ہے، انگریز ایک طویل عرصے تک ہم پر حکمران رہے ہیں اور ہم آج بھی بیرونی ٹیکنالوجی، آلات پر انحصار کرتے ہیں لہٰذا اس ٹیکنالوجی اور مغرب سے مرعوبیت کی بناء پر مغرب کی خرافات بھی ہمارے اندر سرایت کررہی ہیں، آج کیبل، فون پیکجززقریباً مفت میں دستیاب ہیں، آپ ہوشیار رہیں کہ جولوگ آپ کو مفت عادی بنا رہے ہیں وہ دراصل ان چیزوں کے بدلے آپ کو خرید رہے اس سرمایہ دارانہ نظام اور سوچ میں جہاں بچے ماں باپ کی کفالت پر راضی نہیں وہ آپ کو بلا غرض کوئی بھی چیز مفت میں کس طرح دے سکتے ہیںلہٰذا ہوشیار رہیں وہ مفت میں دے کر دراصل آپ کو خرید رہے ہوتے ہیں مفت کی ان تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو دینی، معاشرتی روایات اور اقدار ازبر کروائیں اوران میں اس بارے میں اعتماد پیدا کریں۔
اللہ نے صرف انسان کے بچے کو طویل عرصے تک ماں باپ اور خاندان کا محتاج بنایا ہے جو اللہ بطخ کے بچے کو پیدا ہوتے ہی تیرنے کے قابل بنادیتا ہے وہ انسان کے بچے کو بھی پیدا ہوتے ہی خودمختار بنا سکتا ہے بچے کی یہ طویل محتاجی دراصل اس کی تربیت کے لیے ضروری ہے لہٰذا اپنے بچے کے اس وقت کو تربیتی وقت سمجھیں کارگر، محنتی، دیانت دار بچہ ہی ایک اچھے معاشرے، ملک و ملت کا سبب بن سکتا ہے۔

حصہ