برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

645

قسط نمبر156
(چودہواں حصہ)
مکتی باہنی کے ذریعے ’’ہندوستان پلان‘‘ پر کام شروع ہوچکا تھا۔ ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر حملے میں تاخیر کا مظاہرہ کیوں کیا؟ جب کہ ان کا پہلے سے پلان یہ تھا کہ مارچ اپریل میں جنگ شروع کردی جائے۔ اس سوال کا جواب ہندوستان کی مشرقی کمان کے اسٹاف آفیسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب نے (جو 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ کے اہم کردار تھے اور ہندوستان کے واحد یہودی سپاہی، جنہوں نے تھری اسٹار جنرل کے عہدے تک ترقی پائی، اور 1971ء کی جنگ میں سقوط ڈھاکا کے موقع پر انہوں نے ہی پاکستانی فوج سے اس کے ہتھیار ڈالنے پر مذاکرات کیے) بی بی سی ہندی سروس کے ریحان فضل کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جنرل مانک شا نے مجھے فون کرکے کہا کہ بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی تیاری کیجیے، کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم وہاں فوراً مداخلت کریں۔ میں نے انھیں بتانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس پہاڑی ڈویژن ہے، ہمارے پاس کوئی پل نہیں ہے اور مون سون شروع ہونے والا ہے، ہمارے پاس بنگلہ دیش میں گھسنے کے لیے فوجی اور بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ اگر ہم وہاں جاتے ہیں، تو یہ یقینی ہے کہ ہم وہاں پھنس جائیں گے۔ لہٰذا میرا کہنا تھا کہ 15 نومبر تک اسے ملتوی کرنا چاہیے جب تک کہ زمین مکمل طور سے خشک نہ ہوجائے۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر ہم جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو ڈھاکا پر قبضہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کی اسٹرے ٹیجک اہمیت یہ ہے کہ ڈھاکا کو مشرقی پاکستان میں جغرافیائی اعتبار سے دل کی حیثیت حاصل ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان کی ہائی کمان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کھلنا اور چٹاگانگ لے لیتے ہیں تو ڈھاکا خود ہی ہمارے قبضے میں آجائے گا۔ مجھے نہیں پتا اس کی کیا وجہ تھی، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ ہمیں صرف کھلنا اور چٹاگانگ پر قبضہ کرنے کا تحریری حکم ملا تھا۔‘‘ ایئر مارشل پی سی لال نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ڈھاکا پر قبضہ منصوبے کا حصہ ہی نہیں تھا اور اس بارے میں ہندوستانی ہیڈکوارٹر میں خاصے اختلافات تھے۔‘‘
بہرحال وقت نے ثابت کردیا کہ ہندوستان کا تاخیر کے ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ فول پروف تھا۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ان حملوں سے نبرد آزما ہونے کا مناسب بندوبست ہی نہیں کیا ہوا تھا۔ ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ نے کسی حد تک شہری علاقوں میں جہاں پاک فوج کی چھائونیاں موجود تھیں، کچھ کارروائیاں ضرور کیں جن سے کچھ ریلیف ملا، مگر یہ سب کچھ وقتی تھا، اور ہر آنے والا دن پاکستانی فوج کے لیے مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔
تربیت یافتہ مکتی باہنی پاک فوج کے لیے دردِ سر بنتے جارہے تھے، اس باغی گروپ کو سیاسی شیلٹر فراہم کرنے کے لیے ہندوستان نے بہت پہلے سے ہی بندوبست کیا ہوا تھا، عوامی لیگ کے بہت سے رہنما پاک فوج کے آپریشن سے بچنے کے لیے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے ہندوستان میں جا چھپے تھے۔ ہندوستان کی براہِ راست سرپرستی میں ان جلا وطن رہنماؤں پر مشتمل ’’جلا وطن حکومت‘‘ تشکیل دی جا چکی تھی جس میں بنگالی سیاست دان تاج الدین، قمر الزماں اور مشتاق احمد خوندکر شامل تھے۔ اس جلاوطن حکومت کی آڑ لے کر ہندوستان اپنی سرپرستی میں بنگلہ دیش کو آزاد کروانا چاہتا تھا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مکتی باہنی کو تین اہداف سونپے گئے۔
ہندوستانی مصنف پران چوپڑا نے اپنی تصنیف India’s Second Liberation میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ جو اہداف مکتی باہنی کو سونپے گئے تھے اُن میں سب سے پہلے یہ کام تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر پورے مشرقی پاکستان میں پھیل کر پاک فوج کو نشانہ بناؤ تاکہ ان کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جاسکے اور وہ اپنی چوکیوں سے آگے نہ جا سکیں۔
دوسرا ٹارگٹ یہ تھا کہ اسی کے ساتھ گوریلا کارروائی کا دائرہ بڑھا دیا جائے جس کی وجہ سے پاک فوج کا مورال گرانے میں مدد ملے گی۔
اور پھر آخرکار پاکستان مجبور ہوکر ہم سے کھلی جنگ پر مجبور ہوجائے گا۔
ان اہداف کی تکمیل کے لیے ہندوستان نے ہنگامی بنیادوں پر اپنے تربیتی مراکز کھولے جہاں ’’باغیوں‘‘ کو عسکری تربیت دے کر مشرقی پاکستان کی سرحد پار بھیجا جاتا۔ ابتدا میں یہ پروگرام چار ہفتوں پر مشتمل تھا، مگر پھر اس کی مدت آٹھ ہفتے کردی گئی۔ ان مراکز میں بم پھینکنے اور رائفل چلانے سے لے کر پاک فوج کی چوکیوں پر حملہ کرنے کی تربیت شامل تھی۔ یہ مراکز ہندوستانی سرحد کے اندر اُن علاقوں میں تھے جہاں سے مشرقی پاکستان کی سرحد قریب تھی۔ ان مراکز کی شروع میں تعداد 30 تھی جو بڑھتے بڑھتے 80 تک جا پہنچی تھی۔ ان عسکری مراکز میں تیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ بنگالیوں کو عسکری تربیت فراہم کی گئی۔
اس باغی گروہ کو ہتھیار فراہم کرنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کیا گیا، اور جلاوطن حکومت کے ذریعے مغربی منڈیوں سے اسلحہ خریدا جاتا رہا۔ انگلستان اور امریکا میں موجود غیر سرکاری بنگالی سفیروں کے ذریعے باقاعدہ طور پر اسلحہ کی خریداری کے لیے چندہ جمع ہوتا تھا۔
اس بارے میں صدیق سالک شہید نے اپنی کتاب ”Witness to surrender” میں لکھا ہے کہ ایک برطانوی رپورٹر نے جو مشرقی یورپ سے آئی تھی، بتایا کہ ’’مشرقی یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے متروکہ اسلحہ کے ڈھیر لگے ہوئے دیکھے ہیں، جو اب ہندوستان منتقل کیے جارہے ہیں، ان پرانے ہتھیاروں کا حصول کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس کا ایک ذریعہ بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت ہے۔ اور ہندوستان اور روس کی مدد سے یہ خریداری ممکن ہوتی ہے۔‘‘
اگرچہ مکتی باہنی کے حملوں کا آغاز مارچ اپریل 1971ء میں ہوچکا تھا، ابتدا میں ان حملوں کا زور سرحدی علاقوں میں تھا۔ کیونکہ سرحدی علاقوں میں باغیوں کو اخلاقی اور مادی مدد فوری طور پر مل جاتی تھی۔ یہ باغی اپنی کارروائیاں کرنے کے بعد بآسانی سرحد پار کرلیتے تھے۔ پھر ان کے حوصلے کھلتے چلے گئے اور اگست ستمبر کے مہینوں میں ان کے حملوں میں شدت آنے لگی۔ ہندوستانی عسکری تربیتی مراکز سے تیار ہوکر نکلنے والے مکتی باہنیوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور اسی نسبت سے پاک فوج کی چوکیوں اور چھاؤنیوں پر بھی حملے بڑھنے لگے تھے۔
خانہ جنگی کا یہ سارا کھیل ہندوستان کی عین منشا کے مطابق چل رہا تھا۔ باغی اس حد تک غلبہ پا چکے تھے کہ انھوں نے پاک فوج پر دستی بموں کی مدد سے باقاعدہ حملے کرنے شروع کردیئے تھے۔
جنگ سر پر کھڑی تھی۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں مستقل رپورٹس بھیج رہی تھیں کہ حالات ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ داخلی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی تھی۔ غیر بنگالی آبادیوں پر حملے اس تواتر کے ساتھ ہورہے تھے کہ پاک فوج ان کی مدد تک کو نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ فوج زیادہ سے زیادہ پختہ سڑکوں اور سخت راستوں پر جا سکتی تھی۔ اور باغی حملوں کے لیے پرانے اور کچے راستے اختیار کرتے تھے، جس کی وجہ سے آپریشن سرچ لائٹ اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا تھا۔
55126 مربع میل طویل مشرقی سرحد کے دفاع کے لیے ہمارے پاس محض 41060 سپاہی تھے، جن میں سے 1260 فوجی افسران تھے جو کسی بھی اعتبار سے اتنی لمبی سرحد کا دفاع یقینی نہیں بنا سکتے تھے۔ مکتی باہنی سے مقابلے کے لیے پاک فوج کے پاس چند سرپھرے مجاہد تھے جو البدر، الشمس اور غازی یا مجاہد رضاکار فورس کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، جن کی جنگی تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ مگر ایک جذبۂ ایمانی اور پاکستان کو متحد رکھنے کی خواہش اور تمنا میں یہ نوجوان اپنے اپنے علاقوں میں پاک فوج کو ہر ممکن مدد فراہم کررہے تھے۔
جنگ عظیم کے مشہور گوریلا رہنما ٹی۔ ای۔ لارنس نے اپنی کتاب ”seven pillars of wisdom” میں زمینی رقبے اور مطلوبہ فوجی تعداد کا تناسب اس طرح لکھا کہ ’’فرض کریں میدانِ جنگ صحرائی علاقہ ہو تو ہر چار مربع میل علاقے میں20 سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ جہاں حدِّ نگاہ دور تک کام کرسکتی ہے۔‘‘
مگر مشرقی پاکستان کا علاقہ یکسر مختلف تھا۔ ہمارا میدانِ جنگ اُن علاقوں پر محیط تھا جہاں بارشوں کے سبب زمین نرم تھی، سبزہ تھا اور گھنے جنگل، جہاں دیکھنے کی صلاحیت بہت معدوم تھی۔ بھاری گاڑیاں اور آرٹلری کو لے جانا انتہائی دشوار کام تھا۔ گھنے جنگل، دلدلی علاقہ، سبزہ زار، تالاب اس را ہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ فرض کیجیے کہ اگر ٹی۔ ای۔ لارنس کے عددی تخمینے کو ہی بنیاد بناکر میدانِ جنگ کو چٹیل میدانی، صحرائی علاقہ تصور کیا جائے تب بھی کم از کم تین لا کھ پچھتر ہزار تربیت یافتہ باقاعدہ فوج کی ضرورت تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دستیاب وسائل سے سات گنا زیادہ فوج درکار تھی۔ ایک غیر ملکی صحافی ڈیوڈ لوشک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس محاذ پر کم از کم دو لاکھ پچاس ہزار فوج تو رکھنی ہی چاہیے تھی۔
حوالہ جات: seven pillars of wisdom، مصنف ٹی۔ ای۔ لارنس
Witness to surrender (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا) صدیق سالک
India’s Second Liberation، مصنف پران چوپڑا
ریحان فضل نمائندہ خاص ہندی سروس بی بی سی
(جاری ہے)

حصہ