افشاں نوید کی وال سے

593

افشاں نوید
خواہش
آج آٹھواں دن تھا اس کے آنسو دیکھتے ہوئے۔ غم سا غم ہے۔ میاں عین عالم شباب میں داغِ مفارقت دے گیا۔ ہارٹ فیل کی صورت میں تین ننھے بچوں کی ذمے داری اس کے ناتواں کاندھوں پر چھوڑ گیا۔ تین برس سے باپ کے گھر تھی مگر جب دیور سے شادی کا دبائو بڑھا، بصورتِ دیگر بچے چھین لینے کی دھمکی ملی تو مرتی کیا نہ کرتی ایک ماہ قبل پھوپھی کے پاس کراچی چلی آئی کہ اب نکمے نشئی دیور کے ساتھ زندگی گزرے گی۔
گھروں میں جھاڑ پونچھ کرتی ہے۔ میں نے بھی کچھ خدمات لے لی ہیں اس کی۔ ایک ہی سودا سمایا ہوا ہے سر میں کہ ’’باجی میں نے اپنے بچے پڑھانے ہیں‘‘۔ کتنی معصوم اور جائز خواہش ہے ایک ماں کی۔
میں نے کہا ’’دوچار اسکولوں کے چکر لگائو، جہاں کی فیس مناسب ہو وہاں کرتے ہیں کوشش۔
اس نے اسکولوں کے ریٹ لانے شروح کردیے۔ اس کی حالتِ زار خود ببانگ دہل بیان کرتی ہے کہ وہ معاشی طور پر کس کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا اسکول انتظامیہ اس کی بیوگی پر ترس کھاکر پندرہ ہزار سے دس ہزار کردیتی سالانہ فیس، کہیں دس ہزار سے سات ہزار ایک بچے کی فیس۔ میں نے کہا ’’تم بتاتی نہیں کہ بیوہ ہوں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں ٹھیرے آنسو جو کسی بھی وقت ٹپ سے گرپڑتے ہیں اب بھی آنکھوں سے جدا ہوگئے۔ ’’کیوں نہیں باجی، ہاتھ جوڑتی ہوں اسکول انتظامیہ کے، وہ کہتے ہیں کم کردی ہے باجی کو دکھا دو جاکر۔‘‘
خواہش تھی کہ کاش کوئی ایسا اسکول ہو جو محبت سے سمیٹ لے ان یتیم بچوں کو۔ اچانک بیٹھک اسکول کا خیال آیا۔ مگر وہ تو کسی کسی علاقے میں ہیں۔ انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ میری یا ماسی رخسانہ کی خوش بختی کہ معلوم ہوا گلستان جوہر میں پہلوان گوٹھ پر برانچ ہے قبرستان کے عقب میں، مگر داخلے بند ہوگئے، بچے بھی گنجائش سے زیادہ آچکے ہیں، بہرحال یتیم بچے ہیں لے آئیں۔ کل ماسی کو ساتھ لے گئی۔ وہ اسکول کی بلڈنگ کے باہر پھر روپڑی ’’باجی سچ، میرے بچوں کے ہاتھ میں بھی بستہ ہوگا! مجھے اسکول کی وردی میں بچے بہت اچھے لگتے تھے، سوچتی تھی کہ کاش…‘‘
یہ بیٹھک اسکول میں پرنسپل کا کمرہ ہے۔ خوش آمدید کیا انہوں نے کھڑے ہوکر۔ سب تفصیلات سے ماں کو آگاہ کیا۔ بہترین تعلیم اور مثالی تربیت… ماہانہ فیس دوسو روپے ہے، داخلہ فیس محض سو روپے جو یتیم بچوں سے نہیں لی جاتی۔ کورس ڈھائی سوروپے میں۔ یونیفارم انتہائے معمولی نرخ میں، وہ بھی اکثر خود ہی دے دیا جاتا ہے ضرورت مندوں کو۔ اساتذہ کا معیار کسی بھی مہنگے اسکول کے معیار سے کم نہیں، مگر انتہائی معمولی تنخواہوں پر ایک مشنری جذبے سے سرشار مگن ہیں۔
کتنا بڑا کام ہے یہ۔ شاید سب سے بڑا کام یہی ہے انسانیت کا قرض اتارنے کا، اور کوئی طریقہ اس سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ جانے کتنی رخسانائوں کے خوابوں کو تعبیریں مل رہی ہیں یہاں۔ SEW سوسائٹی فار ایجوکیشنل ویلفیئر کی چئیرپرسن کو میں نے بتایا رخسانہ کے بچوں کے داخلہ کا، تو وہ انتہائی درد بھرے لہجے میں بولیں ’’جی چاہتا ہے چپے چپے پر ایسے اسکول کھول دیں، کوئی بچہ ناخواندہ نہ رہے اس دیس کا۔‘‘
کل سے دل خوشی سے سرشار اور ذہن پر ایک ہی فکر سوار کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اس عظیم کاز کے لیے۔
لمحہ بھر رکی اور موبائل کیمرے میں محفوظ کرلی اس عظیم بلڈنگ کی تصویر، جہاں بہت سے لوگ اس ملک وملت کا قرض چکا رہے ہیں۔
شب عاشور
’’ساری زندگی غم والم میں ہی گزری میری، پیدائش جو دس محرم کی تھی‘‘۔ یہ الفاظ ہم نے بارہا اپنی نانی مرحومہ کی زبانی سنے۔ دکھی تھیں واقعی وہ… دوجوان بیٹیاں دفنائیں، محبوب شوہر کے بنا زندگی کے تیس برس گزارے۔
آج غم والم کادن ہے یوم عاشور۔ ہر سال یہ غم تازہ ہوتا ہے، ذاکرین کربلا کے مظالم بیان کرتے ہیں تو دل شق ہونے لگتے ہیں۔
انسانی زندگی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو غم سے ٹوٹ جاتے ہیں، شکستہ ہوجاتے ہیں، ہار جاتے ہیں، اپنی ساری ناکامیوں کا ذمے دار غم کو ٹھیرا دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو غم کو قوت میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہی زندگی کا اصل امتحان ہے کہ غم سے کچھ پایا یا سب کھو دیا۔ ہماری ایک ساتھی کا بیٹا شہید ہوا، وہ رب کے اور قریب ہوگئیں کہ اب جنت کی اصل تیاری ہے، بیٹے سے ملنا ہے۔
ایک ساتھی کا سولہ برس کا بیٹا کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا، وہ ایک ایک تعزیت کرنے والے کا ہاتھ تھام کر کہتیں اللہ سے صبر جمیل کی دعا کیجیے گا۔ بیٹے کی تو عمر ہی اتنی تھی، امتحان تو ہمارا ہے کہ وہ صبر کرسکے یا نہیں جس کا صلہ جنت ہے۔
جیل میں پروگرام کے بعد ایک خاتون سے میں نے کہا ’’یہاں سب رہائی کے لیے تڑپتے ہیں، کوشش اور دعا کی درخواست کرتے ہیں، مگر تم نے کبھی نہیں کہا‘‘۔ وہ جس کے بال ہمیشہ سلیقے سے بنے ہوئے ہوتے، اجلے کپڑوں میں، جو نظر پڑتے ہی کہتی ’’باجی چائے چلے گی یا شربت؟‘‘ منع کرنے پر بھی سرخ شربت کا گلاس تھما دیتی۔ اس کا اطمینان مجھے مضطرب کردیتا۔ میرے سوال پر بولی ’’باجی یہ اللہ جانتا ہے میں بے گناہ ہوں۔ سوچا کرتی اللہ مجھے جیل کیوں لایا، وہ جانتا ہے میں بے گناہ ہوں۔ تب میں نے دیکھا کہ جیل میں عورتیں کتنے بڑے بڑے جرم کرکے آتی ہیں، آپس میں کیسے لڑتی ہیں، اخلاقی حالت کتنی تباہ ہے۔ بس میں نے غم کھانا چھوڑ دیا اور ان سب کو نماز سکھانے لگی، کسی کو قرآن… اب شکرکرتی ہوں کہ جیل میں نہ آتی تو اس کی خلق کی یہ خدمت کیسے کرتی۔ اب یہاں ہم نفلی روزے اور نفلی نمازوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے گھر سمجھ لیا اسے، اور یہ سب میری بہنیں ہیں… میرا رب مائوں سے ستّر گنا زیادہ پیار کرتا ہے، جب چاہے گا لے جائے گا یہاں سے۔‘‘
کتنی خواتین ہیں جو شوہروں کے انتقال کے بعد زیادہ متحرک ہوجاتی ہیں۔ باپ کا کردار بھی نبھانے لگتی ہیں۔ کتنی نالائق اولادیں والدین کو کھو کر عقل پاتی ہیں اور سدھر جاتی ہیں۔ ایک ساتھی کے نوجوان بیٹے کو خطرناک بیماری کی تشخیص ہوئی۔ بستر پر رہا دوبرس۔ تفہیم القرآن کی چھ جلدیں گھر والوں کو بٹھاکر سنائیں۔ دس پارے حفظ کرلیے۔
آپ کے اطراف میں ایسی بے شمار مثالیں بکھری پڑی ہیں۔
اللہ ہر دکھ کی گھڑی اور آزمائش سے بچائے مگر…
ہم غم حسینؓ چودہ سو برس سے منارہے ہیں، مگر اس غم کو قوت میں نہ ڈھال سکے۔ یہ غم ہماری عظیم الشان قوت بن سکتا تھا۔ امام عالی مقام کا پاک لہو اس وقت دھرتی کا سب سے مقدس لہو تھا۔ وہ خود اپنی اور خاندان کی قدروقیمت سے آگاہ تھے۔ عورتوں بچوں سمیت انہوں نے میدانِ کربلا کو آباد کردیا۔ رہتی دنیا تک تاریخ کا عظیم الشان چوراہا رہے گا میدانِ کربلا۔ ہر برس ہمیں یاد دلاتاہے کہ نواسۂ رسولؐ نے ریاست کے اصولوں کو بچانے کے لیے جان دی تھی۔ جو سیاسی اصولوں کی پامالی دیکھ کر تڑپ اٹھے تھے کہ ریاست کی اقدار بدل رہی ہیں، اجتماعی مفاد اہم ترہے، جان سے زیادہ عزیز… ڈرائیور پٹری بدلنے پر تیار نہیں تو پٹری پر کھڑے تو ہوسکتے ہیں۔
اب کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ دین کو سیاست سے کیا غرض!
غمِ حسینؓ تو یہ ہے کہ اپنے اطراف فتنہ وفساد برداشت نہ کریں۔ اپنی ذات کے دائرے کے گرد ہی نہ چکر لگاتے رہیں۔ زمین، فلک اور فضا پر بھی نظر رکھیں۔ اپنی جان اور مال کی پروا میں خود کو نہ گھلائیں۔ حسینی اسوہ اپنائیں اور اس غم کو قوت بناتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرجائیں۔ ملک کا قرض ادا کرجائیں۔ شب ِعاشور کہتی ہے کچھ تو مداوا کرو خلق کے دکھوں کا…کتنے دکھی گھرانے ہیں جہاں ہرشب شبِ عاشور ہوتی ہے۔ کتنے دل ہیں جن کی دھڑکنوں میں عاشور سما گیا ہے نانی اماں کی طرح…کیا مسلم امہ کے لیے یہ دور شبِ عاشور سے کم ہے؟
میرابھانجا
آج پانچواں روز ہے جب جنازہ اٹھا تھا۔ بھانجا تھا میرا۔ بڑی بہن کا بیٹا۔ طبعی عمر تو چالیس برس تھی، مگر ٹھیر گیا تھا کہیں بارہ چودہ برس کے درمیان ہی۔ تعلیم بھی اتنی ہی تھی اورذہنی بالیدگی بھی۔
سماج میں ایسے لوگوں کے لیے ایک رحم اور ترس کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں شانہ بشانہ نہیں ہوتے دیگر کے۔
اپنے بھانجے کاشف سے جدائی کے بعد جانے کیاکیا کشف ہوتا چلا گیا۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ اللہ کے ولی ہوتے ہیں یہ لوگ۔ کچھ، بلکہ بہت کچھ خاص ہوتے ہیں… مگر ترحم کا جذبہ ہمیں اس خاص تک پہنچنے نہیں دیتا۔ ایسے لوگ اپنی عبادت وریاضت سے ولی اللہ نہیں بنتے، مگر اللہ ان کو اپنا خاص قرب بخش دیتا ہے دیگر مخلوقات میں ممتاز کرکے۔
سوال یہ ہے کہ بچے ڈس ایبل کیوں ہوتے ہیں؟خاندان میں نارمل بچوں کے بیچ ایسے بچوں کا ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس پر سے ہم اکثر گزر جاتے ہیں۔
آپ سوچیں، گلے کے کینسر کی تشخیص کے بعد انتہائی صبر و تحمل سے برداشت کرنا کہ گھر والے کسی اذیت میں مبتلا نہ ہوئے، تین ماہ ڈاکٹروں کے درمیان گردش میں رہا مگر کوئی حرفِ شکایت نہیں۔ کھانا پینا بند ہوگیا، نلکی پیٹ میں ڈال دی گئی تب بھی اپنے کام خود کرتا رہا۔
عیدِ قرباں والے روز اشارے سے کہا کہ میں تو چلا جائوں گا مگر قربانی ضرور ہو، آج ہی کے دن ہو۔
وفات سے قبل آخری ہفتہ ریڈی ایشن میں گزرا۔ بھائیوں کو بااصرار جاب پر بھیجتا اور خود رکشہ میں ریڈی ایشن کراکے یوں آجاتا جیسے کوئی زکام کی دوا لے کر آیا ہو۔
انتقال سے ایک رات قبل جیب سے پیسے نکالے اور بھائی سے اصرار کیاکہ نئی کرسیاں لے کر آئے۔ اس نے عذر ظاہر کیا کہ کل لے آئوں گا، تو انتہائی خفا ہواکہ مہمانوں کو بیٹھنا ہے۔ یوں رات میں وہ نئی کرسیاں آئیں جن پر اگلے دن ہم بیٹھ کر تعزیت کررہے تھے۔
زبان تو دوماہ سے بند تھی۔ وفات سے تین روز قبل اشارے سے والد سے کہاکہ بس تین دن کی بات ہے، اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاکر درخواست کی کہ اب دعاکی ضرورت ہے۔کپڑوں کی الماری خالی دیکھ کر ماں نے پوچھاکہ کہاں گئے کپڑے؟ اشارے سے کہا: دے آیا ہوں، اب مجھے ضرورت نہیں ہے۔ بھائی نیا جوڑا لایا تو بااصرار اسے پہنوایا کہ اب مجھے نئے کپڑوں کی ضرورت نہیں۔
باپ کئی برس قبل ایک دکان پر لے گئے کہ میرے بعد تمہارا کیا ہوگا، کچھ روزگار کی سوچو، تو واپسی میں بولا’’ابا اس کی فکر نہ کیجیے، آپ سے پہلے ہی چلا جائوں گا۔ باپ کی قمیص بھیگ رہی تھی یہ کہتے ہوئے کہ بیٹا تم تو قول کے پکے نکلے، مجھ سے پہلے چلے گئے مگر مجھ بوڑھے کو وہ شانے دے جاتے کہ جوان میت اٹھا سکوں۔
درجنوں خواتین کی گواہیاں کہ کس کس کا سودا سلف لاتا، اپنی جیب خرچ سے کس کس کی مدد کرتا۔
کہنا یہ ہے کہ آپ کے اردگرد یا خاندان میں کوئی خاص بچہ ہے تو اس کے ساتھ بہت خاص کیجیے گا۔ کوئی دن، کوئی گھنٹہ، کوئی گفٹ پیک، کوئی تقریب اس کے اعزاز میں ضرور کیجیے گا چاہے چھوٹی سی ہو۔ اس کو احساس دلایئے قدرت کا تحفہ ہونے کا۔ رحم کے اوپر پیار اور قرب کو مقدم رکھیے گا… جاتے جاتے بہت سے پیغام دیئے ہیں کاشف تم نے۔ دنیا میں تمہارا حصہ ہی کیا تھا، کچھ بھی نہیں مانگا اِس دنیا سے تم نے۔ تمہارا پُرسکون چہرہ گواہ تھا تمہارے نفسِ مطمئنہ کا۔ ہمیں معاف کرکے گئے ہوگے امید یہی ہے۔

حصہ