کراچی کےمسائل اور بلدیہ عظمیٰ

512

محمد انور
الحمد للہ کراچی میں جاری آپریشن کے نتیجے میں امن وامان کی صورت حال بہت بہتر ہوچکی ہے۔ کراچی 2013 تک دنیا کا پانچواں خطرناک شہر بن چکا تھا لیکن اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے دنیا کے 50 خطرناک شہروں سے کراچی کا نام نکل چکا ہے۔ اس بات کا اظہار وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں امن و امان کی صورت حال پر بریفنگ دیتے ہوئے رینجرز حکام نے بتائی۔ یہ اجلاس عمران خان کے دورہ کراچی کے حوالے سے ہوا تھا۔ اجلاس ہوا بڑی بڑی باتیں ہوئیں ، شہر میں جاری منصوبوں کا بھی ذکر ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
عمران خان نے وزیراعظم بننے سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور پانی کی قلت دور کرنے کی وعدے کیے تھے مگر وزیراعظم بننے کے 28 دن بعد ان کی کراچی آمد سے ہی شہریوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ اس شہر کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا کچھ کریں گے۔
انہوں نے پانی کے جاری منصوبے کے حوالے سے بھی کوئی نیا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کوئی خاص ہدایت دی۔ دل چسپ بات یہ کہ وزیراعظم نے K-4 منصوبے کی تکمیل کے لیے ہونے والی تاخیر کا بھی نوٹس نہیں لیا۔ اسی طرح سیوریج کے منصوبے S-3 کے حوالے سے بھی کوئی قابل ذکر بات نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم نے گرین بس کے منصوبے پر بات کی اور اسے جلد سے جلد مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے میئر کراچی وسیم اختر سے بھی شہری امور پر کوئی خاص گفتگو نہیں کی۔ اس طرح میئر نے بھی شہر کو درپیش مسائل کے حوالے سے کوئی اہم بات نہیں کی۔
کراچی کا مقدمہ جمہوری نظام کی نرسری یعنی بلدیاتی اداروں کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ سندھ کے رواں بلدیاتی دور میں مسائل کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی نظام کو گرفت میں کرنے کا عمل اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلدیہ عظمٰی کراچی کی منتخب قیادت بھی شہر کے مسائل کو دستیاب وسائل سے بھی حل کراتے ہوئے نظر نہیں آرہی۔
کراچی میں اس وقت تین سطحی بلدیاتی نظام موجود ہیں جو یونین کونسل ، ڈسٹرکٹ میونسپل کونسل اور کراچی میٹرو پولیٹن کونسل پر مشتمل ہیں۔ ان کے علاوہ اسی شہر میں ڈسٹرکٹ کونسل کے نام پر ایک الگ ادارہ بھی موجود ہے جو شہر کے دیہی علاقوں پر مشتمل یونین کمیٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔
شہری نظام 178 یونین کونسل (یو سی) 6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) اور ایک بلدیہ عظمٰی کراچی پر مشتمل ہے۔ ان میں صرف کے ایم سی کا سالانہ بجٹ 27 ارب روپے کا ہے جس میں تقریبا 14 ارب روپے غیر ترقیاتی کاموں پر بے دردی سے خرچ کردیے جاتے ہیں جبکہ ترقیاتی کاموں کے لیے محض 13 ارب روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں ڈھونڈنا پڑے گا کہ کون کون سے ترقیاتی کام کرائے جارہے ہیں۔
میئر کراچی وسیم اختر کا بلدیاتی دور تاریخ کا بدترین دور ہے جس میں ہر طرف کرپشن کا بول بالا ہے۔ جبکہ انتظامی لحاظ سے بھی یہ ناکام دور ہے۔ 2016 کے بلدیاتی انتخابات کے بعد منتخب اراکین کونسل کے چارج سنبھالنے کے بعد بلدیہ کراچی کے 26 محکموں کا نظام پہلے سے زیادہ خراب ہوگیا ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے متعدد شعبوں کے سینئر ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹرز کی اسامیوں پر نااہل افسران کا راج ہے جبکہ تقریباً ایک درجن افسران ایسے ہیں جنہوںدو دو چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔ گریڈ 19 اور 20 کی اسامیوں پر کم گریڈ کے افسران کی تقرری بھی دھڑلے سے ہو رہی ہے۔
2016 تک بلدیہ کراچی کے محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس 48 فائر ٹینڈرز چالو حالت میں ہوا کرتے تھے لیکن عدم توجہ‘ لاپروائی اور گریڈ 17 کے اسٹیشن افسر کو چیف فائر افسر بنانے کے باعث اب پورے محکمے میں صرف 8 فائر ٹینڈرز رہ گئے‘ دو اسنارکل اور 40 فائر ٹینڈر خراب ہوکر گیرج میں کھڑے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ خراب فائر ٹینڈرز اور دیگر گاڑیوں کی مرمت کے لیے ایک فرم کو گزشتہ نو سال سے 55 کروڑ روپے سالانہ کا ٹھیکا بھی بڑی باقاعدگی سے دیا جاتا ہے اس کے باوجود آگ بجھانے کی گاڑیاں خراب ہوکر ورکشاپ تک محدود ہوگئیں۔
چند ماہ قبل چیئرمین فائر بریگیڈ امان اللہ آفریدی نے محکمے میں جاری کرپشن اور بد انتظامی کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ میئر وسیم اختر کو پیش کی تھی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ ذمے دار ٹھیکیدار فرم اور چیف فائر آفیسر مولانا تحسین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے مگر میئر نے ’’نامعلوم‘‘ وجوہات کی بنا پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ بلدیہ عظمٰی کراچی ملک کا وہ واحد ادارہ ہے جہاں کوئی دفتر بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے۔ محکمہ انجینئرنگ، محکمہ لینڈ، محکمہ اینٹی انکروچمنٹ ، محکمہ میونسپل پبلک ہیلتھ، محکمہ ویٹرنیٹری، محکمہ کچی آبادی، باغات اور محکمہ انٹرویوز و انویسٹمنٹ میں اگر کوئی کام ہوتا ہے تو وہ بھی صرف ’’اوپر کی آمدنی‘‘ کے حصول کے لیے۔
مذکورہ تمام محکموں میں میئر وسیم اختر کے مقرر کردہ ڈپارٹمنٹل ہیڈز خدمات انجام دے رہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تمام ہفتہ یا ماہانہ کی بنیاد پر 5 سے 25 لاکھ روپے ’’اوپر‘‘ تک پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کے ایم سی کی اپنے ذرائع سے آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔ کئی سال سے کسی محکمے نے اپنا مالی ہدف پورا نہیں کیا اس کے باوجود کسی افسر کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔
بلدیہ عظمیٰ کا محکمہ باغات ایسا انوکھا شعبہ ہے جہاں پر ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے وہ افسر مسلسل خدمات انجام دے رہا ہے جسے گزشتہ سال 12 مئی کو حکومتِ سندھ نے معطل کردیا تھا اور جسے تاحال حکومت نے بحال بھی نہیں کیا ہے۔ اس محکمے کی ایک اور دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ یہاں ایک ریٹائرڈ ڈی جی بھی ایڈوائزر کی حیثیت سے موجود رہتے ہیں بلکہ باغ ابن قاسم کو انہوں نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔ میئر کہتے ہیں کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں مگر کیا وہ معطل افسر سے خدمات حاصل کرنے کی اتھارٹی رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ اس افسر کو کے ایم سی کی حدود سے باہر کیوں نہیں کرتے‘ متعلقہ حکام کو اس افسر کی رپورٹ کیوں نہیں کرتے؟
بلدیہ عظمٰی کا محکمہ ویٹرنیٹری بھی اس لحاظ سے منفرد بنا دیا گیا ہے اس کا سربراہ گریڈ 18 کے ایک وکیل جمیل فاروقی کو مقرر کیا گیا ہے‘ عدالت نے اس افسر کو غیرقانونی ترقی حاصل کرنے پر تنزلی بھی کر دی تھی اس کے باوجود اسے سینئر ڈائریکٹر ویٹرنیری کے اہم عہدے پر تعینات کردیا گیا۔
اسی طرح شعبہ میونسپل پبلک ہیلتھ میں گریڈ 17 کے پروٹوکول افسر کو ڈائریکٹر بنادیا گیا۔ حالانکہ یہ اسامی مکمل طور پر طبی نوعیت کی ہے۔

فائر بریگیڈ کیخلاف تحقیقاتی رپورٹ سرد خانے کی نذر

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ فائر بریگیڈ کے فائر اسٹیشنوں کی عمارتوں کی گزشتہ 10سال سے تزئین و آرائش نہیں کی گئی جبکہ متعدد اسٹیشنوں پر پانی تک موجود نہیں ہے۔ اس بات کا انکشاف میئر کراچی وسیم اختر کی ہدایت پر چند ماہ قبل کی گئی تحقیقات سے ہوا۔ چیئرمین فائر بریگیڈ کمیٹی امان اللہ آفریدی کی نگرانی میں قائم کی گئی 5 رکنی خصوصی کمیٹی نے تحقیقات مکمل کرکے میئر کو پیش کردی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں محکمہ فائر بریگیڈ کے انتظامی اور مالی امور میں بدعنوانی اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے اور میئر سے سفارش کی ہے کہ محکمے کی حالت بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں بصورت دیگر کسی بڑی آتشزدگی کی صورت میں فائر بریگیڈ اس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10سال سے کسی بھی فائر اسٹیشن کی عمارت کی مرمت کی گئی ہے اور نہ ہی اس پر توجہ دی گئی ہے جس کے باعث یہ عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں۔ عمارتوں میں بجلی کی تنصیبات خطرناک حد تک خراب ہوچکی ہیں۔ جبکہ فائر اسٹیشنوں کی بیشتر عمارتیں پانی سے ہی محروم ہیں‘ یہاں پانی اسٹور کرنے کا انتظام ہے اور نہ ہی پانی ہے جس کی وجہ سے آگ لگنے کی اطلاع پر فائر ٹینڈرز پانی کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فائر اسٹیشنوں کے کنٹرول روم میں تجربہ کار ٹیلی فون آپریٹرز موجود نہیں ہے بلکہ فائر مینوں سے آپریٹر کا کام لیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پورا محکمہ وائرلیس کی سہولت سے محروم ہے، بعض اسٹیشنوں میں ٹیلی فون کی بھی سہولت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے فائر افسر ذاتی موبائل کا استعمال کرکے رابطے میں رہتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ محکمے کا بیشتر عملہ بنا وردی ڈیوٹی کرتا ہے کیونکہ انہیں گزشتہ 3 سال سے یونیفارم فراہم نہیں کی گئی حالانکہ ہر فائرمین کو ہر سال دو یونیفارم دینے کے لیے نہ صرف بجٹ مختص کیا جاتا ہے بلکہ مبینہ طور پر کاغذات میں ہر سال یونیفارم کٹ خریدی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بے قاعدگی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہر اسٹیشن از خود فائر سرٹیفکیٹ جاری کردیا کرتا ہے جبکہ یہ اختیارڈائریکٹر فائربریگیڈ یا چیف فائر آفیسر کا ہے۔ اس بے قاعدگی کی وجہ سے کے ایم سی کو مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ کمیٹی کی اس رپورٹ پر اب تک میئر یا میٹروپولیٹن کمشنر نے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ چیئرمین فائر بریگیڈ کمیٹی امان اللہ آفریدی نے رابطہ کرنے پر جسارت کو بتایا ہے کہ میئر وسیم اختر نے رپورٹ پر جلد ہی اجلاس بلاکر فیصلے کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یاد رہے کہ میئر وسیم اختر نے یہ تحقیقات روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبروں پر محکمے کے درست حالات جاننے کے لیے کرائی تھی۔

حصہ