ڈھائی روز تربیت کی چھاؤں میں۔۔!!۔

603

عروبہ امتیاز خان

تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

ارے عروبہ۔۔!!تم یہاں لیٹی سو رہی ہو اٹھو گاڑی کسی بھی وقت آتی ہوگی ۔ امی کی آواز تھی یا گویا نیند کا خمار توڑنے والی دوا کہ ہم اچانک ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ کالج سے آتے ہی یک دم نیند کا غلبہ طاری ہوا اور ہم دنیا و مافیاسے بے خبر بیٹھے بیٹھے ہی سوگئے ۔جلد از جلد نہانے بھاگے اور سامان زیست تیار کیا ۔ وہ تو شکر ہے کہ گاڑی لیٹ ہوگئی ورنہ تو کسی صورت وقت پر تیاری ممکن نہ تھی ۔اب آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تیاری بھلا کہاں کی ۔۔؟؟ کچھ عقلمند افراد عنوان پڑھ کر اندازہ لگا چکے ہونگے اور کچھ افراد اس پریشانی میں غلطاں ہونگے کہ بھلا کالج سے آتے ہی کدھر کے لیے رخت سفر باندھا جا رہا ہے؟
تو ہم ہر خاص و عام کو بتا دیتے ہیں کہ بحیثیت کارکن اسلامی جمعیت طالبات ہم ڈھائی روزہ تربیت گا ہ میں شرکت کے لیے ادارہ نور حق کی جانب رواں تھے ۔اف۔۔!! جمعیت بھی کیا تنظیم ہے نا!! اس فکر میں مبتلا کہ کہیں اس کا ایک بھی کارکن غیر تربیت یافتہ نہ رہ جائے بلکہ ہر ایک کارکن بذات خود ایک تحریک ہو ایک جذبہ دل میں سموئے ہوئے ہو۔ ایک روشن مثال ہو زمانے کی صعوبتیں برداشت کرنا جانتا ہو اور اس کا دل خدا کے دین برحق کے لیے خالص ہو۔ اسی سلسلے میں میری پیاری جمعیت نے میری اور تمام کارکنان کی تربیت کے لیے ایک تربیت گاہ کا اہتمام کیا جو اس کی سالانہ سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
وہی شراب وہی ہائے و ہو رہے باقی
طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

پنڈال میں قدم رکھتے ہی خوشگوارتاثرات کے ساتھ باجیوں نے ہمارا استقبال کیا۔پروگرام جاری تھا تمام طالبات انہماک سے پروگرام سننے میں مگن تھیں۔سفید شامیانے کے سائے تلے منظر کچھ یوں تھا:

ہر سینے میں اک صبح قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا
ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے
اس شعلہ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا

ہم بھی صف میں جا بیٹھے ارادہ تو پروگرام سننے کا تھا لیکن ہم اسکرپٹ نکال بیٹھے اب آپ قاری ضرور سوچ رہے ہونگے کہ کون سی اسکرپٹ بھلا ہمارے ہاتھ لگ گیا در اصل یہ جمعیت ہی کا خاصہ ہے کہ وہ افراد کے اندر موجود وہ صلاحیتیں تک کھوج لیتی ہے جو شاید خود اس فرد کو بھی معلوم نہیں ہوتیں ۔ اسی لیے ہم بندئہ ناچیز کو اسلامی جمعیت طالبات کی تاریخ میں منعقد ہونے والی پہلی طلبہ عدالت میں وکیل استغاثہ کی ذمہ داری ہمارے ناتواں کندھوں پر ڈال دی گئی تھی ۔ مکالمے تھے بھی کچھ شیطان کی آنت اور کافی دشوار قسم کے الفاظ پر مبنی رٹا لگانے پر بھی یاد نہ ہوکر دیتے ۔ لیکن پھر ہم اسکرپٹ کونے میں رکھ کر پروگرام سننے میں مگن ہوگئے ۔ وقفہ نماز عصر کے بعد مقررہ نے نہایت ہی پر اثر انداز میں جب زمین ہلا ڈالی جائے گی کے موضوع پر درس دیا جس نے ہمارا دل لرزا دیا۔وقفہ نماز مغرب کے بعد ہمیں مختلف گروپس میں تقسیم کردیا گیا جس میں خرم مراد صاحب کا کتابچہ ۔۔ اپنی تربیت آپ۔ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی اب وقت تھا اسٹوری نائٹ کا تمام افراد دوبارہ صفوں میں بیٹھ گئے ۔ مقررہ کے اسٹیج پر پہنچتے ہی لائٹس بند کردی گئیں اسٹیج پر پیلے اور سفید رنگ کے برقی قمقمے روشن کردیے گئے جس سے ماحول نہایت خوشگوار اور محسور کن ہوگیا۔مقررہ نے اصحاب کہف کا واقعہ سنایا اور ان نوجوانوں کا ناطہ ہم نوجوانوں سے جوڑ کر ہماری تربیتی حکمت عملی مرتب کرنے میں ایک معاون کردار ادا کیا ہم ٹائم مشین میں بیٹھ کر ہزاروں سال پہلے ایک وادی میں پہنچے اور پھر دونوں ادوار کا موازنہ کیا ۔ اس کے بعد رات کے کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر اصولا تو ہمیں نیند کی وادی کی سیر کے لیے جانا تھا لیکن جب آپ کی ہم جولیاں آپ کے اطراف موجود ہوں تو اس کا خیال کون رکھتا ہے سب اپنی ہم جولیوں سے گفت و شید میں مصروف تھے اور ہم ایک کونے میں بیٹھے اسکرپٹ یاد کرنے کی کوششوں میں مگن ۔ جب یاد نہ ہوئی تو الامان حفیظ کہہ کر نیند کا غلبہ ہم پر طاری ہوگیا ۔ ابھی سوئے ہی تھے کہ ایک طرف بیچاری لڑکیاں اپنے جذبات ایک دوسرے کو بیان کر رہی تھیں اور دوسری جانب چند لڑکیاں شگوفے کھلا رہی تھیں خیر فطرت انسانی سمجھ کر ہم سوتے رہے۔

کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزہ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو

دوسرے روز ہمیں صبح ۵ بجے ہی اٹھادیا گیا۔ نماز فجر ادا کر کے ہم سونے ہی والے تھے کہ ایک باجی نے ہمیںپھر جھنجھوڑ کر اٹھا دیا۔ تلاوت کے بعد مریم باجی نے قرآن کا تعارف قرآن کی روشنی میں دل کش انداز میں سمجھایا جو خوب سمجھ آیا۔اب وقت تھا گروپ ورک کا تو ہمیں گروپس میں تقسیم کرکے سورۃ النجم پر تبادلہ خیال کیا گیا اور سب نے مل کر سورۃ پر تدبر کے بعد ذہن میں آنے والے خیالات پیش کیے۔اب ورزش کا وقت ہوا چلا تھایا یوں کہیں کہ دعوت نامہ پڑھتے ہی جس پروگرام کا شدت سے انتظار تھا اب اس کی باری تھی پہلے ہم سمجھے تھے کہ بجپن میں کی جانے والی ون ،ٹو ون ، ٹو والی ورزش کروائی جائے گی لیکن جب انسٹرکٹر نے آکر کسرت کا آغاز کیا تو اس نے تو ساری کثر ہی نکال دی۔جسم کے چولوں سے لے کر دماغ کے اعصاب سب تروتازہ ہوگئے ۔اب وقت تھا وقفہ کا لیکن ہم فارغ نہ بیٹھ سکے کیونکہ طلبہ عدالت کی ریہرسل میں مصروف تھے۔ وقفے کا وقت ختم ہونے کو تھا اور ہم جلدی جلدی پراٹھوں سے استفادہ کررہے تھے ۔ اب الحیاء من الایمان پر دل نشین سا درس دیا گیا جس نے حیا کے احساس کو دوبارہ ہمارے دل و دماغ میں تازہ کردیا۔ حیا کے پروگرام کے بعد امیر جماعت اسلامی کراچی نے اپنے خطاب کے ذریعے ہم طالبات کو رہنما اصول مہیا کیے اور زمانے کے چیلنجزکا سامنا کرنے کے لیے مطالعے پر زور دیا ۔خطاب کے بعد ہم طلبہ عدالت کے شرکاء اوپر کمروں میں تیاری کے لیے پہنچ گئے ۔ یوں محسوس ہونا تھا کہ سارے مکالمے بھول جائوں گی اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔ رب اشرح کا ورد کرتی جاتی اور پھر اماں جان کو فون کر کے دعا کرنے کی استدعا کی ۔ سفید کپڑوں اور کالے کوٹ میں ہم حقیقی وکیل کا روپ دھار چکے تھے ۔ تیاری میں وقت گزرنے کا احساس نہ ہوا۔ تمام شرکاء کے چہروں سے پریشانی ظاہر ہوتی تھی لیکن وہ مرد مومن نہیں نہیں وہ عورت مومن ہی کیا جو ہمت ہار دیے ۔ طلبہ عدالت شروع ہوئی اور سب نے اپنے کردار میں ڈھل کر زبردست عدالت لگائی کہ حاضرین محفل داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔ عدالت میں ملزم کی حیثیت سے مغربی تہذیب کو لایا جاتا ہے جس پر نوجوانوں کو ورغلانے کا الزام ہوتا ہے جج حق اور سچ کی بنیاد پر نہیں بلکہ گواہان اور دلائل کی وجہ سے مغربی تہذیب کے حق میں فیصلہ سناتا ہے۔ اس عدالت کے ذریعے آج کی موجودہ عدالت کا روپ دکھانا بھی مقصود تھا ساتھ ساتھ یہ کہ اس زمانے میں مغربی تہذیب ہی سر خرو نظر آنی ہے۔ عدالت کے بعد تمام شرکاء تھکن سے چور ہو چکے تھے ۔ ایسے میں سبزی چاول کے ساتھ انصاف کرنے میں مزہ آیا۔ وقفہ نماز مغرب کے بعد ناظمہ اعلیٰ کا زبردست سا خطاب سنا اور پھر مشاعرے کی باری آئی ۔ ارے ہاں سب کچھ تو آپ لوگوں کو بتا دیا یہی بتانا بھول گئی کہ ہم نے مشاعرے میں بھی حصہ لیا تھا اور ہم دیگر شعراء کرام آگئے اور اپنے جذبات و احساسات خوبصورت کلام کی صورت میں پیش کرنے گئے جس نے حاضرین محفل کے دل موہ لیے۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ کراچی شاید شعراء کا شہر ہے اور ہر پنڈال ان کا مرکز۔ صلاحیتوں سے بھر پور ان شعراء کرام کا مستقبل مجھے بہت تابناک محسوس ہوا ۔ مشاعرے کی محفل برخاست کی گئی اور ہم نماز، کھانے سے فارغ ہو کر لمبی تانے سونے کے ارادے سے لیٹے ہی تھے کہ باتوں کے شور سے نیند بھی ہمیں چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی ۔ اب کیا کرتے ہم بھی زور و شور کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئے جب نیند نے دیکھا کہ ہمیں اس کے چلے جانے کا غم نہیں ستا رہا تو وہ خود ہی چپکے سے آگئی ۔ تیسرے روز کی ابتداء دوسرے روز سے مختلف نہ تھی پانچ بجے اٹھ کر واش روم کی جانب بڑھنے کے لیے اپنی چپل ڈھونڈنے میں مصروف تھے لیکن وہ وہاں سے ایسے غائب تھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہاںلینڈ مافیا کی جگہ چپل مافیا سرگرم ہے لیکن ہم نے تربیت کا ایک پہلو سمجھ کر ذہن میں آنے والے منفی خیالات کو جھٹک کر اپنی دوست کی چپلیں پہن لیں۔وقفے کے بعد قد افلح من تزکیٰ پر عمدہ گفتگو سنی ۔ اس کے بعد تقریب اسناد کا اہتمام ہوا جس میں مشاعرے میں پوزیشن حاصل کرنے والے شعراء میں انعامات تقسیم کیے گئے سوئے اتفاق ہم ان میں شامل نہ تھے یوں محاسبے کی باری آئی طالبات نے اپنی شکایات اورتجاویز کے ساتھ ساتھ وہ باتیں بھی سامنے رکھیں جو ان کو پسند آئیں۔بلآخر پر اثر دعا کے بعد ڈھائی روزہ محفل جو ہماری تربیت اور تزکیہ نفس کا سبب بنی تھی اختتام پذیر ہوئی ۔ وہ دل جو گھڑی کی سوئیاں تک رہا تھا اب اداس سا ہوگیا۔ شاید یہ جدائی آسان نہ تھی ۔ اتنا وقت اس جگہ سے جو لگائو ہوگیا تھا اسے چھوڑ جانا سہل نہ تھا لیکن یہ وقت بھاگ رہا ہے دوڑ رہا ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ اگر ایک جگہ رک گئے تو پیچھے رہ جائیں گے سو دل کو اگلے سال کا کہہ کر بہلا دیا اور سامان کندھوں پر ڈال کر تمام باجیوں اور طالبات کو الوداعی کلمات کہی کر واپسی کے سفر کا آغازکیا۔

زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ
علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

حصہ