شاہ بلوط

1460

نعیم صدیقی
وہ شاہ بلوط بھی ٹوٹ گرا
شب تارے جس پر جھومتے تھے
ابنوہ روپہلی کرنوں کے، دن ٹہنی ٹہنی گھومتے تھے
اور تتلیاں بن کر لالہ و گل، نازک سی پھننگوں کو اس کی
وارفتہ ادا سے چومتے تھے
وہ شاہ بلوط کچھ اور ہی تھا
اُس کی ہر ننھی کونپل میں، اک مستی خیز مہک سی تھی
چوٹی پر اُس کی یوں لگتا، ہر وقت بغیر ِ ابرِسیہ
کچھ کوندے جیسی لپک سی تھی
بتوں پہ جو گرتی تھی شبنم
تو اس کے قطرے قطرے میں، ذرّاتِ زَبَر جَد کی گویا
من موہنی ایک دمک سی تھی
اس کے ہر سوکھے ڈنٹھل میں، مجمر کے انگاروں کی صورت
اک سوز آموز دہک سی تھی
وہ شاہ بلوط عجیب سا تھا، مانند نبض انسانی
نس نس میں ایک دھمک سی تھی
طائر جو ادھر آجاتے تھے ان میں ایک خاص چہک سی تھی
وہ شاہ بلوط بھی ٹوٹ گرا
وہ شاہ بلوط جو اونچا تھا، جو لمبا تھا، جو چوڑا تھا
اک ننھی کونپل کی صورت وہ خاکِ فسردہ سے اُبھرا
اک گلشن ِ مردہ سے ابھرا
حوریں اسے سینچا کرتی تھیں‘ قدسی اسے پالا کرتے تھے
قد اس کے تنے کا بڑھتا گیا، پھر شاخیں مسلسل بڑھتی رہیں
تاآں کہ فضا میں چھانے لگا
اس تیرگیوں کی دنیا میں وہ نور و ضیا پھیلانے لگا
جیسے کہ درخت ِ طور تھا وہ
یا نور کا ایک ظہور تھا وہ
پاس اس کے تھے کتنے بدقسمت، جن کے لیے میلوں دور تھا وہ
جب جب بھی ہوا چھوتی تھی اُسے، ہر موج کو وہ مہکانے لگا
چھائوں میں پھر اُس کی ہر راہی، رُک تھم کے ذرا سستانے لگا
وہاں بچے آکر کھیلتے تھے، اور اُن کو کہانی ملتی تھی
واں بوڑھے آکر لیٹتے تھے‘ یادوں کے پرانے لچھوں کی
سوکھے ہوئے لرزاں ہاتھوں سے، وہ الجھی ڈوریاں کھولتے تھے
اور ان کو جوانی ملتی تھی‘ واں اہل شباب آتے تھے بہت
وہ کوئی کرامت دیکھتے تھے، مقصد کی نشانی ملتی تھی
وہ شاہ بلوطِ سایہ فگن
ہم جب بھی عشق کی راہوں پر، چلتے ہوئے تھک کر آتے تھے
ہم جب بھی محاذِ حق سے کبھی، تمغے کئی، تازہ زخموں کے
سینوں پہ سجا کر لاتے تھے
اس شاہ بلوطِ نوری سے کچھ دیر کو ٹیک لگاتے تھے
حساس شجر کے سامنے پھر، میدان کا حال سناتے تھے
کچھ جنگ کے راز بتاتے تھے
تھا ممتا کا ماحول یہاں، کچھ اونگھ سی آنے لگتی تھی
اک ساعت بھر سو جاتے تھے
خوابوں کے جزیروں کی پریاں، پھر ہم کو اڑا لے جاتی تھیں
فردا کے خواب دکھاتی تھیں‘ ہم جانے کہاں کھوجاتے تھے
جنگاہ سے پھر آواز آتی، ہم چونک کے پھر اُٹھ جاتے تھے
اس شاہ بلوطِ نوری سے کچھ قوت تازہ پاتے تھے،
نغمات رجز پھر گاتے تھے پھر اٹھ کر سینہ تانے ہوئے،
میداں کو لپکتے جاتے تھے ‘ واں تازہ رنگ جماتے تھے!
وہ شاہ بلوط اک پیڑ بھی تھا، انسان بھی تھا، کچھ اور بھی تھا
اک شخص بھی تھا، انبوہ بھی تھا، تحریک بھی تھا، اک دور بھی تھا
وہ گیت ازل کے گاتا تھا
ذروں کو کرامت سے اپنی، پل میں خورشید بناتا تھا
طائر جو بہ زیر دام رہے، دے کر انہیں درس آزادی
پرواز کا فن سکھلاتا تھا
ہر بستی میں دیکھا ہے اسے، وہ محفل محفل جاتا تھا
اور اک پیغام سناتا تھاجینے کے راز سکھاتا تھا،
مرنے کے بھید بتاتا تھا‘ایمان کی خُو پھیلاتا تھا،
حکمت کا رنگ جماتا تھا
قبروں سے مردے جی اُٹھے! وہ ایسی مَے کا ساقی تھا
وہ ایسے جام لنڈھاتا تھا
وہ پتھر کھاتے کھاتے بھی، دھیما سا تبسم فرما کر
کچھ لعل و گہر برساتا تھا
جو لوگ کہ پتھر مارتے تھے، اُن سب پر پھول گراتا تھا
ہر ٹوٹی ہوئی شخصیت کوکرتا تھا بہم، پھر ان میں جوڑ لگاتا تھا
تھا اُس کا گناہِ پاک یہی، ہر کفر پہ اس کی یورش تھی
ہر باطل سے ٹکراتا تھا
اس شاہ بلوط زندہ سے، شیطان بہت گھبراتا تھا
صہیونی، صلیبی، لادینی اور چانکیائی، مارکسی
سب حیلے اپنے کرتے تھے
ان کو چکر دے دے کر، وہ سخت پریشاں کرتا تھا
خود ان کے ہاتھ نہ آتا تھا
نظریوں کے تھے جال بہت، پل بھر میں توڑ دکھاتا تھا
اس دور کے ساحر، جادو کے جب سانپ بنا کر لاتے تھے
وہ مکر کا دشمن، سحر شکن، موسیٰؑ کا عصا بن جاتا تھا
نمرود چتا بھڑکاتے تھے
تو ابراہیمؑ کا یہ بیٹا، ہر آذر کا یہ انکاری
بے باک بھڑکتے شعلوں کو، اور دہکے ہوئے انگاروں کو،
رنگیں گلزار بناتا تھا
زنداں میں اُسے جب ڈالا گیا
زنجیروں نے بل کھائے بہت، ہر قفل بھی پگھلا جاتا تھا
یہ دار کو بھی چھو آیا تھا
لکڑی کے تختے کانپ اُٹھے، گرہیں ہی رسن کو پڑتی نہ تھیں
جلّاد بھی خود غش کھاتا تھا
وہ آیتِ کرسی پڑھ پڑھ کر
جو کرسیوں پر تھے بیٹھے ہوئے، ان سب کے دل دہلاتا تھا
یہ تاریخی کردارِ حسیں، ہر دور میں جلوہ دکھلا کر
پردوں میں کہیں چھپ جاتا تھا
اب بھی وہ پس پردہ ہے مکیں،
اب بھی وہ کرم فرماتا ہے، جو پہلے کرم فرماتا تھا،
وہ شاہ بلوط عجوبہ تھا
وہ چشم بصیرت رکھتا تھا، سب چہروں کی تحریروں کو
باریک نظر سے پڑھتا تھا
وہ سب کی باتیں سنتا تھا، وہ سُن سُن کر سر دُھنتا تھا
وہ اس انداز سے سُنتا تھا، گویا کہ وہ موتی چنتا تھا
پھر قصرِ تخیل میں اپنے، وہ قوس قزح کے تاروں سے
حکمت کی روایتیں بُنتا تھا
اُس شاہ بلوط کے کیا کہنے،
ہر پتاّ ایک زباں گویا، اٹھتی تھیں تکلم کی لہریں
حساس تھا وہ، بے دار تھا وہ
باغیرت تھا، خود دار تھا وہ
عظمت کا اک مینار تھا وہ
قرآں کا امانت دار تھا وہ، اب کیا کہیے وہ کیا کیا تھا
اب یاں کی فضائوں کو دیکھو
پُرہول خلا ، تاریک فلک اور چھائی ہوئی ویرانی ہے
نم دیدہ صدہا آنکھیں ہیں، سلگی ہوئی ہر پیشانی ہے
یارانِ سلوکِ راہِ صفا!
وہ مر کے بھی مٹنے والا نہیں، خود موت کو بھی حیرانی ہے
اب کاہکشاں تا کاہکشاں اس شاہ بلوط کا گھیرا ہے
اُس داعی ٔ دین ِ رحمت کا، آفاق تلک پھیلائو ہے
ہر بے آلائش سینے میں اُس مردِ خدا کا ڈیرا ہے
جو لوگ سپاہی حق کے بنیں، رہتا ہے وہ ان کے ساتھ رواں
ہر شخص کہے یہ میرا ہے‘ گوچاروں سمت اندھیرا ہے
سورج کی آنکھیں اندھی ہیں، تاروں نے چہرے ڈھانپ لیے
گھبرائو نہیں، رکھو یہ یقیں
وہ شاہِ بلوطِ انسانی، جو ظاہر میں کل ٹوٹ گرا
وہ سورج بن کر اُبھرے گا
مانو، وہ کل کا سویرا ہے!

حصہ