زندگی کی اہمیت

1429

سیدہ عنبرین عالم
عامر مرزا سات سال کا تھا جب اس کے والد انتقال کر گئے۔ دو چھوٹے بھائی تھے اور والدہ کی انتھک محنت۔ رہتے بھی گائوں میں تھے، آمدنی کے زیادہ وسائل نہیں تھے۔ سات سال کی عمر سے ہی عامر نے گھر کی معاشی جدوجہد میں حصہ لینا شروع کردیا۔ والدہ گھر میں پاپڑ، اچار، چٹنیاں وغیرہ بناتیں اور وہ پیٹھ پر بوجھ اٹھائے گھر گھر بیچتا۔ تلے ہوئے پاپڑ بچے خرید لیتے، اچار چٹنیاں گائوں والے خریدتے۔ کیونکہ گائوں والے بھی غریب تھے، تو بہت ہی محدود آمدنی تھی۔ گائوں میں ایک ٹیچر تھے اشفاق صاحب، وہ شہر کے کسی اسکول میں سرکاری ملازم تھے اور حساب پڑھاتے تھے۔ ریٹائر ہوئے تو گائوں میں آبسے۔ بیٹوں اور بہوئوں نے زیادہ منہ نہ لگایا تو الگ گھر لے کر رہنے لگے اور شام کو گائوں کے تقریباً 70 بچوں کو اکٹھا کرکے حساب پڑھاتے۔ یعنی اس گائوں کے بچے اردو، انگریزی، سائنس وغیرہ سے قطعی لاعلم تھے جبکہ حساب دسویں جماعت تک کا جانتے تھے۔ عامر اور اس کے بھائی بھی انہی کے پاس جاتے تھے۔ اشفاق صاحب دسویں سے آگے کا حساب نہیں پڑھاتے تھے لہٰذا اس کے بعد بچے ان کے پاس جانا چھوڑ دیتے تھے۔
عامر کو نہ جانے کیا سوجھی، گیارہویں جماعت کی حساب کی کتاب اٹھا لایا اور اشفاق صاحب سے ضد کرنے لگا کہ پڑھائو۔ انہوں نے لاکھ معذرت کی مگر عامر نہ مانا۔ وہ بے چارے بھی نرم دل کے آدمی تھے، خود سارا دن مشق کرتے اور شام کو عامر کو پڑھاتے۔ یوں عامر کی گاڑی چل پڑی۔ ایک روز عامر ایک دکان سے بھائیوں کے لیے مٹھائی لے کر آیا۔ بھائیوں نے جی بھر کے مٹھائی کھائی اور باقی کی عامر کے لیے بچا کر رکھ دی۔ عامر ساری رات اشفاق صاحب کے ہاں حساب پڑھتا رہا، صبح عامر کی والدہ جب بیدار ہوئیں تو مٹھائی خراب ہوچکی تھی، انہوں نے بڑا افسوس کیا کہ عامر نہ کھا سکا۔ بہرحال اس مٹھائی کو کام میں لانے کے لیے انہوں نے اس پر چوہے مار دوائی چھڑک دی کہ چوہے مارنے کے لیے رکھ دوں گی، اور ناشتا بنانے لگیں۔ اتنے میں عامر کے چھوٹے بھائی اٹھ گئے اور والدہ ان کے ساتھ مصروف ہوگئیں اور چوہوں کو مٹھائی ڈالنا بھول گئیں۔ عامر گھر آیا تو بس مٹھائی کا ہی سوچتا ہوا آیا، اور سب سے پہلے مٹھائی ڈھونڈنے باورچی خانے میں گیا، وہ ایک ٹکڑا کھانے ہی لگا تھا کہ والدہ نے دیکھ لیا اور زور سے عامر کے ہاتھ کو دھکا دیا، مٹھائی دور جا پڑی اور عامر کی جان بچ گئی، بعد میں والدہ نے سارا قصہ سنایا۔
عامر کی زندگی اب بہت سخت ہوچکی تھی، وہ 21 سال کا ہوگیا تھا اور بی ایس سی تک کا حساب پڑھ چکا تھا، بلکہ اشفاق صاحب سے گزارے لائق اردو، انگریزی بھی پڑھ چکا تھا۔ وہ اشفاق صاحب کو مختلف تحفے دیتا رہتا تھا، مگر وہ بہت بوڑھے اور بیمار ہوچکے تھے، آخرکار انہوں نے آئندہ کچھ پڑھانے سے معذرت کرلی اور گائوں کے دیگر بچوں کو بھی پڑھانا چھوڑ دیا۔ چونکہ اکیلے رہتے تھے اس لیے عامر انہیں اپنے گھر لے آیا، ان کی مکمل خدمت بھی اس کی ذمے داری بن گئی۔ اب اس نے اچار، چٹنیاں شہر کی دکانوں پر سپلائی کرنے کا کام شروع کردیا تھا اور گھر میں آٹھ ملازم بھی رکھ لیے تاکہ بڑے پیمانے پر سامان تیار کیا جاسکے۔ ایک سوزوکی بھی خرید لی تاکہ سامان شہر پہنچانے میں سہولت رہے۔
ایک روز شہر میں دکانوں پر مال سپلائی کرنے کے بعد وہ بہت سارا کیش لے کر گھر واپس آرہا تھا، راستے میں رات ہوگئی، گائوں کے نزدیک ہی ڈاکوئوں نے اس کی گاڑی کر ساری رقم چھین لی، عامر نے مزاحمت کی تو گولی مار کر چلے گئے۔ جب رات کے 2 بجے تک بھی عامر گھر نہ پہنچا، نہ فون اٹھایا تو اس کے بھائی اسے ڈھونڈنے نکلے، اور اس کو زخمی حالت میں بے ہوش پاکر اس کی سوزوکی میں واپس شہر کے اسپتال لے کر بھاگے۔ عامر کا بہت خون بہہ چکا تھا، اسے ایک مہینہ آئی سی یو میں رہنا پڑا اور تقریباً آٹھ مہینے میں دوبارہ نارمل زندگی کی طرف واپس آیا۔ اس وقت تک اس کا کاروبار تباہ ہوچکا تھا۔ چھوٹے بھائی کبھی شہر نہیں گئے تھے، انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ عامر کا شہر میں کس کس سے کاروبار ہے۔ عامر لاکھ سمجھاتا رہا، مگر وہ لوگ کاروبار نہ سنبھال سکے اور حالت یہ ہوگئی کہ عامر پیسے پیسے کو محتاج ہوگیا۔
اس وقت بھی اشفاق صاحب کام آئے، وہ جس گھر میں اکیلے رہتے تھے، انہوں نے عامر کو اسے بیچنے کو کہا اور اس رقم سے عامر نے دوبارہ کاروبار کا آغاز کیا، لیکن اشفاق صاحب بالکل ہی بستر سے لگ گئے، اٹھ کر باتھ روم تک نہ جاپاتے تھے، ان کے لیے ایک کُل وقتی ملازم رکھنا پڑا جو دن رات ان کی دیکھ بھال کرسکے۔ اِدھر عامر کا کاروبار ایسے پھل پھول رہا تھا کہ جس کی حد نہیں۔ اس نے گائوں میں ہی فیکٹری لگا لی۔ اچار چٹنیوں کے ساتھ بسکٹ، ڈبل روٹی وغیرہ بھی تیار کرنے لگا۔ گائوں کے آدھے سے زیادہ لوگ اس کے ملازم ہوگئے اور اسے بھی لیبر سستی پڑ رہی تھی۔ یہی فیکٹری شہر میں لگاتا تو اسے لیبر بہت مہنگی پڑتی۔ اشفاق صاحب کے بیٹوں نے بھی اچانک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ ہمارے باپ کا گھر کیسے بیچ کے کھا گئے۔ عامرکو انہیں گھر کی پوری قیمت دینی پڑی حالانکہ اشفاق صاحب کہتے رہے کہ میرا گھر ہے، میں جس کو مرضی دوں، مگر بیٹے مقدمہ بازی پر اترے ہوئے تھے۔
عامر نے ایک چھوٹا سا بینک بھی گائوں میں کھول لیا تھا جہاں آسان قسطوں پر قرضے بھی فراہم کیے جاتے، اور لوگوں کی رقم اور زیورات بھی اپنی ذمے داری پر محفوظ کیے جاتے تھے، اور عامر برائے نام ہی منافع لیتا تھا۔ سب کو سہولت تھی۔ سب بینک میں اکائونٹ کھلوانے لگے اور گائوں کے چودھری کے سب قرضے ادا ہوگئے۔ نہ اب کوئی اس سے قرض لیتا، نہ بھاری بھرکم سود دیتا۔ یہ بات چودھری کو آگ لگا گئی جو پہلے ہی عامر کی دن دونی رات چوگنی ترقی سے خائف تھا، اس نے عامر کو جان سے مارنے کا منصوبہ بنا لیا، لیکن عامر اب بہت بڑے گھر میں رہتا تھا، جہاں بہترین سیکورٹی انتظامات تھے۔ بالآخر اسے مسجد میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ دوبارہ عامر کی زندگی خطرے میں پڑگئی اور وہ دو مہینے اسپتال میں داخل رہا، لیکن اب تک وہ اپنے بھائیوں کو اس قابل بنا چکا تھا کہ دونوں کاروبار احسن طریقے سے چلتے رہے۔
عامر اب 32 سال کا تھا، اس کی اور اس کے بھائیوںکی شادی ہوچکی تھی، بچے ابھی چھوٹے چھوٹے ہی تھے۔ اشفاق صاحب ہوش و حواس سے بالکل بیگانہ ہوچکے تھے۔ نہ کچھ بولتے نہ سمجھتے، بس سانس چل رہی تھی۔ عامر نے بھی خدمت کا خوب حق نبھایا۔ اس حالت میں جب اشفاق صاحب اسے پہچان بھی نہیں سکتے تھے، روز جاکر ان کا سر دباتا، خود سے دوائیں اور کھانا کھلاتا، ان کو نہلانے کی ذمے داری بھی عامر کی تھی، حالانکہ ملازم رکھا ہوا تھا۔
ایک روز عامر کے دل میں خیال آیا کہ میں کتنی فضول زندگی گزار رہا ہوں، پیدا ہونے سے اب تک صرف مال کمانے کی جدوجہد کی۔ اب میرے پاس اتنا پیسہ ہے، اب میں کیا کروں گا؟ اب میری زندگی کا کیا مقصد ہے؟ سوچ بچار کرکے اس نے گائوں میں پہلی بار ایک اسکول اور ایک اسپتال تعمیر کرایا۔ شہر سے ڈاکٹر اور استاد بھاری تنخواہوں پر بلائے۔ مگر اس کے دل کی بے چینی دور نہ ہوئی۔ اس نے مسجد سے دل لگا لیا، کاروبار مکمل طور پر بھائیوں کے سپرد کردیا۔ خود والدہ اور اشفاق صاحب کی خدمت کرتا یا نماز اور قرآن پڑھتا رہتا۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی کیفیت تھی۔ اس کا دل بالکل ہی دنیا سے بے گانہ ہوگیا تھا۔ اپنے بیوی، بچوں تک سے بات کرنا گوارا نہ تھا۔ بچے ابو ابو پکارتے تو جواب ہی نہ دیتا۔ والدہ عامر کو کئی پیروں، فقیروں کے پاس بھی لے کر گئیں مگر عامر کی دنیا سے بے زاری بڑھتی ہی گئی۔
ایک دن عامر نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا اور گائوں کے دریا کے پل پر چھلانگ لگانے پہنچ گیا، گِرل پر چڑھا ہی تھا کہ اچانک اشفاق صاحب کی آواز آئی ’’عامر‘‘۔ وہ حیران رہ گیا، اشفاق صاحب بیس سال پرانے والے صحت مند اور سمجھ دار استاد لگ رہے تھے۔ ’’عامر ذرا میرے ساتھ چلو‘‘۔ انہوں نے حکم دیا۔
وہ ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا، اب کیا دیکھتا ہے کہ اس کی فیکٹری ہے ہی نہیں، وہ جگہ بنجر پڑی ہوئی ہے، سب لوگ بھوکے اور بیمار ہیں اور چودھری کی زمینوں پر صرف دانوں کے عوض سخت محنت کررہے ہیں۔ اس سے آگے گئے تو کھلا میدان، جہاں کتے اور بلیاں گھوم رہے ہیں، اسکول اور اسپتال غائب ہوچکے تھے۔ کچھ اور آگے گئے تو عامر کا عالی شان گھر غائب تھا اور عامر کے بھائی پھٹے کپڑوں میں انتہائی نقاہت کے ساتھ چودھری کی زمینوں پر کام کررہے تھے، اور اس کی والدہ چودھری کی بیوی کی مالش کررہی تھیں۔ اور آگے گئے تو وہ بینک بھی غائب تھا جس نے گائوں کے ہر گھر میں خودانحصاری اور خوش حالی کو رواج دیا تھا۔
’’یہ سب کہاں چلا گیا اشفاق صاحب؟‘‘ عامر نے حیرانی سے سوال کیا۔
اشفاق صاحب مسکرائے ’’اللہ نے تین دفعہ تمہاری جان بچائی، اگر تین میں سے ایک دفعہ بھی تم مرجاتے تو یہ صورتِ حال ہوتی، اللہ نے جس جس انسان کو زندہ رکھا ہوا ہے اُس سے اللہ کوئی کام لینا چاہتے ہیں، اگر تم مر جاتے تو اتنے لوگ بے روزگار ہوتے، گائوں میں کوئی سہولت نہ ہوتی، تمہارا خاندان برباد ہوجاتا۔ اتنی اہم ہے تمہاری زندگی، جس کی اللہ حفاظت کررہا ہے، تو تم اللہ کی مرضی کے خلاف اپنی جان کیسے لے سکتے ہو؟ یہ فیصلہ تو اللہ کرے گا کہ کب تمہاری ضرورت دنیا میں نہیں رہی‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’مگر اب کوئی کام ہی نہیں ہے، میں سب کچھ کرچکا ہوں دنیا میں‘‘۔ عامر نے کہا۔
’’تو جو لوگ دنیا میں کچھ نہیں کرسکے، ان کا سہارا بنو۔ اس گائوں میں سب سہولتیں دے چکے، تو اگلے گائوں میں بھی دو۔ کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ صرف کافر لوگ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں رہنے والا ایک ایک انسان بہت اہم ہے، چاہے وہ کوئی بھنگی یا چپراسی ہو، ہر ایک کو زندہ رکھنے میں اللہ کی حکمت ہے، اور جب اس انسان کی ضرورت نہیں رہے گی تو اللہ ایک روز بھی اسے زندہ نہیں چھوڑے گا، نہ ایک لمحہ زیادہ نہ ایک لمحہ کم‘‘۔ اشفاق صاحب نے سمجھایا۔
’’آپ نے درست فرمایا، اللہ کے کام میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ عامر نے تائید کی۔
’’خودکشی مکروہ ترین فعل ہے، اللہ تعالیٰ نے امتحان پاس کرنے کے لیے آپ کو جو مہلت دی ہے اسے آپ خود ہی کم کررہے ہیں، جتنا زیادہ وقت ہوگا، آپ اتنی اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ بعض لوگ بیماری اور مصیبت سے تنگ آکر موت مانگتے ہیں، مگر یہ محض بے وقوفی ہے، موت تو آنی ہے لیکن اللہ سے ناراضی کی حالت میں جان دے کر اپنی آخرت کیوں خراب کرنا! دنیا تو بگڑ گئی،آخرت بھی تباہ کرلو تو کیا فائدہ؟‘‘ اشفاق صاحب بولے۔
’’صحیح فرمایا اشفاق صاحب! میں نے خودکشی کا فیصلہ تبدیل کرلیا‘‘۔ عامر نے مسکرا کر کہا۔
اشفاق صاحب نے عامر کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا ’’بیٹا اب گھر جائو، وہاں ایک ضروری کام ہے تمہارے انتظار میں، مجھے بھی جانا ہے، وقت ہوگیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’آپ میرے ساتھ ہی چلیے، گھر ہی جارہا ہوں میں‘‘۔ عامر نے کہا۔
’’نہیں! اللہ نے جو آخری کام مجھ سے لینا تھا، لے لیا، اب میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں‘‘۔ وہ بولے۔
عامر نے مڑ کر دیکھا تو فیکٹری، بینک، اسکول، اسپتال اور اس کا بنگلہ موجود تھے۔ پھر پلٹا تو اشفاق صاحب نہیں تھے۔ وہ گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچا تو اشفاق صاحب کا جنازہ تیار رکھا تھا، صرف عامر کا انتظار کیا جارہا تھا۔ عامر کے بچے ابو ابو پکار کر دوڑتے ہوئے آئے اور اب کے اس نے انہیں گود میں اٹھا کر پیار کیا۔ ’’میری زندگی کا ایک مقصد ابھی باقی ہے، میرے بچوں میں سے کوئی عامر بنے گا اور کوئی اشفاق صاحب۔ یہ کام مجھے ہی کرنا ہے اور میرا زندہ رہنا ضروری ہے، کوئی دکھ تکلیف یا بے زاری مجھے اللہ کی نافرمانی پر مجبور نہیں کرسکتی۔ میں اللہ کی مرضی کے مطابق زندہ رہوں گا اور اپنی پوری مہلت اللہ کو راضی کرنے میں استعمال کروں گا، اللہ میری مدد فرمائے‘‘۔ عامر نے دعا مانگی۔
زندگی اللہ کی نعمت ہے، کسی صورت اس نعمت کی ناشکری نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا کی کوئی سختی اتنی بڑی نہیں ہے کہ اپنی مہلت کا خاتمہ کرکے اپنے امتحان کا بیڑہ غرق کرلیں اور ناکامی کو سر کا سہرا بنا لیں۔ خودکشی حرام ہے اور اس فعل کی معافی نہیں۔ اللہ کی رحمت پر بھروسا کبھی نہ کبھی مشکل سے چھٹکارا دے ہی دے گا۔

حصہ