حقوق اور دائرہ عمل

636

جب بھی بات حقوق کی چھیڑی جاتی ہے اور خصوصاً وہ بات اگر مرد و زن کی ہو تو اکثر حقوق اور دائرہ عمل کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ وہ تمام امور جو چاردیواری کے اندر کے ہیں وہ خواتین کو انجام دینے چاہئیں اور جو چار دیواری کے باہر کے ہیں انھیں مردوں کو انجام دینا چاہیے تو اکثر افراد امور کو بھی حقوق کی فہرست میں شمار کرکے اس بات کو خواتین کے خلاف بے جا جکڑ بندیوں اور حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار کرنے لگتے ہیں۔
گو کہ یہ بات تو چاردیواری اور چاردیواری سے باہر کی ہے لیکن اتنی سچی ہے کہ دنیا کے سارے کاموں میں اسی طرح نمایاں نظر آئے گی اور زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جو اس قید سے آزاد ہو۔
مثال کے طور پر ہر ملک کے کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جو ملک کی سرحدوں کے اندر کے ہوتے ہیں اور کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جن کا سارا دارومدار سرحدوں کے باہر کا ہوتا ہے۔ جو امور سرحدوں کے اندر کے ہوتے ہیں انھیں اس ملک کی وزارت داخلہ سنبھال رہی ہوتی ہے، وہی ہر قسم کی صورت حال کا جائزہ لیتی ہے، اس کو اپنے قابو میں رکھنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے، منصوبہ بندی اور وضع کردہ قوانین کے مطابق ان پر عمل کرواتی ہے اور کامیابی و ناکامی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اسی طرح سرحدوں کے پار کے تمام معاملات وزارت خارجہ کے پاس ہوتے ہیں، بیرونی ممالک سے تعلقات سے لیکر بہت سارے امور جو قانون کے مطابق اس کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں وہ ان سب پر نظر رکھتی ہے، ملک کے خارجہ تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے، ان کے لئے بہتر سے بہتر منصوبے بناتی ہے، تجاویز مرتب کرتی ہے اور ناکامی و کامیابی کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے ۔
چاردیواری کے اندر کے کام ہوں یا چاردیواری کے باہر کے، سرحدوں کے اندر کے امور ہوں یا سرحدپار کے۔ امور امور ہی رہیں گے۔ ان کے انجام دینے والے خواہ حضرات ہوں یا خواتین، بہر صورت وہ امور اپنی اپنی جگہ اسی طرح موجود و مقرر رہیں گے یا باالفاظ دیگر ان کو ہر صورت میں انجام دینا ہوگا اس لیے کہ وہ سارے امور قابل تنسیخ کسی صورت میں ہو ہی نہیں سکتے اور اگر ان کی جانب سے لاپرواہی برتی گئی، غفلت اختیار کی گئی، ان کی جانب سے سستی یا کاہلی کا مظاہرہ کیا گیا یا ان کی تنسیخ کرنے کی کوشش کی گئی تو گھر ہو، بازار ہو، شہر ہو، ملک ہو یا دنیا، بہت خرابیاں پیدا ہو جائیں گی جو بڑی تباہی کا سبب بن جائیں گی۔
مثلاً گھر کی صفائی نہایت ضروری ہے، کوئی تو کرے گا۔ گھر میں ایک تذکیر ہے اور ایک تانیث، ان دونوں میں سے کوئی ایک تو ہوگا جس کو ایسا کرنا ہوگا۔ دونوں یا دونوں میں کوئی ایک بھی اس کام کا ذمہ دار بننے کے لیے تیار نہیں ہوگا تو پھر کوئی باہر سے مدد گارحاصل کرنا پڑے گا جس کو معاوضہ یا تو خود دینا ہوگا یا سرکار دیتی ہوگی یا وہ کسی انجمن کا فرد ہوگا اور انجمن بھی کسی مدد کے تحت چل رہی ہوگی، المختصر کام اپنی جگہ موجود رہے گا اور اس کو انجام دینا بھی بہر صورت ضروری ہوگا۔ اب کوئی ایک بھی ذمہ دار بننے کے لیے تیار نہ ہو، گھر کے تذکیر و تانیث یا گھر کے باہر کے تذکیر و تانیث تو وہ گھر کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کا مرکز بن جائے گا اور یہ پہلے اس گھر کے مکینوں کے لیے بیماری و ہلاکت کا سبب بنے گا اور پھر اس کے مضر اثرات گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے شہروں میں پھیل جائیں گے اور اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو ساراملک ہی ہلاکت کا شکار ہو جائے گا۔ ثابت یہ ہوا کہ انسان کی زندگی کے ساتھ جو جو بھی امور لگادیئے گئے ہیں ان کی تنسیخ ممکن نہیں۔ ان امور کو ہر صورت میں انجام ہی نہیں دینا بلکہ انجام دیتے رہنا ہے بصورت دیگر تباہی اور ہلاکت مقدر بن جائے گی۔
یہاں اس سے کوئی بحث نہیں اْن امور کو جن کی تنسیخ کسی طور ممکن نہیں، انھیں کون انجام دےگا، حضرت یا خاتون، بحث یہ ہے کہ کونسا کام کس کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے تو بہت ساری الجھنیں ختم ہو سکتی ہیں اور وہ بہت ساری بحثیں جس میں الجھ کر لوگ اپنے اوقات کا زیاں کر رہے ہیں ان کو ختم کرکے اپنا وقت بچایا جا سکتا ہے۔
عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک عورت گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر کسی بھی قسم کا کوئی بھی کام نہیں کر سکتی یا گھر کی چار دیواری سے باہر اس کا کوئی کام ہے ہی نہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورت کا کام کرنا مردوں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ کہیں کہیں یہ غلط فہمی بھی عام ہے اسلام عورت کو صرف گھر میں قید کر کے رکھنا چاہتا ہے اور گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں اس کے لیے نہ صرف بےشمار خطرات ہیں بلکہ وہ درندگی کا شکار ہوکر یا تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے یا پھر وہ درندوں کے ہاتھوں ہی ہلاک کردی جاتی ہے۔
میرے نزدیک یہ سب باتیں مفروضہ ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی معاشرے کی عورت صرف اور صرف وہی امور انجام نہیں دیتی جن کا تعلق صرف اور صرف چاردیواری سے ہو بلکہ وہ ایسے بےشمار امور کو انجام دیتی نظر آتی ہے جو چاردیواری سے باہر کے ہوں۔ مغرب زدہ سوچ ہمیں بار بار یہ قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے جیسے ہم “دقیانوسی” معاشرے والوں کی خواتین ملک کی کسی بھی معاشی جد و جہد میں شامل نہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ہماری خواتین ملک کی معاشی جد و جہد میں نہ صرف مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہیں بلکہ وہ مردوں سے بڑھ کر معاشی جد و جہد میں شریک ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ مغرب زدہ خواتین کے سے انداز اپنائے ہوئے نہیں ہیں۔
اس قسم کی سوچ شاید اس لئے اختیار کر لی گئی ہے کہ سروے کرنے والوں نے ہمارے ملک کے شہروں کا ہی سر وے کیا ہے اور وہ بھی سر سری اور وہ بھی مغربی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر۔
گاؤں دیہات کی ایک خاتون کی مثال دینے کے لیے کوئی این جی او، کوئی سروے ٹیم، کوئی تجزیہ نگار یا کوئی مبصر تیار نہیں جہاں ایک خاتون سارے مردوں سے قبل سو کر بیدار ہوتی ہے اور سارا گھر جب گہری نیند سو جاتا ہے تب اپنے سونے کی تیاری کرتی ہے۔ اس کا کام گھر کی چاردیواری کے امور کو نمٹانا تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ مال مویشیوں کے چارے سے لیکر کھیتوں اور کھلیانوں کے امور نمٹانا بھی ہوتا ہے۔ مال مویشیوں کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنا، ان کو چرانا، ان کے گند کی صفائی ستھرائی، دودھ دھونا، یہ سب امور وہی انجام دیتی ہے۔ فصل بونے، اس کی نگرانی کرنے، فصل کاٹنے، گھانے اور پھر بھوسے کو محفوظ کرنے کے عمل تک وہ ہر کام میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہوتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی 70 فیصد سے بھی زیادہ آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور ان کی زندگی کا انحصار کاشت کاری پر ہی ہے۔ کاشت کاری کے سارے امور میں خاتون کا مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہونا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ ملک کی وہ آبادی (خواتین) جو ملک کی آبادی کا نصف سے بھی زیادہ ہے وہ بہرلحاظ ملک کی معاشی جد و جہد میں شریک ہے البتہ شاید اس کا مغرب کی خاتون کا سا انداز نہ ہو جس کی وجہ سے مغرب یہ سمجھتا ہو کہ ہمارے معاشرے کی خاتون مردوں کے شانہ بشانہ معاشی جدوجہد میں شریک نہیں۔
یہ تو احوال ہوا ہماری دیہاتی زندگی کا، شہروں میں بھی خواتین صرف گھر کی چاردیواری میں قید و بند کی زندگی نہیں گزاررہیں بلکہ حسب ضرورت وہ چاردیواری کے باہر کے امور میں بھی بڑھ چڑھ کر شریک ہیں۔
اصل میں جائزہ اس امر کا لینا ہے کہ وہ سارے امور جن کی تنسیخ ممکن ہی نہیں اور جن کو خواہ خاتون کرے یا مرد، گھر والے کریں یا باہر والوں سے ان امور کو انجام دیا جانا ضروری ہو، ان میں سے کون کون سے کن کن کو انجام دینے چاہئیں؟۔ کون سا کام ایسا ہے جس کو اگر خواتین ہی انجام دیں زیادہ بھلا ہے اور کون سا کام ایسا ہے جو مردوں کو انجام دینا زیادہ موزوں۔
یاد رہے کہ اسلام کسی (مرد و زن) پر کوئی خاص پابندی نہیں لگاتا لیکن انسان کو عقل سلیم دے کر بہت ساری باتیں اس پر چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی عقل فلاں فلاں معاملے پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔
اگر میں یہ کہوں کہ کیا ایک 50 ٹن وزن اٹھانے والی کرین 5 ٹن وزن نہیں اٹھا سکتی تو ہر فرد یہی کہے گا کہ اٹھا سکتی ہے لیکن کیا ایسا کرنا مشینری کا غلط استعمال (مس یوز) نہیں ہوگا؟۔ اسی طرح ایک 5 ٹن وزن اٹھانے والی کرین سے کیا 7 ٹن وزن نہیں اٹھایا جا سکتا؟۔ اٹھایا جاسکتا ہے اس لئے کہ 5 ٹن وزن اٹھانے والی کرین کو اجازت تو 5 ٹن وزن اٹھانے تک ہی کی دی گئی ہوگی لیکن اسے ٹسٹ لازماً آٹھ ٹن وزن تک کیا ہوگا لیکن ایسا کرنا ایک جانب تو خطرات کو مول لینے کے برابر ہو گا اور دوسری جانب اسکا غلط مصرف (مس یوز) ہوگا۔
اسی طرح ہر مشینری کا مصرف جدا جدا ہوتا ہے، ٹریکٹر کیچڑ پانی اور کچی زمینوں پر کام کے لیے بنایا گیا ہے، فور بائی فور جیپیں دشوار گزار راستوں کے لیے ہیں، کاریں ہموارراستوں کے لیے ہیں، بیل گاڑیوں، اونٹ گاڑیوں، گدھا گاڑیوں اور تانگوں کا مصرف کچھ اور ہے۔ یہ سب مشینری اپنے اپنے مصرف سے ہٹ کر بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہے اور پاکستان میں تو یہ بات بہت ہی عام ہے لیکن کیا ایسا کرنا مشینری کے ساتھ زیادتی نہیں اور کیا ایسا کرنا اچھا تصور کیا جائے گا۔ کیا صاف ستھری اور ہموار سڑکوں پر بڑے بڑے ٹریکٹروں کا دوڑنا اور دھول مٹی زدہ راستوں پر لگژری کاروں کا گرد و غبار کا طوفان اٹھانا اچھا لگے گا؟۔ البتہ ہنگامی صورت میں شاید ان کا غلط استعمال بھی قابل ستائش ہو اس لئے کہ ہر ہنگامی صورت حال میں سارے وضع کئے گئے اصول و قوائد اور قوانین معطل ہوجاتے ہیں۔
جس طرح مشینری میں سائیکل، ٹرائیسکل، موٹر سائیکل، رکشہ، ٹیکسی، کار، بس، ٹرین، ہوائی جہاز، لفٹر، کرین، شاورلوڈر یا ڈمپر کا ایک مقام و کام ہوتا ہے اور ان سے ان
کی کارکردی کے مطابق کام لینا بھلا لگتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خاتون سے وہ کام لئے جائیں جو بہر لحاظ مردوں کی صلاحیتوں سے تعلق رکھتے ہوں اور ایک مرد سے وہ امور انجام دینے کا کہا جائے جو ایک خاتون کی صلاحیت سے متعلق ہوں۔ کیا ایسا دونوں کی صلاحیتوں کا غلط استعمال (مس یوز) نہیں ہوگا۔ اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی سمجھ لیا جائے تو اس طرح کارکردگی میں اضافہ ہوگا یا اس میں کمی واقع ہوگی؟۔
ہم نے یہ بات آغاز ہی میں طے کر لی تھی تھی کہ انسان جب دنیا میں بھیجا گیا تو اس کو اپنی بقا کے لیے کچھ امور کا ذمہ دار بنادیا گیا جس کو انجام دیئے بغیر وہ دنیا میں کسی طور زند رہ ہی نہیں سکتا۔ ان امور کی تنسیخ بھی کسی طور ممکن نہیں۔ تنسیخ تو تنسیخ، ان کی جانب سے کسی بھی قسم کی کاہلی، سستی اور غفلت بھی اس کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ طے کرلیا گیا تھا کہ ان کو بہر صورت انجام دینا ہی دینا ہے، یہ طے کرنے کے بعد اس بات کو طے کرنا رہ گیا تھا کہ تذکیر اور تانیث اگر دو الگ الگ جنسیں ہیں تو پھر ان کا دائرہ کار بھی بہرلحاظ الگ ہونا چاہیے۔ خواتین و حضرات کسی بھی صلاحیت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم مثل نہیں تو ان کے امور کا تعلق خواہ گھر کی چاردیواری سے ہو یا گھر کی چاردیواری سے باہر کا، کاموں میں امتیاز بہر لحاظ ضروری ہے اور اگر ہم ایمانداری سے کام لیں تو خواہ وہ معاشرہ مغرب زدہ ہو یا مشرقی روایات کا پاسدار، وہاں عمومی طور پر خواتین اور مردوں کے شعبہ جات الگ الگ ہی ہیں جو ان کی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ہیں۔
اس بحث سے الگ ہوتے ہوئے یہ بات طے کرنی ہے کہ کیا خواتین مردوں جیسے امور انجام نہیں دے سکتیں یا نہیں دیتیں یا مرد خواتین جیسے امور انجام نہیں دے سکتے یا نہیں دے رہے، مردو زن کی تفریق ہر معاشرے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ بہر لحاظ موجود ہے۔ لباس الگ، وضع قطع الگ، انداز گفتگو الگ، الفاظ اور گفتگو میں تذکیر اور تانیث کا ہونا، ایک ہی جیسے کھیل میں مردو زن کی ٹیموں کا الگ الگ ہونا، واش روم کی بہت ساری اشیا کا مختلف ہونا وغیرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خواہ کتنا ہی شور مچالیا جائے ہر تہذیب اس اٹل تفریق کو دل کی گہرائی سے الگ ہی تسلیم کرتی ہے۔
کیا کھبی کسی بھی خواتین کی ٹیم نے مردوں کے مقابل آنا پسند کیا ہے؟۔ کیا ہاکی۔ فٹبال، والی بال، یا کسی بھی ٹیم میں خواتین و حضرات مخلوط ہو کر کھیلتے ہیں؟۔ جواب نہیں میں ہے تو کیوں نہیں؟۔
یورپ کے کسی ملک میں خواتین نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر مرد اپنی شرٹ اتار کر سر بازار پھر سکتے ہیں تو خواتین ایسا کیوں نہیں کر سکتیں تو کیا ایسا کرنا قانوناً خواتین کا حق قرار دےدیا گیا تھا۔ کیوں ایسا کرنا قانوناً جائز قرار نہیں دیا گیا؟۔ صرف اس لئے کہ عورت اور مرد کی تفریق ایک عالمگیر حقیقت ہے اور اس سے مفر ممکن ہی نہیں ہے۔
اب تک میں نے دو موضوعات پر اپنی گفتگو کو محدود رکھا ہے۔ ایک یہ کہ کچھ کام ایسے ہیں جن کو ہر صورت میں انجام دینا ضروری ہے بصورت دیگر انجامِ کار ہلاکت و بربادی ہے اور دوسرا یہ کہ ان کی انجام دہی کے لیے مذکر موزوں رہے گا یا مونث؟۔
بہر صورت ان کو انجام تو دینا ہی ہے، ان کی انجام دہی پر شاید ہی کوئی تہذیب (ماسوائے چند) یا مذہب پابندی لگا تا ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کو انسان کی عقل سلیم پر چھوڑ دیا گیا ہے (جاری ہے)
کہ اسے کون سا کام کس سے لینا چاہیے یا کس کے سپرد کرنا چاہیے۔
اب میں اس مضمون کے اس حصے کی جانب آتا ہوں جہاں دنیا اس فریب میں پڑ گئی ہے کہ دائر عمل اور حقوق ایک جیسے لگنے لگے ہیں اور اگر خواتین کا دائرہ کار کا ذکر کیا جائے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے جیسے ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا تھا کہ تمدنی زندگی اور مہذب انسانی معاشرے کے امور کے اگر دو بڑے بڑے دائرے بنائے جائیں تو ان میں سے ایک وہ دائرہ کار یا دائرہ عمل ہوگا جس کا تعلق چاردیواری سے ہے اور دوسرا دائرہ کار یا دائرہ عمل وہ ہوگا جو چاردیواری سے باہر کا ہے۔ اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے دونوں بہت بھرپور اور اہم ہیں ان امور کو ان کے حق کے مطابق انجام دینا ہی کسی معاشرے کو تمدنی زندگی کے معیار کو اوج ثریا تک لے جاسکنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی واضح کردی تھی کہ یہ دونوں دائرہ ہائے امور گو کہ خواتین و حضرات میں تقسیم نظر آتے ہیں اور ایساکرنا ہی اس کا حق نظر آتا ہے لیکن ہر دو پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ اپنے اپنے اختیار کار سے نکل کرایک دوسرے کا کام انجام نہیں دے سکتے اور خصوصاً کسی ہنگامی صورت حال میں تو بہت ساری حدود و قیود، اصول و قوائد اور ضابطہ و قوانین ویسے بھی نرم ہو جایا کرتے ہیں۔
اس تمام بحث کا ماحاصل جو نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ امور یا کام کی اپنی اہمیت اور نوعیت ہے اور حقوق کا مفہوم اس سے بہت مختلف ہے۔ حقوق کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ ایک مرد یا عورت ایک جیسے کام انجام نہیں دے سکتے بلکہ حقوق کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا عورت سے وہ کام لینا جائز ہے جو اس کی جسمانی ساخت، جسمانی صلاحیت، استعداد کار اور اس کے قویٰ سے زیادہ ہو یا کسی مرد کو وہ کام کرنا چاہیے جو اس کی صلاحیت و طاقت سے کم ہو یا مطابقت نہ رکھتا ہو؟۔ کیا یہ انصاف ہوگا یا ظلم؟۔
ہوتا یہ ہے کہ ہم بحث میں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حق یا حقوق اور کام یا امور میں بہت فرق ہے اور ہر فرد ہی نہیں جانوروں سے بھی ان کی طاقت، صلاحیت یا استعدادکار سے بڑھ کر کام لینا ان کے حقوق کی خلاف ورزی، ظلم اور زیادتی ہے۔
اس ساری بحث کو سامنے رکھتے ہوئے اگر میں اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ خواتین کے سارے کام صرف اور صرف وہ ہی ہیں جو چاردیواری کے اندر کے ہیں اور وہ سارے کام جو چاردیواری سے باہر کے ہیں وہ سارے کے سارے مردوں کے ہیں تو اس میں معاشرے کے کسی طبقے کی تیوری پر بل کیوں پڑتے ہیں۔ وہ مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ ایسا کرنا خواتین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے اور ان کو ہزار سال پرانے زمانے میں پہنچانے کے مترادف ہے۔
لبوں پر حرف تنقید لانے والے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر ممکن ہے ایسا سوچتے ہوں کہ ہزار ڈیڑھ سال قبل تقاضے کچھ اور ہوا کرتے تھے اور اب ان میں بہت تبدیلی آچکی ہے اس لیے اب ایک عورت کا گھر سے باہر نکل کر کچھ اور امور انجام دینا بھی بہت ضروری ہو گیا ہے۔ میں ان کے اس پریشانی پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ امور خانہ داری آج سے کئی ہزار سال پہلے بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے اور چادر اور چاردیواری کا مفہوم آج بھی وہی ہے جو ہزاروں برس قبل تھا۔
حوالہ دیتے ہیں کہ اگر ہسپتال میں خواتین کا علاج کون کرے گا اور خاص طور سے پیدائش جیسا عمل بنا خواتین کیسے ہو سکے گا لہٰذا خواتین کو باہر نکل کر ایسی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو ایسے سارے امورکوخواتین انجام دینے کے قابل بنا سکیں تو کیا ہزاروں برس قبل یہ سارے امور مرد انجام دیا کرتے تھے؟۔ کیا آج بھی دور دراز کے علاقے جہاں ہسپتال ناپید ہیں وہاں ایسے نازک اور پوشیدہ امور مرد حضرات انجام دیتے ہیں۔ ایسی خواتین کی نگہداشت اب بھی خواتین ہی انجام دیتی ہیں اور وہ اس ماحول کے حساب سے کافی تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ خواتین جو معالج بھی ہوتی ہیں، تعلیم اور تربیت یافتہ بھی ہوتی ہیں اور گھر سے نکل کر ہسپتالوں میں خواتین کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہیں وہ دراصل چاردیواری ہی کے امور انجام دے رہی ہوتی ہیں اور چاردیواری کے اندر ہی انجام دے رہی ہوتی ہیں خدانخواستہ گلیوں، چوراہوں یا میدانوں میں انجام نہیں دے رہی ہوتیں۔
اب بات آجاتی ہے دفاتر، ملوں، فرموں اور کارخانوں کی اور ان میں ان خواتین کی جو مختلف کام انجام دے رہی ہوتی ہیں تو خواہ معاشرہ مغربی ہو یا مشرقی، یہی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کے لیے کوشش کی جاتی ہے کہ ان سے سہل (سوفٹ) کام لئے جائیں اور ایسے امور جو سخت محنت طلب (ہارڈ) ہوں ان پر مردوں کو مامور کیا جائے۔ یہ شکل بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہر طبقے میں امورِ “چاردیواری” کا خیال بہر طور کیا جاتا ہے۔
راقم کو ایسا کرنا یا ایسے طرز عمل کی تائید مطلوب و مقصود نہیں اور نہ ہی اس دلیل سے خواتین کا گھر سے باہر نکلنا جائز قرار دینا ہے صرف سمجھانا یہ مقصود ہے کہ دنیا میں ہر جگہ خواتین کے قویٰ اور اور صلاحیتوں کے مطابق ہی کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر وہ سخت ترین کام بھی کرنا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اسلامی معاشرہ بھی خواتین پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا لیکن اس کے نزدیک پسندیدہ چیز یہی ہے کہ وہ چاردیواری ہی میں محدود رہیں۔
ایک مسلمان خاتون جنگوں میں بھی حصہ لے سکتی ہے، زخمیوں کی مرہم پٹی کر سکتی ہے، تلوار پکڑ کر مردوں کی طرح مردوں کے شانہ بشانہ لڑ سکتی ہے، سرداروں کے سر کاٹ کر شہر کے دروازوں پر لٹکا سکتی ہے، گھڑ سواری بھی کر سکتی ہے لیکن کیا جنگیں روز روز ہوتی ہیں؟۔ آخر کار اس کو اپنے مخصوص کاموں کی جانب ہی لوٹنا ہوتا ہے۔
گھر سے لیکر گھر سے باہر کا کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں جس کو انجام دینے کے لیے کسی خاتون پر کوئی قدغن ہو لیکن وہ سارے کام جو اس کے باہر نکل کر انجام دینے کی وجہ سے اپنے انجام سے محروم ہو جائیں گے اس خلا کو کوئی نہ کوئی تو پورا کرے گا۔ میں پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں کہ جن امور کو منسوخ کیا ہی نہ جاسکتا ہو ان کو بہر صورت انجام تو دینا ہی ہوگا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی تو ہوگا جو ان امور کو نمٹائے گا؟۔ وہ مذکر ہوگا یا مونث۔ گویا کام، کام کا ہونا اور اسے انجام تک پہنچانا تو اٹل ہی ہوا تو پھر کیوں نہ اس کام کو وہی جنس ادا کرے جس کے لیے اس کے قویٰ یا صلاحیتیں اجازت دیتی ہوں۔ اور یہی دراصل حق کو اس کے حق کے مطابق ادا کرنا سمجھا جائے گا اور اس کے بر عکس ظلم کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
یہاں مغربی معاشرے یا مغربانہ سوچ کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔ وہ مسلمانوں کو شدت پسند کہتے ہیں اور خود کو آزاد خیال گردانتے ہیں لیکن اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ شدت پسند اور متعصب ذہن کے مالک ہیں۔ ایک جانب وہ مردوزن کی ہر قسم کی آزادی کے قائل ہیں لیکن دوسری جانب وہ اپنے معاشرے میں رہنے، پلنے اور پرورش پانے والی خاتون کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق اگر اپنا لباس، اپنی وضع قطع، اپنی بود و باش وغیرہ ایک خاص انداز میں اختیار کرنا چاہتی ہے، اپنے سر اور چہرے کے کو عبائے سے ڈھانپناچاہتی ہے یا چہرے کو بھی چھپانا چاہتی ہے تو وہ معاشرہ جو اپنے آپ کو بہت آزاد خیال کہتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہر عورت اور مرد کو اس کی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی کا علم بردار ہے، یہاں آکر اس کے سارے اصول بدل جاتے ہیں اور ایسی خواتین کے لیے وہی معاشرہ اس کا دشمن بن جاتا ہے۔
وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایسی خواتین ان کے لیے خطرہ ہیں، ان کی شناخت نہیں ہوپاتی اور وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کر سکتی ہیں۔ یہ سارے معذورات بے حقیقت ہیں کیونکہ اب تک یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی، فائرنگ، خنجر اور چاقو زنی کے جتنے بھی واقعات ہوئے اس میں پردہ نشین خواتین کبھی بھی ملوث نہیں پائی گئیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ وہ خواتین کے چہرہ ڈھانپنے سے خوف زدہ نہیں ان کو خوف اس بات سے ہے کہ ان کے اپنے مذہب اور معاشرے کی خواتین بھی اس طرز عمل کی نہ صرف حامی ہوتی جا رہی ہیں بلکہ پردے کے ساتھ ساتھ اس میں اسلام سے قربت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ مادر پدر آزاد جانوروں کی سی زندگی کے ہاتھوں تنگ آچکی ہیں اور وہ حقوق کے نام پر آزدی کے طوفان کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکر اپنا سب کچھ برباد کر چکی ہیں۔
میں ان سارے لوگوں سے جو بات بات پر یہ حوالہ دیتے ہیں کہ وہ باتیں تو ہزاروں سال پرانی ہیں اور ان کو اب ترک کردینا چاہیے، تو سوال کرتا ہوں کے ایسی ساری رواجوں کو ترک کرنے اور ڈھیر سارے حقوق حاصل کرکے اس معاشرے کی عورت زیادہ معتبر، خوش، با عزت، محترم اور مطمئن ہے یا ایک ایسا معاشرہ جس کی عورت معاشرے میں اس لئے شرمندہ نہیں کہ وہ مردوں کی طرح ٹفن کیریئر پکڑکر صبح تڑکے آفس کی جانب دوڑ لگا رہی ہوتی ہے، اس ے یہی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا بوائے فرینڈ کب کسی اور کو فرینڈ بنا کر اسے اس لئے چھوڑ جائے گا کہ وہ کسی اور کو تلاش کرے، اس معاشرے کے بچے اس سوچ میں ہوں کہ اس کے حقیقی والد کون ہیں اور کچھ دونوں ہی کو نہ جانتے ہوں، والد کو اپنے بچوں کا ہی نہ پتہ ہو اور ماں کو بچوں کے اصل والد کا۔
ذرا بھی گردن جھکا کر کچھ دیر کے لئے اس تفریق پر غور کرلیا جائے تو انسان کو ایسے معاشرے کا تصور کرکے “قے”آجائے۔
وہ تمام افراد جن کے ذہنوں میں “امور” اور “حقوق” کی تفریق معدوم ہوچکی ہے یا معدوم ہوتی جارہی ہے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ نگاہ سے دیکھیں۔ عورت کو اس نظر سے نہ دیکھیں کہ وہ حقوق والی جب کہلائے گی جب مردوں کے سے انداز میں ایک کی پنڈلیاں گھومی ہوئی دکھائی دیں گی اور مرد اپنے ہر مردانہ پن کو بھول کر خواتین کی طرح ادائیں دکھارہا ہوگا تو معاشرے میں سربلند و سرخ رو کہلائے گا۔ دونوں کے امور اس کی صلاحیتوں کے حساب سے ہی موجود ہیں اور ان ہی کی انجام دہی ان دونوں پر سجے گی البتہ پابندی کوئی نہیں ہے بشرط کوئی عذر موجود ہو۔ بقول اقبالؒ(رح)
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ (ص) ہاشمی

حصہ