برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

695

قسط نمبر155
(تیر ہواں حصہ)
مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی داغ بیل درحقیقت مارچ، اپریل 1971ء میں ہی پڑ چکی تھی۔ شیشے میں پہلا بال اُس وقت آیا جب 1964ء کے صدارتی انتخابات کے موقع پر مادرِ ملت فاطمہ جناح کو بدترین دھاندلی کروا کر شرمناک شکست سے دوچار کیا گیا۔ ان انتخابات میں ایوبی آمریت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر فاطمہ جناح کا صدارتی امیدوار بننا قبول کرلیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن سمیت دیگر بنگالی رہنما محترمہ فاطمہ جناح کی مہم جوش و خروش کے ساتھ چلا رہے تھے۔ المیہ یہ ہوا کہ ایوب خان نے انتظامی مشنری کے بل بوتے پر فاطمہ جناح کو ہروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مبصرین کے مطابق صدارتی الیکشن کے بارے میں عوام کا تاثر یہ تھا کہ مادرِ ملت جیت چکی تھیں، لیکن الیکشن کمشنر نے نتائج آنے سے قبل ہی ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کردیا تھا۔
یہ وقت پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت سخت تھا۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی رہنما اس کھلی دھاندلی کا ذمے دار ایوب خان اور مغربی اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے تھے۔ اور یہ بات حقیقت کے خلاف بھی نہیں تھی۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب بنگالی رہنماؤں کے سوچنے کے انداز یکسر تبدیل ہوچکے تھے اور انہیں مغربی اسٹیبلشمنٹ اور فوج سے بنگالیوں کے بارے میں قائم خدشات سو فیصد درست لگنے لگے تھے۔ کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے بھی سامنے آیا جن میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر سیاسی قائدین شامل تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے تو اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلانے کا باقاعدہ طور پر اعلان کردیا تھا۔
پھر ایک سال بعد ہی 1965ء کی جنگ کا مرحلہ آیا جب ہندوستانی حملے کے خلاف مشرقی اور مغربی حصوں میں وقتی اعتبار سے جذبۂ حب الوطنی دیکھنے میں آیا۔ اس جذبۂ حب الوطنی کے پیچھے بھی محب وطن اپوزیشن جماعتوں کا کردار نمایاں تھا۔ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے متحدہ اپوزیشن کے ایک وفد کی صورت میں اس کڑے وقت میں ایوب خان کی ہمت افزائی کی اور اس طرح سے بکھری اور دل شکستہ قوم کو فوج کی پشت پر لاکھڑا کیا۔
ان تمام تر واقعات کا تذکرہ ہم پچھلی اقساط میں کرچکے ہیں۔
مارچ 1971ء میں ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے بیانات میں بھی تلخی اور سختی آنے لگی، پہلے تو اندرا گاندھی نے ویزے پر آئے ہوئے پاکستانیوں کو ہندوستان سے فی الفور نکل جانے کا کہا، اور پھر اپریل کے وسط میں یہ بیان دیا کہ ’’ہمارے جنگی جہاز مشرقی پاکستان کی سرحد پر تیار کھڑے ہیں‘‘۔ 17اپریل کو آل انڈیا ریڈیو نے شر انگیزی پھیلائی کہ ’’بنگلہ دیش کی آزاد حکومت کا اعلان کردیا گیا ہے۔‘‘
28مئی کو ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ’’ہم مشرقی پاکستان کی موجودہ صورت حال کو نظرانداز نہیں کرسکتے‘‘۔ اندرا گاندھی نے اپنی افواج کو ریڈ الرٹ کا سگنل دیتے ہوئے تیار رہنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہ بیان درحقیقت اندرا گاندھی کی لوک سبھا کے اجلاس میں تقریر سے لیا گیا تھا جو اس نے ارکانِ اسمبلی کے سوالوں کا جواب دیتے وقت کی تھی۔ اس موقع پر اندرا گاندھی نے کہا کہ ’’میں ایوان کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ ہمارے نزدیک بروقت فیصلوں کی اہمیت ہے‘‘۔ اور پھر چار روز بعد اسی ایوان نے مشترکہ قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایوان ان (باغیوں) کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو ہندوستان کی بھرپور ہمدردی اور حمایت حاصل رہے گی‘‘۔ اسی روز ہندوستان کے حساس ادارے کے سربراہ مسٹر اے۔ کے۔ سبرامینم نے ہندوستانی کونسل کے زیراہتمام ایک مذاکرے میں خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’ہندوستان کو اب یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اس کا فائدہ پاکستان کی شکست و ریخت میں ہے۔ اس طرح کا موقع ہمیں پھر کبھی نہیں ملے گا۔‘‘
(’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘۔از صدیق سالک شہید۔ حوالہ: بنگلہ دیش دستاویزات جلد اول صفحہ 669 (witness to surrender) (انسٹی ٹوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز۔ ہندوستان ٹائمز یکم اپریل 1971ء)
اسی دوران ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی یہ رپورٹیں بھی آرہی تھیں کہ ہندوستان نے پچاس ہزار سے زیادہ ایجنٹوں کو مشرقی پاکستان کی سرحدوں سے داخل کردیا ہے۔ ہندوستان کی جانب سے ڈالے جانے والے نفسیاسی دباؤ اور پاکستان کے سیاسی قائدین کے مطالبے پر صدرِ پاکستان یحییٰ خان نے قوم سے اپنے خطاب میں اس بات کا اعلان کیا کہ وہ چار ماہ کے اندر اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کردے گا اور ایک نیا آئین پیش کرے گا جو پاکستان کے اسلامی نظریے اور امنگوں کا آئینہ دار ہوگا۔ تاہم اس میں بعد کی پارلیمنٹ ضروری ترامیم کرسکتی ہے۔
ان خراب ترین اور ہاتھ سے نکلتے ہوئے سیاسی حالات میں یہ اعلان قدرے معقول تھا، کہ کسی طرح سے یحییٰ خان اقتدار کو عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے پر رضامند تو ہوا تھا۔ مگر سوال یہ تھا کہ وہ کس کو اقتدار سونپے گا؟
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس فارمولے کی مخالفت کی تھی، جبکہ دیگر سیاسی و مذہبی قائدین اس فارمولے پر متفق دکھائی دیتے تھے، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کے سوا کوئی اور آپشن باقی ہی نہیں بچا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان سے ملاقات کی اور منتقلیِ اقتدار کے فارمولے پر اپنی تجاویز دیں، جو رد کردی گئیں۔
بھٹو کی تجویز میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اقتدار کے لیے دو ماہ تو صبر کرسکتے ہیں مگر اس سے زیادہ نہیں۔ بھٹو کے ’’لاڑکانہ پلان‘‘ میں زور اس بات پر تھا کہ ’’جو پارلیمانی پارٹیاں صرف پارلیمنٹ کے ذریعے سے اختیارات حاصل کرنا چاہتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ اور جو جماعتیں عوام کے حقوق، امنگوں اور تمناؤں کے لیے لڑنا چاہتی ہیں انہیں معلوم ہے کہ کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔‘‘ (مساوات۔ 26 ستمبر1971ء)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہندوستان نے بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے پاکستان کی داخلی صورت حال پر اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھ دیا اور جارحیت کی کھلی دھمکی دے ڈالی تھی تو پاکستان اُس وقت کیا کررہا تھا؟
دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان نے اپنے طور پر تو یہ اعلان کرہی دیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے لیے اپنے فیصلوں میں کسی بھی قسم کی تاخیر نہیں کرے گا، تو ہماری ایجنسیاں کس چیز کا انتظار کررہی تھیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر حملے کے لیے آخر دسمبر تک کا انتظار کیوں کیا؟ جبکہ اس کی جنگی تیاریاں مکمل تھیں؟
جناب صدیق سالک شہید نے اپنی کتاب میں حوالوں کے ساتھ اس کا جواب بھی دیا ہے کہ پاکستان کی ایجنسیوں نے مرکزی کمانڈ کو اس طرح کی تمام تر صورت حال سے لمحہ لمحہ آگاہ رکھنے کی کوشش کی، مگر سمجھ نہیں آتا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹیں کس مرحلے پر بے اثر ہوجاتی تھیں؟
وہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے خود ایک سینئر افسر سے فوج میں عوامی لیگ کے ’’اثر رسوخ اور متوقع محاذ کا ذکر کیا‘‘ اس نے مجھے یہ کہہ کر جھڑک دیا ’’بکواس بند کرو۔ تم دنیا کی بہترین فوج کے ڈسپلن پر بہتان لگا رہے ہو!‘‘
جناب صدیق سالک شہید نے ہندوستانی میجر جنرل ریٹائرڈ ڈی۔ کے۔ پلیٹ کی کتابThe lighting campaign کا حوالہ دیتے ہوئے کہ جس میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’ہندوستانی فوج کے سربراہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں ہندوستانی فوج تنظیم نو کے مرحلے سے گزر رہی تھی اور پچاس ارب روپے کی لاگت سے پانچ سالہ دفاعی منصوبہ زیر تکمیل تھا اور ہندوستان کی جنگی مشقیں جاری تھیں‘‘، اس منصوبے کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے اس نے لکھا کہ منصوبے کے مطابق فوج کی افرادی قوت کم تھی، کئی یونٹوں میں نفری مکمل نہیں تھی، رسالوں کے بعض دستے نامکمل تھے۔ انتظامی اور نقل و حرکت کے وسائل کو آخری شکل دینا باقی تھی۔ فضائی شعبے میں مگ 21۔ لڑاکا طیاروں کی جنگی صلاحیتیں بھی کمزور تھیں اور ایک بھرپور جنگ کے لیے چند ماہ کی مہلت درکار تھی۔ ’’اس کے کئی ڈویژن اندرونی انتخابات کے باعث امن بحال کرنے میں مصروف تھے۔‘‘
جب شیخ مجیب مذاکرات میں مصروف تھے اُس وقت ان کا غیر سرکاری کمانڈر انچیف کرنل ریٹائرڈ ایم۔ اے۔ جی۔ عثمانی اپنی فوج کی تربیت اور کارروائیوں میں مصروف تھا۔ اس نے مشرقی پاکستان میں متعین بنگالی یونٹوں میں رابطہ رکھا ہوا تھا۔ کرنل عثمانی کے منصوبے جو ڈی۔ کے۔ پیلیٹ نے اپنی کتاب میں درج کیے ہیں، یہ تھے:
1۔ ڈھاکا کے ہوائی اڈے اور چٹاگانگ کی بندرگاہ پر قبضہ۔
2۔ ڈھاکا یونیورسٹی کو مرکز بنا کر اس میں نوجوان رضاکاروں کی تربیت کرنا اور شہر پر کنٹرول حاصل کرنا۔
3۔ مختلف چھاؤنیوں میں مقیم بنگالی یونٹوں میں بغاوت کراکے مطلقہ چھاؤنیوں پر کنٹرول حاصل کرنا۔
اس مقصد کے لیے ڈھاکا یونیورسٹی کی سائنس لیبارٹری میں سائنسی تجربات کی جگہ بموں کے فارمولے سکھائے جاتے تھے۔ جن کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کم از کم ایسا دھماکا ہوسکے جس سے قریبی افراد مجروح ہو سکیں اور زیادہ سے زیادہ افراد کو نقصان پہنچے۔ رضاکاروں کی تربیت بھی ڈھاکا یونیورسٹی کے اندر ہوتی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ