اُم المصائب جناب سیدہ زینبؓ

1009

تنویر اللہ خان
کسی بھی انسان خصوصاً مسلمان کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ حُسینؓ اور ان کے خاندان پر کیے جانے والے مظالم کا ذکر ہو اور اُس سے یونہی گزر جائے۔
موت سب کو آنی ہے، حسینؓ اگر کربلا میں شہید ہوئے تو موت سے یزید بھی نہ بچ پایا، کربلا کی جنگ میں مفتوح و مغلوب حسینؓ اور اُن کا خاندان ہوا جب کہ فاتح یزید اور اُس کے حواری ہوئے لیکن یہ کیسی ’’ناکام‘‘ کامیابی ہے جس کے نتیجے میں ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ملی اور یہ کیسی’’کامیاب‘‘ ناکامی ہے جس کے نتیجے میں ہمیشہ کی محبت، عقیدت اور سرفرازی ملی آج حسینؓ حق، ہمت، استقامت کا استعارہ ہیں اور یزید باطل، بے توقیری اور ذلت کی مثال ہے۔
آج کی جدید، روشن خیال، تعلیم یافتہ دُنیا میں بھی جو عورتیں قیدی بنالی جائیں‘ کوئی اُن کا نام تک لینا پسند نہیں کرتا لیکن اہلِ بیت کی جن خواتین کے سروں سے دوپٹے اُتار دیے گئے تھے‘ وہ مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے قابل عزت و احترام ہیں اُن سے تعلق جوڑنے کو لوگ عزت سمجھتے ہیں، جن خواتین کو یزید اور اُس کے حواریوں نے بے عزت کرنے کی کوشش کی‘ وہ تمام عزتوں کی حق دار قرار پائیں، بلاشبہ بڑے کام کرنے والوں کے لیے وقت کے رائج پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں، بندہ مرجاتا ہے لیکن اس کا کام نہیں مرتا۔
حسینؓ سے محبت کا حق ادا نہیں ہوسکتا جب تک اُن کے کام کو زندہ نہ کیا جائے، ممکن ہے یزید شرابی اور بدکردار ہونے کے بعد بھی برداشت کرلیا جاتا لیکن یزید محض بد کردار ہی نہیں تھا بلکہ وہ اسلام کی گاڑی کو بے راہ کرنے والا پہلا کھٹکا اگر حسینؓ اس وقت اسلام کی گاڑی کے بے راہ ہونے کی جگہ پر اپنے خون سے نشان نہ لگاتے تو ممکن ہے کہ بعد کے آنے والے یزید اور اُس کے ساتھیوںکی حقیقت کو سمجھ ہی نہ پاتے۔
امام حسینؓ اس وقت اپنے بچوں کو کٹوانے کے سوا تو اور کچھ نہ کرپائے، جمی جمائی بنو امیہ کی حکومت کا وہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے، اس حقیقت سے حسینؓ خود بھی اچھی طرح واقف تھے، لیکن ان کی مثال عدالت کی اُس بنچ کے جج کی سی ہے جو سارے ججوں کے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھتا ہے جس طرح اختلافی نوٹ لکھنے والے جج کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اس نوٹ کا فیصلے پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور فیصلہ وہی نافذ ہوگا جو ججوں کی اکثریت دے گی لیکن وہ پھر بھی وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے محض ’’اختلافی نوٹ‘‘ لکھ دیتا ہے۔ میدانِ کربلا میں امام حسینؓ کے خون سے لکھا جانے والا اختلافی نوٹ اُس وقت تو کچھ نہ کرسکا لیکن امام کا یہ ’’ اختلافی نوٹ‘‘ ماضی، حال اور مستقبل کے لیے نظیر ضرور بن گیا۔
دس محرم کو حق و باطل کے درمیان ایک ایسی جنگ ہوئی جس میں وقتی کامیابی باطل کی ہوئی لیکن دائمی فاتح حق قرار پایا۔
یزید کربلا میں ازل جاری حق و باطل کی جنگ کا صرف ایک لحمہ ضرور جیتا تھا لیکن ابد تک جاری رہنے والی جنگ وہ ہار چکا ہے۔
اسلامی تاریخ سے سرسری واقف شخص سے بھی اگر پوچھا جائے کہ واقعۂ کربلا کیا تھا اور اس کے فریق کون تھے؟ تو جواب ملے گا کہ ایک فریق امام حسینؓ تھے‘ جو حق پر تھے اور اُن پر ظلم ہوا تھا‘ جب کہ دوسرا فریق یزید تھا‘ جس نے اُن پر ظلم کیا تھا، ایک معصوم بچہ تھا جس کی گردن پر یزید کے لشکر نے تیر مارا تھا اور یہ کہ یزید نے امام حسینؓ کا پانی بند کردیا تھا اگر یہ واقعہ بچوں کو سنایا جارہا ہو اور بچے یزید کو سزا دینے کے لیے بے چین ہوں تو اُن کی تسلی کے لیے واقعے کو جناب حُر تک بڑھا دیا جاتا ہے، لیکن اس لٹے پٹے قافلے کا ایک بڑا کردار جنابِ زینبؓ کا بھی تھا‘ آپ نے امام حسینؓ کے عظیم مقصد میں اُن کا بھرپور ساتھ دیا اور ’’شریکۃ الحسین‘‘ کہلائیں اور کربلا میں شہید ہونے والوں کا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام لیا، آپ نے جس بلند عزمی، صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
دس محرم کا تاریک سورج تاریخ کا بڑا ظلم دیکھ کرغروب ہوگیا اور یہ گیارہ محرم کی افسردہ صبح تھی، اہلِ بیت کو کوفہ جانے کا حکم ملا‘ کربلا سے کوفہ کا فاصلہ 56 میل کا ہے، اہلِ بیت کو یہ سفر بہت تیزی سے کروایا گیا۔ روایت کے مطابق قافلہ گیارہ محرم کی شام کو کوفہ پہنچ گیا، مسجد حنانہ کوفہ کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے اسی جگہ پر شہدائے کربلا کے سر رکھے گئے تھے، اہلِ بیت کو یہیں ٹھیرایا گیا، یہاں سے ہی قافلہ وارثین حسینؓ کو ابنِ زیاد کے دربار میں لے جایا گیا ابن زیاد کے محل کو ’’قصر دارامارہ‘‘ کہا جاتا تھا، دربار میں ہر خاص وعام کو شرکت کی اجازت تھی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ امیرِ وقت پر ایک خارجی نے لشکر کشی کی تھی جس کے مقابلے میں حکومت کو کامیابی ہوئی ہے اور آج اس کے اہل وعیال کو گرفتار کرکے کوفہ لایا گیا ہے۔ گلی محلے سے لے کر کوفہ کے دربار تک لوگوں کا ہجوم تھا‘ فتح کے نقارے بجائے جارھے تھے‘ جب اہل بیت کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے جنابِ زینبؓ سے مخاطب ہوکر کہا سنتی ہو! یہ میری فتح کے شادیادنے ہیں۔ اسی دوران اذان کی آواز بلند ہوئی آپؓ نے فرمایا ’’ذرا غور سے سن ان الفاظ کو یہ میرے بھائی کی فتح کا اعلان ہے‘ یہ شادیانے بند ہوجائیں گے لیکن یہ اذان تاقیامت گونجتی رہے گی اور میرے بھائی کی حقانیت اور اصول پسندی کی یاد دلاتی رہے گی۔ اس نے جنابِ زینبؓ سے کہا خدا نے تمہارے بھائی کو قتل کیا اور تمہیں رسوا کیا اور تمہارے دعوے اور جھوٹ کو کھول دیا۔ جناب زینبؓ نے جواب دیا ’’شکر ہے خدا کا جس نے ہمیں بزرگی اور کرامت عطا فرمائی‘ اپنے نبی محمدؐ کی وجہ ہمیں ہر نجاست اور ناپاکی‘ جو حق پاک کرنے کا تھا‘ پاک کیا ، عن قریب فاسق رسوا اور ذلیل ہوگا اور تو فاجراور جھوٹا ہے۔
ابن زیاد نے کہا تم نے دیکھا کہ خدا نے تمہارے بھائی حسینؓ سے کیا سلوک کیا؟ جناب زینبؓ نے فرمایا میں نے سوائے نیکی اور خیر کے اور کوئی چیز خدا کی جانب سے نہیں دیکھی‘ ہم اہل بیت کے لیے اللہ نے شہادت مقدم فرمائی وہ لڑے اور شہید ہوگئے تجھے ایک دن خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا اُس دن کے لیے تیار ہوجا۔ افسوس تو عارضی قوت اور اقتدار کے نشے میں چُور ہے تیری یہ حکومت اور سلطنت ختم ہونے والی چیز ہے۔‘‘
جناب زینبؓ کے خطبے کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی باغی نہیں بلکہ خاندانِ رسولؐ سے ہیں‘ تو کوفے میں بغاوت کا خطرہ ہوا لہٰذا ابن زیاد نے اہلِ بیت کو کوفہ سے شام کی جانب روانہ کردیا، کوفہ سے شام کے دو راستے ہیں قافلے کو طویل راستے سے بھیجا گیا جہاں آبادی کم تھی تاکہ قافلے کو کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے، کوفے کا فاصلہ آٹھ سو چالیس میل ہے‘ یہ سفر اٹھارہ دن میں تمام ہوا، جب اہلِ بیت کا قافلہ دمشق پہنچا تو انھیں ایک تاریک قید خانے میں بند کردیا گیا پھر انھیں بازار کی گلیوں سے یزید کے دربار میں لے جایا گیا، یزید کی بڑائی کے لیے اہلِ بیت کو یزید کی آنے سے پہلے دربار پہنچا دیا گیا اور دربار کے داخلی دروازے پر کئی گھنٹوں روکے رکھا گیا۔ جناب زینبؓ جب محل کے سات دروازوں سے گزر کر دربار میں پہنچیں تو بیٹھ گئیں ’’کہہ دو مجھے دربار میں حاکم نہ بلائے، خلقت کو دوباوہ میری شکل نہ دکھائے، گر قتل ہو منظور تو قاتل یہیں آئے‘ موجود ہوں خنجر میری گردن پہ پھرائے، فکر و غم واندوہ سے آزاد ہو زینب، سر تن سے جدا ہو تو بہت شاد ہو زینب۔
جنابِ زینبؓ کو دیکھ کر یزید نے پوچھا کہ کنیزوں میں یہ مغرور عورت کون بیٹھی ہے؟ جواب ملا یہ علیؓ کی بڑی بیٹی اور رسولؐ کی نواسی زینب کبریٰ ہے۔
یزید کے ایک درباری نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت پڑھی’’ اللہ جس کو چاہتا ہے مُلک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے مُلک لے لیتا ہے، جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، جناب زینبؓ نے یزید سے کہا، آیات کو اپنے مطلب کے لیے استمعال نہ کر اس وقت اس آیت کو پڑھنے کا کیا موقع ہے۔
پھر آپؓ نے خطاب کیا ’’شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے ساری تعریف عالمین کے ربّ کے لیے ہے، میں ستم رسیدہ صیح مگر تعریف تیرے لیے، میرا گھر تباہ صیح مگر حمد تیرے لیے میرا خاندان مظلوم راہ وفا صیح مگر بندگی تیرے لیے اور درود و سلام میرے ناناؐ پر، ہاں برا انجام ہے اُن لوگوں کا جو اللہ کی آیات کی تکذیب کریں اور جو اللہ کی آیات کا مذاق اڑائیں کیوں یزید تو نے اللہ کے قول کو بھلا دیا اللہ کا قول یہ ہے کہ ’’کافر یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے جو اُن کو مہلت دی ہے وہ اس لیے دی ہے کہ اُن کا زمانہ ہمیں پسند آیا ہے، نہیں یہ مہلت اس لیے ہے کہ وہ گناہ پرگناہ کیے جائیں تاکہ اُن پر عذاب زیادہ ہو‘‘ کیا یزید تُو گمان کرتا ہے کہ یہ ملک تیرا ہے‘ نہیں یہ مہلت ہے کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تیری یہ حکومت ہے‘ یہ تیرا اقتدار ہے اور ہمارے لیے کوئی راہ نہیں اور تو نے ہم کو دربدر پھرا کر اپنے جبر کا اعلان کیا، یہ غلط ہے، ہاں یزید ایسا ہوا کہ ہم شہر شہر پھرائے گئے‘ ہم کو لوگوں نے دیکھا کہ ہمارے سروں پر چادریں نہیں تھیں‘ یہ سچ ہے مگر تم سے اور کیا توقع ہوتی‘ جس کا گوشت پوست شہیدوں کے لہو کو پی کر بنا ہے اور تو کیوں ہماری شہادت کی جلدی نہ کرتا کیوں کہ تو ہمارے گھرانے سے بغض و عداوت رکھتا تھا، کس کا لشکر کمزور ہے یہ تُو جان لے گا‘ میں دیکھ رہی ہوں کہ تُو میری بات کو روکنا چاہتا ہے، ہاں اب جتنی تجھ میں ہمت ہے‘ ستم اور کرلے۔ یزید! تُو ہم کو ڈراتا ہے، اُس کی قسم جس نے ہمارے گھرانے میں نبوت دی‘ اُس کی قسم جس نے ہم کو کتاب سے سرفراز کیا‘ تُو ہمارے مقصد کو پا نہ سکا تو ہمارے ذکر کو قیامت تک مٹا نہ سکے گا۔ تُو یہ نہ بتلا سکے گا کہ آلِ محمد کس غرض کے لیے قربانی دے رہے تھے، تیرے دن گنتی کے رہ گئے ہیں اور تیرا مجمع منتشر ہونے والا ہے، میں دعا کرتی ہوں اللہ سے‘ جس نے ہمیں سعادت و شہادت عطا کی‘ اسی طرح سے ہمیں وراثت ِ ارضی نصیب ہو‘ اسی طرح ہمیں خلافت ارضی بھی ملے اور اسی طرح سے ہم اس کی بندگی میں کامیاب رہیں۔
جناب زینبؓ کا خطبہ اس آیت پر ختم ہو کہ’’ اللہ ہی ہمارے لیے کافی ہے وہی ہمارا سہارا ہے‘‘۔اسلامی تاریخ کے ان کردار اور واقعات سے اپنے بچوں کو آگاہی دیں تاکہ کوئی میڈیا، سوشل میڈیا اور نام نہاد دانش ور آئندہ نسل کو اسلام اور اس کی تاریخ پر شک میں نہ ڈال سکے۔

حصہ