سماجی میڈیا سے سماجی و حکومتی اصلاح

419

لو جی، حکومت نے پھر تباہی پھیر دی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان کی کانسی کے ساڑھے تین تمغوںکے ساتھ شرمناک واپسی پر ایک تفصیلی نظر ڈالیں گے، کچھ عالمی یوم حجاب پر بات کریں گے، بلیو وہیل کے بعد آنے والے ’’موموچیلنج‘‘ پر کچھ بات کریں گے، سماجی میڈیا کی دنیا میں ہونے والی تیز ترین انقلابی پیش رفت پر بات کریں گے، جس کے نتیجے میں اشتہارات کی دنیا میں بڑی ہلچل مچی ہے۔ امریکی تحقیقاتی ادارے ’فارسٹر‘ کی جانب سے (امریکا کے لیے) پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ڈیجیٹل ویڈیو اشتہارکاری کی مد میں پچھلے سال 90.7 بلین ڈالر سے بڑھ کر اِس سال ایڈورٹائزر 102.8 بلین ڈالر خرچ کریں گے۔ اسی طرح اسمارٹ فون کی دنیا میں مقبول ہونے والے ایک اور سماجی میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام کے حالیہ لانچ کردہ ’’آئی جی ٹی وی‘‘ پر کوئی معلومات شیئر کریں گے، کیونکہ انسٹاگرام کے ریسرچ ونگ کے مطابق ’’اگلے تین برسوں میں موبائل ڈیٹا کے مجموعی استعمال کا 78فیصد حصہ موبائل ویڈیو تک پہنچ جائے گا‘‘۔ انسٹاگرام پر اب اس ایپلی کیشن کے ذریعے ایک گھنٹے تک کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کی جا سکتی ہے۔ مقابلے میں فیس بُک نے بھی تصاویر اور ٹیکسٹ کی مدد سے ویڈیو بنانے کے نئے فیچرز متعارف کرا دیئے ہیں۔ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ اس ہفتہ بھی ان میں سے کچھ بھی وائرل موضوعات نہیں بن سکے۔البتہ ایک خاتون کی اپنی مبینہ کم عمر نوکرانی پر (چائے کی پتی زیادہ ڈالنے کے جرم میں) شدید تشدد سے بھرپور تھپڑ برساتی ویڈیو ضرور وائرل رہی جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق نے بھی ایکشن لیا، جس طرح تھپڑ مارے جارہے تھے اُسے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بے چاری عادی ہے اس تشدد کی۔ بہرحال اب جب اس کا سراغ ملے گا تبھی سماجی میڈیا سماجی اصلاح کا کردار ادا کرے گا۔
ہالینڈ کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی کوشش سے علامتی ’توبہ‘ کے بعد ہم نے دیکھا کہ حکومتی حامیان کا ناموسِ رسالتؐ ایشو پر سفارتی کوششوں پر مبنی کریڈٹ وصولی کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی دوران وزیراعظم صاحب کے مقرر کردہ معاشی مشیران کی فہرست وائرل ہوئی جس نے بتدریج55 روپے کلومیٹر والے ہیلی کاپٹر ایشو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس دوران ملک میں صدارتی انتخاب کا عمل بھی ہوا لیکن وہ بھی اس کے نیچے دب گیا۔ ان 18 مالی مشیران میں سے 7 حکومت سے، جبکہ 11نجی سیکٹر سے لیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام افراد کا تعلق معیشت کے شعبے سے ہی ہے اور سب کے سب ماہر ڈاکٹریٹ ہیں اور اِسی شعبے سے وابستہ ہیں۔مگر اس قابلیت کے بیانیہ کے جواب کو عوام نے یہ کہہ کر رد کیا کہ ’’قابلیت گئی بھاڑ میں، ہم تو شیزان کو نہیں چھوتے، تم مشیر لگانے کی بات کرتے ہو‘‘۔ ان اٹھارہ میں اگر کوئی ڈاکٹر آنندکمار، ڈاکٹر جان فوربز، جیمس ہیڈلے، ڈاکٹر لی کوانگ یا ڈاکٹر مدن سنگھ ہوتا تو شاید کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، لیکن ڈاکٹر عاطف کے نام نے بھونچال برپا کردیا۔
واضح کردوں کہ پاکستان میں اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس رانا بھگوان داس اپنی مدتِ ملازمت باعزت انداز سے پوری کرکے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ سابقہ حکومت میں جرمنی کے برن ہلڈنبرانڈ قومی ائرلائن کے چیف کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں اور کوئی بھونچال نہیں آیا۔ انتھونی تھیوڈور لوبو (پاکستانی رومن کیتھولک بشپ) کو 1990ء میں صدرِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ شہباز بھٹی وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، ڈاکٹر روتھ فاؤ کئی ایوارڈ وصول کرچکی ہیں۔ دانش کنیریا قومی کرکٹ ٹیم میں کھیل چکے ہیں، یوسف یوحنا اسی نام و شناخت سے قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے، رمیش سنگھ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے، مکیش کمار تو آج بھی سندھ کے ایک اہم محکمہ کے وزیر ہیں، مگر آپ کو کبھی بھی ان میں سے کسی کے تقرر پر کسی این جی او، سیاسی، مذہبی جماعت کی جانب سے، یا مسجد و منبر سے، کالم و مضمون میں، اخبار یا ٹی وی، ٹوئٹر یا فیس بک کہیں کسی قسم کا کوئی شور، احتجاج نہیں نظر آیا ہوگا۔ مگر ایسا کیا ہوا کہ 18میں 17 اچھے خاصے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ایک عاطف میاں کا وجود ناقابلِ برداشت ہوتا چلا گیا! یہ نکتہ جاننا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر عاطف کا تعلق پاکستان کے ایک ایسے ’اقلیتی‘ گروہ سے ہے، جسے قیام پاکستان کے بعد (1974ء میں) پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور شدہ آئینی ترمیم کے نتیجے میں باقاعدہ غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس سے قبل وہ (قادیانی) مسلمان ہی لکھے، پڑھے اور سمجھے جاتے تھے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ وہ اُس وقت بھی صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے اور مسئلہ یہ ہے کہ آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد آج کی تاریخ میں بھی صرف اپنے آپ کو ہی درست مسلمان سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں دو بڑی تحاریک اس معاملے پر چلائی گئیں۔ قید و بند تو معمولی بات ہے، اُس وقت کے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کو تو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ پھر1974ء میں تاریخی آئینی جدوجہد کے بعد یہ فیصلہ قانون کی صورت منظور ہوا۔
خیر اِس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔ موضوع سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہلچل ہے جس نے ’یوم دفاع پاکستان‘ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جی ہاں، یوم دفاع پر 6 ستمبر، یوم دفاع و شہداء، جی ایچ کیو راولپنڈی، ڈیفنس ڈے کے ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کی صورت چھائے رہے۔ یوم دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو میں منعقدہ مرکزی تقریب میں شریک معروف کرکٹر شاہد آفریدی کی ایک ویڈیو خاصی وائرل رہی ۔جیسا کہ میں نے پچھلے ہفتہ لکھا تھا کہ اب آپ کی ہر حرکت پر اب کئی کیمروںکی نظر ہوتی ہے ، شاہد لالہ نے اپنے طور پر تو کوشش کی کہ کوئی نہ دیکھے لیکن کیا کہہ سکتے ہیں۔اسی طرح اس تقریب میں وزیر اعظم کی اہلیہ کی با پردہ شرکت کی تصویر کو بھی خاصا مثبت قرار د ے کر سراہا گیا۔
ان سب کے باوجود6ستمبر کوہوا یہ کہ پاکستان کے ایک بڑے، نظریاتی پس منظر رکھنے والے اخبار ’نوائے وقت‘ نے 6 ستمبر کی اشاعت میں ’جماعت احمدیہ‘ کی جانب سے ایک اشتہار شائع کردیا۔ اشتہار میں شہداء پاکستان (نشانِ حیدر) کے ساتھ پاک فوج میں شامل مادرِ وطن کی خاطر جان کا نذرانہ دینے والے 14 احمدی سپوت و غازیان کی بھی تصاویر تھیں۔ اب جس جس نے اشتہار بغور دیکھا تو اُس کی ایمانی غیرت نے اُسے فی الفور سماجی میڈیا پر شیئرنگ کے لیے مجبور کردیا۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف گالیوں، لعن طعن، بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری جانب عاطف میاں والا معاملہ ایک بڑے کینوس میں زندہ ہوگیا۔ لوگ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’کیا فضل الرحمن صحیح کہہ رہا تھا؟‘‘ نوائے وقت نے عوامی احتجاج دیکھ کر اپنی معذرت سماجی میڈیاپر جاری کر دی ۔
بہرحال ایمانی غیرت کے جاگنے کا عالم یہ ہوا کہ لوگ کام کاج چھوڑ کر عاطف میاں کا شجرہ (ماضی) کھنگالنے میں لگ گئے۔ وزیراعظم عمران خان کی سابقہ حکومت میں دھرنا ادوار کی ایک تقریر کا کلپ بھی ساتھ ساتھ نکال کر وائرل کیا گیا جس میں معاشی اصلاحات کے لیے اُنہوں نے بہت پہلے ڈاکٹر عاطف کا نام بھی لیا تھا۔ حکومتی ترجمان وزیر اطلاعات نے ایک بار پھر ایسا بیان دیا کہ اس معاملے کو مزید ہوا ملی۔پہلے انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اقتصادی کمیٹی میں مقرر کیا ہے اسلامی نظریاتی کونسل میں نہیں۔ پھر کہا کہ ’ ہمیں دس لاکھ ووٹ لینے والے اسلام سکھائیں گے ؟‘
اب یہ بیانات ایشو کو ہوا دینے کے لیے کافی تھے ، جبکہ اُصولاً اتنے حساس موضوع پر خاموشی سادھ لی جاتی یا ٹال دیا جاتا تو بہترہوتاکیونکہ پھر اگلے دن ہی نئی پیش رفت پر مبنی پوسٹ سامنے آ گئی ۔اس پر ہمارے ایک محترم، سینئر، علمی، صحافتی وادبی حلقوں میں جانے مانے دوست عطا محمد تبسم نے اپنی فیس بک وال پر ’’قادیانی نہیں مرتد، یعنی کریلا اور نیم چڑھا‘‘کے عنوان سے کیا: ’’جو لوگ عاطف میاں کی حمایت میں دن رات اپنے دین اور ایمان کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہ حقائق بھی اگر ان کو اپنے مؤقف سے رجوع کرنے پر مجبور نہیں کرتے تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سیاست اپنی جگہ، لیکن دین وایمان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر کسی کو شک ہے کہ میں غلط کہہ رہا ہوں تو مجلس خدام احمدیہ امریکا کے تحت شائع کی گئی کتاب “By The Dawn’s Early light” کا مطالعہ کرکے دیکھ لے، اس بات کا انکشاف خود عاطف میاں نے مجلس خدام احمدیہ امریکا کی کتاب میں کیا ہے۔ اس میں عاطف میاں نے والدین کی ناراضی کا ذکر کرنے کے علاوہ اسلام کے خلاف دشنام طرازی بھی کی ہے۔ اس کتاب میں اُن امریکیوں کی کہانیاں شائع کی گئیں جو ارتداد کے بعد قادیانی بنے، یا جنہوں نے دوسرے مذاہب چھوڑ کر قادیانیت قبول کی۔ بقول ہارون الرشید صاحب کے، عمران خان کو اُن کے آس پاس کے لوگ ہی فیل کروانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم خان صاحب تک صحیح بات پہنچانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ صحیح بات کا ادراک نہیں کرتے تو مجھے گمان ہے کہ صرف اس ایک فیصلے کی وجہ سے ہی ان کی زندگی سخت مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جی ہاں، اگر وہ صرف قادیانی ہوتا اور آئین کو مانتا تو شاید کوئی نہ کوئی عذر قبول کر ہی لیا جاتا، لیکن موصوف ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور پھر والدین سے لڑ کر قادیانیت کا گندا مذہب قبول کیا۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے، ان کی طرف سے قادیانیت کا بدبودار قلاوہ اپنی منحوس گردن میں پہنتے ہی انہیں یہودی اور عیسائی حلقوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا، ان کی عام سی توجیہات کو بھی یوں پیش کیا جیسے معاشیات کی دنیا تو بس انہی کے دم قدم سے آباد ہے۔ شاید عاطف میاں کی طرف داری کرنے والے دوست نہیں جانتے کہ ایک زندیق و مرتد کی شریعت کی رو سے کیا سزا ہے۔ جنابِ والا اس کی طرف داری پر بھی آپ کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے، وہ نہ صرف قابلِ گردن زدنی ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا بھی حرام ہے۔ جس جس نے اب تک عاطف میاں کی طرف داری کی، میری ان سے گزارش ہوگی کہ اگر واقعی خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں تو ابھی اور اسی وقت توبہ کرتے ہوئے اس کے حق میں کی گئی تمام پوسٹس اور کمنٹس کو ڈیلیٹ کردیں اور اس کی مذمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔‘‘
اس کے بعد میں نے تصدیق کے لیے کتاب کا آن لائن لنک معروف ویب سائٹ آرکائیو سے ڈھونڈ نکالا، جس کے بعد مجھے عاطف کے مرتد ہونے پر یقینِ کامل ہوگیا۔ قارئین کی تسلی کے لیے لنک پیش خدمت ہے:
https://archive.org/stream/ShortStoriesAmericanConvertsToIslam/Short-Stories-American-Converts-to-Islam_djvu.txt
کتاب سے حاصل شدہ کچھ مختصر اہم باتیں (بحوالہ عطا محمد تبسم پوسٹ): عاطف میاں کے مطابق ’’میں 1974ء میں نائیجیریا میں پیدا ہوا مگر زیادہ پرورش پاکستان میں ہوئی۔ 3 بہنوں کے بعد والدین کی پہلی نرینہ اولاد کی وجہ سے خوب لاڈ پیار ملا۔ والدین کے ایما پر امریکی تعلیمی اداروں میں داخلے کی درخواستیں بھیجیں۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ مل گیا اور میں 1993ء میں امریکا پہنچ گیا، جہاں مجھے اپنے اسکول کے دنوں کا ایک دوست حامد شیخ مل گیا، میں اسے 8 برس سے جانتا تھا لیکن یہ علم نہیں تھا کہ وہ ایک قادیانی ہے، اُس نے مجھے قادیانیت کی جانب راغب کیا۔ اس کی فراہم کردہ کتب اور بتائے گئے ویب ایڈریسز سے میں نے قادیانیت کو جانا۔2001ء میں شکاگو یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پہلی نوکری کا آغاز کیا۔ بوسٹن میں قیام کے دوران میں نے مسلم علماء کے پیچھے نماز سے بچنے کے لیے مساجد جانا چھوڑ دیا۔ قادیانی عبادت گاہ دور تھی اور کار نہ ہونے کی وجہ سے میں وہاں نہ جاسکتا تھا۔ شکاگو میں قیام کے دوران کار ملنے کے بعد وہاں مجھے قادیانی عبادت گاہ مل گئی جہاں میں نے جمعہ کے جمعہ جانا شروع کردیا۔ شکر ہے کہ میں نے ایک سچا مذہب پا لیا، ورنہ گم راہی کی تاریکی میں بھٹکتا رہتا۔‘‘ عاطف میاں کے مطابق اس نے 2002ء میں قادیانیت کا فارم بھر دیا اور مجلس خدام احمدیہ میں بھی کام کررہا ہے۔ وہ مرزا مسرور لعین کا مشیر برائے مالیات ہے اور مرزا غلام کے تجویز کردہ مالیاتی رفاہی نظام پر تحقیق کے بعد اسی نظام کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کرچکا ہے۔
اس موضوع پر سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کی ایک ٹوئٹ جس میں انہوں نے میرٹ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق قرار دیا اور اُس کے ساتھ مذہب کو نہ ملانے کا کہا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی سرکردہ خاتون رہنما، صوبائی وزیر شہلا رضا نے تحریک انصاف کی جانب سے قادیانی مشیر پر ٹوئٹ کی، جسے بعد میں یہ کہہ کر ڈیلیٹ کردیا گیا کہ وہ اُن کی سماجی میڈیا ٹیم کی رکن کی جانب سے بغیر اجازت کی گئی تھی۔ اس پر لبرلز نے جو طوفان مچایا وہ نہایت ہی شرمناک تھا۔ اُس سے زیادہ افسوس ناک عمل شہلا رضا کا ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ خود پیپلز پارٹی کے اندر بھی اپنے کیے گئے تاریخ ساز فیصلے پر شرمندگی ہے اور وہ بھی قادیانیوں کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
اسی ضمن میں زبیر منصوری کی ایک تحریر بھی خاصی وائرل رہی: ’’تو تم سمجھتے ہو کہ قادیانیوں سے لڑائی بس سیاسی مخالفت کی وجہ سے ہے؟ یا ان سے جھگڑا ایک ’’پُرامن اقلیت‘‘ کو تنگ کرنا ہے؟ یا وہ چونکہ چھپ چھپا کر بیوروکریسی میں بیٹھے ہیں اس لیے انہیں کھلے بندوں ریاست کا خزانہ بھی سونپ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ یا آئینِ پاکستان اقلیتوں کو حق دیتا ہے اور انہیں بھی حق حاصل ہے؟ یا پھر وہ دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح کے فرقہ ہیں؟ نہیں میرے پیارے بھائیو، ہرگز نہیں! خدا کی قسم ان سے نفرت کی اِن میں سے کوئی وجہ نہیں، نہ یہ محض سیاسی لڑائی ہے۔ کاش تمہیں بتا سکوں کہ مجھ جیسے عام سے مسلمان کے لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیں؟ اور ان کی ذاتِ مبارکہ کے لیے قادیانی کیا ہیں؟ یہ وہ بدبخت ہیں جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار ِفضیلت پر ہاتھ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ میرے میٹھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے مہربان رب نے جو ’’خاتم النبیین‘‘ کا مقام عطا کیا ہے، عزت و شرف کا مقام، آدم علیہ السلام سے لے کر تاقیامِ قیامت یہ اعزاز کسی اور کو نہ ملا، نہ مل سکے گا، انہوں نے اس پر ہاتھ ڈالا ہے۔کوئی تمہارے والد محترم کی شان میں بری بات کہہ دے تو تمہاری غیرت جوش کھا جاتی ہے، اور وہ ہستی جس کی عزت و شرف کے سامنے میں، تم، ہمارا سب کچھ! کچھ بھی تو نہیں۔ اس کی عزت و مقام پر ہاتھ ڈالنے والے تمہارے پاس عزت پائیں؟ زندگی باقی رہ کتنی گئی ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جام کوثر دینے سے پہلے پوچھ ہی لیا تو کیا پیش کرو گے؟ یہ کہ ان کے صحابہ کرام اور ان کی ازواج اور ان کی ہستی کو متنازع بنانے والے کذاب کے ایک اندھے فالوور کو سر پر بٹھا لیا تھا؟ اس لیے کہ وہ معیشت کا پہلا اور آخری ماہر تھا، باقی امت بانجھ ہوچکی تھی؟کون لوگ ہو تم یار؟ بالکل بھول گئے ہو؟ وہ اسی قوم کے بڑے تو تھے، مرشد مودودیؒ (جنہیں مسئلہ قادیانیت پر پھانسی کی سزا ہوئی)، مفتی محمودؒ ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ اور بہت سے، جنہوں نے برسوں کی محنت اور اسمبلی میں کئی دنوں کی جرح کے بعد ان کو بے نقاب کرکے پی پی جیسی لبرل جماعت کی آنکھیں کھول دی تھیں اور پوری امت میں انہیں کافر قرار دینے کا اعزاز پاکستان کے نام کرلیا تھا۔ یہ عیسائی، یہودی، ہندو کی طرح اپنے کو قادیانی تسلیم کرکے جسدِ امت سے الگ ہوجائیں ہم انہیں بہ کراہت قبول کرلیں گے (اس لیے کہ یہ محض کافر ہی نہیں امت کے باغی ہیں)۔ یہ ہمارے شعائر مسجد ،کلمہ، اسلامی نام وغیرہ چھوڑ دیں۔ یہ دھوکا دہی سے باز آجائیں تو بھی ہم برداشت کرلیں۔ مگر یہ تو آستین کے سانپ ہیں۔ ریاستی آئین کے منکر ہیں۔ اندر رہ کر ڈسنا چاہتے ہیں۔ انہیں محض اس لیے تسلیم کرلیں کہ یہ بیوروکریسی میں بھی ہیں؟ یا اس لیے کہ یہ تمہاری کم فہم رائے میں بس دوسرے فرقوں کی طرح ایک فرقہ ہیں، یا کافر قرار دئیے جانے سے پہلے انہیں قائداعظم نے وزیر بنایا تھا؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! بہت برے ہیں، خطا کار ہیں، گناہ گار ہیں، مگر آپ کے رب کی قسم، باغی نہیں ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان لفظوں کی گواہی کو قبول فرما لیجیے گا۔ ہمارے نا سمجھوں، ردعمل یا کسی کی بے جا محبت میں گرفتار بھائیوں کے سبب ہمیں ان بدبختوں کا حامی نہ سمجھ لیجیے گا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کوئی توشہ نہیں! اعمال نامہ خالی ہے! یہ ٹوٹی پھوٹی لفاظی ہے بس اسے ہی قبول کرلیجیے گا۔‘‘
اس ٹوئٹ کے ذیل میں جو کچھ عوام نے کیا وہ یہاں بتانے کے لائق نہیں۔ بہرحال اس اہم فیصلے کا اس تاریخی دن ہونا ہی اہم ٹھیرا۔ سماجی میڈیا نے بھرپور طریقے سے حکومتی و سماجی اصلاح کے اہم ٹول کا کردار ادا کیا۔

حصہ