برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

589

قسط نمبر153
( گیارہواں حصہ )
۔ 1970ء کے عام انتخابات۔’را‘ کے کاؤ بوائے ۔ مکتی باہنی
مشرقی پاکستان کے حالات جس تیزی کے ساتھ خراب ہونا شروع ہوئے اُس کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ حکومتِ پاکستان بہت بڑی سازش کا شکار ہوچکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہماری عسکری قیادت دشمن کے پھیلائے ہوئے ’’جال‘‘ میں بالآخر پھنستی چلی جارہی تھی۔
ہماری عسکری قیادت کے پاس ان حالات میں سدھار کے لیے کوئی حل موجود نہیں تھا ماسوائے ’’فوجی آپریشن‘‘ یعنی ’’کریک ڈائون‘‘ کے۔ چنانچہ کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا اور عسکری دستوں کو تمام تر اختیارات کے ساتھ امن و امان کو یقینی بنانے کا فریضہ سونپا گیا۔
پاکستان کس طرح سے دشمن کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسا؟ اس بارے میں ڈھاکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب “The Wastes of Time” (جس کا اردو ترجمہ’’شکستِ آرزو‘‘ کے نام سے پاکستان میں شائع ہوا اور بے انتہا مقبول ہوا ہے ) میں احوال موجود ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین نے اس حوالے سے بہت اہم سوال اٹھایا ہے کہ ’’فوج نے دسمبر 1970ء سے 25 مارچ 1971ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جبکہ اس کریک ڈائون کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ’’1970ء کے انتخابات مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص 1970ء میں زندہ موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کرسکتا ہو اُسے اندازہ ہوگا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر ’’واک اوور‘‘ حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہوگا کہ کھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں 1971ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔‘‘
آگے چل کر ڈاکٹر سید سجاد حسین مزید لکھتے ہیں کہ ’’مشرقی پاکستان کے غیر بنگالی صنعت کار آدم جی، اصفہانی اور دیگر، شیخ مجیب الرحمن کی انتخابی مہم میں کیوں بڑھ چڑھ کر سرمایہ کاری کررہے تھے؟ لگتا تھا کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ سیاسی سطح پر کون سی قوتیں کام کررہی ہیں؟ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے بھی اپنی جگہوں پر عوامی لیگ کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’شیخ مجیب الرحمن کو مضبوط کرنے میں گورنر منعم خان کا بھی ہاتھ تھا جو کہ عام طور پر شیخ مجیب کا کٹر دشمن تصور کیا جاتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کی شیخ مجیب مخالفانہ تقاریر نے شیخ مجیب کی پوزیشن مضبوط کرنے اور اسے عوام کی نظروں میں بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘
اسی طرح کی بات ڈاکٹر جنید احمد کی کتاب “Creation of Bangladesh myths exploded” (جو ’’بنگلہ دیش کی تخلیق… فسانے اور حقائق‘‘ کے نام سے کراچی میں شائع ہوئی) میں بھی پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ کس طرح پاکستان کی حکومت کو ہندوستان نے ایک سازش کے تحت اپنے دام میں پھانسا۔ ڈاکٹر جنید احمد نے اپنے دعوے کے ثبوت میں لکھا کہ ’’اگرتلہ سازش کیس کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ مغربی پاکستانی افسروں کے دماغ کی اختراع ہے۔ مگر پھر اگرتلہ سازش کے بارے میں “Agartala Doctrine” (اگرتلہ ڈاکٹرائن) جیسی کتابیں منظرعام پر آگئیں اور ہندوستانی دانشوروں، فوجی افسروں، محکمہ سراغ رسانی کے ریٹائرڈ افسروں کے انکشافات سامنے آگئے کہ اس سازش کے ڈانڈے اور رابطے ہندوستان سے ملتے تھے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں ’’اگرتلہ سازش کو عوامی لیگ اور بھارت کے محکمہ سراغ رسانی (انٹیلی جنس) نے مل کر تیار کیا اور علیحدگی (سقوط) کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا کیونکہ تاریخ بھی جنگ میں کامیاب ہونے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔‘‘
کریک ڈائون، فوجی ایکشن جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا تھا، علیحدگی پسند سمجھتے تھے کہ یہی پاکستان کے دولخت ہونے کا سبب بنا ہے۔
ڈاکٹر جنید احمد لکھتے ہیں ’’متشدد بنگالی علیحدگی پسندوں کے نزدیک ان کے اصل مجرم پاکستان کی فوج کے سپاہی تھے جنھوں نے بے گناہ بنگالیوں کو دہشت زدہ اور ہلاک کیا اور خواتین کی آبروریزی کی۔ ان علیحدگی پسندوں کے یہ الزامات حقیقت کے بالکل برخلاف تھے۔ آپریشن سرچ لائٹ کی حقیقت جاننے کے لیے ہم دیکھتے ہیں وہ وقت جب یحییٰ خان نے مارچ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ حالات یہ تھے کہ جیسے ہی التوا کا اعلان ہوا، عوامی لیگی غنڈے گوشت کاٹنے کے بڑے بڑے چھروں، درانتیوں اور لاٹھیوں سے لیس ہوکر سڑکوں پر دندناتے پھرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ عوامی لیگی پہلے سے تیار تھے اور کسی اعلان کے منتظر تھے۔ اور اعلان ہونے کے ساتھ ہی انھوں نے توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، اور قتل و غارت گری کی وارداتیں کرنا شروع کردیں۔ یکم مارچ سے 31 مارچ(1971) تک پورے صوبے میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ہر روز قومی پرچم کی سرِعام توہین کی جاتی اور برسرِ عام نذرِ آتش کیا جاتا۔ جیلوں پر مسلح حملے ہونے شروع ہوگئے اور گرفتار افراد کو جیلیں توڑ کر باہر نکالا جانے لگا۔ بے قابو ہجوم اس قدر درندگی کا مظاہرہ کرنے لگا تھاکہ پاک فوج کو اپنی بیرکوں میں محصور رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ یکم سے لے کر25 مارچ تک پورا مشرقی پاکستان شیخ مجیب کے زیر کنٹرول رہا، ان پچیس دنوں میں دہشت گردوں کو تمام ہدایات شیخ مجیب کے بنگلے سے جو 32 دھان منڈی میں واقع تھا، ملتی تھیں۔ اس بنگلے پر بنگلہ دیش کا پرچم بھی لہرایا جاچکا تھا اور ڈھاکا یونیورسٹی میں فائرنگ کی مشقیں بھی ہورہی تھیں، خواتین رضاکار دستے بھی تیار ہوچکے تھے۔ ڈھاکا میں جگہ جگہ ناکے لگاکر عوامی لیگی غنڈے راہ گیروں کو روک کر چیک کرتے اور اسی دوران لوٹ مار کے واقعات بھی ہوتے رہے۔ شیخ مجیب یہ ہدایت جاری کرچکا تھا کہ کوئی رقم باہر نہ جانے پائے، لہٰذا ائرپورٹ جانے والے راستوں پر خوب جامہ تلاشی ہوتی اور رقم لوٹ لی جاتی۔‘‘
ان حالات میں لاقانونیت کو روکنے اور مسلح بنگالیوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے یہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ پاک فوج کے مقابل ہندوستان کے تربیت یافتہ مکتی باہنی تھے۔
را کے ایک افسر بی رامن نے اپنی کتاب “THE COW BOYES OF RAW” (’’را‘‘ کے کاؤ بوائے)میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ہندوستان نے مکتی باہنی کے قیام کی حمایت کی اور مدد فراہم کی۔ اس نے اپنے اعتراف میں لکھا کہ’’اندرا گاندھی نے حکم دیا کہ بنگالی بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو پاکستان سے الگ کرکے ان کے لیے بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک حاصل کیا جائے‘‘۔ مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے بی۔ رامن نے لکھا کہ ہندوستان کی مسلح افواج نے فیلڈ مارشل مانک شا کی قیادت میں کھلم کھلا اور انٹیلی جنس محکمہ (IB) نے خفیہ طور پر اس مقصد کے لیے ہر ممکن ساتھ نبھایا۔
مکتی باہنی کا اولین مقصد مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس کے لیے ہندوستان کی مدد سے چھاپہ مار دستے تیار کیے گئے، جن کی کمانڈ ہندوستانی فوجی خود کررہے ہوتے جو کہ بنگالیوں میں گھل مل چکے تھے۔
مکتی باہنی کے مشہور کمانڈر اور بعد میں بنگلہ دیش کے سفارت کار لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق ڈالم براتیم کے مطابق مکتی باہنی کے مقاصد اور اہداف بڑے واضح تھے:
٭ مشرقی پاکستان کے اندر ہر طرف سے پاک فوج کے خلاف لڑاکا اور چھاپہ مار دستے تیار کرکے چھائونیوں میں داخل کروانا۔
٭ کسی کارخانے کو چلنے کی اجازت نہ دینا، اور بجلی گھر سمیت تمام اہم تنصیبات کو بم سے اڑا دینا۔
٭ ہر قسم کے خام مال کو کسی بھی طور پر بندرگاہ یا ائرپورٹ اور کسی بھی راستے سے منتقل نہ ہونے دینا۔ بلکہ ایسے گودام جو غیر بنگالی کی ملکیت ہوں، جلا کر ختم کردینا۔
٭ مواصلات کا نظام، پل، راستے، شاہراہیں، ٹرانسپورٹ، ریلوے ٹریکس… سب کو بم لگا کر تباہ کردینا۔
٭ مناسب حکمت عملی کے تحت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں پاک فوج پر حملے کرنا تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے۔
٭ چھاپہ مار دستوں کو اس طرح ترتیب دینا کہ وہ مقامی بنگالیوں میں گھل مل کر ان جیسے ہی لگیں۔
ان تمام حالات میں جماعت اسلامی نے جو ابتدا میں عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی حامی تھی، مجبور ہوکر پاکستان کو بچانے کی اپنی آخری کوشش کرلینے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے فوجی آپریشن کی حمایت کی، اور اس طرح اسلامی جمعیت طلبہ (چھاترو شبر) کے نوجوانوں نے البدر اور الشمس میں شامل ہوکر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔
جس طرح کے معاملات مشرقی پاکستان میں پیش آرہے تھے، فوج نے سب سے پہلے ان علاقوں میں جہاں فوجی چھائونیاں موجود تھیں، فلیگ مارچ کے ذریعے علاقوں کا گشت کیا تاکہ دہشت گردوں پر اپنی ہیبت بٹھائی جاسکے۔ اور اعلانات کروائے جاتے رہے کہ اگر باغی ہتھیار پھینک کر اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردیں گے تو ان کے ساتھ نرمی کی جائے گی۔ مگر یہ محض اعلانات کی حد تک رہا۔ اس دوران بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے جنہیں بنگالی علیحدگی پسندوں نے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے خوب پھیلایا، جن میں حقیقت کم اور تراشیدہ فسانے زیادہ تھے۔
ممتاز پاکستانی صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں اس طرح نقشہ کھینچا کہ ’’اس آپریشن میں ہونے والی قتل و غارت اور آبروریزی کے بارے میں بنگلہ دیشی حکومت کے اعدادوشمار کو مبالغہ آرائی قرار دے کر مسترد کردیا جاتا ہے، لیکن کیا اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے افسران کے دعوے بھی مسترد کردیئے جائیں؟ 1971ء میں ڈھاکا میں فرائض سرانجام دینے والے میجر جنرل خادم حسین راجا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’10 مارچ کو جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے ہمیں کہا کہ میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا، یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں!‘‘ نیازی کے یہ الفاظ سن کر پاکستانی فوج کا ایک بنگالی افسر میجر مشتاق ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے باتھ روم میں گیا اور اس نے اپنے سر میں گولی مارکر خودکشی کرلی۔‘‘
حوالہ جات : “The Wastes of Time” (شکستِ آرزو) ڈاکٹر سجاد حسین
“Creation of Bangladesh myths exploded” (بنگلہ دیش کی تخلیق’فسا نے اور حقائق) ڈاکٹر جنید احمد
“THE COW BOYES OF RAW”۔ بی۔ رامن کی کتاب
( جاری ہے )

حصہ