برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

535

(دسواں حصہ)
قسط نمبر152
مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات اچانک نہیں بگڑے، اس کے پیچھے مشرقی پاکستانیوں کی برسوں کی محرومیاں اور اُن کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک تھا۔ بنگالیوں کا گلہ اگر تھا تو وہ مرکز میں موجود اسٹیبلشمنٹ سے تھا۔ حالات کی خرابی اور معاشی عدم توازن کا تمام تر ذمے دار وہ مغربی پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کو ٹھیراتے تھے۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مشرقی پاکستان کے مخصوص حالات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس بارے میں میجر صدیق سالک کی کتاب WITNESS OF SURRENDER جس کا اردو ترجمہ ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ صدیق سالک نے ڈھاکا میں تمام چیزوں کا قریب سے رہ کر مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح مغربی اور مشرقی پاکستان میں دوریاں بڑھنی شروع ہوئیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ وہ ڈھاکا کے ہوائی اڈے پر کھڑے تھے کہ ایک فوجی جیپ ان کے پاس آکر رکی ’’حوالدار نے مجھے اسمارٹ سا سلیوٹ کیا اور پاس سے گزرتے ہوئے ایک بنگالی لڑکے کو بھبک دار لہجے میں حکم دیا ’’صاحب کا اٹیچی کیس جیپ میں رکھو‘‘۔ سہمے ہوئے لڑکے کو یہ بھبک ناگوار تو گزری مگر اپنے ’’آقا‘‘ پر احتجاجی نظر ڈالتے ہوئے حکم بجا لایا۔ میں نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالا اور چند سکے اس غریب لڑکے کو دینا چاہے، مگر حوالدار نے پُرزور لہجے میں کہا ’’سر، ان حرام زادوں کی عادت نہ بگاڑئیے‘‘۔ میں نے مشورہ مان لیا اور بنگالی لڑکا ایک نفرت بھری نگاہ مجھ پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا‘‘۔
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ ڈھاکا پہنچ کر اپنے فوجی بھائیوں سے ملے تو انہیں ان کے فوجی دوستوں نے مقامی باشندوں کی بابت چند قیمتی مشورے دئیے، مثلاً ’’گھر کے لیے ہرگز بھاری چیزیں نہ خریدنا، کیا معلوم کب کن حالات میں یہاں سے بسترا گول کرنا پڑے۔ اپنا روپیہ پیسہ شہر کے کمرشل بینک کے بجائے (فوجی) چھائونی کے نیشنل بینک میں رکھوانا۔ اپنے پیش رو کے فلیٹ میں ٹکے رہنا۔ صندوق نما فلیٹ بڑا محفوظ ہے۔ اس میں کوئی شرپسند آسانی سے بم نہیں لڑھکا سکتا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
شہید صدیق سالک نے ایک انتہائی دردمند پاکستانی کی حیثیت میں اپنے مشاہدات کو قلمبند کیا ہے۔ انہوں نے اپنے قیامِ مشرقی پاکستان کے دوران ہی اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ سات لاکھ کی تعداد میں موجود یہ قوم اگر بپھر جائے تو محض 25 ہزار فوج ان کو کس طرح قابو کرسکتی ہے؟
بظاہر غیر مسلح اور بھوکے ننگے بنگالیوں کے ہاتھ میں اگر آتشیں ہتھیار آجائیں تو کیا ہماری فوج مشرقی پاکستان کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
ایک اور انتہائی غیر دانش مندانہ کام یہ ہوا کہ بنگالی اور غیر بنگالی فوجی رجمنٹوں کو الگ الگ کردیا گیا، جس کی وجہ سے کسی بھی بغاوت کے بھڑکنے کا خدشہ بڑھ گیا، اور یہ معاملہ جنرل یحییٰ خان کی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے مزید خراب ہوتا چلا گیا۔ بغاوت کا خدشہ کیوں پیدا ہوا؟ معاملہ یوں تھا کہ پہلی مرتبہ 1969ء میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے فسادات شروع ہوئے، جن کو فرو کرنے کے لیے بنگالی سپاہیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ مگر محسوس ہورہا تھا کہ بنگالی سپاہی جان بوجھ کر سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کوئی بھی کارروائی کرنے میں تذبذب میں مبتلا ہیں۔ بنگالی سپاہیوں کے اس جانب دارانہ رویّے کو جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل خادم حسین راجا نے محسوس کرلیا تھا۔ خادم حسین راجا مشرقی پاکستان میں متعین واحد ڈویژن کی کمانڈ کررہے تھے۔ انھوں نے اس مشاہدے کو ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرتے ہوئے یہ تجویز کیا کہ بنگالی اور غیر بنگالی رجمنٹوں کو آپس میں ضم کردیا جائے،کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی بھی وقت بنگالی رجمنٹوں میں تعصب اور نفرت کی چھوٹی سی بھی چنگاری، بھڑکتی ہوئی آگ میں تبدیل ہوجائے۔ میجر جنرل خادم حسین راجا کی بار بار کی درخواستوں پر بھی مرکز کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری جانب شیخ مجیب الرحمان جنرل یحییٰ پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے تھے کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اس دباؤ میں آکر جنرل یحییٰ خان نے بنگالیوں کی تعداد دگنی کرنے کا وعدہ کرلیا اور مشرقی پاکستان میں پہلے سے موجود چار پلاٹونز کی موجودگی میں دو پلٹنوں کا مزید اضافہ کرلیا۔ اس طرح غیر بنگالی فوجیوں کی پلٹنوں کی تعداد 8، اور خالص بنگالی فوجیوں کی پلٹنیں 6 ہوگئیں۔
بنگالی فوجی اس اضافے پر بھی خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اپنا مائنڈسیٹ کچھ اس طرح بنا رکھا تھا کہ بقول صدیق سالک ’’وہ جب ایسٹ بنگال رجمنٹ پہنچے تو ان کی ملاقات ایک بنگالی کرنل سے ہوئی۔ اس نے کہا ’’بنگالیوں کا کوٹہ دگنا کرنے کا کیا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتے ہو؟ چھوڑو اس کو، کیونکہ اگر صدر کے حکم پر سو فیصد عمل ہوگیا تو بھی افواج میں بنگالیوں کی تعداد بمشکل 15 فیصد ہوجائے گی حالانکہ وہ کُل آبادی کا 56 فیصد ہیں۔‘‘
صدیق سالک لکھتے ہیں کہ بنگالی فوج میں کرنل موجمدار، جنرل وصی الدین اور کرنل (ریٹائرڈ) ایم۔اے۔جی عثمانی کو خاصا اثر رسوخ حاصل تھا۔
مشرقی پاکستان میں حالات کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے تھے۔ مرکز کی جانب سے کی جانے والی انتظامی تبدیلیاں بھی محض کاغذی کارروائی تھی جس کی عوام میں کوئی پذیرائی نہیں تھی۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے سوشل ازم کے نعرے کی بنیاد پر جو سبز باغ مزدوروں اور طالب علموں کو دکھائے تھے، اس کے نتیجے میں صوبائی خودمختاری کا نعرہ ایک مقبول نعرہ بن چکا تھا، مگر اب بات صوبائی خودمختاری سے بھی آگے نکل چکی تھی۔ 1970ء کے انتخابی نتائج نے شیخ مجیب الرحمان کو اتنی بڑی اکثریت دلوا دی تھی کہ وہ حکومت بنانے کے اپنے حق سے محرومی اور زمین پر پاؤں رکھنے پر کسی طور آمادہ نہیں تھے۔
مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہنگاموں کی خبریں آتی ہی چلی جارہی تھیں، تصادم ڈھاکا سے نکل کر چٹاگانگ، جیسور، کومیلا، کھلنا، سلہٹ اور رنگ پور تک پھیل چکا تھا، مگر سول انتظامیہ اس قدر بے بس تھی کہ وہ اپنے ہیڈ کوارٹرز اور فوج اپنی چھاؤنی تک سے آگے نکلنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ بنگالی ہجوم اگر (پاکستانی) فوج کو اپنے مقابل نہ پاکر غیر بنگالی آبادی پر حملہ آور ہوجاتا تو کیا ہوتا!
ایسے وقت میں جب دو مختلف حصوں میں کامیاب ہونے والی جماعتیں اپنے اپنے اقتدار کے لیے ملک کی یک جہتی کو پسِ پشت ڈال کر کچھ بھی کرنے کو تیار تھیں، جماعت اسلامی نے فوجی آپریشن کی بھرپور مخالفت کی اور آخر وقت تک کوشاں رہی کہ کسی طرح پاکستان کو متحد رکھا جاسکے۔ جماعت اسلامی ہی وہ پہلی تنظیم تھی جس نے ان انتخابات میں اپنی بدترین شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنوری1971ء میں ملک آہستہ آہستہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت پھوٹ پڑی تھی۔ گھر، عزت و آبرو اور جان کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ آخرکار یکم مارچ سے غیر بنگالیوں اور فعال محب وطن بنگالیوں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ شرپسند پوری طرح فضا پر چھاگئے۔ فوجی ایکشن بھی مسلسل ناکامی سے دوچار تھا۔
10 مارچ 1971ء کو اسلامی چھاتروشنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) مشرقی پاکستان کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں صوبے کی عمومی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد تین ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر غور ہوا۔ ان کے سامنے اس وقت صرف یہ تین ہی راستے تھے:
1۔ حالات کے رخ پر بہتے ہوئے کھل کر علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے۔
2۔ حالات کو اپنے رخ پر بہنے دیا جائے اور غیر جانب دار رہا جائے۔
3۔ حالات کا رخ موڑنے، پاکستان کی سالمیت اور مظلوم عوام کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں اتر کر اپنی ذمے داری کو ادا کیا جائے۔
10 سے 14 مارچ تک جاری رہنے والے جمعیت کے صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں طویل غور و خوض اور بحث و مباحثے کے بعد جمعیت نے تیسرے آپشن کو اپنانے اور اس ملک کو بچانے کے لیے عظیم الشان قربانیاں دینے کا فیصلہ کیا جس کو بنانے کے لیے صرف 24 سال قبل ان کے آباء و اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ اسی اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کیا جائے اور منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔
حوالہ :روزنامہ اتفاق ڈھاکا، 15 مارچ 1971ء
حوالہ : WITNESS OF SURENDER مصنف، صدیق سالک (شہید)
مضمون و تبصرہ : شاہنواز فاروقی’’ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘
( جاری ہے )

حصہ