برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

641

قسط نمبر151
نواں حصہ
ہماری خفیہ ایجنسیز یہ خبریں پہلے سے پہنچا رہی تھیں کہ پڑوسی ملک ہندوستان کی جانب سے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی جارہی ہے۔ اور اسی دوران اپریل 71 کے پہلے ہفتے میں مغربی پاکستان کی ساحلی پٹی پر ہندوستان کے بحری بیڑے نے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اس طریقے سے ہندوستان کی کوشش تھی کہ وہ پاکستان کے بحری بیڑے کو مغربی پا کستان میں ہی روکے رکھے۔( اس کی وجہ تو سمجھ میں آتی تھی کہ کیونکہ 1965 کی جنگ میں ہندوستانی بحریہ اپنے محفوظ ٹھکانوں سے نکلے بغیر ہی ڈھیر ہوگئی تھی)۔ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جانب سے ہندوستان میں ویزہ لیکر جانے والے پاکستانیوں کو فوری طور پر ملک خالی کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ اور اسی رات اندرا گاندھی کا یہ بیان نشر ہوا کہ ” ہمارے جنگی طیارے مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر پوزیشن لئے تیار کھڑے ہیں “۔ چین نے ہندوستان کو متنبہ کیا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے باز رہے۔ چین کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان میں مدا خلت کی غرض سے ہندوستان اور امریکہ و روس آپس میں ساز باز کرچکے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی سرحدی صورتحال روز بہ روز خراب ہوتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ ہندوستان افواج سادہ کپڑوں میں مشرقی بارڈر کراس کرکے مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ پاکستانی افواج نے اپنی سی کوششیں کہ وہ مشرقی سرحد کو محفوظ بنا سکیں مگر ہندوستان کی جانب سے مقامی علیحدگی پسند بنگالیوں پر مشتمل ٹریننگ یافتہ ” مکتی باہنی ” پاک فوج کی ہر نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے تھیوہ مخبری کرکے ہندوستانی افواج کو پہلے سے آگاہ کردیتے تھے۔
اس تمام بحران میں جنر؛ل یحیی خان کا کردا ر نہایتمشکوک رہا۔ جمہوری طور پر منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل نہ کرکے وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا تھا اور حالات بگڑنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے سرپرست کے طور پر سامنے آ گیا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو چین کے دورے پر بھیجا جس سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ چین سمیت دنیا بھر میں بھٹو کی وجہ سے ہی کوئی امداد ملنے کی امید لگائی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب بھٹو صاحب کے بیانات انتہائی حیرت انگیز تھے کہ ہمیں ہندوستان سے جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ( جبکہ صورت حال یہ تھی کہ ہندوستانی افواج پاکستان کے اندر داخل ہو کر چھاپہ مار کاروائیاں کر رہیں تھیں )۔
اس نازک وقت میں پاکستان جمہوری پارٹی کے سربراہ نور الامین کی سربراہی میں سات جماعتی اتحاد ( یو سی پی ) بنایا گیا جن میں پاکستان جمہوری پارٹی ، جماعت اسلامی ، پاکستان مسلم لیگ ( قیوم گروپ ) کونسل مسلم لیگ ، کنونشن مسلم لیگ ،، مرکزی جمیعت علمائے اسلا م ( تھانوی گروپ ) اور نظام اسلا م پارٹی شامل تھیں۔ اس اتحاد کا مقصد حصول اقتدار کے بجائے مملکت پاکستان کا تحفظ تھا۔
جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے نائب امیر مولانا عبدا لرحیم نے اپنے انٹرویو میں جماعت اسلامی کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ” ‘ دستور میں مشرقی پاکستان کو اس کے جائز سیاسی و معاشی حقوق دینے کا انتظام کیا جائے۔ صرف عدم مساوات کا نعرہ لگا دینا ہی کافی نہیں ، عوام کا اعتماد اسی صورت میں بحال ہوگا جب حقیقت میں انہیں نمایاں حیثیت ملے گی۔ اور سچ مچ معاشی و سیاسی عدم مساوات ختم ہو جائے گی۔ جماعت اسلامی نے یہ مطالبہ بھی رکھا کہ وزارت عظمی کا عہدہ مشرقی پاکستان کو دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ” اس وقت جبکہ ہم مر رہے ہیں اور مشرقی پاکستان پوری طرح ہندوستان کے نرغے میں ہے ایسے میں مغربی پاکستان کا ایک لیڈر وزیر اعظم بننے کے لئے بے چین نظر آرہا ہے۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ آپ کس ملک کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں ؟ مانا کہ آپ پنجاب اور سندھ کے لیڈر ہیں لیکن مشرقی پاکستان کے لیڈر کب تھے ؟ آٹھ مہینوں سے مشرقی پاکستان پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، کیا آپ ایک مرتبہ بھی خبر لینے گئے ؟ اگر خدانخواستہ مشرقی پاکستان نہ رہا تو آپ کس ملک کے وزیر اعظم بنیں گے ؟ اس وقت اصل مسلہ ملک بچانے کا ہے ، لیکن آپ ہیں کہ اقتدار کے لئے پاگل ہورہے ہیں۔”
اس سے پہلے کہ ہم سقوط مشرقی پاکستان کے آخری باب پر پہنچیں کچھ گفتگو ان حالات پر بھی کرتے ہیں کہ کیا مشرقی پاکستان میں یہ حالا ت اچانک وقوع پزیر ہوگئے تھے یا اس کے پیچھے برسوں کی محرومیاں ، وعدہ خلافیاں ، معاشی عدم مساوات اور مغربی پاکستان کی مقتدرہ کا انتہائی درجے تعصب تھا۔ کہتے ہیں کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
شیخ مجیب الرحمان کے کیا عزائم تھے ؟ پاکستان کی بنگالی فوج میں کس طرح بنگلہ دیش کے لئے رائے ہموار کی گئی ؟ یہ اگرچہ ایک طویل داستان ہے مگر قصہ مختصر کرتے ہوئے یوں سمجھ لیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد 1956 کے آئین میں ہی رکھی جاچکی تھی
آئین کا تجویز کردہ خاقہ یوں تھا کہ ” پارلیمنٹ کے دو ایوان ہوں گے۔ ایک عوام کا منتخب ایوان اور دوسرا ملک کے یونٹوں کی اسمبلیوں کا نمائندہ ایوان۔ اس میں مزید وضاحت کی گئی کہ اس ایوان میں بلوچستان سمیت ملک کے موجودہ یونٹوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی اور پارلیمنٹ کے ان دونوں ایوانوں کو مساوی اختیارات حاصل ہوں گے۔ کسی مسئلہ پر اختلاف کی صورت میں وفاقی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان مشترکہ اجلاس میں اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔”
مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتوں باالخصوص بائیں بازو اور بنگالی قوم پرستوں نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو خود مختار یونٹوں پر مشتمل ری پبلیکن طرز کی حکومت کے قیام کا مطالبہ پیش کیا اور کہا کہ ملک کی آبادی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی مرکزی پارلیمنٹ کو صرف خارجہ امور ،کرنسی اور دفاع کے اختیارات حاصل ہوں۔
1952 میں آئین کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے اپنی دوسری رپورٹ پیش کی تھی جس میں پہلی بار ملک کے دو حصوں کے درمیان مساوی نمائندگی (پیریٹی) کی تجویز پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں پارلیمنٹ کے دو ایوان تجویز کیے گئے تھے ایک، ایک سو بیس اراکین پر مشتمل یونٹوں کا ایوان جس میں 60مشرقی پاکستان سے اور 60 مغربی پاکستان کے آٹھ یونٹوں سے۔ چار سو اراکین پر مشتمل عوام کے ایوان میں بھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے یونٹوں کے درمیان مساوی نمائندگی تجویز کی گئی تھی۔
پنجاب کے سیاستدانوں نے اس رپورٹ کی شدید مخالفت کی افسوس کی بات یہ تھی کہ مخالفت کی بنیاد یہ نہیں تھی کہ زیادہ آبادی والے مشرقی پاکستانیوں کی حق تلفی کی جارہی ہے، ان کا اختلاف اس بنیاد پر تھا کہ مغربی پاکستان کے یونٹوں کی کل آبادی سے دو فی صد زیادہ ہے۔ اور اس کو بنیاد بناتے ہوئے تجویز مسترد کردی کہ ملک کے ایک صوبے کو دوسرے آٹھ یونٹوں کے برابر نمائندگی دی جارہی ہے اور یوں مشرقی پاکستان پورے ملک پر حاوی ہو جائیگا۔ اس اندھے اور بے انصافی پر مبنی مطالبے کی بنیاد پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی پارلیمنٹرینز نے یہ الٹی میٹم دیا کہ اگر ان کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ سب دستور ساز اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیں گے۔ اس دھمکی کے دباؤ میں آکر 19 دن بعد 24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے اچانک دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور ملک یکایک سنگین آئینی بحران اور قانونی معرکہ آرائیوں کے چنگل میں گرفتار ہو گیا۔ بالآخر 1956 میں و فاقی عدالت کے حکم پر نئی دستور ساز اسمبلی منتخب کی گئی۔اور نئے آئین کا مسودہ شائع ہوا جس میں پہلی بار ملک کو دو وفاقی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان ، جہاں پہلے ہی تمام صوبوں کو چھوٹے تین صوبوں کے مرضی کے خلاف زبردستی ایک یونٹ میں ضم کردیا گیا تھا۔ نئے آئین کے مسودہ میں دونوں حصوں کو مساوی نمائندگی دی گئی تھی اور پارلیمنٹ کے دو ایوانوں کی متنازعہ تجویز ترک کر کے صرف ایک قومی اسمبلی کی تشکیل کا اصول تسلیم کیا گیا تھا اور مضبوط مرکز کے ساتھ صدر مملکت کو وسیع اختیارات سونپے گئے تھے۔
بی بی سی کے نمائندہ خاص آصف جیلانی اپنی فائل رپورٹ لکھتے ہیں کہ “میں اس زمانے میں امروز کراچی کا نامہ نگار تھا۔ نئے آئین کے مسودہ کے بارے میں میں نے عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی سے ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف مشرقی پاکستان کا جمہوری حق ترک کیا اور مساوی نمائندگی کا غیر جمہوری اصول تسلیم کیا بلکہ مغربی پاکستان کے تین چھوٹے صوبوں کے جمہوری حق کو غضب کرنے کے عمل میں بھی ساتھ دے دیا اور ان صوبوں کی مرضی کے برخلاف ایک یونٹ کو تسلیم کر لیا تو سہرودی صاحب نے اس شرط پر کہ میں انٹرویو میں یہ بات شامل نہیں کروں گا، کہا کہ” حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں ہم پنجاب سے سودے بازی کیے بغیر نہ تو اقتدار حاصل کر سکتے ہیں اور نہ اقتدار میں شریک ہو سکتے ہیں۔”
حوالہ جات : جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد ، میاں طفیل محمد
رپورٹ : آصف جیلانی (بی بی سی اردو سروس, جمعرات 23 مارچ۔ 2006 )
( جاری ہے )

حصہ