یمن میں بچوں کی شہادت

352

سید اقبال چشتی
زمانہ جہالت میں جنگ کے کوئی اصول نہیں تھے جو جنگ جیت جاتا یا دوران جنگ لوگوں کی املاک کو آگ لگا نا عورتوں اور بچوں کو قتل یا غلام بنا لیا جاتا تھا کسی کی عزت جان و مال فاتح لشکر کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہوتی تھی لیکن دین اسلام اور نبی آخر زمان محمد ؐ نے انسانیت کوعزت اور وقار عطاء کیا انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خالق کائنات اللہ رب العزت کی غلامی اختیار کر نے کا درس دیا وہاں جنگ کے اصول بھی آپ ؐ نے مرتب کیے کہ فتح پانے کے بعد عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جو ہتھیار پھینک دے یا جنگ سے الگ ہو جائے اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا کسی کی املاک کو آگ نہیں لگائے جائے گی جب دین اسلام کا یہ نقشہ دنیا کے سامنے با لخصوص عرب قبائل کے سامنے آیا تو لوگ جوق در جوق اسلام کے سائے رحمت میں آنے لگے دین اسلام سعودی عرب سے آیا ہے اور آخری نبی محمد ؐ نے مکہ میں اعلان نبوت کیا تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج وہی سعودی عرب جہاں دین اسلام کی روشنی پھیلی تھی جہاں انسانیت کو خوشی میسر آئی تھی جہاں جنگ اور ذمیوں کے حقوق متعین ہو ئے تھے اُسی سر زمین سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر لشکر کشی کی گئی ہے اور یمن کی جنگ اس وقت جاری ہے کیوں لڑی جار ہی ہے یہ کسی کو نہیں معلوم مگر جب کوئی یہ دیکھتا ہے کہ میں جنگ ہار رہا ہوں تو وہ انسانیت سوز ہتھکنڈے اختیار کر نے پر اُتر آتا ہے اور یمن کی جنگ میں جو کئی سالوں سے جاری ہے سعودی اتحاد ی فوج کو اپنی کامیابی نظر نہیں آرہی تو انھوں نے بازاروں اور بچوں کی اسکول وین پر حملے شروع کر دیئے ہیں گزشتہ ہفتے اتحادی افواج کے ایک حملے میں اسکول وین کو نشانہ بنایا گیا جس سے 45 معصوم بچے شہید ہو گئے
ابھی افغانستان میں حافظ قرآن بچوں کی دستار بندی کی تقریب میں امریکی اتحادیوں نے یہ کہہ کر مدرسے پر حملہ کیا تھا کہ اس تقریب میں دہشت گرد موجود ہیں اس واقع کو گزرے چند ماہ بھی نہیں ہو ئے اور بچوں پر ایک اور حملہ اسلام کا نام لینے والوںکی طرف سے کیا گیا اس واقع پر عالمی دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سب نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اگر یہی حملہ یمن نے سعودی بچوں کی اسکول وین پر کیا ہوتا عالم کفر کے ساتھ مسلم ممالک بھی نہ صرف مذمت کر رہے ہوتے بلکہ بڑھ چڑھ کر بیانات اور یمن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کی جارہی ہوتیں وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور طاغوت کے شکنجے میں جکڑا ہوا میڈیا یورپ اور امریکا میں ہونے والے اسکول فائرنگ میں اپنے ہی شہری یا طالبعلم کے ہاتھوں مارے جانے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے نہیں دکھتا اور ایسے واقعات کو ظلم قرار دیتا ہے مگر مسلم ممالک کے بچے انسان نہیں ہوتے جب اپنے ہی بچوں پر ایسے ظلم کریں گے تو دشمن کے حوصلے تو بلند ہوں گے جن ممالک کو آپس میں مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنا چایئے وہ مسئلہ کا حل جنگ میں تلاش کرتے ہیں کیا امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان جنگ چھڑ گئی نہیں کیوں کہ طاغوتی قوتوں کو معلوم ہے کہ ہمیں آپس میں لڑ کر اپنی قوت کو ختم نہیں کرنا مسلمانوں کو کب ہوش آئے گا سب کچھ کھلی کتاب کی طرح واضح اور دشمن کی چال نظر آنے کے باوجود مسلم ممالک منتشر ہیں افغانستان ، عراق ، شام ، لیبیا ، یمن کون سے ممالک ہیں مسلم مگر طاقوتی قوتوں نے کہیں براہ راست اور کہیں مسلم حکمرانوں کی آشیر واد سے یہاں کس کا قتل عام کیا مسلمانوں کا اس طرح کے مظالم پر عالم اسلام کی خاموشی نے طاقوت کو مزید حوصلہ دیا اور جہاں صدیوں سے مسلمان آباد تھے اور ہیں وہاں کے ممالک نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑ دیا چین میں اُغور نسل کے مسلمان ہوں یا بر ما کے روہنگیا مسلمانوں کا جرم کیا ہے صرف مسلمان ہونا آج کے مسلم حکمرانوں سے بہتر زمانہ قبل از اسلام کے رہنے والے عرب تھے جو کہتے تھے کہ اس قبیلے کے فرد کو ہاتھ نہ لگانا کیو نکہ ہمارے تجارتی قافلے انہیں قبائل کے راستے سے ہو کر گزرتے ہیں مگر آج کے مسلم ممالک طاغوتی طاقتوں کو تجارتی راستے فراہم کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے تٖحفظ کے حوالے سے شرائط نہیں منوائی جاتی جو ممالک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اُن کو کہا جاتا ہے آئے یہ تجارتی راستے آپ ہی کے لیے ہیں بلکہ مسلم ممالک اربوں ڈالر کے اسلحہ خریداری کے معاہدے کر رہے ہیں جب اسلحہ خریدا جائے گا تو دشمن اس کو استعمال کرنے کے بھی منصوبہ بندی کرے گا تمہاری بادشاہت کو خطرہ ہے تمہارے چالیس سالہ اقتدار کو شدت پسندوں سے خطرہ ہے دنیا کو اس ملک کے جنگجوں سے خطرہ ہے اور پھر مسلم حکمران اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنوں ہی کو فتح کر نے کے مشن پر لگ جاتے ہیں ۔
یمن کی جنگ کیوں ہو رہی ہے کس کو کس سے خطرہ تھا جبکہ آل سعود بھی یمنی ہیں سب سے بڑھ کر مسلم پڑوسی ہیں اگر حوثی قبائل کچھ کر رہے تھے تو اپنے ملک میں مگر حوثی قبائل کا تو بہانا تھا اصل میں یمن کے اندر اخوان المسلمون کی بڑھتی ہو ئی مقبولت اصل خطرہ تھی جس طرح مصر میں دنیا جانتی ہے کہ سعودی حکمرانوں کے تعاون سے محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو فوجی آمرکے ذریعے شب خون مار کر ختم کیا کیا جو دوسروں کے ممالک میں مداخلت کر سکتے ہوں وہ یمن میں بچوں کی اسکول وین پر بھی حملہ کر سکتے ہیں کیونکہ آج کے مسلم حکمرانوں کو امت مسلمہ کی نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی بقاء کی زیادہ فکر ہے مسلم ممالک کی اس صورتحال پر طاغوتی طاقتیں خوش ہو تی ہیں کہ ہمارا دشمن کمزور ہو رہا ہے بالکل اسی طرح جب ایک دکان میں سانپ گھس جاتا ہے اور سامنے والی دکان میں بیٹھا بچہ اپنے والد سے کہتا ہے ابو سامنے والی دکان میں سانپ کھس گیا ہے بچے کا باپ کہتا ہے کو ئی بات نہیں دونوں میں سے کوئی بھی مرے فائدہ ہمارا ہی ہو گا یمن اور سعودی عرب کی جنگ بھی دشمن کی چال ہے کیو نکہ دشمن جہاں براہ راست حملہ نہیں کر سکتا اور جہاں امت کو متحد کرنے والے مقدس مقامات ہوں جس کی وجہ سے امت مسلمہ اتحاد کی لڑی میں پرو جائے اس لیے اس ملک کو کسی بھی بہانے اور ڈر سے آپس میں لڑا دو کو ئی بھی شکست کھائے فائدہ دشمن ہی کا ہو گا۔
جب مسلم ممالک اسلام کے نظام کو پس پشت ڈال کر طاغوتی نظام کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں گے تو مسلمانوں کا خون پھر اسی طرح بہایا جائے گا سونے پہ سوہاگہ مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی شاید اب نام کے مسلمان رہ گئے ہیں جو حکمرانوں سے زیادہ بے حسی کا شکار ہیں جو مسلمان جہاد کو دہشت گردی اور اسلام کو صرف نماز روزے کا دین سمجھتے ہوں جودین اسلام کے نفاظ کی جدوجہد کر نے والوں کو پاگل اور علمائے کرام کے لیے گالیاں نکالتے ہوں کیا ایسے مسلمان مکہ مدینہ کا دفاع کریں گے ہر گز نہیں بلکہ جس طرح امت آج قبلہ اول کو آزاد کرانے والوں کو بیوقوف کہتی ہے اسی طرح جب سعودی عرب پر حملہ ہو گا تو یہ مسلمان اور اسلامی فوج کچھ نہیں کر سکیں گی کیو نکہ نفرت اتنی زیادہ دلوں میں بیٹھ چکی ہو گی کہ یہی کہیں گے جب ہم مارے جارہے تو یہ کیا کر رہے تھے۔
خانہ کعبہ کی حفاظت اس سے قبل بھی اللہ نے کی اب بھی وہی دشمنوں سے اپنے محبوب کے روضے اور گھر کو بچائے گا مگر جو ایمان والے ہوں گے جن کے خلاف آج کریک ڈاون کیا جاتا ہے جن کو پھانسیاں دی جارہی ہیں جن کو دنیا اور اپنے دہشت گرد کہتے ہیں وہی اسلام پسند طاغوت کا مقا بلہ کریں فلسطین کے لوگوں کی کو ئی مدد نہیں کرتا مگر وہ اپنے ایمان اور رب کے سہارے اسرائیل اور طاغوتی قوتوں کے جدید ترین ہتھیاروں کا مقا بلہ اپنے جذبہ ایمانی اور پتھر سے کر رہے ہیں اور کوئی طاقت اس جذبہ ایمان کو اب تک شکست نہیں دے سکی ہے۔ پینتیس سال صدام حسین طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار بنے رہے اور فوجی وردی پہن کر اپنے ہی ملک کے لوگوں فتح کرتے رہے مگر لڑنے کا وقت آیا تو چھ لاکھ سے زائد فوج بھاگ گئی اور آج اسلام پسند ہی کفر کا مقا بلہ کر رہے ہیں جن افغانیوں کو دنیا بھوکا اور ننگا کہا جاتا تھا یہی افغان مجاہد کفر کے نظام کو غالب کر نے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو ئے ہیں جن نوے ہزار فوجیوں نے دشمن سے مقا بلہ کرنے کے بجائے ہتھیار ڈالے تھے اُن کے بعد اسلام پسندہی ملک کی سالمیت کے لیے آخر وقت تک لڑے تھے بلکہ آج تک اُس جرم کی پاداش میں پھانسیوں کے پھندے چوم کر جام شہادت نوش کر رہے ہیں اس لیے سعودی اتحاد کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ گواہ ہے بنو جرہم کا ایک ہزار سالہاقتدار کا خاتمہ عرب سر زمین سے صرف ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم نہ کہنے کی وجہ سے ہوا تھا کیا آل سعود تا قیامت اللہ سے بر سر اقتدار رہنے کا وعدہ لے کر آئے ہیں شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے اس طرح کا ظلم تو فرعون نے بھی بچوں کے ساتھ نہیں کیا تھا اپنی حکمرانی کو بچانے کے لیے فرعون نے بچوں کے قتل کا حکم دیا تھا لیکن جس بچے سے اُس کو ڈر تھا اُسی کے ہاتھوں فرعون کی حکمرانی کا خاتمہ ہو ابلکہ اللہ کے عذاب میں گھر کر سمندر برد ہو آج بھی اس کی لاش نشان عبرت ہے۔
یمنی بچوں کا آخر کیا قصور تھا کیا اہل عرب نے قرآن کی یہ آیات نہیں پڑھی ہیں کہ جب روز قیامت پو چھا جائے گا معصوموں سے کہ تجھے کس قصور میں مارا گیا تو ان حکمرانوں کے پاس کیا جواب ہوگا اس لیے اب بھی وقت ہے امت مسلمہ کو انتشار سے بچانے اور طاغوتی قوتوں کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے سعودی عرب مسلم ممالک کے اتحاد کو تشکیل دینے کے لیے پہل کرے اور دو نظاموں کی دنیا میں جاری جنگ میں اپنی طاقت اور تمام وسائل اسلام کے نظام حیات کے لیے استعمال کرے اقتدار آج ہے کل نہیں ہو گا آج زندگی ہے کل موت نے آلینا ہے دنیا کی راحت کا سارا سامان دنیا میں ہی رہ جائے گا لیکن اسلام زندہ رہے گا جس طرح اسلامی ہیروز کا نام آج بھی زندہ ہے جس طرح اُسامہ بن لادن جو یمنی تھا ایک شہزادہ دنیا کی تمام آسائش جس کے پاس تھی مگر جس نے دنیا کی چند روزہ زندگی کے بجائے عزت اور جہاد کا راستہ اختیار کیا کیوں صرف آخرت کی کا میابی کے لیے اگر ہمارے مسلم حکمران آخرت کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں امت مسلمہ کی بقاء کے لیے سوچنا چاہیے اگر ان کے دلوں سے اللہ کا خوف اور آخرت کی سوچ نکل چکی ہے تو جو چاہیے یہ حکمران کریں کیو نکہ جنتا جبر بڑھے گا اتنی ہی زیادہ بغاوت شدت کے ساتھ ابھرے گی کیو نکہ اللہ نے دین اسلام کو دوائم بخشا ہے مسلمان یا کسی مسلم حکمران کو نہیں ۔

حصہ