کالا قانون

554

سیدہ عنبرین عالم
تقسیم ہندوستان کے بعد کا زمانہ تھا، نیا نیا پاکستان بنا تھا، چاروں طرف افراتفری تھی۔ پاکستان کے آبائی علاقوں کے رہنے والے زیادہ تر زراعت سے وابستہ تھے اور تعلیم کی طرف زیادہ رغبت نہیں رکھتے تھے، اس لیے جب نئی ریاست کے دفتری کام کا آغاز ہوا تو ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے، اردو بولنے والے لوگ دفتری کام کرنے لگے، یہ لوگ تعلیم یافتہ تھے اور ہندوستان میں بھی دفتروں میں کام کرتے رہے تھے۔ کام بھی ایسے کیا کہ تنخواہ ملے نہ ملے، کام جاری۔ ذاتی رقم سے قلم کاغذ وغیرہ خرید کر پاکستان کی منسٹریاں چلاتے رہے۔ دن رات انتھک محنت… اور آخرکار پاکستان چل پڑا۔
جب پاکستان چل پڑا تو نظر آیا کہ تمام سرکاری دفتروں میں یہ مہاجر ہی ہیں جو پاکستان کو چلا رہے ہیں۔ سندھ میں مہاجروںکی تعداد بہت زیادہ تھی، جو کراچی اور حیدرآباد میں مقیم تھے، اور یہاں کی سرکاری نوکریاں بھی ان کے پاس تھیں، کیونکہ یہ اس کے اہل تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ نہ کرپشن کے قصے سننے کو ملتے، نہ شوبازی تھی، نہ پروٹوکول، نہ اقربا پروری۔ بڑا اچھا دور تھا، اور پاکستان کا انتظام بھی بڑے احسن طریقے سے چل رہا تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ بھٹو صاحب کو اچانک خیال آیا کہ سرکاری نوکریاں جو کراچی میں ہیں وہ مہاجروں کا حق نہیں ہیں۔ حالانکہ بات حق کی نہیں، اہلیت اور قابلیت کی تھی، مگر بھٹو صاحب نے فیصلہ لسانیت کی بنیاد پر کیا، اور ایک عجیب سا قانون یعنی ’’کوٹہ سسٹم‘‘ رائج کردیا۔
پہلی بار سندھ میں تقسیم کی دیوار کھڑی کرنے والے بھٹو صاحب ہی تھے، انھوں نے دیہی سندھ اور شہری سندھ کی اصطلاح ایجاد کی اور دیہی سندھ والوں کا کراچی اور حیدرآباد کی سرکاری نوکریوں میں کوٹہ مقرر کردیا، اور پھر سندھ سے دھڑا دھڑ لوگوں کو بلا کر سرکاری نوکریاں دی گئیں اور اپنے ووٹ مضبوط کیے گئے۔ یہ قانون دس سال کے لیے تھا مگر آج تک ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ چند ہی برسوں میں مہاجروں کا صفایا ہوگیا اور مہاجر نوجوان تیزی سے بے روزگاری کی طرف بڑھنے لگے، کیونکہ سندھ سے آنے والوں کی طرح نہ یہ زمینیں رکھتے تھے نہ زراعت جانتے تھے، نہ ہی کوئی اور ہنر۔ ہر عام مہاجر خاندان میں صرف اسکول بھیجا جاتا تھا، ہنر سکھانے کا رواج نہ تھا، اور کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد دفتروں میں نوکری کرنے کا طریقہ تھا۔ ان نوجوانوں میں ڈپریشن اور محرومی کا احساس بڑھنے لگا، اور پھر جلوہ گر ہوا الطاف حسین۔
الطاف حسین کو مہاجر قوم نے اپنا نجات دہندہ مان لیا۔ یہ اور بات ہے کہ مہاجر قوم نادانی میں اپنا ہی نقصان کربیٹھی، خود ہی قتل ہوتی رہی، خود ہی بھتے دیتی رہی اور خود ہی خوف میں اپنی زندگیوں کو ڈال دیا۔ وہ الطاف حسین جس کے ایک حکم سے کراچی بند ہوتا اور کھلتا تھا، 30 سال میں کوٹہ سسٹم ختم نہ کراسکا، حالانکہ دو چار ہڑتالوں کی بات تھی، دو چار بسیں جلتیں، دو چار دن کراچی بند رہتا، دو چار لوگ مارے جاتے، کوٹہ سسٹم ختم ہوجاتا۔ یہ چھوٹا سا کام اس سینکڑوں افراد کے قاتل سے نہ ہوسکا، کیونکہ اسی ایک بات پر تو اُس نے مہاجروں کو بے وقوف بنا رکھا تھا۔
مہاجروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی ایک طرف، کراچی کے ساتھ بھی کوٹہ سسٹم بہت بڑی زیادتی ثابت ہوا، کیونکہ نوکریاں کوٹے کے مطابق نہیں دی گئیں، اگر کوٹے کے مطابق دیہی سندھ کے 10 افراد کو نوکری ملنی تھی تو 100 کو دی گئی۔ ان لوگوں کی تمام خیر خواہی سندھ کے آبائی علاقوں سے وابستہ تھی، یہ کراچی صرف نوکری کرنے اور پیسہ کمانے کے لیے آئے تھے، انھیں کراچی سے وہ محبت اور انسیت نہیں تھی جو مہاجروں کو تھی۔ کراچی مہاجروں کا گھر تھا، انھیں یہیں رہنا تھا، یہیں مرنا تھا اور یہیں دفن ہونا تھا۔ جب کہ سندھ سے آنے والے اپنی تنخواہ تک کراچی میں خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ سندھ بھیج دیتے تھے۔ وہ بھلا کراچی کی بھلائی کیوں سوچتے!
رفتہ رفتہ یہ حال ہوگیا کہ کراچی کے ہر سرکاری دفتر میں صرف سندھ سے آئے ہوئے لوگ آپس میں روانی سے سندھی زبان میں بات کرتے نظر آتے۔ چند اداروں میں ایم کیو ایم نے اپنے سیاسی اثر رسوخ سے اختیار حاصل کرلیا، مگر کوٹہ سسٹم برقرار رہا، حتیٰ کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں بھی اسے رائج کردیا گیا۔ میڈیکل کالجوں میں میرٹ پر مہاجر کو داخلہ نہ ملتا، کوٹے پر سندھی کو مل جاتا، اور مہاجر نوجوانوں کے پاس ایم کیو ایم میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ اب تو ایم کیو ایم کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے، لہٰذا جو مہاجر سرکاری نوکر تھے، اب اپنی نوکریاں پوری کررہے ہیں، نئی نوکریوں میں مہاجروں کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔
جو سب سے بڑا نقصان ہوا وہ یہ تھا کہ کرپشن کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے سندھی تو کراچی کو دبئی سمجھ کر صرف پیسہ کمانے آئے تھے، اور جب کمانا ہے تو ہر طرح سے کمانا ہے، جتنا کما سکے کمانا ہے۔ اس قدر اقربا پروری اور کرپشن ہوئی کہ اب کسی سیٹ پر بھی کوئی اہل شخص نہیں ہے، اور ان نااہل اور لاعلم لوگوں نے میرے کراچی کا ستیاناس کردیا۔ اب یہ حال ہے کہ سندھ کے حکمران کشتیاں بھر بھر کر دبئی تک بوریوں میں رقوم پہنچاتے رہے۔ ان کے لیے کراچی صرف نوٹ بنانے کی مشین ہے، اور اسی ڈر سے وہ کراچی کو علیحدہ صوبہ نہیں بننے دیتے کہ کراچی گیا تو مال گیا، جب کہ دوسری طرف جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ خیر جب ایم کیو ایم پورے زور کے زمانے میں کراچی کو مہاجر صوبہ نہ بنا سکی تو اب تو یہ کام کرنے والا کوئی زوردار بندہ ہے ہی نہیں۔ ہم اسی طرح لٹتے رہیں گے اور دیہی سندھ کے لوگوں کی غلامی کرتے رہیںگے۔
اس قانون نے ایک ہی صوبے میں رہنے والے لوگوں کے دل آپس کی نفرت سے بھر دیے۔ سندھ والے یہ سوچتے رہے کہ یہ باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں، انھیں ہمارے نیچے لگ کر رہنا چاہیے۔ حالانکہ یہی سندھی قوم تھی جس نے ہجرت کرکے آنے والوں کو گلے سے لگایا اور ہر سہولت فراہم کی، مگر نوکریوں کی خاطر اپنے ہی مہاجر بھائیوں کا حق مارلیا، اور جو تکلیف مہاجروں کو پہنچی وہ تو ظاہر ہے، کہ سندھ سے لوگ آکر ان کی نوکریاں لے رہے ہیں۔ اور اُس وقت پرائیویٹ اداروں کا بھی اتنا رواج نہیں تھا۔ اب تو خیر زیادہ تر پرائیویٹ اداروں میں مہاجر طبقہ ہی نظر آتا ہے، کیونکہ نجی ادارے قابلیت دیکھتے ہیں، لسانیت نہیں۔
درست طریقہ یہ ہوتا کہ سندھ کے دیہی علاقوں کو ترقی دی جاتی، وہاں زراعت کو منافع بخش بنایا جاتا، تاکہ سندھ کے لوگ اپنے آبائی علاقوں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ مناسب آمدنی میں زندگی گزار سکتے۔ سارے سندھیوں کو کراچی لا کر بسانا مسئلے کا حل نہیں ہے، یا پھر جب پورا سندھ ایک ہے تو مہاجروں کو بھی اندرون سندھ سرکاری نوکریاں ملنی چاہئیں، یہ کون سا طریقہ ہے کہ سارے ملک کو چھوڑ کر یہ کالا قانون صرف کراچی میں رائج ہے! اگر یہ بہت اچھا قانون ہے تو امریکا، انگلینڈ، فرانس وغیرہ کو بھی سندھ حکومت سے رابطہ کرکے یہ قانون سیکھنا چاہیے اور اپنے ہاں رائج کرنا چاہیے، یا کم از کم پورے پاکستان میں تو یہ قانون رائج ہو ہی جانا چاہیے۔ اور اگر یہ قانون اس لائق نہیں ہے کہ پوری دنیا اور پورے پاکستان میں رائج ہو، تو اسے کراچی میں بھی رائج نہیں ہونا چاہیے۔
ہم کسی اقلیت یا کسی زبان بولنے والے کے خلاف نہیں ہیں، مگر جہاں حق تلفی ہوگی وہاں آواز بھی اٹھے گی اور احتجاج بھی ہوگا۔ سیاست دان سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے جاہلانہ قوانین کے ذریعے اپنے ووٹ پکے کرلیں گے، لیکن ایسے قوانین کے نتیجے میں ملک کی جو تباہی ہوتی ہے اُس پر نظر نہیں رکھتے۔ ایک حکمران کو قوم کے باپ کی طرح ہونا چاہیے جس کی شفقت سب بچوں کے ساتھ ہوتی ہے، صرف اُس کے ساتھ نہیں جس نے ووٹ دیا۔ ایک الیکشن میں عموماً 50 فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، اس میں سے جس امیدوار کو 25 فیصد سے 30 فیصد ووٹ مل گئے وہ حکومت بناتا ہے، یعنی حکمران کم از کم ملک کے 70 فیصد لوگوں کی حمایت سے محروم رہتا ہے، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ تمام نوازشات اُن علاقوں اور لوگوں پر کرے گا جن لوگوں نے اسے ووٹ دیے! یعنی صرف 30 فیصد لوگ… اور 70 فیصد لوگوں سے زیادتی کی جائے گی اور ان کا حق مار کر 30 فیصد لوگوں کو خوش کیا جائے گا!
میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونۂ حیات دیکھیے، وہ تو بلال حبشیؓ کو بھی گلے لگاتے ہیں اور سلمان فارسیؓ کے بھی مشورے مانتے ہیں۔ اسلام میں زبان یا قومیت کی بنیاد پر اختلافات کا کوئی تصور نہیں ہے، تو ایک اسلامی مملکت میں عین لسانیت کی بنیاد پر کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا، اور اگر ایسا ہوگا تو پھر کئی الطاف حسین پیدا ہوں گے جو شاید اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کراچی اور حیدرآباد کو الگ صوبہ بنانے کا بھی مطالبہ کریں۔ ویسے بھی سندھ اور کراچی کے لوگ کسی صورت مماثلت نہیں رکھتے، سندھ میں چونکہ ہندو زیادہ ہیں اس لیے سندھیوں کے رسم و رواج میں مسلمان ہونے کے باوجود ہندو ثقافت کی چھاپ ہے، زبان بھی الگ ہے، پیشے کے لحاظ سے بھی وہ زراعت وغیرہ کرتے ہیں۔ ہم نوکری کرنے والے لوگ ہیں، رہن سہن بھی جدا، کھانے بھی جو وہ کھاتے ہیں ہمارے کھانیوںسے مختلف ہیں، اور اس بنیاد پر الگ صوبہ بن بھی سکتا ہے۔ مگر لٹیرے وڈیرے سونے کی چڑیا اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیں گے۔ کراچی کو لوٹ کر ہی تو پیرس اور دبئی میں محل خریدے گئے ہیں۔ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں…‘‘ سندھ چاہیے کس کو؟ ہمیں تو اپنا کراچی چاہیے، کیونکہ ہم کہیں اور اپنی تنخواہ نہیں بھیجتے، یہیں خرچ کرتے ہیں۔
سندھیوں سے اس قدر ہمدردی رکھنے والے حکمران آج تک سندھ کو اس قابل نہ بنا سکے کہ سندھیوں کو نوکری اور تعلیم کے لیے کراچی نہ جانا پڑے۔ ہر سال سارا سندھ سیلاب سہتا ہے، فصلیں بہہ جاتی ہیں، بند ٹوٹ جاتے ہیں، گھر بہہ جاتے ہیں۔ اگر سندھ سے ہمدردی ہوتی تو آج سندھ کا یہ حال نہ ہوتا کہ ہر سندھی میٹرک کرتے ہی روتے ہوئے ماں باپ کو چھوڑ کر کراچی کے لیے نکل پڑتا ہے۔ آج سندھ میں گھر آباد ہوتے، صحت و تعلیم کی سہولتیں ہوتیں، روزگار ہوتا۔ مگر جو لوگ سندھ سے ووٹ لیتے رہے، وہ کرپشن کے شہنشاہ کہلائے۔ آج بھی سندھ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا ہے، گھر میں ہلاکتیں معمولی بات سمجھی جاتی ہیں۔ جو پیسہ تھر میں پانی اور خوراک کی فراہمی پر خرچ کیا جانا تھا وہ بلاول کے جلسوں میں شیطانی رقص پر خرچ کیا گیا۔ یہ ہے ان دھوکے بازوں کی سندھ اور سندھیوں سے ہمدردی، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قارئین! ہم سب مسلمان ہیں، ایک پاکستان کے رہنے والے ہیں، ہمارے درمیان محبت اور ایثار کا رشتہ ہونا چاہیے، لیکن جہاں ظلم اور ناانصافی ہوگی وہاں دل ٹوٹیں گے اور ہمارے دشمنوں کو ہمارے درمیان رستہ مل جائے گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انڈیا نے الطاف حسین سے رابطہ کرکے اسے رقم اور اسلحہ فراہم کیا؟ کیونکہ مہاجر قوم میں مایوسی اور دل گرفتگی تھی۔ یہی معاملہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوا اور یہی معاملہ بلوچستان میں ہورہا ہے۔ لہٰذا آئندہ آنے والے حکمرانوںکو یہ دیکھنا چاہیے کہ کسی علاقے کے لوگوں میں محرومی کا احساس پروان نہ چڑھے۔ ہم ایک اور بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے۔ اس طرف قدم اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ظالمانہ اور بے تکے قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔ ناانصافی ویسے ہی برداشت نہیں، اور جب ناانصافی کو قانونی شکل دے دی جائے تو وہ اور زہرخند ہوجاتی ہے۔
’’کوٹہ سسٹم‘‘ کئی نسلوں کو برباد کرچکا ہے، مہاجروں نے اپنے جوان بیٹوں کے جنازے اسی کالے قانون کے نام پر اٹھائے۔ سندھ اور کراچی دونوں کے حال پر رحم کھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں صالح حکمران نصیب کرے جو کھائیں کم اور لگائیں زیادہ۔ ہمارے بس میں دعا کے سوا کچھ نہیں۔

حصہ