پرنٹ اور سوشل میڈیا پر تصدیق کی اہمیت

984

تزئین حسن
ـ(آخری قسط)
تصدیق کیسے کی جائے؟ اب سوال یہ ہے کہ خبر کی جانچ پڑتال کیسے کی جائے؟ خبر یا پوسٹ ​کی نو عیت اور موضوع کے حوالے سے اس کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں مگر تھوڑا سا غورو فکر کیا جا​ئے​تو ​یہ​کام​ اتنا مشکل نہیں​۔ مثلاً اگر خبر میں کوئی تاریخی واقعہ نقل ہے تو دیکھیں خبربنانے والے نے حوالہ درج کیا ہے کہ وہ واقعہ کس کتاب سے لیا گیا ہے۔ اگر نہیں تو آپ اس پوسٹ کو ایمان افروز اور پسندیدہ ہونے کے باوجود مسترد کر دیں کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دے (مسلم)۔ یادرکھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کو فارورڈ کرنا سنی سنائی بات کو آگے بڑھانا ہی ہے۔
اگر مصنف نے تاریخ کی کتاب یا تاریخ داں کا حوالہ دیا ہے تو ذرا گوگل سے کسی مستند ویب سائٹ پر یا انسائی کلوپیڈیا پر دیکھ لیں کہ اس نام کی کوئی کتاب یا تاریخ دان موجود تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو اس کا تعلق اسی دور سے تھا کہ جس کا خبر میں ذکر کیا گیا ہے؟ یہ وہ اصول ہیں جنھیں ہمارے بزرگوں نے حدیث نبویؐ کا ذخیرہ مرتب کرتے ہوئے اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ایک راوی کے حالاتِ زندگی کو بھی مرتب کیا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس سلسلے میں موجود ایک راوی، دوسرے راوی کی زندگی میں موجود بھی تھا اور اگر تھا تو کیا ان دونوں کی آپس میں ملاقات ممکن ہوئی؟ اور ایک کی عمر اتنی تھی کہ دوسرے سے اپنے ہوش کی عمر میں ملاقات کے دوران حدیث سن سکتا یا اسے یاد رکھ سکتا؟ کیا ایک نے دوسرے کی رہایش کے مقام کا سفر کیا یا نہیں؟ اسی بنیاد پر روایت کے موضوع، ضعیف یا مستند ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا گیا اور آج بھی اسے اختیار کیا جاتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کا معاملہ بہت نازک تھا کہ اس پر ہمارے دین اور ایمان کا دارومدار ہے۔ بجا ارشاد! مگر کسی انسان کی زندگی اور آبرو کی حُرمت کا تقدس تو اسلام کے اس اصول سے ظاہر ہے کہ: ’’ایک بے گناہ فرد کا قتل انسانیت کا قتل ہے‘‘۔جھوٹی خبریں انسان کے اعتبا ر اور آبرو کے ساتھ اس کی جان بھی لے سکتی ہیں،جیساکہ اس تحریر کے شروع میں مثال دی گئی ہے۔ ​جھوٹی خبروں کا معاملہ انتہائی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔
فی الوقت عالمی منظر نامے میں دوسری قوموں کے خلاف بےبنیاد خبروں کے ذریعے افواہیں پھیلانے کا کام یورپ، امریکا، بھارت، پاکستان سمیت تقریباً دنیا کے ہر خطے میں نسل پرستی، اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ ​ جرمنی میں سوشل میڈیا پر مہاجرین کے خلاف نفرت پھیلانے پرفیس بک کے خلاف مقدمہ اور سوش میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے۔ ​ سویڈن اور کچھ دوسرے یورپی ممالک اپنے عوام کو میڈیا کے حوالے سے آگاہی کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کر رہے ہیں۔
اہلِ علم سے تصدیق : کہا جا سکتا ہے کہ ہر فرد میں تو یہ اہلیت نہیں ہوتی اور نہ ہر فرد کو صحاح ستہ میسر ہے اور نہ تاریخ کی کتابیں۔ درست بات ہے، لیکن ہر فرد پوسٹ کو آگے فارورڈ کرنے کا بھی مکلف نہیں ہوتا۔ اس کا ایک حل اور بھی ہے اور وہ بھی ہمیں چودہ سو سال پہلے سورئہ نساء میں بتا دیا گیا ہے:’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالاںکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں‘‘۔(النساء۴:۸۳)
ہم کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہمارے درمیان جو اس شعبے کا علم رکھنے والے ہیں، ان سے اس خبر کی تصدیق کروا لیں۔ خبروں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، مگر یہ سادہ سا اصول جھوٹی پوسٹوں کی ترسیل کو روکنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے مستند عالم حضرات کی کمی نہیں ہے، جو دینی معلومات کے ماخذین اور کتب کا علم رکھتے ہوں۔ یہی معاملہ دنیوی علوم کا بھی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں رابطہ منٹوں میں کیا جا سکتا ہے اور پوسٹ کی تصدیق ان حضرات سے کی جا سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اہل علم حضرات کو تصدیق کے معاملے میں ہمدرد اور معاون پایا ہے۔​ ​ ​ہمارے نزدیک دینی اور علمی ادارے افواہوں اور غلط پوسٹس کے سد باب کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کر سکتے ہیں۔ جہاں موجود ماہرین سے خبر یا پوسٹ کی جانچ کروائی جا سکے۔
ایک سے زیادہ ذرائع سے تصدیق:
خبر کی اہمیت کے لحاظ سے کبھی کبھی ایک پروفیشنل صحافی کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ خبر کی تصدیق مختلف اور مستند ذرائع سے کی جائے۔ ایک سے زیادہ چشم دید گواہوں سے بیانات لیے جائیں۔ خبر سے متعلق اگر کوئی دستاویزات موجود ہیں، تو ان کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ ورنہ کسی ماہر سے اس بارے میں راے لی جائے۔ ایسے کسی بھی معاملے میں، جہاں ​صحافی کی ​اپنی علمی استعداد کم ہو ماہرین سے رجوع کرنا اور ان سے مواد کی تصدیق اور ان کی راے ​لینا ضروری ہے۔ اگر ثانوی مآخذ کی ضرورت ہے مثلاً اخباری بیانات، کتابیں، وڈیوز، تو اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ کون سا ماخذ کتنا مستند ہے۔ ابتدائی طور پر ذہن کو کھلا رکھ کر مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں مگر لکھتے ہوئے صرف مستند ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے۔
قاری کو خبر کے ذریعے سے با خبر کرنا:
اگر کہیں غیر مستند ذرائع کا استعمال ناگزیر ہے تو بھی اور نہیں ہے تو بھی قاری کو اس سے باخبر کرنا ضروری ہے۔ یہ در اصل شفافیت کے زمرے میں آتا ہے، جو میڈیا کا دوسرا اصول ہے۔ شفافیت سے مراد خبر کو حاصل کرنے کا طریقہ قاری پر واضح کر دیا جائے، تاکہ قاری خود یہ فیصلہ کر سکے کہ خبر قابل اعتماد ہے یا نہیں۔​مثلاً یہ خبر بی بی سی یا فلاں ہندستانی یا اسرائیلی اخبار کی ہے۔ ​
اپنی راے کو حقیقت سمجھنے سے پرہیز :
اگر را​ے​کا اظہار مقصود ہو تو یہ بات واضح کی جائے کہ یہ راقم کی را​ے​ہے۔ را​ے​کی حمایت میں جو حقائق بیان ہوں، ان کا ماخذ بھی بیان کردیا جائے۔ اس بات میں فرق بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کیا جانتے ہیں اور آپ کا گمان کیا ہے؟ بساا وقات ہمیں اپنی معلومات کے ذرائع پر یا اپنی راے پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ ہم اسے حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بار بار ڈاکٹر شاہد صاحب کی مثال پیش کرنا مناسب محسوس نہیں ہوتا، مگر بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اور ایسا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوسکتا ہے، اگر گمان کرنے سے پرہیز نہ کیا جائے کہ جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے۔ مسلم معاشروں کو اس گمان پرستی کے بُرے اثرات سے بچانے کے لیے سورۂ حجرات میں تصدیق کے بغیر محض Assumption یا گمان سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔(الحجرات ۴۹:۱۲)
انسانی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے سورۂ یونس کی آیت ۳۶ میں یہ بات واضح کی گئی کہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت محض قیاس اور گمان پر چل رہی ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، حالاں کہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
حقائق کے بغیر راے دینے سے پرہیز :
ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ مستند ذرائع سے علم کے بغیر لوگ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ مثلاً تواتر سے یہ بات دُہرائی جاتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا منبع مدارس ہیں، جب کہ راقمہ کی تحقیق کے مطابق اس حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار موجود نہیں۔ اعداد و شمار، تحقیق اور پرائمری رپورٹنگ کے بغیر یہ بیان ایک افواہ یا پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔آئیے دیکھتے ہیں قرآن کریم اس معاملے میں کیا رہنمائی دیتا ہے۔
بغیر علم کے بحث کرنے والوں کے لیے سورۂ آل عمران آیت ۶۶ میں کہا گیا: ’’تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں کہا گیا:’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو، جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے‘‘۔
افواہیں پھیلانا قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے:
اس وقت جرمنی میں fake news یا افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے اور اب یہ قابل تعزیر جرم ہے۔ بہت سے یورپی ممالک اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ قرآن میں چودہ سو سال پہلے ان کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی۔
سورۂ احزاب آیت ۶۰ کے مطابق:
’’اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمھیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘۔
حق کو جان بوجھ کر چھپانا​:
بعض معاملات میں ​مصلحت​کی بنیادپر اور جان بوجھ کر حق کو چھپانا بھی معاشروں کے لیے خرابی کا با عث بنتا ہے۔ سورۂ بقرہ آیت ۴۲ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا گیا: ’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘۔ یہی مضمون سورۂ آل عمران آیت ۷۱ میں دہرایا گیا: ’’اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟‘‘
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قومی سلامتی، یعنی نیشنل سیکورٹی کے بعض معاملات میں رازداری لازم ہے۔ سورۂ ممتحنہ اور بعض دوسری سورتوں میں اس حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ اس پر آیندہ کسی مضمون میں بحث کریں گے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے یہ اصول دنیا کو متعارف کروانے والی کتاب مسلمانوں پر ہی نازل ہوئی اور ہمارے آبا نے اپنی پوری پوری زندگیاں تصدیق میں صرف کر دیں اور شفافیت کے اصولوں کو رواج دیا، مگر آج ہم ہی وہ قوم ہیں جو ان اصولوں کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ اقبال سچ ہی کہہ گئے۔ ’گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی‘۔ اور کتابوں کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی اصولوں کو:
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
خبروں کو بغیر تصدیق کے پھیلانا ہمیشہ سے انسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ رہا ہے، لیکن اب ایک عام آدمی اور صحافی کے فرق مٹ جانے کی صورت میں یہ اور زیادہ ضرر رساں ہو گیا ہے، کیوںکہ اب خبروں کی ترسیل تو آسا​ن​ہو گئی ہے مگر صحافت کے اس نئے دور میں تصدیق، شفافیت اور مواخذہ ناپید ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام شہری خبر بنا تو رہا ہے مگر اس کو بنانے اور پھیلانے کے اخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ​اسکولوں کا ​نصاب اور میڈیا دونوں عالمی معیارات اور دینی تعلیمات کی روشنی میں میڈیا کے اصولوں کی آگاہی دینے والے ہوں۔

حصہ