ویران حویلی

721

عائشہ اسلم
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اس بار ہمارا کہیں گھومنے جانے کا کوئی پروگرام نہ بن سکا تھا جس کے باعث ہم گھر میں بہت بور ہو رہے تھے لہٰذا ہم نے اپنے عزیز چچا کاشف کو دعوت دی کہ وہ کچھ دن ہمارے ساتھ گزاریں۔ چچا کاشف ایک فوجی تھے اور دلچسپ قصے سنایا کرتے تھے۔ چچا کاشف نے ہماری دعوت قبول کی اور ایک صبح ساز و سامان کے ساتھ آدھمکے۔ انہوں نے کچھ دیر آرام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دو گھنٹے بعد جب وہ سو کر اٹھے تو انہیں سب بچوں نے گھیر لیا اور قصہ سنانے کی فرمائش کی۔ بچوں کے اصرار پر چچا کاشف نے کہا چلو آج میں تم سب کو ایک پر اسرار حویلی کا قصہ سناتا ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میں اپنے دوست آصف کے گائوں رہنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ گائوں سے تھوڑے فاصلے پر ایک ویران حویلی تھی۔ جس کے بارے میں عجیب عجیب قصے مشہور تھے کوئی کہتا کہ اس نے یہاں سرکٹا آدمی دیکھا ہے جبکہ کسی کا دعویٰ تھا کہ یہاں چڑیلوں کا بسیرا ہے حویلی کے اردگرد درخت اور خود رو جھاڑیاں اگ گئی تھیں جس کے باعث رات کے وقت حویلی مزید پر اسرار لگتی۔ میں اس طرح کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا لہٰذا جب آصف نے اس حویلی کا ذکر کیا تو میں حویلی کا راز جاننے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے تمام سفری سامان اٹھایا اور آصف سمیت حویلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ شام کا وقت تھا جب ہم حویلی کے دروازے پر پہنچے۔ حویلی نہایت بوسیدہ ہو چکی تھی دروازے کے پٹ بھی ٹوٹ کر گر چکے تھے۔ ہم نے ایک کمرے کی صفائی کر کے وہاں اپنا سامان رکھ دیا۔ کھانے کے بعد ہم کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نیند کی گہرائیوں میں کھو چکے تھے۔ میری آنکھ کھلی تو رات کا اندھیرا ہر طرف چھا چکا تھا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ آصف کمرے میں موجود نہیں ہے۔ میں نے آصف کو تلاش کرنا شروع کر دیا لیکن پوری حویلی چھان مارنے کے باوجود آصف کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اب میں آصف کی تلاش میں جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جنگل میں کافی دور نکلنے کے بعد مجھے کچھ آوازیں سنائی دینا شروع ہو گئی ایسا لگتا تھا کہ جیسے دو عورتیں آپس میں ہنسی مذاق کر رہی ہوں۔ قریب پہنچنے پر خوف کے مارے میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ میری نظروں کے سامنے دو خوفناک چڑیلیں بیٹھیں تھیں اور قریب ہی آصف بندھا پڑا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میری بہادری ہوا ہو گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں آصف کی مدد کیسے کروں۔ آخر کار مجھے ایک خیال سوجھا میں نے سن رکھا تھا کہ چڑیلیں آگ سے ڈرتی ہیں لہٰذا میں دوبارہ حویلی گیا اور دو بڑی لکڑیوں پر آگ جلا لایا۔ میرے ہاتھ میں آگ دیکھ کر چڑیلیں خوف زدہ ہو گئیں۔ میں نے ان کو آگ سے ڈرا ڈرا کر پیچھے دھکیلنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ آیت الکرسی اور دیگر قرآنی آیتوں کا ورد شروع کر دیا۔ اب تو چڑیلیں بڑا گھبرائیں اور چیختی چلاتی وہاں سے بھاگ گئی۔ میں نے آصف کو آزاد کیا اور ہم دونوں نے بنا پیچھے دیکھے گائوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس دن کے بعد میں نے پھر کبھی کسی ویران جگہ کا رخ نہیں کیا۔ جب چچا کاشف قصہ سنا کر فارغ ہوئے تو ہم نے سوال کیا چچا آپ کے دوست آصف کا کیا ہوا؟ ہم نے تو سنا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد لوگ پاگل ہو جاتے ہیں۔ اس پر چچا کاشف ہنس پڑے اور بولے کون آصف؟ کیا!! ہم بے اختیار چیخ پڑے تو کیا آپ کی یہ کہانی فرضی تھی؟ تو اور کیا… کیا تمہیں یہ لگتا ہے کہ میں نے سچ میں چڑیلوں کا مقابلہ کیا؟ یہ کہہ کر چچا ہنستے ہوئے کھانا کھانے چل دیئے اور ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

حصہ