ننا مجاہد

237

ارم فاطمہ
’’پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی تڑپ دل میں لیے قافلے کا ہر فرد لبوں سے دعائیں کررہا تھا۔ بھوک پیاس سے بے نیاز تھکن سے چور ہونے کے باوجود دل میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح پاکستان پہنچ جائیں۔ رات کا وقت تھا۔ پورے ملک میں فسادات میں مسلمانون کا قتل عام ہورہا تھا۔ مائوں کی گودیں اجڑ رہیں تھیں۔ بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال ہورہیں تھیں مگر قدم نہیں رک رہے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے بھائی ، ماں اور چچا کے پورے خاندان کو بیدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ جانے کیسے مردہ لاشوں کے بیچ میں زندہ بچ گئی۔ ابا پاکستان جانے کے لیے اور راستے کے لیے سامان لینے گئے تھے۔ اپنے پیاروں کی لاشوں کو چھوڑ کر مجھے سینے سے لگائے قافلے میں شامل ہوگئے۔ پاکستان جانے والے ہر قافلے پر بلوائیوں نے حملے کیے مگر لوگوں کی ہمت نہیں ٹوٹی، میں اور میرے ابا بھی ان چند خوش نصیبوں میں شامل تھے جنہوں نے پاکستان کی پاک سر زمین پر قدم رکھا‘‘ دادی جان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہر سال 14 اگست کو دادی جان پاکستان کے لیے دی گئی لازوال قربانیوں کی کہانی سناتیں تھیں۔
اسد اور حمنہ ان کی باتیں سن کر اپنے دل میں پاکستان کے لیے ایک نیا ولولہ اور جوش محسوس کرتے تھے۔ پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا عزم ان کے دل میںپیدا ہوتا تھا۔ ان کے اسکول میں بھی 14 اگست بڑی شان کے ساتھ منایا جاتا تھی۔ اس بار بھی اسد نے ایک تقریر تیار کی تھی اور حمنہ نے ایک نظم پڑھنی تھی۔دادی جان سے پاکستان کے لیے محبت اور تڑپ کو دیکھ کر اسد نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاک آرمی جوائن کرے گا اور ساتھ ساتھ اس ملک کے نادار بچوں کے لیے ایک بہترین اسکول بھی بنائے گا۔
14 اگست نزدیک آرہی تھی۔ اس نے ابو سے کہا اس دن ہم اپنے گھر کو پاکستان کی جھنڈیوں سے سجائیں گے۔ اور آپ ہمیں مینار پاکستان بھی لے کر جائیں گے جو اس اہم دن کی یادگار ہے۔ اس کے ابو اس کا جوش دیکھ کر خوش ہورے تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اسے ضرور لے کر جائیں گے۔ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے سب کے دل پریشان تھے۔ سبھی دعاگو تھے کہ 14 اگست خیریت سے گذر جائے۔ اسد کہنے لگا ’’ ہمیں اپنے وطن سے بے حد محبت ہے اگر اس کے لیے جان بھی قربان کرنی پڑی تو اس ملک کا ہر بچہ اس قربانی کے لیے تیار ہے۔
اس دن وہ اسد اپنے ابو کے ساتھ جھنڈیاں خریدنے بازار گیا۔ اس نے بہت ساری جھنڈیاں خریدیں۔ اپنے اور حمنہ کے لیے پاکستان بنا ہوا بیج خریدا۔ سب لوگ جشن آزادی منانے کے لیے خریداری کر رہے تھے۔ اس کے ابو دکاندار کو پیسے دے رہے تھے ۔ وہ لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر خوش ہورہا تھا کہ اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بہت بڑی دکان کے سامنے کھڑا جھنڈیاں دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا شاپر تھا جو اس نے دکان میں رکھ دیا۔ کچھ جھنڈیاں لے کر چل پڑا ۔سب لوگ خریداری کررہے تھے ۔ کسی کا اس طرف دھیان نہیں گیا۔
اسد پریشان ہوگیا۔ ابھی وہ آدمی ان کے آگے سے گزر ہی رہا تھا کہ اس نے شور مچادیا انہیں پکڑیں یہ اس بازار میں دھماکہ خیز چیز رکھ کر جارہے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی وہ آدمی بھاگ کھڑا ہوا۔ کسی نے اسد کی بات سنی کسی نے نہیں سنی۔ ایک بھگڈر مچ گئی۔ سب لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ اسد ابو کو بتانے لگا اس دکان میں شاپر ہے اس کے ابو اس کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگے مگر وہ ہاتھ چھڑا کر اس دکان کی طرف بھاگا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس شاپر اٹھا کر لوگوں سے دور لے جائے شاپر کو ہاتھ سے پکڑا ہی تھا کہ اس میں موجود بم پھٹ گیا۔ عامر حسن ایک سکتے میں اپنے معصوم بیٹے کی خون میں بھری لاش دیکھ رہے تھے جس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پاکستان کی جھنڈیوں کو تھام کر سینے سے لگا رکھا تھا۔
14 اگست کو جشن آزادی کی پروقار تقریب میں اس ننھے مجاہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور اسے تمغہ جرات سے نوازا گیا۔ اس ننھے مجاہد کی ہمت اور قربانی نے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان مجاہدوں کی سرزمین ہے اس کا بچہ بچہ قربانی کے جذبے سے سرشار ہے۔

حصہ