ممتاز شاعر ڈاکٹر اکرام الحق شوق انتقال کر گئے

518

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ممتاز شاعر‘ دانش ور اور متعدد علمی و ادبی اداروں کے سرپرست انجینئر ڈاکٹر اکرام الحق شوق انتقال کر گئے ان کی نماز جنازہ 14 اگست 2018ء کو ڈیفنس 5 خیابان حافظ میں واقع سلطان مسجد میں ادا کی گئی ڈی ایچ اے فیز I کے قبرستان میں تدفین کی گئی جب کہ ان کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام خیابان شمشیر فیز 5 میں کیا گیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ و تدفین میں جن شخصیات نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ سید یاور مہدی‘ سید محمد احمد شاہ‘ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی‘ محمود ہاشمی‘ مسعود ہاشمی‘ رونق حیات‘ سلمان صدیقی‘ طارق جمیل‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ ندیم ہاشمی‘ ڈاکٹر عباس شہیر‘ قادر بخش سومرو‘ سلطان مسعود شیخ‘ ابومحمد طفیل‘ محمودحسن‘ زیڈ ایچ خرم‘ دوست محمد فیضی‘ پیام صدیقی‘ اعجازعلی نوید‘ مصطفی جمال‘ کشور عدیل جعفری‘ جہانگیر خان‘ انعام عثمانی غلام حنائی‘ عزیز منصور‘ امجد محمود اور مسعود عباس شامل تھے۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی علمی و ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں‘ وہ بہت سی ادبی تنظیموں کی مالی اعانت کے علاوہ بہت سے شعرا کے کلام کی اشاعت میں بھی مدد کیا کرتے تھے‘ ان کے انتقال سے ہم ایک ادب نواز شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں‘ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ راقم الحروف کی معلومات کے مطابق جن ادبی تنظیموں نے اکرام الحق شوق کے لیے تعزیتی پیغام جاری کیے ہیں ان میں ادارۂ فکر نو کراچی‘ نیازمندانِ کراچی‘ بزمِ یاران سخن کراچی‘ بزم سراج الادب کراچی‘ بزم شمع ادب کراچی‘ نگارشات پاکستان کراچی‘ ہانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی‘ نگارِ ادب کراچی‘ بزم تقدیس ادب کراچی‘ محبانِ بھوپال کراچی‘ تحریکِ نفاذ اردو کراچی‘ بزم سعید الادب کراچی‘ ادبی تنظیم دراک‘ بزم شاعرات پاکستان‘ بزم ناطق بدایونی‘ یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا‘‘ کراچی چیپٹر‘ سلام گزار ادبی فورم‘ ادبی تنظیم تخلیق کار‘ ادبی تنظیم ایوان ادب‘ حلقۂ ذوالقرنین شاداب شامل ہیں۔ ڈاکٹر اکرام الحق ایک بہترین غزل گو شاعر تھے ان کے ہاں غزل کے تمام روایتی مضامین پائے جاتے ہیں‘ وہ داغ دہلوی کی غزل کے علم بردار تھے‘ ان کی لفظیات میں غزل کے اپنے اسلوب نظر آتا ہے گو کہ فی زمانہ غزل میں نئے نئے مضامین باندھے جارہے ہیں لیکن اکرام الحق شوق نے اپنا اندازِ شاعری نہیں بدلا ان کے اشعار سن کر سامعین بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے انجینئرنگ کے شعبیٔ میں پی ایچ ڈی کی تھی ان کی عمر کا طویل عرصہ عرب امارات دبئی میں گزرا جہاں انھوں نے کئی اہم عمارتوں کی ڈیزائننگ کی اور انھیں پائے تکمیل تک پنہچایا۔ انھوں نے دبئی میں عالمی مشاعرون کا انعقاد بھی کیا اور اردو ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم کنسٹرکشن کمپنی کے روح رواں کی حیثیت سے بھی انھوں نے پاکستان کے کئی اہم پراجیکٹ ترتیب دیے انجینئرنگ کے شعبے میں بھی انھوں نے نام کمایا۔ وہ بہت کھلے دل اور کھلے ہاتھ کے انسان تھے۔ وہ جن ادبی تنظیموں کی مدد کیا کرتے تھے ان میں بہت سوں کو میں جانتا ہوں لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ ان میں سے بہت سے لوگ ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔ بے حسی کا یہ انداز دوسرے لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے لوگ فائدہ اٹھانا جانتے ہیں لیکن مرنے کے بعد یاد رکھنا بھی ہماری اخلاقی ذمے داری ہے۔

ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے مشاعرے بھی ضروری ہیں‘ پروفیسر جاذب قریشی

زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے مشاعرے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں‘ ہر زمانے میں ادبی تنظیموں نے ادبی سرگرمیوں میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مہذب معاشرے میں ادب کی تفہیم و ترقی کا گراف بلند ہوتا ہے جو قومیں اپنے ادیبوںاور شاعروں کو نظرانداز کرتی ہیں وہ دنیاوی ترقی میں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں کیونکہ اربابِ سخن وہ طبقہ ہے جو معاشرتی مسائل اجاگر کرتا ہے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے بزم تقدیس ادب کراچی کے مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ کراچی کی ادبی فضائوں میں بزمِ تقدیس ادب ایک اہم آواز ہے جو اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہے۔ اس تنظیم کے تحت آج کے مشاعرے میں جو شاعری پڑھی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے کہ آج غزل کے روایتی مضامین کے اشعار بھی سامنے آئے اور جدید لب و لہجے‘ نئے نئے استعاروں پر مشتمل اشعار بھی سننے کو ملے۔ امید ہے کہ بزمِ تقدیس ادب اپنی ترقی کا سفر جاری رکھے گی۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی رونق حیات نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی‘ اردو ادب کی قد آور شخصیات میں شامل ہیں‘ میں انھیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ شعر و ادب کی ترقی کے لیے حکومتی ادارے اپنے فرائض بجا طور پر انجام دے رہے ہیں قلم کاروں کے مسائل تعطل کا شکار ہیں ہم نے چار برس پہلے نیازمندانِ کراچی کے پلیٹ فارم سے ایک عالمی اردو کانفرنس منعقد کی تھی جس میں ہم نے قلم کاروں کے تمام مسائل Discuss کیے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قلم کاروں کو میڈیکل کی سہولت دی جائے‘ بے گھر قلم کاروں کے لیے پلاٹ الاٹ کیے جائیں‘ مستحق قلم کاروں کی مالی اعانت کی جائے‘ ان کی کتابیں حکومتی خرچ پر شائع کی جائیں۔ دبستانِ کراچی کے قلم کاروں کو نظرانداز کرکے من پسند لوگوں کو پروموٹ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کو پابند کیا جائے کہ انجمن ستائش باہمی کے حصار سے باہر نکل آئیں۔ رائٹر گلڈ کی زمیں پر سے لینڈ مافیا کا قبضہ ختم کرایا جائے‘ سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے پچاس کروڑ روپے کی گرانٹ دی تھی تاکہ قلم کاروں کے معاملات بہتر ہوں اس موقع پر رونق حیات نے شعرا اور ادیبوں سے اپیل کی کہ وہ نیاز مندانِ کراچی کے ہاتھ مضبوط کریں کیونکہ حقوق کے لیے جنگ کرنی پڑتی ہے۔ مہمان اعزازی اختر سعیدی نے کہا کہ بزم تقدیس ادب کے ارکان و عہدیداران قابل مبارک باد ہیں کہ وہ تسلسل سے ادبی پروگرام منعقد کر رہے ہیں یہ ایک مشکل کام ہے اللہ تعالیٰ انھیں عزم و حوصلہ عطا فرمائے کہ وہ ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر شاعر کا فرض ہے کہ قوم و ملک کے دشمنوں کے خلاف قلمی جہاد کرے کیونکہ امن وامان کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ احمد سعید خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اپنی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی انھوں نے کہا کہ ہر زمانے کا ادبی منظر نامہ تبدیل ہوتا رہتا ہے کیونکہ ہر دور کے سماجی اور سیاسی مسائل بدلتے رہتے ہیں اسی طرح اردو کے بہت سے الفاظ اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں اور نئے نئے الفاظ عروج پارہے ہیں۔ آصف رضا رضوی نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور فیاض علی فیاض نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا۔ اس پروگرام میں آصف رضا رضوی نے حمد پیش کی۔ اکرم رضی اور عبدالوحید تاج نے نعتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی جب کہ صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ احمد سعید خان کے علاوہ فیاض علی فیاض‘ عبیداللہ ساگر‘ شوکت اللہ جوہر‘ نسم الحسن زیدی‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ سیف الرحمن سیفی‘ جمال احمد جمال‘ عبدالمجید محور‘ پرویز نقوی‘ ڈاکٹر طاہر حسین‘ نشاط غوری‘ سعدالدین سعد‘ آسی سلطانی‘ حامد علی سید‘ خلیل احمد ایڈووکیٹ‘ درپن مراد آبادی‘ اسد ظفر‘ عمر برناوی‘ زاہد علی سید‘ اسحاق خان اسحاق‘ ہدایت سائر‘ اقبال افسر غوری‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ الحاج نجمی‘ علی کوثر اور چاند علی نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

حلقہ آہنگ نو کے تحت تنقیدی نشست

گزشتہ دنوں حلقہ آہنگ نو کے زیر اہتمام ماہانہ تنقیدی نشست سمن آباد میں منعقد ہوئی جس کی صدارت معروف افسانہ نگار اجمل اعجاز اور نظامت کا فریضہ حامد علی سید نے انجام دیا۔ حسب پروگرام شاکر انوار کو اپنا تازہ افسانہ پیش کرنا تھا مگر تاخیر سے آمد پر نجیب عمر نے اپنا افسانہ نما مضمون’’طعام کی طغیانی‘‘ برائے تنقید پیش کیا جس پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے رازق عزیز نے کہا کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں دوران طعام جو افراتفری اور رزق کا ضیاع ہوتا ہے‘ اس کا احوال حقیقی پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ شفیق احمد شفیق کی رائے میں ’’طعام کی طغیانی‘ ایک شگفتہ تحریر ہے‘ صاحب افسانہ کی ہمارے معاشرتی اور سماجی زندگی کا گہرا مشاہدہ ہے‘ سعودی عرب پاک و بھارت میں شادی کے رسم و رواج اور طعام میں کتنے اقسام اور کیسے کیسے لذیز کھانے کا اہتمام کیا جاتاہے‘ اس کا انکشاف مؤثر پیرائے میں کیا گیا ہے بہرکیف ایک منفرد تخلیق ہے۔ احمد سعید فیض آبادی نے کہا کہ ’’طعام کی طغیانی‘‘ ایک دل چسپ تحریر ہے جس میں برنس روڈ کے کڑھائی گوشت‘ دہلی دربار کی نہاری کے علاوہ دیگر نوعیت کے پکوان کا ذکر موجود ہے۔ ایک تخلیق کار کا اپنے معاشرتی اور سماجی زندگی سے کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے اس کا ثبوت زیر تبصرہ تحریر ہے۔ معروف افسانہ نگار شہناز پروین نے کہا کہ صاحب افسانہ نے عربوں کے کلچر اور دسترخواان کا جو احوال افسانوی پیرائے بیان کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ نسیم انجم صاحبہ نے بھی اپنے اظہاریے میں کہا کہ ’’طعام کی طغیانی‘‘ بہرکیف کام و دہن کے حوالے سے ایک دلچسپ تحریر ہے۔ حامد علی سید نے ایک مختلف اور دل چسپ تخلیق قرار دیا۔ معروف افسانہ نگار و مشاعرہ ثمرہ ضمیر زیدیجو ان دنوں کراچی میں اپنے شوہر عدنان حیدر زیدی کے ہمراہ پی ایچ ڈی کے سلسلے میں قیام پذیر ہیں‘ ثمرہ زیدی نے بطور مہمان خصوصی زیر تبصرہ مضمون کی تعریف کی اور حلقہ آہنگ نو کی نشست میں آئندہ بھی شرکت کا وعدہ کیا۔ عدنان حیدر زیدی (مصطفی زیدی کے بھتیجے) ثمرہ زیدی کے شوہر خود بھی علمی شخصیت اور صاحبِ ذوق ہیں۔ موصوف کا مستقل قیام امریکا میں ہے ان دنوں وہ کراچی کی ’’ادبی محافل‘‘ کی ڈاکومنٹری بنانے کا پروگرام رکھتے ہیں جو ایک قابل ستائش عمل ہے۔ زیر تبصرہ تخلیق ’’طعام کی طغیانی‘‘ پر جن دیگر قلم کاروں نے مجموعی اعتبار سے پسندیدگی کا اظہا رکیا ان میں فہیم السلام انصاری (مدیر اجمال)‘ طاہر نقوی‘ شاکر انور قابل ذکر ہیں۔ صدر نشست اجمل اعجاز نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ نجیب عمر بطور ایک سنجیدہ افسانہ نگار متعارف مگر مزاحیہ شگفتہ تحریر سے ایک پوشیدہ جوہر کھلا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ بعدازاں جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں ثمرہ ضمیر زیدی‘ عدنان حیدر زیدی (بطور مہمان)‘ شفیق احمد شفیق‘ احمد سعید فیض آبادی‘ حامد علی سید‘ نجیب عمر اور رزاق عزیز کے نام شامل ہیں۔

اکادمی ادبیات کراچی کا مذاکرہ اور مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ادب اور نئی نسل کی تربیت خصوصی لیکچر اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سعیدالظفر صدیقی نے کی جب کہ مہمان خاص اسلام آباد سے آئے ہوئے مہمان شاعر مظہر شہزاد خان تھے۔ اعزازی مہمان نصیر سومرو تھے اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں خصوصی لیکچر دیتے ہوئے سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ تقسیم سے قبل استاد اور شاگردکا باقاعدہ ادارہ موجود تھا اور بوجوہ رفتہ رفتہ وہ ختم ہوگئے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نثر اور شاعری زیادہ پیدا ہونے لگی ہے۔ نوجوان نسل بہت لگن بھی رکھتے ہیں محنت بھی کرتے ہیں‘ پڑھتے بھی ہیں لیکن انھوں نے ادب و شاعری کو فن کی طرح نہیں سیکھا ادب شاعری بھی‘ موسیقی کی طرح باقاعدہ ایک فن ہے جو سیکھ کر ہی آدمی کو آتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی اچھا شاعر ایسا نہیں ہے جو بے استاد ہو۔ بے استاد ہونے میں اپنا ہی قصور اور نقصان ہوتا ہے۔ جو سیکھ کر شاعری یا نثر نہیں لکھتے ان کی تمام تر محنتیں رائیگاں جاتی ہیں‘ وہ شاعری کے معائب و محاسن اور جزئیات سے ناواقف ہوتے ہیں‘ ان کی تمام تر صلاحیتیں ہوا میں اڑ جاتی ہیں اور وہ ناقص شاعری کرتے ہیں یا ناقص نثر لکھتے ہیں ناقص الاوّل‘ ناقص الاوسط‘ ناقص الآخر رہ جاتی ہے اور ناقص چیز ادب کی آبِ حیات میں کبھی جگہ نہیں پاتی یا اس طرح کہا جاسکتا ہے تو پھر شاعری جو کہ امام الفنون ہے تو اتنا بڑا فن سیکھے بغیر کیسے آئے گا۔ مہمان خاص نصیر سومرو نے کہا کہ ادب کا اثر قبول کرنے کے لیے تربیت یافتہ ذہن ہونا ضروری ہے اور ادب صحیح معنوں میں خوش ذوق آدمی پر ہی اثر انداز ہوتا ہے‘ شاعری ہو یا نثر سمجھنے کے لیے سخن فہم اور سخن شناس ہونا بھی ضروری ہے لیکن اس کا اثر ہر کس و ناکس پر پڑتا ہے۔ اچھا نثر یا اچھی شاعری لفظوں کی موسیقی ہے اچھی شاعری بھی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے اور اندر ہی اندر سے لوگوں میں تبدیلی لاتی ہے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ استاد اور شاگرد کے بیچ انسیت کا نام ہے ماں اور بچے کے درمیان جذباتی لگائو کے مصداق ہے ادب تخلیق کی بنیاد ہے اس کی تعظیم پہلا نکتہ ہے اور یہ تعلق جب ناک میں تبدیل ہو جائے تو خبر بنتی ہے۔ ادب ہی تو ہے جو آئینہ دکھاتا ہے‘ دلوں کو منور کرتا ہے‘ اذہان کو تقویت بخشتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہم عصر اہل قلم جو مغربی دنیا کے جدید اور مابعد جدید ادب میں ہونے والی نئی وسعتوں اور رجحانات کا کامل شعور رکھتے ہیں ان سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ نئی نسل کا ساتھ دیتے ہوئے ان کو آگے بڑھنے کے مواقع دیں تاکہ نئی نسل ان سے ثقافتی تخلیقی فن سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ادب کے فروغ میں صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا کریں۔ نئی نسل کو چاہیے کہ شاعری کے اسرار و رموز پوری طرح سمجھیں اور سیکھ کر کام کریں تو ان کے لیے اچھا ہوگا۔ آخر میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کے نامور شعرا نے کلام پیش کیا۔ قادر بخش سومرو نے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔

حصہ