غریب نے امیر کردیا

965

ابنِ عباس
دیکھ بھئی غلام رسول قربانی دنبے کی ہی کرنی ہے مسجد کا امام کہوے تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو خواب آیا کہ اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز اللہ کے حکم پر قربان کرو تو خواب میں دیے گئے حکم ربی کو پورا کرنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے جوں ہی گردن پر چھری چلائی تو اللہ نے قربانی قبول کرتے ہوئے جنت سے ایک دنبہ بھیج دیا، اس واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی صرف دنبے کی ہی ہوتی ہے، یہ گائے اور بیل تو ویسے ہی آگئے ہیں۔
تاؤ! یہ واقعہ تو ہر مرتبہ عید قربان کے قریب آتے ہی سنایا جاتا ہے یہ واقعہ مسلمانوں کو سنت ابراہیمی سے آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ حکم ربی پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتا ہے، اور جہاں تک قربانی کا مسئلہ ہے تو وہ کسی بھی حلال جانور کی دی جا سکتی ہے، مجھے تو یہ تعجب ہے کہ صدیوں سے قربانی ہورہی ہے اور تم نے یہ واقعہ اب سناہے؟ سنتا تو تھا لیکن غور سے اب سناہے، بھئی بڑی گہری بات ہے اس میں! دیکھ تُو مان یا نہ مان اصل قربانی دنبے کی ہی ہوتی ہے، ورنہ رب کے پاس کیا کمی ہے جو اس نے گائے یا بیل نہ بھیج دیا، یہ شرعی مسئلہ ہے مولوی اپنے پاس سے گھڑ کے تھوڑی سنائے گا اگر جھوٹ بولے گا تو آخرت میں سسرے کی ایسی پکڑ ہوگی کہ جھوٹ بولنا تو ایک طرف بولنا ہی بھول جائے گا، اور اتنے لوگوں میں کوئی تو ہوتا جو گائے کا ذکر کرتا سجّو کا باپ بھی وہیں تھا وہ بھی دنبے کا ہی بتا رہا تھا تُو بڑا مفتی نہ بن مجھے پتا ہے کہ تو اچھے خاصے پیسے کماتا ہے ایک چھوڑ پانچ لے آئیو پر دنبے ہی لائیو میں تو کہتا ہوں دیر آئے درست آئے اور پھر حکم ربی بھی یہی ہے کہ جب حقیقت سامنے آجائے تو اسے تسلیم کرلو یوں پچھلی ساری خطائیں معاف ہو جاتی ہیں اور مجھے تو پتا ہی ابھی چلا ہے اب سچائی سامنے آنے پر نہ مان کر گناہ گار تو نہیں ہوسکتا اسی لیے تاکید کر رہا ہوں کہ تگڑا اور جان دار دنبہ لائیو آخر کو اس پر بیٹھ کر پلِ صراط سے گزرنا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کمر ہی دہری ہو جائے اور بجائے جنت میں جانے کے جہنم میں جا گروں، جنت کمانا بڑا مشکل ہے یونہی بیٹھے بٹھائے نہیں مل سکتی اور سُن یہ خیال رکھیو کہ دنبے ٹکر مارنے والے نہ ہوں بچوں سے بھرا گھر ہے ایسا نہ ہو کہیں لینے کے دینے پڑ جائیں منڈی سے آتے ہوئے چارہ بھی لے آئیو یہاں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے شیخ جی کے بیٹے کو تاکید کر دیجیو کہ ہمارا جانور پہلے دن ہی کاٹنا ہے ہم نے ہمیشہ پہلے دن ہی قربانی کی ہے، اور کان کھول کے سن لے منڈی اکیلے ہی جائیو خبر دار جو اگر کسی بچے کو ساتھ لے کر گیا، وہاں جانور باؤلے ہوئے ہوتے ہیں کسی بیل نے بچے کے کلیجے پر پاؤں رکھ دیا تو زبان ہاہر آجائے گی پھر جو رونا پڑے اس لیے ایسے کام ہی نہ کرو۔ ٹھیک ہے! ساری بات سمجھ گیا ناں، اب جا میرے سامنے بت بنا کیوں کھڑا ہے جا منڈی جا اور یہ کام ختم کر پر دنبے والی بات یاد رکھیو۔
ناجانے کہاں سے فضول باتیں سن کر بحث کرنے لگتے ہیں کہ بیل کی قربانی کرنا ٹھیک نہیں میں بھی بیل ہی لاؤں گا نصیر تاؤ کی باتیں سن کر یوں بڑ بڑاتا ہوامنڈی کی جانب چل پڑا۔
نصیر دنبہ لے یا بیل یہ اس کا مسئلہ ہے ہمیں اس سے کیا ہمارا مقصد تو عید قرباں پر سنت ابراہیمی کے مطابق قربانی کرنا ہے اسی نیت کے ساتھ میں بھنس کالونی مویشی منڈی آگئی جہاں جانوروں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں، چھوٹا جانور 80 ہزار سے ایک لاکھ تک فروخت ہو رہا تھا منڈی میں 20 سے50 لاکھ تک قیمت کے جانور بھی موجود تھے جبکہ بکروں کی قیمت 25 ہزار سے ایک لاکھ تک لگائی جاتی تھی،میرا تعلق متوسط طبقے سے ہے اس لیے یہ قیمتیں میرے لیے حیران کن تھیں، میں مویشی منڈی کے اندرونی جانب بڑھتا جارہا تھا ہر طرف گندگی اور کچرے کے ڈھیر لگے ہونے کے باعث میرا چلنا دشوار تھا، میں تھوڑی دیر چل کر ایک باڑے میں جا بیٹھا جہاں ایک بیل کا بھاؤ تاؤ کیا جا رہا تھا بیوپاری نے جانور کی خصوصیت بتاتے ہوئے کہا بھائی یہ غریب بیل ہے 10 لاکھ کا لے جاؤ گھی اور مکھن کھا کر جوان ہوا ہے زیادہ قیمت سن کر خریدار گم سم ہوگیا اور خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا 5لاکھ لے لو، نہیں نہیں سائیں 10 لاکھ بھی کم ہیں بڑے پیار سے پالا ہے اتنا سستا کیسے دے سکتا ہوں ایسا جانور پوری منڈی میں نہیں،بیوپاری اپنے جانور کوبار بار غریب کہہ کر پکارتا، آخر کار مجھ سے نہ رہا گیا میں نے پوچھا سائیں یہ غریب کیا ہے۔
بیوپاری نے کہا غریب سیدھے جانور کو کہتے ہیں،خیر کچھ ہی دیر میں خریدار کا سودا طے ہوگیا اور وہ 7 لاکھ دے کر جانور لے گیا۔ رقم کی ادائیگی کے دوران میرے زہن میں آیا اچھا غریب تھا جو امیر کر گیا، میں وہاں سے اٹھ کر اگلے باڑے کی جانب چل پڑا، جہاں میری ملاقات رستم خان سے ہوئی رستم خان نے بتایا کہ ملک میں ہونے والے انتخابات اور یوم آزادی کی تقاریب کا منڈی پر خاصا اثر پڑا ہے امید ہے اب کچھ صورت حال بہتر ہو جائے گی اس نے بتایا کہ شہر کی مختلف مویشی منڈیوں میں تاحال 4 سے5 لاکھ جانور لایا جاچکا ہے، برسات کا موسم ہے اگر بارش ہو گئی تو بیوپاریوں کو خاصا نقصان ہو جائے گا، منڈیوں میں سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہونے ہیں، کچرے کے ڈھیروں کو دیکھ کر انتظامیہ کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس سال جانوروں میں کانگو وائرس کی الرٹ جاری کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری سطح پر اب تک ویکسی نیشن کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا، ہر آنے والے دن کے ساتھ پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے منڈیوں میں بھتہ مافیا سرگرم ہے دوسرے شہروں سے آنے والے بیوپاریوں سے ٹیکس کے نام پر بھاری رقم طلب کی جاتی ہے جب کہ منڈی میں داخل ہوتے ہی غیر قانونی طور پر بھی فی جانور ایک معقول رقم مانگی جاتی ہے، عام دنوں میں یہاں جانورں کی انٹری 150روپے جبکہ چھوٹے جانور کا صرف 50 روپے ہوتا ہے، عید آتے ہی یہاں کا قانون ہی تبدیل ہو جاتا ہے جس کے تحت فی جانور 500 سے750 روپے تک وصول کیا جاتا ہے پانی بجلی اور دیگر ضروریات کی رقم اس کے علاؤہ ہوتی ہے، منڈی کو بااثر افراد نے یرغمال بنایا ہوا ہے، اس نے مزید بتایا کہ گندگی کچرے کے ڈھیر اور آلودہ پانی کے باعث جانوروں کی اموات ہونا شروع ہو گئی ہیں، ایک اندازے کے مطابق روزانہ 10 سے زائد چھوٹے بڑے جانور مرنے لگے ہیں، اس نے بتایا کہ باڑے کی صفائی کے لیے 20 سے25 ہزار ادا کرنے ہوتے ہیں، رستم خان کے مطابق بلدیاتی اداروں اور بھتہ مافیا کی لوٹ مار اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ہی بیوپاری جانورں کی قیمتیں بڑھانے پرمجبورہیں، ظاہر ہے جب اخراجات بڑھیں گے تو کوئی اپنی جیب سے کیوں دے گا وہ کنویں کی مٹی کنویں ہی میں لگائے گا یعنی سارا خرچہ جانوروں پر ہی ڈالا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سال فی جانور 40 سے 50 فیصد مہنگا فروخت کیا جارہا ہے۔ بھینس کالونی کی صورت ابتر ہونے کی وجہ سے پریشان بیوپاری دوسری منڈیوں کی جانب جانے پر مجبور ہیں کراچی کی مویشی منڈیوں میں اس طرح کے حالات ہونا نئی بات نہیں گزشتہ کئی برسوں سے یہی کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کروڑوں روپے کما کر دینے والی ان منڈیوں پر حکومتی عدم توجہی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلدیاتی اداروں سمیت تمام ہی محکموں کے اہلکاروں نے کراچی کی مویشی منڈیوں کو اپنی ذاتی جاگیر بنا رکھا ہے جو ان کے لیے سونے کی چڑیا سے کم نہیں، ہر آنے والے برس ملکی مویشی منڈیوں میں بڑھتی کرپشن حکومتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے تاجروں، کارخانہ داروں اور کارو باری طبقے سمیت بیوپاریوں کو بھتہ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے انتہائی خطرناک حالات پیدا ہو سکتے ہیں یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے کہ وہ کاروباری حضرات کی پریشانیوں کو دور کرے تاکہ وہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کر سکیں۔

حصہ