عید کی خوشیوں میں دوسروں کا حصہ

835

افروز عنایت
ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ عید کی نماز پڑھ کر آرہے تھے کہ راستے میں ایک یتیم بچے کو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس دیکھا آپؐ اسے اپنے گھر لے آئے ام المومنین سے فرمایا کہ اسے نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائو، پھر اس بچے کو کھانا کھلایا اور کافی دیر اس کے ساتھ گزارا۔
یہ واقعہ بچپن سے لیکر اب تک بار ہا میری نظروں کے سامنے گزرا یقیناً آپ سب نے بھی پڑھا ہوگا۔
آپؐ کا ہر عمل و قول ہمارے لیے تعلیم و درس ہے آپؐ نے نہ صرف اس یتیم بچے کی مالی مدد کی یعنی اس کے لباس و کھانے پینے کا اہتمام کیا بلکہ اس کے ساتھ خوشگوار لمحات گزارے یہ خوشگوار لمحات اس بچے کے لیے باعث تسکین ثابت ہوئے یتیم بچہ جو ماں باپ سے محروم ہو اس کے سر پر دست شفقت رکھنا اسے دلی خوشی میسر کرنے کے برابر ہے۔ عالم اسلام کے لیے رب العزت کی طرف سے یہ دو عیدیں (عیدالفطر و عیدالاضحی) خوشیوں بھرے تہوار ہیں دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے انداز سے اس دن عبادات و خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ اس دن نہ صرف خود خوشیاں منائیں بلکہ ان خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کریں ہماری چھوٹی سی کوشش بہت سوں کو خوشیاں دے سکتی ہے۔ ہمارے آس پاس بہت سے لوگ ان خوشیوں کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں۔ جن میں سے بہت سے لوگ تو مالی مدد کے لیے ترس رہے ہیں۔ جن کو تحفے تحائف، ہدیہ، خیرات و صدقات و زکوٰۃ کے ذریعے خوشی دے سکتے ہیں لیکن بہت سے لوگ ہمارے آس پاس روحانی خوشی چاہتے ہیں ہمارا محبت بھرا ساتھ چاہتے ہیں۔ ان کی خوشیوں کا خیال رکھنا اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ ان کا حال احوال لینا یا ان کے ساتھ محبت سے چند گھنٹے گزارنا یا انہیں اپنے گھر مدعو کرکے کھانا کھلانا ان سے شفقت و محبت کا برتائو کرنا ان کے لیے تسکین کا باعث ہوسکتا ہے۔
میری شادی کے بعد میں نے نوٹ کیا کہ میری نانی ساس جو اپنے نواسے نواسیوں سے بہت محبت کرتی تھیں عید آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آج عید کا دن ہے اگلی گلی میں نانی رہتی ہیں وہ آپ کی بزرگ ہیں آپ ان سے عید ملنے نہیں جائیںگے (کیونکہ میں نے اپنے خاندان میں یہ طریقہ دیکھا تھا) تھوڑی پس و پیش کے بعد میرے شوہر اپنی نانی سے ملنے ان کے گھر چلے گئے مشکل سے انہوں نے وہاں دس پندرہ منٹ گزارے ہونگے۔ شام کو نانی ہمارے گھر آئیں تو بہت خوش تھیں کہ میرا یہ نواسا تو میرے گھر آتا ہی نہیں آج اتنے عرصے کے بعد وہ میرے گھر عید ملنے آیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی ان کی یہ خوشی ان کے چہرے سے عیاں تھیں بلکہ وہ مجھے بھی بار بار دعائیں دے رہیں تھیں کہ یہ دلہن کے آنے کے بعد تبدیلی آئی ہے۔ مجھے نانی کی وہ خوشی ان کی وہ مسکراہٹ آج بھی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یاد ہے۔
گھر میں رہنے والے بزرگوں کو بھی اسی خوشی میں شامل کریں آپ خود محسوس کریںگے کہ انہیں اپنے بڑھاپے کی سختی کم محسوس ہوگی ان کے چہرے شاد نظر آئیںگے۔ انہیں عید پر کوئی تحفہ دیں ان کے ساتھ وقت گزاریں یقیناً ان کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوںگی۔ اسی طرح گھر میں آنے والی بہوئوں کو بھی عید کی خوشیوں میں اپنی بیٹیوں کی طرح شامل کریں آپ کا دیا ہوا چھوٹا سا تحفہ اور آپ کا انہیں گلے لگا کر عید مبارک کہنا ان کے دل میں آپ کے لیے جگہ بنانے
کا سامان کرے گا۔ آج کے اس مصروف اور نفسا نفسیکے دور میں ہر شخص ایسا مصروف ہوگیا ہے کہ مشکل سے کسی کے لئے وقت نکال پاتا ہے لیکن عید کا یہ دن ملنے ملانے کا دن ہے اگر کسی کے ساتھ شکوہ شکایت بھی ہے تو در گزر کرکے پہل آپ کریں یقیناً وہ بھی آپ کا منتظر ہوگا دوریاں ختم ہونگی، محبتوں کی راہیں ہموار ہونگی۔ خصوصاً ایسے محبتوں بھرے تہواروں کے موقع پر اپنے دلوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ماں باپ سدا نہیں رہتے ہیں بھائیوں کے دروازے بہنوں کے لیے کھلے رہنے چاہئیں۔ خصوصاً ایسے موقعوں پر اگر بھائیوں کے دروازے بہنوں کے لیے کھلے ہونگے تو انہیں ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہوگی ہر ایک اپنے نصیب کا کھاتا ہے اور مہمان کے کھانے پینے کا بندوبست تو رب خود کرتا ہے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی انتظام ہوجاتا ہے۔ اگر عید کی خوشی کے اس موقع پر بہنیں آپ کے پاس آجائیں تو نہ صرف آپ کو خوشی اور تسکین ملے گی بلکہ وہ بھی شاد ہوجاتی ہیں۔ ان کے دل سے بھائیوں کے لیے دعائیں نکلتی ہیں انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ’’میکہ‘‘ آج بھی قائم ہے میں ایسے موقعوں پر اپنے شوہر کو دیکھتی ہوں کہ ان کے چہرے پر حقیقی خوشی عیاں ہوتی ہے کسی مہمان کی آمد پر اتنا خوش نہیں نظر آتے جتنا بہنوں کی آمد پر ہوتے اور اس وقت تو ان کی خوشی دو چند ہوجاتی ہے جب مجھے ان کی خاطر تواضع کرتے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف بہنیں بھی راحت محسوس کرتی ہیں۔ دعائیں دیتی ہیں یہ چار پانچ گھنٹے ہم سب کے لیے راحت آمیز ہوتے ہیں۔
بعض اوقات عید کے موقع پر آپ کے چند اقدامات دوسروں کو تنہائی سے اور اکیلے پن سے نجات دلاسکتے ہیں۔ کچھ موقع اور لمحے ایسے ہوتے ہیں جب انسان سب کچھ ہونے کے باوجود تنہائی محسوس کرتا ہے خصوصاً اپنوں کی کمی یا دوری انسان کے دل کو بے سکونی اور اکیلے پن کا احساس دلاتی ہے۔ ایسے لمحوں میں اگر ان کے ساتھ چند گھنٹے محبت کے گزاریں تو وہ اپنی تنہائی کو کم محسوس کرے گا میں بچپن سے اپنے بابا کی چند باتیں اور طور طریقے دیکھتی تھی جس کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ احساس ہوتا گیا اور اہمیت محسوس ہوتی گئی۔ بابا کارخانے کے وہ کاریگر اور لیبر جو کراچی سے باہر دوسرے علاقوں کے رہائشی تھے ان کے ساتھ بڑا محبت اور اپنائیت کا معاملہ خاص طور پر رمضان اور عید کے موقع پر برتتے تھے ان تمام کاریگروں کے بچوں کے لیے عید کے کپڑے بنواتے جو اپنے شہروں اور گائوں میں عید کرنا چاہتے انہیں عید سے ایک دن پہلے تحفوں کے ساتھ رخصت کرتے جن کا کوئی نہیں ہوتا یا کراچی میں عید کرنا چاہتے ان کے لیے عید کی صبح کو ہی گھر میں طعام کا انتظام کرواتے جب یہ کاریگر بابا سے عید ملنے آتے تو بابا اپنے مہمانوں کے ساتھ انہیں بھی ڈرائنگ روم میں بٹھاتے اور سب کے ساتھ کھانا کھلاتے۔ بابا کے اس فعل کی وجہ سے وہ بابا سے بہت خوش ہوتے ان میں سے اکثر امی کو کہتے کہ آپ لوگوں کی محبت کی وجہ سے ہمیں اپنوں کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
غرض کہ ایسے ہی موقعوں پر آپ کا خلوص، آپ کی توجہ دوسروں کی تنہائی ختم نہ سہی کم ضرور کرتی ہے۔ یعنی اس خوشی بھرے لمحوں میں وہ آپ کی محبت سے خوشی محسوس کریںگے اور یقینا دوسروں کو چند گھڑیاں خوشی دے کر آپ کو اپنی خوشی بڑھتی ہوئی محسوس ہوگی۔
لہٰذا اس عید پر آپ اپنے ارد گرد ایسے عزیز و اقارب اور ضرورت مند لوگوں کو تلاش کریں اور انہیں مالی و روحانی ساتھ دے کر نہ صرف انہیں خوشی دے سکتے ہیں بلکہ ان کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوںگی آپ خود بھی خوشی اور سکون محسوس کرسکیں۔ آپ کی یہ معمولی نیکی بارگاہ الٰہی میں قبولیت اور پسندیدگی کا درجہ رکھے گی۔
آپؐ اس یتیم بچے کی صرف مالی مدد پر اکتفا کرسکتے تھے لیکن اسے گھر لاکر اپنے گھر والوں کے ساتھ بٹھایا کھلایا پلایا اسے ماں باپ کی طرح پیار دیا جس سے اس بچے کو روحانی خوشی ملی ہوگی۔ ہمیں بھی اس واقعہ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اپنی عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی اسی طرح شامل کرنا چاہیے۔

حصہ